Posts

Showing posts from July, 2020

تیسری ‏برسی ‏

جیسے گرتے ہیں پت جھڑ میں جھڑ جھڑ کے خشک پتے ایسے ہرا بھرا گرتا ہوں میں لیے پھرتی ہیں تیری یادوں کی ہوائیں مجھے در بدر، کو بہ کو دھوپ پھانکتا رہتا ہوں اور پھر ڈھونڈتا رہتا ہوں تیری آواز کے سائے چُنتا رہتا ہوں گئے وقت کے ٹوٹے سارے پھر ان سے بُنتا ہوں تیرے جسم کے تانے بانے وہی جسم کہ جس کا اک ٹکڑا ہوں میں وہی ٹکڑا جو ہرا بھرا روز ٹوٹ کے گرتا ہے 31 جولائی 2020 

مرن ‏ویہلے ‏دی ‏گل ‏

میں اج راتیں مر گیا تے میرے دن تے رات دے ساتھی مینوں مٹی تھلے نہ دبیں میں مٹی دا پتر نئیں اپنیاں پریتاں تے ہورے کدے کدے دکھاں دی بھانبھڑ بلدی اَگ نال میں اپنی چھاتی ساڑ بیٹھا واں میرے کلبوت نوں وی ساڑ دیناں تے باقی بچے گی راکھ جے میری اونہوں اُچے کسے پہاڑ تے جا کے جس پہاڑ توں تھلے جے ویکھیں نیلے تے ہرے رنگ کا دریا وی دِسے اوس پہاڑ تے کھلو کے ساتھی میرے راکھ نوں رکھیں ہوا دی تلی تے دل نال مینوں وداع کر دیویں تھلے ویندے دریا دے ناں کر دیویں 

یاکاھو ‏کا ‏خوف

یہ تب کی بات ہے جب انسان اپنے جسم پہ لدے بالوں سے کافی حد تک جان چھڑا چکا تھا اور غاروں اور جنگلوں میں رہتے ہوئے سر کے اوپری خانے کو استعمال کرنا سیکھ رہا تھا اور انسانی نسل کے "آدمی" تک پہنچنے کی راہ ہموار کر رہا تھا . گھر اور خاندان کے مروجہ اصولوں سے کہیں نابلد مگر شام تک غار میں لوٹنے اور اپنے قبیلے کے ساتھ ہی رہنے کے طریقہ کار تک بتدریج پہنچ رہا تھا اس کا نام 'یاکاھو' فرض کر لیتے ہیں یاکاھو افریقہ کے جنگلوں سے نکلے اور شمال کی طرف چلتے، رکتے، بستے اور پھر سفر کرتے ایک مسلسل قبیلے کا انسان تھا. اس کی عمر ابھی بہت کم تھی سو زیادہ تر وہ غار کے آس پاس ہی ہم جولیوں کے ساتھ کھیلتا کودتا رہتا تھا یہ اس دن کی بات ہے جس دن تیز ہواؤں کے بعد موسلا دھار بارش شروع ہو چکی تھی. دن کی روشنی پہ گھنے کالے بادلوں کا سایہ تھا. سبھی غار کے اندر دبکے پڑے تھے اور یاکاھو اپنی غار کے دہانے پہ کھڑا کالے آسمان سے گرتے قطروں کو دیکھ رہا تھا جو زمین پہ سر پٹخ رہے تھے. اچانک آسمان سے تیز روشنی لپکی، یاکاھو کی آنکھیں چندھیا گئیں اور پھر بجلی کی کڑک ایسی تھی کہ جیسے پہاڑ ہی الٹ دے گی. یاکا...