Posts

Showing posts from 2019

شکاری کتے

ماموں شوکت علی عرف شوکی کے دونوں شکاری کتے بالکل سامنے نظریں گاڑھے بیٹھے ہوئے تھے. میں اور ماموں کِیکر کے نیچے بیٹھے کتوں کو دیکھ رہے تھے. اچانک دونوں کتوں کے کان کھڑے ہو گئے اور جسم تنی ہوئی کمان کی طرح.. میرے جسم میں ایک جھرجھری سی چلی اور پھر کچھ ہی لمحوں میں دونوں کتے سرپٹ بھاگ رہے تھے، ایسی رفتار کہ دھول کا سانس بھی پھول جائے. کہیں کسی خرگوش نے سر اٹھایا تھا ہم پانچوں دوست نمبردار رفیق کے ٹیوب ویل پہ بیٹھے تھے، رنگ کی بازی چل رہی تھی، ادھر ادھر کی ہانک رہے تھے کہ ولیا کانا ادھر آ پہنچا. نام تو اس کا ولی شیر تھا اور مجید مراثی کا بیٹا تھا، مگر سب کے نام الٹ پلٹ کرنے کی قدیم روایت پہ چلتے ہوئے وہ ولی شیر سے سے پہلے وَلیا ہوا اور پھر بھینگا ہونے کے کارن کانا بھی کہلانے لگا. ہمارے اس سوال پہ کہ "کدھر جا رہے ہو" اس نے بتایا کہ آگے زمینوں پہ اس کی ماں چوہدری نذیر کی فصل کاٹ رہی ہے، اسی کی مدد کو جا رہا تھا. میرے چچا زاد طارق نے پہلے چوہدری نذیر کی فصل میں گالیوں سے کیڑے ڈالے، پھر وَلیـے کانے کے بھینگے پن پہ دو چار جگتیں ماریں اور پھر اسے پکوڑے اور چٹنی لانے واپس گاؤں کی طرف بھ...

کوئی نہیں ہے نظم

کوئی نہیں ہے  یہاں پہ ایسا کوئی نہیں ہے جو میری آنکھوں کے پار اترے اور جا کے دیکھے اندھی راتوں میں لمحہ لمحہ میری آنکھوں کے غار میں جو بہ صورتِ جبریل اترے وہ خواب سارے دن کے تپتے چوک میں مجھے صلیب پہ ٹانگتے ہیں پتھروں سے میرے لہو کے چھینٹے اڑاتے عقیدتوں سے سمیٹتے ہیں ثواب سارے کوئی نہیں ہے جو دیکھ پائے عذاب ہیں میرے خواب سارے

کہ تماشا کہیں جسے

یہ شخص، یہ میرے سامنے تَن کے کھڑا یہ شخص، اس چھے فٹ کے 'بونے' شخص نے میری زندگی عذاب بنا کے رکھ دی ہے. نہیں تھا میں ایسا، جیسا مجھے بنا دیا ہے اس نے. ایک عام سے ، اَدھ پڑھے والدین کے گھر میں، درمیانے کسی نمبر پہ پیدا ہوئے کو کچھ بھی خاص نہیں ملا تھا ،کسی انقلابی کی اذاں نہ کسی باغی کی گھٹی. نہ گھر میں علم و ادب کے حوالے شیلف سے باھر ابل رہے تھے نہ گھر کی محفلوں میں علم و فضل کے نئے جہان تراشے جاتے تھے. کچھ بھی ایسا نہیں تھا کہ مجھے اس عذاب تک لے آتا جہاں یہ شخص مجھے لے آیا ہے. مجھے نہیں یاد کب اس چھے فٹ کے بونے شخص سے پہلی بار سامنا ہوا تھا یا کب یہ خبیث مری زندگی کے دائرے میں گھسا تھا اور ایسا گھسا کہ سارا چکر ہی الٹا دیا.  جانے کیسا خناس بھرا ہے اس کے دماغ میں، جانے کس سانپ کا ڈسا ہے کہ ایسے ایسے زہریلے خیالات و سوالات سے کاٹتا ہے کہ سامنے والا پانی بھی نہ مانگ سکے. اس نے میرا قتل کیا ہے، ہاں اس شخص کے لمبے ہاتھوں پہ میرا خون ابھی تک تازہ ہے.  اس نے میرے ایمان کا قتل کیا ہے. اس باتوں کے سوداگر نے پہلے میری چھوٹی سی کائنات کو لامحدود کر دیا اور پھر بـے انتہا خدا کو بـے بس کر ...

