Monday, November 20, 2023

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا
کدھر جا رہے ہو، کہاں کا خیال ہے
بیمار سائیکلوں کا یہی ہسپتال ہے
ہمیں سائیکل چلانے اور اس کے علاج سے کوئی لینا دینا تھا نہیں سو گھر کا لوہے کا گیٹ ملازم نے کھولا اور ہم سب اندر چلے گئے. ابو سیدھے بیٹھک میں چلے گئے جہاں پھوپھا اور دوسرے مرد حضرات بیٹھے ہوئے تھے، ہم بچے لوگ امی کے ساتھ صحن میں آ گئے، جہاں پھپھو کے بچے، دوسرے کزنز کے ہمراہ کچھ بیٹھے ہوئے تھے اور کچھ ادھر ادھر کود رہے تھے اور ساتھ ٹیپ پر ایک گانا چل رہا تھا
دل کی حالت کس کو بتائیں
ہم بھی پاگل، تم بھی پاگل
ہم بھی پاگل، تم بھی پاگل
اور برآمدے کے ماربل کے ستون سے ایک چہرہ ٹکا ہوا تھا، درمیان میں سے نکلی مانگ سے کچھ بال آوارہ ہو کے گالوں پر جھولا جھول رہے تھے اور ہونٹ "ہم بھی پاگل، تم بھی پاگل" گنگنا رہے تھے
لمحے ٹھہر جاتے ہیں، وقت نہیں رُکتا. پھپھو کے بیٹے کی شادی پر کوئی ہفتہ بھر وہاں رہے اور وہ سات دن تو نہیں رکے، ان سات دنوں کے کتنے ہی لمحات دل میں اترے، دماغ میں بسے اور آنکھوں کا طواف کرتے رہے. عمر کیا تھی،کوئی بارہ تیرہ رہی ہو گی، وہی محبت ہو جانے والی عمر، محبت کرنے والی عمر تو بہت سالوں بعد آتی ہے. سو محبت ہو گئی

اعترافِ جرمِ محبت میری طرف سے برملا تھا، اُس طرف چلمن سے البتہ کبھی احساس اور کبھی بـے اعتنائی کے اشارے ملتے رہے. میں اشاروں کی زبان سے نابلد تھا مگر خوابوں کی دنیا کا باسی تھا. کبھی دو جملے جو عنایت ہو جاتے تو مجھے لگتا جیسے موسٰی کو طور پر پیغمبری کچھ ایسے ہی ملی ہو گی

اُسے شاعری سے محبت تھی اور محسن نقوی کی شاعری سے اسے عشق تھا. ردائے خواب ہو یا موجِ ادراک، فراتِ فکر ہو یا ریزۂ حرف، خیمہ جاں ہو یا رختِ شب، عذابِ دید ہو یا برگِ صحرا یا پھر بندِ قبا ہو یا طلوعِ اشک، سارا محسن نقوی اس کے پاس تھا اور میں گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ محسن نقوی کی کتابوں کی بِھیڑ میں اپنا کوئی نشان، اس کے دل پر دیکھنے کی خواہش میں تھا. شاعری میں کرتا تھا مگر مجھے ادراک تھا کہ میں محسن نقوی نہیں ہوں، مگر میری شاعری، شعر و ادب کی حدود و قیود، رسم و ضوابط پہ یقیناً بالکل بھی پوری نہیں اترتی تھی مگر مجھے یہ زعم تھا اور آج تک ہے کہ میری شاعری اس کے دل میں ضرور اترتی تھی

اور دل اُس دن دس زینے ایک ہی دھڑکن میں اتر گیا تھا جب صرف سولہ سال کی عمر میں مجھے چاچا کی بیٹی سے بیاہنے کی بات ایک دَم نکلی اور کچھ ہی دنوں میں شادی کی تاریخ بھی پکی کر دی اور وہ تاریخ بھی بس کچھ ہی دنوں میں آنی تھی. میں رو سکتا تھا، رویا. مسجد میں ماتھا پھوڑ سکتا تھا، پھوڑا. آدھی آدھی رات دعاؤں کو بازو پھیلا سکتا تھا، پھیلائے مگر چین کیسے آئے! اوپر والا خدا چپ تھا اور زمین پر اترے خدا، جس کا میں لاڈلا بیٹا تھا، کے سامنے میں چپ تھا. نہ میں رو سکتا تھا، نہ ماتھا پھوڑ سکتا تھا، نہ بازو پھیلا کے دعا مانگ سکتا تھا نہ گلے لگا سکتا تھا

اُس نے بھی کچھ نہیں کہا.. ایک کزن کے ہاتھوں شادی کی ایڈوانس مبارک باد بھیجی اور پھر وہ رو دی

میری شادی مر کے دو سال چلی، جس سے شادی ہوئی تھی، میں اس کا تھا ہی نہیں، ایک مولوی، دو گواہ جو مرضی کرتے، میں کسی کا نہیں تھا. سہاگ رات سے طلاق کے دن تک، میں اسے چھونے کا گناہگار نہیں ہوا تھا. اور پھر شادی کا گناہ نہ کرنے کی قسم میں نے من ہی من میں کھا لی. تب تک میں ناروے آ چکا تھا بلکہ ہم سب واپس ناروے آ گئے تھے

یہاں پر جاب، سکول اور دیگر کاموں میں زندگی دوڑنے لگی. وقت رکتا نہیں، نہیں رکا، لمحے ٹھہر جاتے ہیں اور وہ لمحہ بھی ٹھہر گیا تھا اور چلتے چلتے میں بھی، جب مجھے خبر ملی کہ محسن نقوی کی اداس شاعری سے عشق کرنے والی، شادی کر کے ناروے آ چکی ہے۔ اُس لمحے، میں کس احساس سے گزرا، وہ مجھے نہیں پتا، اِس کے لیے کوئی لفظ کسی زبان میں ابھی تک بنا ہے کہ نہیں، مجھے نہیں پتا۔ فروگنر پارک میں لگے گُستاوو ویگیلاند کے کسی پتھر کے مجسمے کی طرح یا پھر ایڈورڈ مُنکھ کی کسی چپ چاپ پینٹنگ کی طرح، وہ لمحہ آیا اور رک گیا

میں اس دن گرونلاند کے علاقے میں ٹریفک کے رش میں گاڑی چلاتے ہوئے گزر رہا تھا کہ سڑک کی دائیں طرف اچانک وہ دکھائی دی، وہی درمیان سے نکلی مانگ مگر آوارہ بال کہیں قید ہو چکے تھے. وہ گنگناتے ہونٹ، مجھے سنائی نہیں دئیے. اُس سے نظریں ملیں، ایک سیکنڈ یا پھر سیکنڈ کے بھی کچھ حصے ملے، ان آنکھوں میں ان لمحوں میں صرف پہچان تھی، آئی اور گم ہو گئی. آنکھیں جھک گئیں، وہ گزر گئی، اشارہ کھل گیا، میں نکل گیا، وقت نکل گیا

اَس ماربل کے ستون سے ٹکے وقت کو کوئی پچیس سال بیت گئے، ان سالوں میں، میں نے زمینی خدا کی ہر بات مانی مگر شادی کی بات نہیں، پھر وہ خدا بھی چلا گیا، حکم اترنے بھی بند ہو گئے اور پھر ایک دن ایک بات مجھ تک پہنچی
"اُس سے کہو اب وہ شادی کر لے، میرے دل کو سکون نہیں ملتا"

Friday, October 27, 2023

جہانِ کُن فیکون

یہ جہانِ کُن، جہانِ رنگ و بُو ہے

یہاں پہ سحر لہو پی کے اُگتی ہے
یہاں سورج خون تھوکتا ہے سارا دن
یہاں شام کے سر پر لہو کی اوڑھنی ہے
یہاں پہ رات کی رانی قبروں پہ کھلتی ہے

یہاں کے پھول پرانی لاش کی بدبو اگلتے ہیں
ہم اس جہانِ کُن کے کس کربلا میں رہتے ہیں
یہاں کرب و اَلم کے وہ طوفان چلتے ہیں
یہاں جبریل بھی آئے تو اس کے پر جلتے ہیں
یہاں پر آسماں سے بموں کے من و سلوٰی اترتے ہیں

یہاں پر گولیوں کی بارشیں برستی ہیں
تو زمیں سے ننھے بچوں کی لاشیں نکلتی ہیں

یہاں آہ و افغاں، یہاں دعائیں رائیگانی ہیں
یہاں کُن کی صدا کچھ نہیں، جھوٹی کہانی ہے

یہ جہانِ فیکون ہے
یہاں بس خون ہی خون ہے۔
------------------------------

Saturday, August 05, 2023

Anxiety Attack!

