Posts

Showing posts from 2021

آخری رقعہ

کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آپ کے اندر جیسے دھواں سا بھر جاتا ہے، سانس لینا پھیپھڑوں سے جنگ لگتا ہے، آپ سانس کو جیسے کسی اندھے کنوئیں سے کھینچ کے لاتے ہیں جو اوپر آتے آتے ادھ موئی ہو جاتی ہے اور آپ اس دنگل میں ڈھے جاتے ہیں اس کی طرف سے خط وصول ہوا تھا، خط کیا تھا، ایک رقعہ تھا جسے بـے ڈھنگے طریقے سے کتاب سے پھاڑا گیا تھا. نیلی پنسل سے سب سے اوپر لکھا تھا "آخری رقعہ"..ان دو الفاظ نے جیسے آنکھوں کے پاؤں جکڑ لیے تھے، ان دو الفاظ کو کتنی دیر حروف میں توڑتا اور جوڑتا رہا، بار بار یہ عمل دوہرانے سے جیسے معانی بدل جائیں گے آگے لکھا تھا "سعد نہ میں بدلی ہوں نہ میری محبت، بس میری قسمت بدلی ہے اور مجھے کسی کالے اندھے کنوئیں میں لے آئی ہے، جہاں آپ کو میں کہیں بھی نہیں دیکھتی، جہاں میں خود کو بھی نہیں دیکھ پا رہی. اور جہاں میں نہیں، وہاں آپ کیسے ہوں گے، سو ہم دونوں اس زندگی کے کنوئیں میں کہیں بھی اکٹھے نہیں ہوں گے" بس آگے کچھ بھی نہیں تھا.. اس سے آگے اور ہو بھی کیا سکتا تھا سعدیہ، میری چھوٹی بہن ارم کی دوست تھی اور کلاس فیلو بھی.. ارم کے ساتھ پہلی بار گھر آئی تھی تو لگا جیسے ط...

چین ‏سموکر ‏

سجّے ہتھ دی دو انگلاں اچ دبیا ہویا سِغٹ بلدے بجھدے تارے وانگوں پھڑک رہیا اے  کدرے اندروں کدرے کلبوت دی پِشلی کوٹھڑی اندروں  کھِچ تُرو کے لیاندا ساہ گلے تکر آندا مر جاندا اے  اوس مرے ہوئے ساہ دی چِتا نوں ساڑ دینا واں تے فیر اوس تُوویں دے ساہ لینا واں

حقیت ‏کی ‏تعبیر

غسل خانے کی دیوار پہ ایک ہی آئینہ ٹنگا تھا جس کے نیچے والے دونوں کونے سیاہ پڑ چکے تھے اور ان کی سیاہی اوپر کی طرف ایسے بڑھ رہی تھی جیسے کوئی بیل دیوار چڑھتی ہے. تازہ شیو کے بعد میرے گالوں سے جیسے دھواں نکل رہا تھا. کنگے سے سر کے داہنی طرف مانگ نکالتے ہوئے مجھے گاؤں کے بیچوں بیچ گزرتی سڑک یاد آ گئی، جو ہوبہو ایسے لگتی تھی جیسے کسی نے سر کے عین درمیان میں کَس کے مانگ نکالی ہو. وہی سڑک مجھے اس شہر میں لائی تھی جہاں ایک رہائشی عمارت میں ایک کمرے کا گھر تھا، جہاں اب ہم تین لوگ ایک کچن اور غسل خانہ شئیر کرتے تھے، اور اسی غسل خانے میں سیاہ پڑتے آئینے کے سامنے میں تیار ہو کے جاب انٹرویو کے لیے نکلنے والا تھا شہر نیا تھا، راستے نئے تھے، زندگی کی کروٹ نئی تھی اور نئی پینٹ اور بش شرٹ میں، میں بھی نیا نیا ہی لگ رہا تھا. ٹائی باندھنا میں پہلے ہی یوٹیوب سے سیکھ چکا تھا. تیار ہو کے گلی میں نکلا، سامنے ارشاد جنرل سٹور سے چیونگم کا پیکٹ لیا اور جیب میں رکھ کے رکشے کا انتظار کرنے لگا. کچھ ہی لمحوں میں رکشے کی آواز کانوں میں پھڑ پھڑ کرنے لگی، مڑ کے دیکھا اور دور سے آتے رکشے کو ہاتھ دیا. رکشہ ڈرائیور بڑھ...

