Posts

Showing posts from October, 2019

وقت کی قید

ڈرائیور نے ویگن ہلکی سی آگے بڑھائی، سامنے میں کھڑا تھا میں نے زور اور غصے سے ڈرائیور کی بائیں طرف سکرین پہ زور سے ہاتھ مارا " رُک " سب کچھ رک گیا تھا اس لمحے میں، وہ لمحہ ہی رک گیا تھا آتے جاڑے کے دن تھے جن دنوں دھوپ مدہوش جوانی سی اترتی ہے، ہم سب ہر روز کی طرح صبح صبح گورنمنٹ ڈگری کالج کے وسیع گراؤنڈ میں دھوپ سینک رہے تھے جب سالک منہ لٹکائے ہمارے پاس آن کھڑا ہوا "کیوں سالے، اتنی صبح تیرے بارہ کس نے بجا دئیے؟" عارف کی بات پہ سب ہنس دئیے مگر سالک کے منہ پہ بارہ بج کے ایک منٹ ہو گئے "وہ اے جے کے تینتیس تیرہ نے مجھ سے کرایہ لیا ہے، وہ بھی پورا.." اس بات پہ سب سنجیدہ ہو گئے، "تو نے بتایا نہیں کہ تو سٹوڈنٹ ہے؟ “ بارہ بج کے دو منٹ ہو گئے " بتایا تھا، آگے سے کنڈیکٹر کہتا ہے یہ بدمعاشی میرے ساتھ نہیں چلے گی، کرایہ دے ورنہ یہیں راستے میں اتار دوں گا ٹھڈے مار کے، میں نے دے دیا" میں نے گود پہ دھری چادر کمر کے پیچھے سے لا کے سامنے سے دونوں کندھوں ڈالی اور قمیض جھٹک کے کھڑا ہو گیا "تینتیس تیرہ ابھی گیا ہے یہاں سے، دس منٹ میں واپسی ہے ...

جھوٹی امید... پنجابی

‏"جھوٹی امید"  اک سُفنے دی قبر اتے جدے مَتھے لخیا ناں وی وریاں بارشاں دے گل لگ کے اپنے سارے اَکھر رو بیٹھا اے جدی مٹی اپنے اندر ساریاں دُھپاں دی اَگ لے کے اپنی کوکھ ساڑ بیٹھی سی آج اس سُفنے دی قبر اتے اک بے ناواں پھُل اُگیا اے .....  ‎#مقصود_عاصی ‎#MaqsoodAsi

تماشائی

سنتے آئے ہیں کہ زندگی امتحان ہے.. امتحان میں سوال نامہ کیا ہے، کہتے ہیں کہ وہ بھی معلوم ہے، بس جواب درست دینے کی مسلسل تگ و دو میں رہنا جینے کا مقصد ہے... اب ہم ٹھہرے سدا کے نالائق، سامنے کی بات سمجھنے میں ہمیں کئی کئی دن 'ضائع' ہو جاتے ہیں، یہ تو پھر زندگی ہے، الجھی ہوئی ریشم جیسی.. ہمارے پلے کہاں سے پڑتی !! سو آدھی عمر، زندگی کے گھمبیر سوال کی تلاش میں سر کے بال اڑانے اور داڑھی میں سفیدی اتارنے کے بعد ہم نے یہ سوال نامہ پھاڑ کے ہوا میں اچھال دیا ہے اور جواب پہ فاتحہ پڑھ لی ہے... اب ہم کسی بھی شے یا وجود کے ہونے یا نہ ہونے کا جواز تراشتے ہیں نہ جواب تلاشتے ہیں... جب تک ہم تلاش میں تھے، ہم تماشہ تھے... اب ہم تماشائی بن کے بیٹھتے ہیں کبھی ہونہہ کہہ کر سر ہلاتے ہیں اور کبھی دانت نکال کے تالیاں پیٹتے ہیں.. اگر ہم نالائق نہ ہوتے تو یہ بات سمجھنے میں عمر نہ گال دیتے... سامنے دھرے جواب پہ قہقہے لگاتے گلی میں بھاگ گئے ہوتے... بات یوں ہے کہ مولوی فرید ہمارے گاؤں کا ایک کردار تھا... ہمیشہ صاف سفید تہہ بند اور کُرتے میں ،سفید پگڑی باندھے صبح صبح گاؤں سے نکلتی سڑک پہ سائیکل پہ ...