ایک بازار ہے
دھند میں لپٹا ہوا
کئی رنگ و بُو کی دوکانیں لگی ہیں
دوکانوں کے ماتھے پہ نام لکھے ہیں
جیسے قبروں کے کتبـے سجے ہوں
رکوع میں جھکے ہوئے بجلی کے کھمبـے
بلب جن کے سارے جاں بہ لب ہیں
شور ہے آوازوں کا
لفظ ہیں جن کے معانی نہیں کوئی
ساز بجتے ہیں، ردھم کے بغیر ،لیکن
مرتی ہوئی روشنی کا مزار ہے کوئی
ایک بازار ہے کوئی
جس کا فرش میں ہوں
پاؤں رکھ کے چھاتی پہ میری
خلق ساری گزر رہی ہے ابھ

Wednesday, July 12, 2023

پرانے، نئے دھوکے

‏وہ پرانا خدا ہی اچھا تھا
جس کے لیے ناممکن نہ تھا کچھ بھی
کُن کہتا تھا سو ہو جاتا تھا
جو چاہتا تھا وہ ہو جاتا تھا
وہ پرانا خدا ہی اچھا تھا
جس کے جاہ و جلال کے آگے
یہ سورج، چاند، مشتری، عطارد
یہ زہرہ، یہ زحل یہ مریخ ندارد
جس کی چلی چال کے آگے
سارے شطرنج باز بـے جاں
دو جہاں، لا مکاں بـے نشاں
وہ پرانا خدا ہی اچھا تھا
جس نے کہف میں دھوپ بھی نہ گھسنے دی
جس نے ایک کتے کی عمر بھی نہ گزرنے دی
وہ پرانا خدا ہی اچھا تھا
وہ کہاں ہے؟ وہ کہیں نہیں ملنا
وہ بھی قصہ ہے ایک گزرا ہوا
مگر یہ نیا خدا کسی کام کا نہیں
کسی محمد کا نہیں، کسی رام کا نہیں
اسے صلیب سے نہیں مطلب
وہ کسی اسلام کا نہیں
وہ کسی کی بھی نہیں سنتا، سب دعائیں بیکار ہیں
کسی کو گنتی میں نہیں گِنتا، سفارشیں بیکار ہیں
آہیں، سسکیاں، مناجتیں، سب فریادیں بیکار ہیں 
یہ نیا خدا کسی کا نہیں
بھوک دیتا ہے، ننگ دیتا ہے
سر دیتا ہے تو سَنگ دیتا ہے
خواب دے کے پھوڑتا ہے آنکھیں
پھول مانگو تو جنگ دیتا ہے
مرہم دیتا ہے زخم سے پہلے
زخم کے بعد مرہم چھین لیتا ہے
اک دن دیتا ہے کسی کو سب کچھ
سب سے سب ایک دَم چھین لیتا ہے
آسماں پر کہیں نہیں ملا اب تک
زمین ساری جھاڑ دیکھی یے
سارے سجدے ہیں کالی کوٹھڑی کو
کالی کوٹھڑی اُجاڑ دیکھی ہے
کچھ نہیں ہے، فریب ہیں سارے
ہم جو خود سے بیزار ہیں پیارے
تیرے طلسم میں کھو نہیں سکتے
ہم اِس خدا کے تو ہو نہیں سکتے

Thursday, June 22, 2023

دو سو روپے

اس رات بارش تھی کہ آسمان زار و قطار ہو رہا تھا. بجلی کڑکتی تھی جیسے اوپر کوئی زنجیر زنی کر رہا ہے اور رہ رہ کے کوئی اک چیختی دھاڑ سنائی دیتی تھی کہ جیسے دریا کے کنارے خشک حلق میں تیر اتر رہے ہوں. ماتمی سی ماتمی رات تھی اور ایک کربلا میرے گھر کے سب سے بڑے کمرے میں برپا تھا. ابا کے ہاتھ، اس کی زبان سے بازی لے جانے کی مسلسل تگ و دو میں تھے. تھپڑ اور مکّے برس رہے تھے، زبان سے گالیوں کی برسات جاری تھی اور میں فرش پر منہ بازوؤں میں دئیے آسمان کی طرح رو رہا تھا. کمرے میں جیسے آدھا محلہ جمع تھا. اماں چارپائی کی پائنتی پر ٹکی دوپٹے میں منہ دئیے رو رہی تھی. بھائی اور بھابھی منہ نیچے کیے چپ بیٹھے تھے. دونوں بہنیں کمرے کے ایک کونے میں دبکی بیٹھی تھیں. چاچا چاچی، پھوپھا، پھپھی،پڑوس کے ماسٹر سلیم بمع بیٹا اور بیوی اور محلے کے امام جو ابا کے دوست تھے، سب چپ چاپ ابا کے اٹھتے ہاتھوں اور چلتی زبان پر ایمان لا چکے تھے. جرم میرا بہت بڑا تھا اور سزا جرم سے بڑی ہو تو طاقت کی دھاک بیٹھی رہتی ہے. مجھ پر جو فردِ جرم عائد ہوئی تھی، وہ یہ تھی کہ میں نے مسجد کے چندے میں سے دو سو روپے چرائے ہیں. گاؤں کی جامع مسجد میں ہر جمعے، رمضان، عیدین وغیرہ پر جتنا بھی چندہ جمع ہوتا تھا، وہ سب ابا کے کمرے کی الماری کے لاکر میں رکھ دیا جاتا تھا. ابا یہ کام خود کرتے تھے. پرانی شے پھینک دیتے ہیں یا پھر رفو کر کے دوبارہ استعمال میں لے آتے ہیں، مسجد پرانی ہو گئی تھی تو اسے استعمال میں لانے کے لیے رفو کرنے کی ضرورت پڑی تھی تو خوب زور و شور سے چندہ اکٹھا کیا گیا، اب مسجد لَش پَش ہو گئی تھی، ابا کے لاکر کی ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں، کہاں وہ ربڑ چڑھے نوٹوں کی مہک سے مہکتا پھرتا تھا اب کسی سنسان محلے کا سماں پیش کر رہا تھا. گزرے جمعے کو بارہ سو پچاسی روپے جمع ہوئے تھے جو ابا نے گھر آ کے مجھے پکڑا دئیے اور چابی دے کر کہا کہ لاکر میں رکھ دو، میں نے اجڑے لاکر میں نئے مہمان پہنچا دئیے. دو تین دن بعد مسجد کی موٹر خراب ہو گئی تو ابا نے مستری بلوا کے نئی موٹر لگوائی اور گھر آ کے لاکر میں سے پیسے نکالے. گنے تو پھر گننے لگے، پھر گنے، پھر اٹھ کے لاکر میں جھانکا، ہاتھ ڈال کر سارا لاکر ٹٹولا. ابا کا سارا خون ان کے چہرے پر اتر آیا تھا. ابا نے گرج کے آواز لگائی، "مسعود، اوئے مسودے" میں تب کمرے میں جاسوسی ڈائجسٹ میں احمد اقبال کی کہانی میں ڈوبا ہوا تھا مگر گرج ایسی تھی کہ میں اچھل کے بیڈ سے اترا اور برآمدے میں پہنچا. ابا جیسے جلال سے کانپ رہے تھے، انہوں نے ہاتھ گھما کے میرے منہ پر دے مارا اور میں سامنے پڑی چارپائی پر جا رہا. منہ میں جیسے لوہے کا ذائقہ گھل گیا. ابا چپل اتار چکے تھے اور میری پیٹھ پر مارے جا رہے تھے اور میں چیخے جا رہا تھا."کدھر گئے دو سو روپے؟ او کسے خنزیر کی اولاد، او کافر کتے، مسجد کے پاک پیسے چوری کرتا ہے" یہ بات ابا کے دانتوں کے اندر سے کھینچ کھینچ کے نکلی تھی اور پھر چپل میرے سر پر برسنے لگی. جانے میری چیخیں محلے میں پہلے پہنچیں یا ابا کی بلند آواز، جس سے وہ مسجد میں پنچ وقتہ نمازوں کی اذانیں دیتے تھے، پڑوس سے ماسٹر سلیم آ گئے تو انہوں نے ابا کا ہاتھ تھاما، ابا کو بٹھایا اور اماں کو ٹھنڈا پانی لانے کا کہا. "ہوا کیا کریم اللہ، تُو تو لڑکا ہی مارنے پر تُلا ہوا ہے" ماسٹر سلیم ابا کے پاس ہی بیٹھ گیا. میں ویسے ہی چارپائی پر اوندھا پڑا رو رہا تھا. "ماسٹر، اس نے میری سفید داڑھی پر کالک مَل دی ہے. اس حرام زادے نے میری سفید ٹوپی پر کیچڑ لیپ دیا ہے" میری آنکھوں سے آنسو رک گئے تھے یا جانے ختم ہو گئے تھے." اس نے مسجد کے چندے میں سے دو سو روپے چوری کیے ہیں" ماسٹر سلیم نے سنتے ہی "اللہ اکبر" کا نعرہ لگایا پھر بولا" توبہ توبہ.. اس جرم کی معافی تو نہ یہاں ہے کریم اللہ اور نہ وہاں ہے.. اللہ ہی معاف کرے، توبہ" ابا نے ٹھنڈا پانی پیا اور ماسٹر کو لے کے مسجد چلے گئے. تب اماں آئی ،مجھے سیدھا بٹھایا اور بولی" وے مسودے، یہ کیا کر دیا ہے تُو نے، تُو تے میرا بِیبا پُتر تھا " یہ سن کے میں پھر رونے لگ گیا" اللہ کی قسم اماں، میں نے پورے کے پورے پیسے اندر رکھ دئیے تھے، اور چابی ابا کو دے دی تھی، اماں تیری قسم میں نے دو سو کیا، ایک پیسہ بھی نہیں چرایا" اماں مجھے ساتھ لگا کے سہلانے لگ پڑی. بھائی آن کے سامنے کھڑا ہو گیا،" مسعود میں جانتا ہوں تُو ایسا لڑکا نہیں ہے، کوئی بات نہیں، غلطی ہو جاتی ہے، غلطی ماننے سے بندہ بڑا ہوتا ہے، چھوٹا نہیں" یہ سن کے میں مزید رونے لگ گیا." بھا، میں نے نہیں چرائے، میں نے نہیں چرائے، میں نے نہیں چرائے" میں چیخنے لگ پڑا تھا. اماں نے پھر ساتھ لگا لیا

