وقت کی قید
ڈرائیور نے ویگن ہلکی سی آگے بڑھائی، سامنے میں کھڑا تھا میں نے زور اور غصے سے ڈرائیور کی بائیں طرف سکرین پہ زور سے ہاتھ مارا " رُک " سب کچھ رک گیا تھا اس لمحے میں، وہ لمحہ ہی رک گیا تھا آتے جاڑے کے دن تھے جن دنوں دھوپ مدہوش جوانی سی اترتی ہے، ہم سب ہر روز کی طرح صبح صبح گورنمنٹ ڈگری کالج کے وسیع گراؤنڈ میں دھوپ سینک رہے تھے جب سالک منہ لٹکائے ہمارے پاس آن کھڑا ہوا "کیوں سالے، اتنی صبح تیرے بارہ کس نے بجا دئیے؟" عارف کی بات پہ سب ہنس دئیے مگر سالک کے منہ پہ بارہ بج کے ایک منٹ ہو گئے "وہ اے جے کے تینتیس تیرہ نے مجھ سے کرایہ لیا ہے، وہ بھی پورا.." اس بات پہ سب سنجیدہ ہو گئے، "تو نے بتایا نہیں کہ تو سٹوڈنٹ ہے؟ “ بارہ بج کے دو منٹ ہو گئے " بتایا تھا، آگے سے کنڈیکٹر کہتا ہے یہ بدمعاشی میرے ساتھ نہیں چلے گی، کرایہ دے ورنہ یہیں راستے میں اتار دوں گا ٹھڈے مار کے، میں نے دے دیا" میں نے گود پہ دھری چادر کمر کے پیچھے سے لا کے سامنے سے دونوں کندھوں ڈالی اور قمیض جھٹک کے کھڑا ہو گیا "تینتیس تیرہ ابھی گیا ہے یہاں سے، دس منٹ میں واپسی ہے ...