تیرھواں ‏پارہ ‏

عصر کا وقت سر پہ تھا اور مسجد میں مولوی عبدالحق کا سایہ تک نہ تھا. جون کی تپتی دوپہر تھی، ماسٹر انعام اللہ کے علاوہ اکا دکا نمازی ہی تھے جو دیواروں سے لگے سستا رہے تھے. ماسٹر جی نے دیوار کا سہارا لے کے اپنا فربہی جسم اٹھایا اور پھر گھٹنوں پہ ہاتھ رکھ کے آہستہ آہستہ کھڑے ہوئے. گھڑی کی سوئیاں ٹک ٹک چکر لگا رہی تھیں. ماسٹر جی نے ادھر ادھر دیکھا اور گھڑی کو گھورتے ہوئے سپیکر کی طرف بڑھے. سپیکر آن کیا اور اپنی منحنی آواز میں اللہ اکبر اللہ اکبر کی آواز لگانی شروع کر دیں . ماسٹر جی حتی الامکان کوشش کرتے تھے کہ وہ اذان نہ ہی دیں کیونکہ ان کی آواز ان کے جثے کے بالکل برعکس تھی. خیر اذان تھی، چار رکعت سنت پڑھی، سلام پھیر کے دیکھا تو مولوی عبدالحق ابھی تک مسجد نہیں پہنچے تھے. مولوی عبدالحق مسجد کی پچھلی گلی میں ہی رہتے تھے، مسجد کی طرف سے رہائش ملی تھی وہ خود نواں والی سے تھے. ماسٹر جی نے وقار مچھی کو بھیجا کہ جاؤ مولوی صاحب کو بلا کے لاؤ، شاید سو گئے ہوں گے. جماعت کے وقت میں پانچ منٹ باقی تھے کہ وقار مچھی دوڑتا ہانپتا آیا اور بتایا کہ دروازے کو باھر سے تالا لگا ہوا ہے.. پہلے سب حیران ہوئے اور پھ...

جانی جا ‏

اس وقت جویریہ شاہ کی ساری دنیا، سفید کپڑے کے ایک ٹکڑے پہ اٹکی ہوئی تھی جسے رومال کہتے ہیں. اسے اس رومال پہ کچھ لکھنا تھا، وہ جویریہ شاہ جس کے چپل بھی کام والیاں سیدھے کر کے رکھتی تھیں، اسے اپنے ہاتھوں سے اس رومال پہ نام کاڑھنا تھا. ماسی نذراں سے اس نے ایک عدد سوئی اور دو دھاگے کی نلکیاں منگوا لی تھیں جو سامنے پڑی تھیں. اس نے پہلے سرخ رنگ کی نلکی اٹھائی، دھاگہ سوئی میں ڈالنا بھی ایک لمبی جدوجہد کے بعد ممکن ہوا تھا. سرخ رنگ سے رومال کے چاروں طرف ایک لائن بنانے کی اس کی کوشش کامیاب تو ہو گئی مگر لائن سیدھی کہیں سے بھی نہیں تھی. اس نے سر جھٹکا اور پھر سے دوسری نلکی، جو کہ گہرے سبز رنگ کی تھی، کا دھاگہ سوئی میں ڈالنے کی کوشش میں جت گئی. اس کے بالوں کی لٹیں دائیں بائیں سے اس کے چہرے پہ جھول رہی تھیں، ماتھے اور ہتھیلیوں پہ پسینے کی نمی تھی اور وہ اپنے تئیں دوسری لائن سیدھی بنانے میں مگن تھی. وہ لائن ختم ہوئی اور اس نے دھاگہ دانتوں میں لے کے کاٹ دیا. "ہمممم... سیدھی نہیں ہیں مگر بری بھی نہیں لگ رہیں" تسلی نما سرگوشی کرنے کے بعد اس نے سرخ رنگ کی نلکی دوبارہ اٹھائی اور رومال کے بالکل د...