اور پھر باھر آسمان رو رہا تھا، جانے اسے کون پِیٹ رہا تھا اور اندر میں. ابا نے مجھے بال کھینچ کے فرش سے اٹھایا اور مجھے دھکا دے کے کمرے کے دروازے سے برآمدے، پھر برآمدے سے دھکے دیتے صحن اور پھر دھکے دیتے گھر کے دروازے کے باھر پھینکا اور "تُو مَر گیا میرے لیے آج سے، بس، تیرا باپ بھی مر گیا، دفع ہو جا کہیں جا مَر جا خنزیرا" اور دروازے کو اندر سے کنڈی لگا لی. اندر اماں چیخ رہی تھی، باھر میں دروازہ پِیٹ رہا تھا اور اوپر آسمان پر جیسے کسی اور کو بھی مسجد کے پیسے چرانے پر گھر سے نکال دیا تھا. پھر اندر سے آوازیں آنا بند ہو گئیں کہ سب اندر کمرے میں جا چکے تھے، میں دروازے کے ساتھ لگا بیٹھا سوچ رہا تھا کہ کیا ساری رات یہیں گزرے گی یا کہیں جاؤں، اور پھر کہاں جاؤں؟ وقت گزرتا گیا، کوئی بھی دروازے پر نہیں آیا. میں نے اپنا سر گھٹنوں سے اٹھایا، سر کے بالوں کو دونوں ہتھیلیوں سے نچوڑا اور اپنے دوست عامر کے گھر کی طرف چل پڑا. اس کا دروازہ کھٹکھٹایا اور پھر تین بار کھٹکھٹانے پر بھی نہیں کھلا. شاید اندر کمروں میں دبکے سو رہے ہوں گے. میرے لیے کچھ بچا ہی نہیں تھا. میں وہاں سے نکلا اور گلیوں میں پھرنے لگ گیا مگر بارش رکنے پر راضی ہی نہیں تھی، سو ایک گھر کے دروازے کے پاس ایک چھجا سا بنا تھا، اس کے نیچے بیٹھ گیا. دیوار سے ٹیک لگانے لگا تو ہاتھ پھسلا اور میں سیدھا دروازے پر جا پڑا. دروازہ لوہے کا تھا مگر کچھ ہِلا ہوا تھا کہ اس کے دونوں پاٹ آپس میں ہی کافی زور سے بجے. پہلے تو میں وہاں سے بھاگنے لگا پھر سوچا کہ جب عامر کو میری تین دستکیں نہ سنائی دیں، یہ ایک کسی کو کیا جگائے گی. مگر میں ٹھٹھک گیا جب کچھ دیر بعد ہی دروازے کی کنڈی اندر سے کھلنے لگی. میرا دل میرے سینے سے باھر نکلنے کو پھر رہا تھا. پھر آواز آئی "کون ہے؟ " پہلے میں نے سوچا کہ نکل جاؤں پھر بارش اور رات بھر کے خوف نے پیر پکڑ لیے. "جی میں.. میں مسعود ،حاجی کریم.." میری بات مکمل ہونے سے پہلے دروازہ کھل گیا اور سامنے شائستہ ٹاٹ سے سر ڈھانپے کھڑی تھی. شائستہ اپنی ایک بچی کے ساتھ اکیلی رہتی تھی، اس کا شوھر کہیں کویت میں ٹرک چلاتا تھا. دو چار سال میں ایک بار گھر آتا تھا. شائستہ کا دیور جہلم میں کہیں رہتا تھا اور اکثر اس کے گھر آتا جاتا رہتا تھا. محلے کی تمام عورتیں شائستہ کی خوبصورتی اور بیباک طبیعت سے شاید جلتی تھیں یا واقعی اسے گشتی سمجھتی تھیں کیونکہ اس کے سامنے تو نہیں مگر میں نے اکثر عورتوں اور پھر گلی محلے کے لڑکوں کو اسے گشتی کہتے ہی سنا تھا. وہ کسی مرد سے بات کم ہی کرتی تھی، اور اکثر مردوں سے کافی روکھے انداز میں پیش آتی تھی، سو مردوں کے لیے بھی وہ ایک گشتی ہی تھی، گشتی اس لیے کہ شاید وہ ان کے ہاتھ نہیں آنے والی تھی!... "آ جا اندر مسعود، بہت تیز طوفان ہے.. آ جا" میرے دماغ میں لفظ گشتی مسجد میں لگے بڑے گھڑیال کی، زور زور سے گرتے، سیکنڈ والی سوئی کی طرح بج رہا تھا. میں ڈر رہا تھا یا جھجک رہا تھا. اس نے پھر کہا " آجا اندر، کھا نہیں جاؤں گی" میرے قدم دروازے کی دہلیز پار کر گئے، وہ کنڈی لگا کے دوڑتی کمرے کے اندر پہنچی. دوڑتے ہوئے اس کے کولہے جیسے مچلتی مچھلی کی طرح تھے. میں اندر پہنچا، اس کی بچی سو رہی تھی، اس نے ایک تولیہ نکال کے مجھے دیا اور فریج سے بوتل نکال کے پانی کا گلاس بھرنے لگی. میں نے پہلی بار شائستہ کو اتنے قریب سے دیکھا تھا. کچھ کچھ بھیگی قمیص کہیں کہیں سے چپکی ہوئی تھی " گھر سے نکال دیا ابا نے یا خود ہی نکل آئے ہو؟" میں نے سر جھکا کے 'نکال دیا' کہا اور تولیہ چارپائی پر رکھ دیا. وہ ربڑ سے نکلے بال دونوں بازوں اوپر کر کے پیچھے باندھنے لگی تو جیسے مارگلہ کی دو پہاڑیاں تن کے کھڑی ہو گئی تھیں. "کچھ کھانا ہے؟ بھوک لگی ہو گی" میں نے نفی میں سر ہلایا تو ٹاٹ مجھے پکڑاتے بولی " اچھا پھر سامنے والے کمرے میں سو جاؤ، فرید (اس کا دیور) کا کمرہ ہے، وہ جب آتا ہے وہیں سوتا ہے" میں نے ٹاٹ ہاتھ میں پکڑا اور صحن کی طرف بڑھا، پھر رکا اور مڑ کے پوچھا "آپ نے پوچھا نہیں کہ کیوں نکالا گیا ہوں؟" وہ لیٹنے کے لیے چارپائی پر بیٹھ چکی تھی. "مجھے پتا ہے، خالہ ناظمہ کے گھر شام کو دودھ لینے گئی تو انہوں نے بتایا تھا " میری نظریں مارگلہ کی چوٹیوں کا بار بار طواف کر رہی تھیں "آپ کو بھی لگتا ہے کہ میں نے پیسے چرائے ہیں؟ ".. اس نے چادر کھینچ کے ٹانگوں پر کی اور اَدھ لیٹی بولی " چور کو کوئی گھر نہیں گھساتا.. جاؤ سو جاؤ جا کے" میری آنکھیں بھر آئیں اور ٹاٹ سر پر رکھ کے صحن کے دوسرے کمرے میں گھس گیا. لیٹے لیٹے سر میں مارگلہ کی پہاڑیاں گھوم رہی تھیں اور میں اسی کشمکش میں سو گیا
کسی نے ہلکے سے میرا بازو ہلایا" اٹھو مسعود، صبح کی اذان ہونے والی ہے " شائستہ میرا بازو ہلا رہی تھی. میں ہڑبڑا کے اٹھا، بارش تھم چکی تھی مگر سیاہ بادل اب بھی رات کو جپھی ڈالے پڑے تھے. اس نے مجھے غسل خانے کی راہ دکھائی اور جب میں وضو کر کے نکلا تو وہ سامنے کھڑی تھی. اس نے پچاس پچاس کے چار نوٹ مجھے تھما دئیے" یہ لے لو... لے لوووو.. جا کے ابا کو دے دو اور غلطی مان کے معافی مانگ لو، وہ ابھی مسجد پہنچے ہی ہوں گے، اس وقت اور کوئی نہیں ہو گا مسجد میں" میں پتھر کا بنا کھڑا تھا "مجھے یقین ہے تم نے پیسے نہیں چرائے، یہ لو جاؤ ابا کے دے دو، سامنے رو لو گے تو وہ معاف کر دیں گے " میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ پڑا. اس نے پاس آ کے مجھے ہلکے سے گلے لگایا اور پھر سر سہلا کے جانے کو کہا. میں دروازے سے باھر نکلا، اس نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ سے دیکھا اور آنکھوں سے" سب ٹھیک ہو جائے گا "کہا اور دروازہ بند کر دیا. گلی میں چپ اندھیرا تھا. میں مسجد کی طرف چل پڑا. مسجد میں لائٹس آن تھیں یعنی ابا پہنچ چکے تھے. میں نے دھڑکتے پیروں سے جوتے اتارے اور مسجد کے اندر پہنچا تو ابا دو زانو بیٹھے کچھ پڑھ رہے تھے. میں ڈرتے ڈرتے پاس پہنچا اور کوئی گز بھر کے فاصلے پر بیٹھ گیا. دل سینے میں ہی نہیں، ہاتھوں، پاؤں، زبان ہر شے میں دھڑک رہا تھا. ابا نے میری طرف دیکھا اور سامنے مجھے پا کے اس کے ہلتے ہونٹ جسے جم گئے. پھر انہوں نے سر ہلایا اور پاس آنے کا اشارہ کیا. میں گھر میں اتنی مار کھا چکا تھا مگر اب مسجد میں مار کھانے کا سوچ کے ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑنے لگے. میں نے خود کو گھسیٹ کے ابا کے کچھ قریب کیا اور داہنی طرف والی جیب میں ہاتھ ڈال کے پیسے نکالنے لگا "پیسے مل گئے ہیں" ابا کی آواز اور اس بات سے میرا ہاتھ جیب میں ہی رک گیا "وہ تیری اماں نے اور بہن نے ڈھونڈ لیے، وہ لاکر کی پچھلی طرف گرے پڑے تھے" میں خدا کے گھر میں ایک پتھر بن کے بیٹھا ہوا تھا. ابا اٹھے اور لاؤڈ سپیکر کی طرف جاتے ہوئے بولے "چل کوئی بات نہیں، اذان کا وقت ہو گیا ہے، وضو کر کے آ جا، نماز پڑھ کے گھر چلیں گے"
میں کسی بے جان مورت کی طرح وہیں مسجد میں محراب کے سامنے بیٹھا ہوا تھا، ہاتھ شائستہ کے دئیے دو سو روپے چھو رہے تھے. مجھے مسجد کے محراب میں مارگلہ کی پہاڑیاں دکھائی دے رہی تھیں اور کانوں میں" چور کو کوئی گھر نہیں گھساتا "اور الصلاۃ خیر من النوم کی آوازیں بج رہی تھیں 