پتھروں کی ذات

باھر جون کے آخری دنوں کا سورج قیامت اٹھائے کھڑا تھا اور اندر وہ اپنی تمام حشر سامانیاں لیے میرے سامنے بیٹھی تھی. بالوں کا جوڑا سر کے پیچھے گردن اٹھائے ہوئے تھا. بجلی بند تھی سو پنکھا بھی بند تھا. پسینہ ماتھے پہ موتیوں کی طرح بکھرا پڑا تھا. کان کے پیچھے سے پسینہ لمبی صراحی جیسی گردن پہ نئے راستے کھوجتا سینے کی طرف گامزن تھا. گرمی کی مہربانی سے دوپٹہ میز پہ دھرا تھا اور وہ لان کی پتلی قمیض سے مجھ پہ دو نالی بندوق تانے بیٹھی تھی. "کب تک راشی کب تک، ایسے سب کے سونے کے بعد دوپہر کالی کرنے آتی رہوں گی، چاچا کمال رشتے کی بات کر چکے ہیں ابا سے، سب راضی ہیں، میں کیا کروں، تم کیا کرو گے"  اس کی بھوری آنکھوں میں التجائیں تیر رہی تھیں "مجھے دے گا رشتہ تمہارا ابا؟ کیا ہے میرے پاس، یہ اماں ابا کا چھوڑا ہوا گھر، یہ ایک سکول ویگن اور بس؟ میں موچی کا پتر ہوں آسیہ ،تُو سیدانی ہے، تیرے ابا کے مریدوں کے جوتوں کی عزت مجھ سے زیادہ " بات مکمل بھی نہ ہونے دی اس نے اور میرے ہونٹوں پہ اپنے رس بھرے ہونٹوں کی مہر لگا دی. وہ آدھی چارپائی اور آدھی میری داہنی ٹانگ پہ بیٹھی بار بار مہریں ل...

وقت کی قید

ڈرائیور نے ویگن ہلکی سی آگے بڑھائی، سامنے میں کھڑا تھا میں نے زور اور غصے سے ڈرائیور کی بائیں طرف سکرین پہ زور سے ہاتھ مارا " رُک " سب کچھ رک گیا تھا اس لمحے میں، وہ لمحہ ہی رک گیا تھا آتے جاڑے کے دن تھے جن دنوں دھوپ مدہوش جوانی سی اترتی ہے، ہم سب ہر روز کی طرح صبح صبح گورنمنٹ ڈگری کالج کے وسیع گراؤنڈ میں دھوپ سینک رہے تھے جب سالک منہ لٹکائے ہمارے پاس آن کھڑا ہوا "کیوں سالے، اتنی صبح تیرے بارہ کس نے بجا دئیے؟" عارف کی بات پہ سب ہنس دئیے مگر سالک کے منہ پہ بارہ بج کے ایک منٹ ہو گئے "وہ اے جے کے تینتیس تیرہ نے مجھ سے کرایہ لیا ہے، وہ بھی پورا.." اس بات پہ سب سنجیدہ ہو گئے، "تو نے بتایا نہیں کہ تو سٹوڈنٹ ہے؟ “ بارہ بج کے دو منٹ ہو گئے " بتایا تھا، آگے سے کنڈیکٹر کہتا ہے یہ بدمعاشی میرے ساتھ نہیں چلے گی، کرایہ دے ورنہ یہیں راستے میں اتار دوں گا ٹھڈے مار کے، میں نے دے دیا" میں نے گود پہ دھری چادر کمر کے پیچھے سے لا کے سامنے سے دونوں کندھوں ڈالی اور قمیض جھٹک کے کھڑا ہو گیا "تینتیس تیرہ ابھی گیا ہے یہاں سے، دس منٹ میں واپسی ہے ...

جھوٹی امید... پنجابی

‏"جھوٹی امید"  اک سُفنے دی قبر اتے جدے مَتھے لخیا ناں وی وریاں بارشاں دے گل لگ کے اپنے سارے اَکھر رو بیٹھا اے جدی مٹی اپنے اندر ساریاں دُھپاں دی اَگ لے کے اپنی کوکھ ساڑ بیٹھی سی آج اس سُفنے دی قبر اتے اک بے ناواں پھُل اُگیا اے .....  ‎#مقصود_عاصی ‎#MaqsoodAsi

