بَنیـے کی حویلی
سردیوں کی دھوپ تھی، چھت کی منڈیر پہ مالٹے چھیلتے اور کھاتے سامنے 'بَنیـے کی حویلی' کی چھت پہ نظر پڑی، وہ انگڑائی لینے کے بعد بازو نیچے گرا رہی تھی اور سِلک کی قمیض میں اٹھتے مدوجزر، میری سانسوں کی کشتی الٹنے کو کافی تھے ہمارے چھت سے دو چھت چھوڑ کے وہ گھر تھا. گھر قبل از تقسیم کا تھا، لوگ کہتے تھے کہ کسی امیر ہندو بَنیـے کا گھر تھا، سرخ اینٹوں اور بھاری بھر کم لکڑی کے دروازے اور کھڑکیوں سے بنا یہ گھر 'بَنیـے کی حویلی' کہلاتا تھا گو کہ حویلی والی کوئی بات نہیں تھی اس میں. لوگ کہتے تھے کہ اس گھر کے ہندو مالک کے پاس اتنا سونا تھا کہ اس نے صحن بھی ایسا بنوایا تھا کہ جس کے چاروں طرف گھر کے کمرے اور دیواریں تھیں اور صحن میں دھوپ تک کا گزر نہیں تھا، چور کیسے گھستا اب یہ گھر دو بھائیوں امتیاز اور اعجاز کے پاس تھا. امتیاز دوبئی نوکری کرتا تھا اور اعجاز فیصل آباد کی کسی کپڑے کی مل میں ملازم تھا. وہ امتیاز کی بیوی تھی. نام اس کا نائلہ تھا اور کسی دور دراز کے شہر سے آئی تھی. اس کی ایک بیٹی تھی جو کچھ ماہ کی تھی سردیوں میں جتنے درختوں پہ پتے رہ جاتے ہیں اتنے کوئی میری مونچھ کے...