Thursday, June 15, 2023

خود سے ہارے ہوئے لوگوں کے مسیحا

خود سے ہارے ہوئے لوگوں کے مسیحا
کہاں ہو؟
کہاں ہو، کہیں سے آواز دو
ہم کہ اپنی ذات میں
تنہائی کی محفل کی جاں ہیں
ہم کہ اپنے درد کے
خود جبریل ہیں خود قرآں ہیں
ہم کہ اپنی وحشت میں
سر بریدہ پر بریدہ یہاں ہیں
یہاں ہیں کہ یہیں پر
وحشت خرامیاں کھینچ لائی ہیں
یہاں ہیں کہ یہیں پر
ہم تماشا ہیں، ہم ہی تماشائی ہیں
یہ تماشائی ہٹا دو
اس تماشے کا پردہ گرا دو
کہیں سے آواز دو، کہاں ہو
خود سے ہارے ہوئے لوگوں کے مسیحا، کہاں ہو

Friday, April 14, 2023

چالیس اور چار قدم

وہ گھڑی آ گئی تھی جب کلائی پہ بندھی گھڑی اور دل کی دوڑ میں میل جول نہیں رہا تھا. دل کے پیروں میں گھڑی کی سوئیاں چبھ گئی تھیں، وہ دوڑ رہا تھا اور میرے سامنے پچھلے چالیس منٹ میں کئی میٹرو رکنے کے بعد دوڑ لگا چکی تھیں اور میں میٹرو سٹیشن پہ گوستاو ویگیلاند کے کسی مجسمے کی طرح چپ چاپ کھڑا تھا

اُس دن کھانا کھانے کے بعد ڈرائنگ روم میں چالیس قدم چلنے کی سنت پوری کی جا رہی تھی. ابا اسے نبی کی سنت مانتے تھے اور میں اِسے ابا کی سنت. میں ابا سے دو قدم پیچھے تھا اور ابا دونوں ہاتھ پیچھے کو باندھے چل رہے تھے
"ابا، آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے"
ابا یونہی چلتے چلتے ہی بولے کہ کی گل کرنی آ
"میں شادی کرنا چاہتا ہوں" ابا نے چلتے ہوئے مجھے مڑ کے دیکھا اور ہلکا سا مسکرا کے بولے "اچھااااا، ایہہ تے چنگی گل اے، کوئی رشتہ لبھنے آں" اور یہی سارا مسئلہ تھا کہ جو انہوں نے لبھنا یعنی ڈھونڈنا تھا، وہ میں چار سال پہلے ڈھونڈ چکا تھا
میری ہتھیلیاں پسینے میں گویا نہا رہی تھیں اور دل چھاتی کو جیسے دونوں ہاتھوں سے پِیٹ رہا تھا. رنگ چونکہ پہلے ہی سیاہی مائل تھا سو سرخ تو نہیں ہوا، مزید کالا ضرور ہو گیا تھا
"ابا، میں ایک لڑکی کو جانتا ہوں، اسی سے شادی کرنی ہے" یہ دو جملے میں نے کیسے کہے، مجھے نہیں معلوم. ابا وہ خدا تھے کہ جن کے سامنے دعا مانگتے بھی ڈر لگتا تھا. ابا وہ خدا تھے کہ جنہیں اپنے سامنے ہر دم جھکے سر ہی قبول تھے. مجھے لگ رہا تھا کہ زمین گھومتے گھومتے اک دم رک جائے گی، آسمان اپنا سینہ پھاڑ کے مجھ پر سورج کی قے کر دے گا اور میں اگلی نسلوں کو کسی پومپـے کی راکھ میں جھلسا ہوا ملوں گا

مگر نہ زمین رکی نہ آسمان کو کچھ متلی محسوس ہوئی اور نہ ہی خدا رکے، مطلب نہ ہی ابا رکے
"کون اے او؟ تینوں کتھوں لبھی؟ " ابا کے لہجے میں کچھ خاص فرق بھی محسوس نہیں ہوا جیسے میں نے ان سے اپنی پسند کی شادی نہیں بلکہ رات کے کھانے کا مینیو ڈسکس کیا ہو
"ہم ایک ہی سکول میں جاتے تھے، وہیں ملی. آپ شاید جانتے ہوں، عبید اللہ مغل، ان کی بیٹی ہے" یہ کہتے کہتے سانس چالیس سیڑھیاں چڑھ گئی تھی
"ہمممم..اچھااا اچھاااااا او منظور مغل دے خاندان دی اے.. ہممم.. او بندے نئیں ٹھیک، اونہاں دے منڈے گینگ شینگ اچ نیں، تینوں کدرے مار مور دین گے" ابا کے ابھی چالیس قدم پورے نہیں ہوئے تھے یا اس بار قدموں کی گنتی ضروری نہیں رہی تھی
"پر ابا اُن کی منظور وغیرہ سے کوئی خاص سلام دعا نہیں ہے، وہ ایسے لوگ نہیں ہیں" ابا رکے مجھے دیکھا اور جا کے صوفے پہ بیٹھ گئے اور ٹی وی کا کنٹرول اٹھا کے جیو نیوز آن کیا اور خبروں میں مگن ہو گئے
جیسے تیسے رات گزری، اگلا دن کام پہ گزرا اور شام کو گھر پہ ساتھ کھانا کھایا اور چالیس قدم چلنے کے بعد سب صوفوں پہ بیٹھ گئے. ابا چپ تھے اور جب بولے تو میری ریڑھ کی ہڈی پہ برف جم گئی
"تینوں ذرا شرم نئیں آئی کہ پیو دے سامنے اپنے ویاہ دی گل کر دتی توں؟ تیری اینہی ہمت ہو کیویں گئی، ایہہ دس؟ بیغرت منہ پھاڑ کے کہندا اخے مینوں کڑی پسند اے، ہے بیغرتا، کھوتے دیا پترا" صوفہ تھا کہ دلدل، میں دھنستا جا رہا تھا، سر کے بالوں میں چیونٹیاں میراتھون میں حصہ لے چکی تھیں. جسم کا سارا خون جیسے صوفے پہ لٹکتی ٹانگوں میں آ رکا تھا
" پتر، اوتھے تے تیرا ویاہ نئیں ہو سکدا، ایہہ تے بھل جا، ہن میں تیرا ویاہ کراں گا پاکستان، اپنی مرضی نال، ہے خبیث نوں ذرا شرم نئیں آئی" گھر میں مکمل خاموشی تھی، میرے کان سوں سوں کر رہے تھے اور میں خدا کے آگے سر اٹھانے اور اس پہ مستزاد، اپنے دل کی بات کہہ دینے کا گناہ گار ہو چکا تھا. میرا یہ خدا اونٹ کی طرح بات دل میں رکھتا تھا، کبھی بھولتا نہیں تھا اور میں سجدہ ریزی کے واضح حکم سے روگردانی کر چکا تھا. راندہ درگاہ بلکہ راندہ دل و نگاہ ہو چکا تھا
پھر ابا نے اگلے دو چار دنوں میں پاکستان میں ایک رشتہ ڈھونڈا اور پاکستان، اس سے رشتہ پکا کرنے چلے گئے. میں یہاں رو رہا تھا ادھر ابا رشتہ پکا ہونے کی مٹھائیاں بانٹ رہے تھے. ایسا پتھر دل تو کوئی خدا ہی ہو سکتا ہے