کارڈیالوجی ‏وارڈ

کمرے میں اتنی خاموشی تھی کہ وہ اپنی سانسوں کی آواز سے باتیں بنا سکتا تھا. باتیں جنہیں بنانے میں وہ بچپن سے ہی نا آشنا تھا. بچپن کیا، اس کا لڑکپن، جوانی اور پھر جاتی جوانی میں اس کمرے کی خاموشی تک، اس کی عمر صرف باتیں سننے میں ہی صَرف ہو گئی تھی گھر میں اپنے بہن بھائیوں سے بھی اس کی باتیں کم ہی ہوا کرتی تھیں. بڑے بہن بھائیوں کا ایک رعب تھا جو اتنا ہی فرض تھا جتنا ماں باپ کا احترام. باپ نے جو کہا حکمِ خداوندی سمجھا، باپ کی مار اور ڈانٹ کو بھی خدا کا قہر اور اپنی ہی خطا سمجھا. ماں نے کبھی غصے سے اور زیادہ تر پیار سے جو کام کہا، کر دیا. بڑے بہن بھائیوں کی باتیں بھی ناک بھوں چڑھا کے سہی، مانیں ضرور، آگے سے باتیں نہیں کیں پہلے مسجد میں ناظرہ قرآن پڑھا، سبق یاد نہ ہوا تو مار بھی کھائی مگر آگے سے بولا بھی نہیں، کبھی گھر آ کے شکایت بھی نہیں کی. سکول میں اساتذہ مختلف جماعتوں میں جو پڑھاتے رہے، سکھاتے رہے، کچھ ذہن نشین کیا باقی کا رٹا لگا کے پرائمری سے ہائی سکول بھی پاس کر لیا. کلاس کیا ہر سکول میں، جہاں بھی وہ گیا، اپنی کم گوئی کی نشانیاں چھوڑتا آیا وہ گونگا نہیں تھا مگر کہیں بھی بیٹھا وہ گون...

خراب ‏کیسٹ ‏

گرمی تھی یا ہمارا گاؤں ہی تندور میں تھا. گلیاں سونی پڑی تھیں،کتے بھونکنا بھول گئے تھے، زبان نکالے کہیں کوئی دیوار کے سائے یا کوئی تھڑے کے نیچے لیٹا ہوا تھے. بستے سے صافہ نکال کے گردن اور سر پہ ڈالے میں سکول سے گھر جا رہا تھا جیسے ہی میں گھر میں داخل ہوا تو باجی نسرین، چاچو کے کمرے سے نکل رہی تھی ، ایک نظر اس نے مجھے دیکھا اور لپک کے اپنے کمرے میں گھس گئی. اس کا چہرہ تھا کہ کوئی دہکتا انگارہ، لال سرخ جیسے اماں بجھتے چولہے میں جب پھونکنی مارتی تھی تو انگارے جیسے جل اٹھتے تھے، بالکل ویسے ہی سرخ میں نے بستہ برآمدے کے کونے میں پھینکا اور اماں کے کمرے میں گیا جہاں اماں اور ابا دونوں اونگھ رہے تھے، فرج انہیں کے کمرے میں تھی سو پانی کا جگ نکالا اور لے کے باجی نسرین کے کمرے میں آ گیا باجی اپنی چارپائی پہ سمٹ کے لیٹی ہوئی تھی اور کانپ رہی تھی، جیسے سردیوں میں ٹھنڈے پانی سے نہا کے نکلی ہو.. میں نے جگ میز پہ دھرا اور انہیں ہلانے کے لیے ہاتھ ہی لگایا تھا کہ جیسے وہ تڑپ کے دیوار سے جا لگی.. "باجی میں ہوں، عاصم، ابھی سکول.." میری بات میرے منہ میں ہی دم توڑ گئی، باجی کی آنکھیں جیسے خون سے...