تماشائی

سنتے آئے ہیں کہ زندگی امتحان ہے.. امتحان میں سوال نامہ کیا ہے، کہتے ہیں کہ وہ بھی معلوم ہے، بس جواب درست دینے کی مسلسل تگ و دو میں رہنا جینے کا مقصد ہے... اب ہم ٹھہرے سدا کے نالائق، سامنے کی بات سمجھنے میں ہمیں کئی کئی دن 'ضائع' ہو جاتے ہیں، یہ تو پھر زندگی ہے، الجھی ہوئی ریشم جیسی.. ہمارے پلے کہاں سے پڑتی !! سو آدھی عمر، زندگی کے گھمبیر سوال کی تلاش میں سر کے بال اڑانے اور داڑھی میں سفیدی اتارنے کے بعد ہم نے یہ سوال نامہ پھاڑ کے ہوا میں اچھال دیا ہے اور جواب پہ فاتحہ پڑھ لی ہے... اب ہم کسی بھی شے یا وجود کے ہونے یا نہ ہونے کا جواز تراشتے ہیں نہ جواب تلاشتے ہیں... جب تک ہم تلاش میں تھے، ہم تماشہ تھے... اب ہم تماشائی بن کے بیٹھتے ہیں کبھی ہونہہ کہہ کر سر ہلاتے ہیں اور کبھی دانت نکال کے تالیاں پیٹتے ہیں.. اگر ہم نالائق نہ ہوتے تو یہ بات سمجھنے میں عمر نہ گال دیتے... سامنے دھرے جواب پہ قہقہے لگاتے گلی میں بھاگ گئے ہوتے... بات یوں ہے کہ مولوی فرید ہمارے گاؤں کا ایک کردار تھا... ہمیشہ صاف سفید تہہ بند اور کُرتے میں ،سفید پگڑی باندھے صبح صبح گاؤں سے نکلتی سڑک پہ سائیکل پہ ...

آخری شاہکار

کمرے میں سگریٹ کے دھوئیں کے بادل سے اڑ رہے تھے... سارے میں رنگوں اور سگریٹوں کی بو پھیلی تھی... داہنی دیوار پہ لگے ہیٹر کی مہربانی سے درجہ حرارت مناسب تھا.. کھڑکی پہ ہوا کے زور سے بر...

تخلیقی کیڑے

میرا پہلا اعتراض مجھے تخلیق کیے جانے پہ تھا اور دوسرا اہم اعتراض، مجھے جیسا تخلیق کیا گیا تھا، اس پہ تھا... رنگ و نور کی اس دنیا میں، میں اپنی کیچڑ جیسی رنگت کا کس سے جواب مانگتا....

سانجھے حُسین

سارے میں آہوں اور ہچکیوں کی آوازیں تھیں ،مسجد کھچا کھچ بھری تھی .. آسمان چیرتے مینار پہ لگے اسپیکر میں سید ظفر علی شاہ کی رندھی آواز گونجی " نانے دے مونڈھے تے چڑھن آلا شہزادہ ،ن...

دوست کا نوحہ (حسنی بلوچ کی سچی تحریر)

لوگ کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا ایک مصنوعی دنیا ہے مگر اسی مصنوعی دنیا سے انسان کا ایک تعلق بن جاتا ہے جو عام رشتوں سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے.. مجھے اچھے دوست ملے، آپ سب نے بہت عزت دی میں شاید اس قابل نہیں تھا.. آپ لوگ بہت اچھے ہیں آپ سب کا احترام محبت ہی میری زندگی کا سرمایہ ہے .. اس مضمون کے بعد شاید میں پھر کبھی سوشل میڈیا استعمال نہ کر سکوں، وجہ وہی کہ میں خود پر جبر کرکے اپنے دکھ کو خوشی کا مصنوعی لبادہ پہنا نہیں سکتا.. مجھے الفاظ سے کھیلنا نہیں آتا ہے اس لئے جو باتیں یاد آئیں لکھتا گیا.. اب اصل بات کی طرف آتے ہیں "زندگی میں آپ کو اتنے ہی دکھ اور آزمائشیں ملتی ہیں جتنا تم میں برداشت کرنے کا حوصلہ ہو " یہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے.. دکھ کاٹتے اور غم سہتے ہوئے لوگ پاگل ہوجاتے یا مر جاتے ہیں.. لوگوں نے صرف ظلم اور جبر کی باتیں سنی ہیں، جبر اور ظلم کیا ہوتا ہے یہ مجھے اس مہینے پتہ چلا ۔۔۔ میں صرف اس واقعہ پر بات کرنا چاہتا تھا مگر ایک بات لازمی کروں گا.. لوگوں کو کلمہ پڑھوا کر مسلمان کیا جاتا مگر ہمیں جب کلمہ پڑھنے کا کہا جاتا تو اس کے معنی آپ کی موت ہے اور یہی لوگ خود کو مسلمان...

جہنم کی دوپہر

اس کبوتر کے بارے آپ نے ہزار بار سنا اور سو بار پڑھا ہو گا جو بلی کو دیکھ کے آنکھیں بند کر لیتا ہے... مگر یہاں بلی کی آنکھیں بند تھیں اور کبوتر بلی کے چہرے پہ پسینے کے قطرے تک گن سکتا ...

طاری کی گرفتاری

میری تو مجبوری تھی مگر یہ شبیرا پچھلے دو دن سے پانچ وقت کی باجماعت نمازیں کن چکروں میں پڑھ رہا تھا.. میری مجبوری ابا جی کے بزورِ ایمان و بازو و جوتے پر قائم تھی مگر شبیرے کی کوئی ...