ابا ٹیلیفون پہ وہیں سے نکاح پڑھوانا چاہتے تھے، میں گھر میں سب کے سامنے رو پیٹ چکا تھا کہ میں نہیں کروں گا، فون آئے گا بھی تو میں فون پہ رشتہ کو نہ کر دوں گا. اماں سمیت سب گھر والے الگ رو رہے تھے کہ چپ کر کے مان لے ابا کی بات، کیوں ہماری زندگیاں مزید مصیبت اور تکلیفوں میں ڈالنا چاہتا ہے. بھول جا محبت کو. کیوں اپنی ایک محبت کے لیے اتنے خود غرض ہو جاؤ گے کہ ہم سب اور خاص طور پر اماں کو ہی بھول جاؤ گے! کیوں اماں کی اذیت زدہ زندگی میں مزید اذیتوں، طعنوں اور گالیوں کے زھر بھر رہے ہو. یہ پکڑو فون، دوسری طرف نکاح خواں ہے، کر دو ہاں! اور میں نے ہاں کر دی

یہ فیصلے کی گھڑی تھی اور میں بری طرح ہارا تھا. دوسروں کے آنسوؤں میں بہہ کے اُس پار جا نکلا جہاں میں خود کو پہچان ہی نہیں پا رہا تھا. کچھ دن گزرے اور پھر میں نے اپنی محبت کے گھر والوں کی شدید منت سماجت کر کے اپنی محبت کی انگلی میں اپنا رشتہ باندھا اور نکاح کر کے اپنا نام اس کے نام کے ساتھ جوڑ دیا. معاملہ یوں ہوا کہ میں جلد از جلد اپنے گھر والوں کو اس نکاح کے متعلق بتاؤں گا اور دھوم دھام سے محبت بیاہ کے گھر لے جاؤں گا. یہ بات میرے تین دوستوں کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں تھی، دو دوست نکاح کے گواہ تھے اور تیسرے دوست نے دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے  خفیہ نکاح کی خبر کچھ دنوں میں ابا کو دے دی

اس دن میں کام سے چھٹی کے بعد گھر جانے سے پہلے ایک بازار میں گھوم رہا تھا جب بڑے بھائی کا فون آیا کہ جلدی گھر آؤ، ابا نے تم سے بہت ضروری بات کرنی ہے. میں نے پوچھا بھی کہ کیا بات ہے ، تو اس نے کہا کہ تم بس جلدی سے گھر پہنچو. میرے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ نکاح کی خبر ابا تک پہنچ گئی ہے. میں نے گھر کی طرف جانے والی میٹرو پکڑی اور سیٹ پہ بیٹھ گیا. تبھی بھائی کا میسج آیا کہ تم نے نکاح کر لیا ہے؟ ابا کو انضمام نے بتایا ہے. میسج پڑھ کے جی متلانے لگا. گھر کے سٹاپ سے دو سٹاپ پہلے اتر گیا
وہ گھڑی آ گئی تھی جب کلائی پہ بندھی گھڑی اور دل کی دوڑ میں میل جول نہیں رہا تھا. میٹرو آ رہی تھیں جا رہی تھیں، لوگ اتر رہے تھے بیٹھ رہے تھے اور میں چالیس منٹ سے وہیں کھڑا تھا. فیصلے کی گھڑی دوسری بار آئی تھی اور پہلی گھڑی جب جذبات کے ساتھ دوڑی تھی تو میں ہانپ گیا تھا. اُس جذبات کی گھڑی کے ساتھ چالیس قدم چلنے کی سنت نے مجھے محبت کا  کافر بنا دیا تھا. اس بار جذبات کے بہاؤ میں بہنے سے پہلے ہی ان جذبات سے منہ موڑنے کی تلخ سنت دریافت کرنے کی گھڑی آ گئی تھی. میٹرو سٹیشن پہ دونوں میٹرو، ایک گھر کی طرف جاتی اور دوسری گھر سے دور جاتی، آن رکی تھیں. اس گھڑی میں نے گھر کی طرف جاتی میٹرو پہ دھندلی نظر ڈالی اور دوسری میٹرو کی طرف چار قدم بڑھا دئیے 

Saturday, March 25, 2023

طوائف کا کوٹھا

میرا دِل ہے کہ طوائف کا کوٹھا، جو بھی آیا کچھ دیر رکا پھر دل سے اتر گیا. مستقل محبت، مزاج میں ہے ہی نہیں. مگر یہ بھی نہیں کہ دل کے کوٹھے پہ آنے والے کسی ایک کو بھی فراموش کر دیا ہو. یادوں کے ساز ہمیشہ بجتے ہیں اور کیا خوب بجتے ہیں
محبتوں کے زینوں پہ چڑھنے اور کوٹھے تک پہنچنے کی آہٹیں آج بھی دل میں دھڑکن کی طرح بجتی ہیں. کود پھاند کے چڑھتی جوانی کے بیل بوٹے آج بھی سر سبز ہیں، پھول دیتے ہیں، خوشبو میں نہاتے ہیں. وہ گالوں پہ شرم و جھجھک سےخون کا جم جانا، آج بھی ڈوبتی شام کے گلابی بادلوں میں جھلکتا ہے. آنکھیں جو کسی ان دیکھے بھار سے اٹھائی نہیں اٹھتیں. ان جھکی آنکھوں سے کیسے کیسے حسین منظر دیکھ رکھے ہیں. وہ جو ہاتھ، ہاتھ میں آنے سے دل کا  دوڑتے ہوئے  ہتھیلیوں میں آ دھڑکنا، ہتھیلیوں میں پسینے کی چشمے یوں پھوٹ نکلنے جیسے اچانک کسی پہاڑ سے آبشار نکل پڑے. وہ لَمس کی دستکیں جو دعاؤں کی طرح بار بار دی جاتی رہیں کہ کوئی وہ بند کواڑ کھلیں، وہ بند کواڑ کہ جیسے کسی خدا کے گھر کا دروازہ. وہ بوسے جو دھوپ میں پڑتی بارش کی طرح بدن کے ہر ایک کینوس پہ قوسِ قزح کے رنگ بھرتے رپے. وہ بدن کہ جیسے پرستان کے اَن دیکھے شہر، وہ شہر کے جو اپنے فاتحوں کے لیے بانہیں پھیلائے اپنی قبائیں ہواؤں کے ہاتھ پیغام کی صورت بھیجتے رہے. وہ قبائیں جو کسی دھاگے اور رنگ کی محتاج نہیں، وہ قبائیں جو وصل کی چاہ میں خوشبو سے بُنتی رہیں. وہ خوشبو جو آج بھی یادوں کو مہکائے رکھتی ہے. وہ مہک جو چنبیلی اور موتیـے کے گجرے سجاتی ہے. وہ گجرے جو کسی بھی طوائف کے کوٹھے پہ ضرور ملتے ہیں، میرا دل کہ طوائف کا کوٹھا

Monday, January 09, 2023

پرانا دوزخ

آج موسم ہے کہ حُسن کی معراج پہ ہے گویا. نیلے آسمان کی جھیل میں کہیں کہیں سفید بگلے تیر رہے ہیں. سورج تک خوشگوار موڈ میں ہے. گرمی ہے مگر ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا بھی رواں ہے. میں لنچ بار میں باھر کھلے میں رکھی کرسی پہ بیٹھا ٹھنڈی ٹھار بئیر کے ساتھ brie cheese کے مزے لے رہا ہوں 

ساتھ والی کرسی پہ ایک  عمر رسیدہ شخص وائٹ وائن کے سِپ لے رہا ہے. عمر کا اندازہ چہرے کی جھریوں، بازوؤں سے پروں کی طرح لٹکتے ماس اور ہاتھوں کی نیلی نَسوں سے نوے سال کا لگتا ہے یا پھر شاید سو کو چھو رہا ہو. عمر کتنی بھی گزری ہو اس کے بال سر پہ پورے ہیں. دودھ کی طرح سفید اور گھنے اور لمبے بال، جنہیں سر کے پچھواڑے باندھا ہوا ہے . کیپ میز پہ دھری ہے، آدھا پھونکا سگار ایش ٹرے میں ہے اور رے بین کی پائلٹ عینک آنکھوں پہ. وقفے وقفے سے بڑی نزاکت سے وائن کا گلاس ہونٹوں تک جاتا ہے، ایک سِپ لی جاتی ہے اور وہ پھر میز پہ لوٹ آتا ہے

