Posts

Showing posts from November, 2019

کوئی نہیں ہے نظم

کوئی نہیں ہے  یہاں پہ ایسا کوئی نہیں ہے جو میری آنکھوں کے پار اترے اور جا کے دیکھے اندھی راتوں میں لمحہ لمحہ میری آنکھوں کے غار میں جو بہ صورتِ جبریل اترے وہ خواب سارے دن کے تپتے چوک میں مجھے صلیب پہ ٹانگتے ہیں پتھروں سے میرے لہو کے چھینٹے اڑاتے عقیدتوں سے سمیٹتے ہیں ثواب سارے کوئی نہیں ہے جو دیکھ پائے عذاب ہیں میرے خواب سارے

کہ تماشا کہیں جسے

یہ شخص، یہ میرے سامنے تَن کے کھڑا یہ شخص، اس چھے فٹ کے 'بونے' شخص نے میری زندگی عذاب بنا کے رکھ دی ہے. نہیں تھا میں ایسا، جیسا مجھے بنا دیا ہے اس نے. ایک عام سے ، اَدھ پڑھے والدین کے گھر میں، درمیانے کسی نمبر پہ پیدا ہوئے کو کچھ بھی خاص نہیں ملا تھا ،کسی انقلابی کی اذاں نہ کسی باغی کی گھٹی. نہ گھر میں علم و ادب کے حوالے شیلف سے باھر ابل رہے تھے نہ گھر کی محفلوں میں علم و فضل کے نئے جہان تراشے جاتے تھے. کچھ بھی ایسا نہیں تھا کہ مجھے اس عذاب تک لے آتا جہاں یہ شخص مجھے لے آیا ہے. مجھے نہیں یاد کب اس چھے فٹ کے بونے شخص سے پہلی بار سامنا ہوا تھا یا کب یہ خبیث مری زندگی کے دائرے میں گھسا تھا اور ایسا گھسا کہ سارا چکر ہی الٹا دیا.  جانے کیسا خناس بھرا ہے اس کے دماغ میں، جانے کس سانپ کا ڈسا ہے کہ ایسے ایسے زہریلے خیالات و سوالات سے کاٹتا ہے کہ سامنے والا پانی بھی نہ مانگ سکے. اس نے میرا قتل کیا ہے، ہاں اس شخص کے لمبے ہاتھوں پہ میرا خون ابھی تک تازہ ہے.  اس نے میرے ایمان کا قتل کیا ہے. اس باتوں کے سوداگر نے پہلے میری چھوٹی سی کائنات کو لامحدود کر دیا اور پھر بـے انتہا خدا کو بـے بس کر ...

پتھروں کی ذات

باھر جون کے آخری دنوں کا سورج قیامت اٹھائے کھڑا تھا اور اندر وہ اپنی تمام حشر سامانیاں لیے میرے سامنے بیٹھی تھی. بالوں کا جوڑا سر کے پیچھے گردن اٹھائے ہوئے تھا. بجلی بند تھی سو پنکھا بھی بند تھا. پسینہ ماتھے پہ موتیوں کی طرح بکھرا پڑا تھا. کان کے پیچھے سے پسینہ لمبی صراحی جیسی گردن پہ نئے راستے کھوجتا سینے کی طرف گامزن تھا. گرمی کی مہربانی سے دوپٹہ میز پہ دھرا تھا اور وہ لان کی پتلی قمیض سے مجھ پہ دو نالی بندوق تانے بیٹھی تھی. "کب تک راشی کب تک، ایسے سب کے سونے کے بعد دوپہر کالی کرنے آتی رہوں گی، چاچا کمال رشتے کی بات کر چکے ہیں ابا سے، سب راضی ہیں، میں کیا کروں، تم کیا کرو گے"  اس کی بھوری آنکھوں میں التجائیں تیر رہی تھیں "مجھے دے گا رشتہ تمہارا ابا؟ کیا ہے میرے پاس، یہ اماں ابا کا چھوڑا ہوا گھر، یہ ایک سکول ویگن اور بس؟ میں موچی کا پتر ہوں آسیہ ،تُو سیدانی ہے، تیرے ابا کے مریدوں کے جوتوں کی عزت مجھ سے زیادہ " بات مکمل بھی نہ ہونے دی اس نے اور میرے ہونٹوں پہ اپنے رس بھرے ہونٹوں کی مہر لگا دی. وہ آدھی چارپائی اور آدھی میری داہنی ٹانگ پہ بیٹھی بار بار مہریں ل...