آدھی ‏ملاقات ‏

14 فروری 1998 سلام دعا میڈم نازی میں آپ کا بہت بڑا فین ہوں یہ ایک جملہ میرے احساسات کے ساتھ انصاف نہیں کرتا ہم پانچ دوستوں نے مل کے پاکستانی فلم " بہاراں" دیکھنے کی ٹھانی. ہمارے گاؤں سے نزدیک ترین سینما ہال کوئی سوا دو سو کلومیٹر دور ہے، اس لیے قریبی فلم سٹور سے فلم بھی کرائے پہ لی اور وی سی آر بھی آپ کو عجیب لگا ہو گا، ہے ناں مگر ہمارے ادھر ایسے ہی چلتا ہے ثاقب کی بیٹھک میں ہم نے سینما کا ماحول بنا لیا کہ سب کھڑکیاں دروازے بند، گھپ اندھیرا اور فلم چل رہی ہے. فلم کے تیسرے منٹ اور بیالیسویں سیکنڈ پہ فلم کی ہیروئین کی انٹری ہوتی ہے. کریم کلر کی ساڑھی پہ جابجا خوبصورت رنگوں کے پھول کڑھے ہوئے، کھلے سرخی مائل بال سورج کی روشنی میں ہوا میں اڑتے ہوئے، جیسے ابھی آگ پکڑ لیں گے آپ کے سکرین پہ آنے کے منٹ سیکنڈز بھی یاد ہیں مجھے، آپ تو پھر آپ ہیں. سو یہ جملہ کہ میں آپ کا بہت بڑا فین ہوں ،ناکافی ہے جانے یہ اخبارِ نوجہاں والے واقعی یہ خط آپ تک پہنچائیں گے کہ نہیں.. لکھا تو یہی تھا کہ "اپنے محبوب فنکار کو خط لکھیں، آپ کا خط ہم پہنچائیں گے" اب جانے وہ کیسے پہنچائیں گے یہ ...

گلابی دھبـّے

میری شادی اور کاظم سے، یہ بم نما خبر میرے سر پہ پھوڑی گئی تھی. اس دھماکے کے بعد کانوں میں مچھروں کی سی بھن بھن شروع ہو گئی تھی اور زبان پہ جیسے کسی نے کوئی وزنی پتھر رکھ دیا ہو. حلق تک وہ سوکھا پڑا تھا کہ سانس بھی رک رک کے نکل رہی تھی یہ نہیں تھا کہ کاظم کوئی لوفر بدمعاش تھا، نہ ہی اسے کوئی موذی بیماری تھی، ہاتھ پیر بھی سلامت تھے، پچھلے ساڑھے تین سال سے وہ کریانے کی اپنی دوکان کھول کے اچھا خاصا کما بھی رہا تھا. یہ بھی نہیں تھا کہ مجھے کوئی اور پسند ہو مسئلہ یہ تھا چھے سال پہلے باجی سعدیہ اور کاظم کی لو سٹوری شروع ہوئی تھی اور ان کے تمام تر خطوط، عید و سالگرہ کے کارڈز اور رقعہ جات کی قاصد میں رہی تھی. دونوں اطراف کے پیغامات میں خود پڑھتی رہی تھی. دونوں کی محبت تابڑ توڑ تھی. ایک ہی محلے میں رہنے کی وجہ ان کا آمنا سامنا ملنا ملانا ہوتا ہی رہتا تھا مگر پھر بھی پیغامات قریباً ہر دوسرے روز پہنچائے جاتے تھے. چاند راتوں پہ تحائف بھی میرے ذمے تھے کہ پہنچائے جائیں. بات خط و کتابت سے بڑھی اور خفیہ ملاقاتیں بھی ہوئیں جن میں، میں باجی سعدیہ کے ساتھ ہی جاتی تھی. اتنی نا سمجھ تو میں تھی نہیں کہ ملا...