 سامنے آسمان کے ساتھ رنگ کا مقابلہ کرتا نیلا سمندر ہے. لوگ آ جا رہے ہیں اور پھر اچانک ایک ادھیڑ عمر شخص سامنے سے گزرتے ہوئے پہلے مجھے مسکراہٹ پھینکتا ہے جو ہمارے ہاں عام رویہ ہے، پھر اسی مسکراہٹ کے ساتھ میرے ساتھ والی میز پہ اس بوڑھے کی طرف دیکھتا ہے مگر وہ بوڑھا شخص کسی اور طرف متوجہ ہے. مسکراہٹ پھینکنے والا شخص مگر ایک دَم جیسے پتھر کا ہو جاتا ہے مسکراہٹ مکمل بجھ جاتی ہے اور بجھی مسکراہٹ کا دھواں جیسے چہرے پر پھیل گیا ہے. تاثرات سے کچھ اندازہ نہیں ہو رہا کہ اس نے اچانک کوئی بھوت دیکھ لیا ہے یا پرانا محبوب. ساتھ والے بوڑھے نے سگار اٹھا کے دانتوں میں دبوچا اور اسے آگ دکھانے لگا. پتھر ہوا شخص بھاری قدموں سے چلتا اس کی میز کے پاس پہنچتا ہے، بوڑھا سگار کا دھواں تب تک چھوڑ چکا ہے سو میز پہ دھواں ہی دھواں ہے. وہ شخص، اس بوڑھے کی میز پہ سامنے والی کرسی گھسیٹ کے اس پہ بیٹھ گیا ہے

دھواں چھٹتا ہے اور بوڑھا اس شخص کو دیکھتا ہے
"آپ کون" 
بوڑھے کی آواز گلے کے کہیں پچھلے خانوں سے نکلتی ہے مگر عمر نے آواز کے بھاری پن پہ شاید کوئی اثر نہیں کیا
"میں کون؟ اتنے بوڑھے تو نہیں ہو کہ یادداشت کہیں رکھ کے بھول گئے ہو" 
اس شخص کی آواز میں ایک تڑپ سی ہے
"میں اور بہت سی چیزوں کے ساتھ ساتھ پہیلیوں سے بھی اکتا چکا ہوں، تو بتاؤ کون" 
یہ پوچھ کے بوڑھا وائن کا گھونٹ بھرتا ہے
"میں وہی جس کی وجہ سے تم نے یہ دنیا بنا ڈالی تھی"
بوڑھا چونکتا ہے اور آنکھیں سکیڑ کے اس شخص کو غور سے دیکھتا ہے. چند لمحے جیسے کسی بوسیدہ ورق کو پڑھنے کے بعد بوڑھا کرسی کے ساتھ ٹیک لگاتا ہے اور مسکرانے لگتا ہے
" بہت دیر بعد ملے ہو" 
وہ شخص ویٹر کو اشارہ کر کے ایک اور گلاس منگواتا ہے، ویٹر گلاس میں وائن ڈالتا ہے اور وہ شخص وائن کے دو گھونٹ لیتا ہے
"اتنی ہی دیر جتنی دیر میں یہ دنیا بنائی تھی، مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ مجھ سے اتنی نفرت تھی کہ اتنی محبت! بہر حال اصل تو دونوں کی ایک ہی ہے،  اصول بھی اور شاید حصول بھی. کیا حاصل ہوا تمہیں" 
بوڑھے کی مسکراہٹ مدھم ہوتی جاتی ہے
"میں بھول چکا ہوں، میں تمہیں بھی بھول گیا تھا، آج تو پہچانا بھی نہیں"
بوڑھا سمندر کو گھورنے لگتا ہے
" میں نہیں بھولا، تم میں ہمت ہے بھولنے کی، ہمت ہے یا بزدلی مگر مجھے یاد رکھنے کا خوف ہے. کوئی اپنی محبت کو یوں دھتکارتا ہے؟ پہلی محبت کو" 
اس شخص کی آواز میں صدیوں کا کرب چیخ رہا ہے
" کیا نہیں تھا ان صدیوں بھرے لمحوں میں، میں کہانیاں سناتا تھا تم ہنستے تھے، میں شعر سناتا تھا تمہاری آنکھیں بھر آتی تھیں، میں گاتا تھا تم سر دھنتے تھے، میں رقص کرتا تھا تم تالیاں پیٹتے تھے. میری چپ سے تمہیں اتنی تکلیف ہوتی
تھی کہ" 
"میں نے کہا ناں میں بھول چکا ہوں"
بوڑھے کی آواز میں لرزش جھلک رہی ہے
وہ شخص  آدھا گلاس ایک ہی گھونٹ کرتا ہے
" تمہاری آواز کی لڑکھڑاہٹ تمہاری بات سے ہاتھ نہیں ملا رہی"
بوڑھا ہاتھ بالوں میں پھیرتا ہے
" میرے پاس یاد رکھنے کو کچھ نہیں ہے اور اب تو بھول جانے کو بھی کچھ نہیں رہا. تم پرانی آگ سے مکمل جل چکی لکڑی کو سینکنے میں ہار جاؤ گے، یہ ہارنے والی بات دیجاوو تو نہیں؟ خیر اس یاد اور بھول کے اندر کھاتے دیجاوو نے اپنی الگ ہی دوکان کھول رکھی ہے" 
بوڑھا مسکراتا ہے اور اپنے بال ریڑ کی قید سے آزاد کر دیتا ہے، اس کے گھنگھریالے بال کندھوں پہ جھولنے لگتے ہیں
" تم آج بھی ساری جنتیں اور سارے جہنم اپنے اندر چھپا کے رکھنے کی بری عادت سے نہیں نکلے. تم بھولے نہیں ہو، تم بھولنے اور یاد رکھنے کی جنگ ہار چکے ہو، ورنہ تم یہاں کیوں آتے؟ تمہیں پتا ہے کہ میں تمہیں یہیں ملوں گا، تمہیں یاد ہے کہ یاد رکھنے کے گناہ گار تم بھی ہو. بھول جانے کے ثواب تمہارے کھاتے میں نہیں آنے"
وہ شخص رکتا ہے، بوڑھا اسے دیکھے جاتا ہے
" میں تھک چکا ہوں، تم نہیں تھکے"
وہ شخص بایاں ہاتھ چہرے پہ ملتا ہے
" تمہیں ملا ہوں تو صدیوں کی تھکاوٹ کندھوں پہ آن بیٹھی ہے. تمہیں دیکھا ہے تو احساس ہوا ہے کہ مسافتوں کی دیمک ٹانگیں چاٹ چکی ہے. تم سے بات کی ہے تو وجود کا ہر حصہ کسی بوڑھے مرتے گرتے درخت کی چھال لگ رہا ہے"
اس شخص کی آنکھوں میں نمی تیرتی ہے
"ساتھ چلو گے" 
بوڑھے کے اس سوال پہ وہ شخص چونکتا تک نہیں، جیسے اسے پتا ہے کہ اب آگے کون سا سین آنے والا ہے، جیسے وہ یہ فلم کئی بار دیکھ چکا ہے
" نئی محبت سے اکتا چکے ہو یا تھک چکے ہو؟ یا پرانی محبت سے روا رکھے سلوک پہ شرمندگی مٹانے کو پھر ہاتھ تھامنے آئے ہو؟ کیا پھر ایک دھوکا" 
بوڑھا کیپ اٹھا کے اس کے کونے سیدھے کرتا ہے
"میں بھول چکا ہوں، نئی محبت یا پرانی، مجھے کچھ یاد نہیں. میرا جسم اب سکون کی چادر اوڑھ کے کسی پہاڑ پہ ایک گھر کے آتش دان میں جلتی لکڑیوں کی تڑ تڑ کی دھن پہ برف سے لدے پہاڑوں کے پس منظر میں تمہاری کہانیاں سننا چاہتا ہے، سناؤ گے" 
اس شخص کی آنکھوں میں چمک آ جاتی ہے، وہ کرسی سے اٹھ جاتا ہے. بوڑھا کیپ  سر پہ رکھتا ہے، سگار اٹھا کے دانتوں میں دبوچتا ہے. گلاس میں بچی وائن کا آخری گھونٹ بھر کے ایک مسکراہٹ میری طرف پھینکتا ہے جو ہمارے ہاں عام رویہ ہے اور وہ دونوں سمندر کے کنارے آگے بڑھتے جاتے ہیں

