Posts

Showing posts from January, 2020

لاڈلا

مولوی احتشام الحق کی اذان اور تقریر سارے میں مشہور تھی. جتنے اونچے مسجد کے مینار تھے اتنی ہی اونچی مولوی احتشام کی آواز تھی. اونچے سُروں میں جب گلے سے "حیی علی الفلاح" نکلتا تو قدم مسجد کی طرف چل نکلتے. ارد گرد کے قریباً سبھی گاؤں عید میلاد النبی، سب برات، شب معراج، بڑی گیارہویں، محرم، عاشورہ وغیرہ کے لیے مولوی احتشام کو ہی تقریر کے لیے بلایا کرتے تھے. ایسی جوشیلی تقریر کہ سننے والے جھوم جھوم اٹھتے. ایسی پُر اثر تقریر کہ ابھی پچھلے دس محرم کے دن ان کی تقریر کے دوران بلک بلک کے روتے لوگوں میں چاچا رحمت اتنا روئے تڑپـے کہ مسجد میں ہی دل کا دورہ پڑا اور چل بسے. ختم سے لے کر تعویز تک، سب مولوی صاحب کے پاس ہی جایا کرتے تھے مولوی صاحب فجر سے عشا تک سبھی اذانیں خود دیا کرتے تھے اور سبھی جماعتیں خود کروایا کرتے، کبھی کوئی ختم ، دعوتِ خطاب، سفر یا مسئلہ درپیش ہو تو الگ بات ہے. عصر سے پہلے کبھی مسجد میں اور کبھی اپنے حجرے میں بچوں کو قرآن پڑھایا کرتے تھے. حجرہ کیا تھا، مسجد کے پچھواڑے میں تین کمروں کا پکا مکان تھا جہاں مولوی احتشام اکیلے رہا کرتے تھے. ان کے بیوی بچے آبائی گاؤں خیر نگ...

شہنائی

ڈھول کی تھاپ پہ میرے کندھے نہ چاہتے ہوئے بھی تھرکنے لگتے ہیں مگر آج سامنے والی گلی میں ڈھول بج رہا ہے اور اپنی بیٹھک میں، میں کندھے جھکائے بیٹھا ہوں ڈھول ایک ردھم میں بجتا ہے، پھر زور کی تھاپ شروع ہوتی ہے اور آخر میں ردھم وہی رہتا ہے مگر ڈھول پہ تھاپ کی رفتار تیز تر ہوتی جاتی ہے اور سننے والوں کے پیروں میں جیسے کرنٹ چھوڑ دیا جاتا ہے. ڈھول بج رہا ہو اور بھنگڑا ڈالنے کا من نہ کرنا، دل پہ کالی مہر لگے ہونے کی نشانی ہے ڈھولی ڈھول بجا رہا ہے اور شہنائی جانے کس کا ماتم کر رہی ہے . مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ شہنائی کا شادی پہ کیا مطلب، شہنائی تو چیخ ہے، دل چیرنے دینے والی چیخ اس وقت بیٹھک کے ایک کونے میں میں دبکا بیٹھا ہوں اور ایک چیخ میرے اندر دبکی بیٹھی ہے، بیٹھک میں باھر سے آتے شور کا طوفان ہے اور اندر کہیں گھپ اندھیری چُپ کا آسیب ایک خط سامنے دھرا ہے، خط کیا ہے رقعہ ہے. کاپی کا جلدی میں بے ترتیبی سے پھاڑا ہوا آدھا کاغذ.. آدھی تقدیر کا ٹکڑا... کاغذ پہ نیلی سیاہی میں لکھے کچھ جملے ہیں ، اس پہ چار چھے جگہوں پہ سیاہی پھیلی ہوئی ہے، کچھ لفظوں کے اندر سے طوفان شاید باھر امڈ آیا ہو گا ...

الٹی گنتی

جب یہ حکم مجھ پہ صادر ہوا تب میرے پاس انکار کی گنجائش تو کیا خاک ہوتی، سمجھنے کی عمر بھی نہیں تھی "نبیل حافظِ قرآن بنے گا" حفظ کراتے ہوئے الٹا قرآن حفظ کرانا شروع کراتے ہیں، سو حفظ کا پہلا سبق تیسواں پارہ تھا. پہلے دن کا سبق ہی ہوش اڑانے کو کافی تھی. زبان تھی کہ نہ کبھی بولی نہ سنی، سمجھنی تو بہت دُور کی بات ہے. اب ایک سطر ختم ہوتی تو دوسری شروع کرنے تک پچھلی بھول جاتی مولوی صاحب کے پاس جاتے کوئی چوتھا پانچواں دن تھا اور جو پچھلے دنوں رٹا لگایا تھا وہ سناتے ہوئے بار بار گڑبڑ ہو رہی تھی. دو تھپڑ بھی رٹا ہوا سبق یاد نہیں کرا سکے تھے کہ میں نے روتے ہوئے قمیض سے بہتی ناک صاف کرتے تقریباً منت کرتے ہوئے کہا کہ "مولوی صاحب، کوئی قرآن اردو میں نہیں ملتا کہیں سے؟ وہ آسانی سے رٹ لوں گا میں" مولوی صاحب کی داڑھی میں جیسے طوفان آ گیا، میرے سر کے بال پکڑے اور اپنے گوڈے کے نیچے میرا سر دے کے میری کمر پہ تھپڑوں کی موسلا دھار بارش کر دی "معاف کر دیں مولوی صاحب، معاف کر دیں، آئندہ نہیں کہوں گا" شکایت ابا کو لگائی گئی تو مسجد اور گھر میں فرق ہی مٹ گیا. وہاں خدا کے گ...