Tuesday, January 03, 2023

میں ہی کیوں

مجھے سمجھ نہیں آتی کہ تمہارا مسئلہ ہے کیا، کیا نہیں ہے تمہارے پاس، کیا ہے جو تمہیں نہیں ملتا، کس شے کی کمی ہے تمہیں؟ ابو بول رہے تھے.. تم بہن بھائیوں کے لیے دن رات ایک کیا ہوا ہے، برینڈڈ کپڑے، برینڈڈ جوتے، نئے سے نیا موبائل، اور کیا چاہیے تمہیں؟؟ میں ان کے سامنے صوفے کے داہنی کونے میں بیٹھی سن رہی تھی مگر سنتے ہوئے ان کی آواز ایسے لگتا تھا جیسے گھر کے آخری کمرے سے آ رہی ہو. دل کا دھڑکنا تو دو چار گہری اور لمبی سانسیں لینے کے بعد آپ محسوس کر سکتے ہیں، کیا آپ نے کبھی کان دھڑکتے محسوس کیے ہیں؟ میرے کان دھک دھک دھک دھک دھڑک رہے تھے
بولو، بولتی کیوں نہیں ہو اب؟ ابو کی آواز اونچی ہو رہی تھی. ادھر دیکھو، سامعہ ادھر دیکھو.. میری گردن مزید ڈھلکی جا رہی تھی، ٹھوڑی چھاتی کو چھو رہی تھی
ادھر دیکھ، بہری ہو گئی ہے کیا؟ ابو کی آواز اتنی سخت اور اونچی تھی کہ میری گردن خودبخود اونچی ہو گئی. میں نے ابو کی طرف دیکھا. ان کی آنکھیں مجھے چِیر رہی تھیں. دل تیز سے تیز تر دوڑے جا رہا تھا اور پیٹ جیسے کسی سے رسی سے کَسنا شروع کر دیا ہو، میری آنکھیں بائیں ہاتھ کی کلائی پہ بندھی سفید پٹی پہ جمی ہوئی تھیں
بول، کیا چاہتی ہے تُو، مجھے مارنا چاہتی ہے، تُو چاہتی تیرا باپ مر جائے بس.. میری چھاتی پہ جیسے کسی نے دونوں پاؤں دھر دئیے تھے. سانس لینا مشکل ہو گیا.. میں چیخنا چاہتی تھی مگر گلے سے نہ سانس نکل رہی تھی نہ آواز.. آنکھوں کے سامنے سیاہ دائرے پھرنے لگے اور

یہ پہلی بار نہیں تھا.. پچھلی بار میں نے اپنا سر دیوار سے مارا تھا ، اس سے پہلے میں نے پانی کی بوتل اپنے سر پہ دے ماری تھی، میں یہ دونوں کام نہیں کرنا چاہتی تھی، اور اب کھانے والی چھری سے بازو کی نَس کاٹنے کی کوشش، میں پاگل ہو چکی ہوں کیا؟ مجھے کسی پاگل خانے بھیج دیں گے گھر والے؟ میں پاگل نہیں ہونا چاہتی، لیکن میرے چاہنے سے کیا ہوتا ہے

میں نے کبھی نہیں چاہا کہ میرے ابو تب سو رہے ہوں جب میں سکول جاؤں اور گھر واپس آؤں تو وہ سو رہے ہوں، پھر اٹھ کے نہا کے جلدی جلدی ناشتہ کریں اور ٹیکسی کی یونیفارم پہن کے کام پہ نکل جائیں. میں نے یہ بھی کبھی نہیں چاہا کہ اکثر ہی انہیں امی کے ناشتے میں کبھی نمک کم کبھی مرچ زیادہ ، کبھی چائے کم کڑک اور کبھی زیادہ چینی پہ غصہ آئے اور وہ بڑبڑاتے ہوئے کام پہ نکل جائیں.. میں نے کبھی نہیں چاہا کہ سکول میں میرے ابو ایک بار بھی والدین کی میٹنگ میں نہ آئیں، وہ کبھی بھی نہیں آئے. انہیں پتا بھی نہیں ہوتا کہ میں کون سی کلاس میں ہوں اب
میں نے کبھی نہیں چاہا کہ میری امی گھر کے کاموں میں لگی رہیں اور اتنی جلدی تھک جائیں، امی ہر وقت تھکی رہتی ہیں. میں نے کبھی نہیں چاہا کہ امی اتنی چڑچڑی رہیں کہ گھر کے در و دیوار تک محبت کے دو نہیں، ایک لفظ کو ترستے رہیں. میں نے کبھی نہیں چاہا کہ امی کو میری ہر بات پہ میرے ہر کام پہ اعتراض ہو، میں کچھ بھی کروں انہیں اس میں کچھ نہ کچھ کمی دکھائی دیتی ہے، اگر نہ بھی دے تو ایک "ہونہہ" ہی  میرے حصے میں آتے تعریفی کلمات ہیں. میں نے کبھی نہیں چاہا کہ میرے امی ابو جو چیز میرے بڑے بھائی کے لیے ٹھیک سمجھتے ہیں، میرے لیے اسے غلط سمجھیں، مگر وہ ایسا سمجھتے ہیں. فیصل مجھ سے دو سال ہی بڑا ہے مگر امی کو یا ابو کو اس پہ کوئی اعتراض نہیں جب وہ اپنے سکول کی لڑکیوں کے ساتھ کھیلنے جائے یا دوستی رکھے. مگر میں اپنے کلاس فیلو کسی بھی لڑکے کے ساتھ نہ کھیل سکتیں ہوں، نہ دوستی کر سکتی ہوں... کیوں ؟ مجھ سے چھوٹے فہد کو بھی اجازت ہے مجھے نہیں، کیوں؟ کیونکہ میں بُری ہوں؟ میں ایک بُری لڑکی ہوں؟ میں نے کبھی نہیں چاہا کہ میں بُری لڑکی بنوں، پھر بھی میں کیوں بُری ہوں؟ کیا عمر کے تیرہ سال میں ہی کوئی اتنا بُرا ہو سکتا ہے؟ اس عمر میں ہی میرے ابو کو میرے کپڑوں پہ اعتراض ہے کہ اس کی لمبائی کم ہے، اس کا گلا بڑا ہے، اس میں سے کوئی غور سے دیکھے تو سب نظر آتا ہے، یہ بہت چپک رہا ہے اور میری کلاس فیلو لڑکیوں کو بھی میرے کپڑوں پہ طنز اور قہقہے یاد آ جاتے ہیں کہ پورا خیمہ ہی پہن لو، آنٹی بن گئی ہو، ماما بچے کدھر ہیں. کیوں؟ میرے کپڑے نارمل کیوں نہیں ہو سکتے؟ دوسری لڑکیوں جیسا کپڑے کیوں نہیں پہن سکتی؟ وہ سب پہنتی ہیں، انھیں کوئی نہیں روکتا، مجھے ہی کیوں؟ کیونکہ میں بری ہوں

میری امی کو میرے میک اپ، آئی لیشز پہ اعتراض ہوتا ہے، میری لپ اسٹک انہیں بھڑکیلی لگتی ہے، چاہے وہ خود وہی استعمال کرتی ہیں. میں کیوں نہیں؟ کیونکہ میں ایک بری لڑکی ہوں؟ میں ہی غلط کیوں ہوتی ہوں؟ ہر بار ہر ایک کے لیے میں ہی غلط ہوں، میں ہی بُری ہوں، ایسا کیوں ہے؟ میں بھی چاہتی ہوں کہ مجھے ابو ساتھ لے کے شاپنگ سینٹر جائیں جیسے باقی لڑکیوں کے باپ جاتے ہیں، میری امی بھی مجھے سراہیں، گھر کے کام جتنے باقی لڑکیاں کرتی ہیں میں بھی کرتی ہوں، میں بھی چاہتی ہوں کہ سکول میں مجھے بھی دوست بنائیں، جیسے سب ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں، میں بھی چاہتی ہوں، میں اچھی لگوں، مجھے بھی کوئی پیار سے بلائے، دیکھے، میں بھی چاہتی ہوں.... مگر میرے چاہنے سے کیا ہوتا ہے؟ کچھ نہیں، کچھ بھی نہیں
میں سونا چاہتی ہوں، میں تھک گئی ہوں، مجھے نیند بھی بہت کم آتی ہے، آ جائے تو خواب ایسے ڈراؤنے آتے ہیں کہ اس سے جاگتے رہنا ہی بہتر ہے.. مگر میں سونا چاہتی ہوں، میں نہیں چاہتی کہ صبح ساڑھے سات بجے الارم بجے، میں نے الارم لگایا ہے مگر میں نہیں چاہتی کہ الارم بجے. پھر امی جگانے آ جائیں گی کہ تیار ہوو سکول جانا ہے، میں نے امی کی نیند کی گولیاں کھا لی ہیں، آدھی ڈبی تھی، اب پتا نہیں وہ گولی کے بغیر سو پائیں گی؟ .. مگر میں تھک چکی ہوں، مجھے نیند آ رہی ہے.. میں سونا چاہتی ہوں ایک بار بس 

Sunday, January 01, 2023

رائیگانی

مجھے زندگی سے نفرت ہے اور میری زندگی کی سب سے پہلی نفرت 'پڑھائی' تھی. یہ ایک ایسی چڑیل تھی جس نے میرا بچپن ایک ہی لقمہ کر کے ہڑپ کر لیا تھا. کیسا بدبخت انسان ہو گا وہ جس نے سکول میں کلاسیں بنائیں اور پھر کلاسوں میں نمبر ون نمبر ٹو اور نمبر تھری والی نفرت پیدا کی، اور پھر وہ ناہنجار یہیں پہ رکا نہیں، پاس ہونے اور فیل ہونے کے لیے بھی نمبر بنا ڈالے

میں جب پیدا ہوا تب کیا ہوا تھا، پھر میری سانسوں اور قد کے ساتھ بڑھتے سالوں میں کیا کیا ہوا، مجھے یاد نہیں، یا یوں کہہ لیں مجھے ہوش نہیں. زندگی کی پہلی یاد جو سر کے پچھواڑے میں کہیں ثبت ہو گئی تھی وہ یہ ہے کہ میں بہتی آنکھوں اور بہتے ناک کے ساتھ مسلسل آگے پیچھے ہِل ہِل کے سرہانے پہ رکھے قرآن سے سبق پڑھ رہا تھا اور رونے کی وجہ یہ تھی کہ میں لفظ صحیح سے تلفظ نہیں کر پاتا تھا، پڑھتے ہوئے کچھ الفاظ کو جوڑ کے پڑھنا میرے لیے بہت مشکل تھا. اس مشکل پہ مزید مشکل ابا کی جھڑکیاں تھیں جو اس وقت تھپڑوں جیسی لگتی تھیں اور رونا تو جیسے میرے سرہانے دھرا رہتا تھا

یہ سکول نامی ٹارچر سیل میں جانے سے پہلے کی یاد تھی.. پہلی کلاس میں ابا پہلے دن چھوڑ کے آئے تو مجھے اتنا یاد ہے کہ ابا کو سکول کے دروازے سے جاتے دیکھ رہا تھا اور پھر جیسے سارے میں دھند پھیل گئی تھی. پہلے دو چار دن سوائے رونے کے نہ مجھے کچھ یاد ہے اور شاید نہ ہی میں نے رونے کے علاوہ کچھ کیا تھا

چوتھی جماعت کا وہ منحوس دن بھی یادوں کے صحیفوں میں کہیں درج ہے کہ جب ایک دن اچانک ابا سکول آ دھمکے اور اس وقت ریاضی کا ایک عام پرچہ ہم حل کر رہے تھے. پانچ سوالات تھے ریاضی کے اور فی درست جواب دس نمبر، جو کل ملا کے پچاس بنتے تھے. مجھے یاد ہے کلاس کے باھر چار لائنوں میں ہم سب کلاس فیلو سر کاپی میں دے کے سوال حل رپے تھے اور ابا میرے پاس آ کے کھڑے ہوئے اور کچھ دیر کاپی دیکھنے کے بعد "شاباش، محنت کر" کہہ کے چلے گئے. ماسٹر لطیف نے کاپیاں چیک کیں اور میرے پانچ میں سے چار جواب درست نکلے یوں میں چالیس بٹا پچاس نمبر لے کے کلاس میں دوسرے نمبر پہ رہا. صرف شیدے لوہار کے بیٹے کے پچاس بٹا پچاس تھے. چھٹی کے بعد گھر گیا اور پھر عصر کے قریب کہیں گھر کے صحن میں بیٹھے ابا نے پوچھا "ہاں وئی، کتنے نمبر آئے نیں تیرے اَج؟" میں نے فوراً کاپی بستے سے نکالی اور خوش ہو کے انہیں دی. ابا نے پہلے کاپی دیکھی اور میرے باھر نکلے دانت دیکھے " او کھوتے دیاں پُترا، پورے نمبر کیوں نئیں لئے" بس پھر ابا کی چپل تھی اور مجھے روتا ہوا یاد ہوں میں. ابا چپل بھی وہ پہنتے تھے جس کا تلوا بہت موٹا اور سخت ہوتا تھا. میں روئے جا رہا تھا، ابا مجھے پِیٹے جا رہے تھے، اماں ہلکے سُروں میں ابا کو "بس کر دیو" کہے جا رہی تھی، اماں کو ڈر تھا کہ کہیں باقی غصہ، ڈبل ہو کے کہیں اس پہ نہ جا نکلے. پڑوس میں پھوپھی رہتی تھیں، وہ میرا رونا اور ابا کی گالیاں سن کے آئیں اور اپنے بھائی کو روکنے میں کامیاب و کامران ہوئیں

پھر پانچویں پاس کر کے ہائی سکول پہنچے. سکول کے دروازے کے اوپر لکھا ہوا تھا

سبق پھر پڑھ صداقت کا،عدالت کا، شجاعت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا 

چھٹی جماعت میں آئے تو آگے انگلش منہ کھولے تیار کھڑی تھی. اے بی سی کے رٹے لگنے شروع ہو گئے. بات انگلش تک رہتی تو شاید کہیں اوکھے سوکھے آگے بڑھ بھی جاتے مگر یہ سکول میری جان کا دشمن بنا ہوا تھا. چھٹی جماعت میں انگلش سے ہاتھ ملایا تو سامنے  عربی اور پھر فارسی کو بھی گلے لگانا ضروری ہو گیا تھا. ہمیں ابا کی "شاباش محنت کر" والی دوا یاد تھی سو خوب محنت کی جانے لگی. انگلش سے دوستی تو نہیں، مگر دُور سے ہیلو ہائے ہو گئی. فارسی، اردو کی قریبی ہونے کی وجہ سے اکثر پلے پڑ جاتی تھی مگر عربی، ایس جناتی زبان کہ اُسے سوائے رٹا لگانے کے چارہ ہی کوئی نہیں تھا
امتحان ہوئے، 31 مارچ کو نتیجہ نکلا اور میں کلاس میں دوسرے نمبر پہ آیا، سکول کی طرف سے دوسرے نمبر پہ آنے پہ ایک ڈائری بھی انعام میں ملی مگر گھر آ کے ابا سے جو انعامات ملے وہ انعامات میں کئی دن تک سہلاتا رہا

ساتویں جماعت میں پہنچا اور سر پہ گویا کفن باندھ لیا کہ اب کے پہلا نمبر لیے بنا سانس نہیں لینا. سوتے جاگتے کتابوں کے رٹے تھے اور ابا کی چپل کے خواب. خوب جی لگا کے محنت کی، امتحان دیا اور اکتیس مارچ کا انتظار کرنے لگا. مجھے اپنی محنت اور رٹے پہ پورا ایمان تھا کہ اس بار مجھ سے میری پہلی پوزیشن کوئی ماں کا لعل اور باپ کا ہیرا نہیں چھین سکے گا

میری یاد میں وہ دن سینما کی چادر پہ چلتی فلم کی طرح آج بھی چلتا ہے کہ جب سکول کے گراؤنڈ میں سکول کے تمام لڑکے کھڑے تھے اور نتیجے نکل رہے تھے. چھٹی جماعت کا نتیجہ نکلا اور پھر بات میری جماعت تک آئی. مجھے ہاتھوں میں آیا پسینہ اور سر میں چلتیں چیونٹیاں آج بھی یاد ہیں. مجھے یاد ہے جب ماسٹر الطاف نے ساتویں جماعت میں پہلے نمبر پہ آنے والے نام کا اعلان کیا تھا... وہ نام میرا نہیں تھا. میری سانسیں اتھل پتھل ہو رہی تھیں، پسینہ ہر جگہ سے پھوٹ رہا تھا، دوسرے نمبر پہ میرا نام لیا گیا، یہ مجھے یاد ہے، اس کے بعد مجھے کچھ یاد نہیں. ابا کو جانے مجھ سے کیوں امیدیں تھیں اور ہر بار وہ خود ہی لگائی گئی امیدوں کے ٹوٹنے پہ مجھے مارا کرتے تھے. قسم لے لیں مجھ سے میں نے انہیں ایسی کوئی جھوٹی بھی امید نہیں دلائی تھی کبھی

بس پھر میں نے آٹھویں جماعت میں مزید محنت اور ابا کی جھوٹی امید کو سچا کرنے کے لیے محنت شروع کر دی. اب کے مسئلہ مزید سنگین تھا وہ اس طرح کہ آٹھویں جماعت کا امتحان بورڈ کا امتحان ہوا کرتا تھا. وہاں دوسرے کتنے ہی سکولوں سے آئے کتنے ہی لڑکے امتحان دیتے تھے. میں نے بھی دیا اور اپنی جماعت میں تیسرے نمبر پہ آیا اور پھر معجزہ ہوا. ابا کے ہاتھ نہ چپل کی طرف گئے اور نہ ہی میری طرف بڑھے. انہوں نے جیسے ٹوٹے دل سے، تاسف سے سر ہلاتے ہوئے مجھے دیکھا اور دس بارہ گالیاں دے ڈالیں. اب گالیاں، تھپڑوں کی طرح نہیں لگتی تھیں سو سب سکون رہا اور اسی سکون میں میں نے فیصلہ کر لیا کہ محنت جائے بھاڑ میں، جتنی کوئی ہو سکی کیا کروں گا، باقی اپنے حساب کتاب سے ذرا گرد و نواح میں اٹھتی جوانیاں دیکھوں کیونکہ آٹھویں جماعت میں علامہ اقبال نے کہا تھا کہ کچھ کر لو نوجوانو، اٹھتی جوانیاں ہیں 

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...