گلابی دھبـّے
میری شادی اور کاظم سے، یہ بم نما خبر میرے سر پہ پھوڑی گئی تھی. اس دھماکے کے بعد کانوں میں مچھروں کی سی بھن بھن شروع ہو گئی تھی اور زبان پہ جیسے کسی نے کوئی وزنی پتھر رکھ دیا ہو. حلق تک وہ سوکھا پڑا تھا کہ سانس بھی رک رک کے نکل رہی تھی یہ نہیں تھا کہ کاظم کوئی لوفر بدمعاش تھا، نہ ہی اسے کوئی موذی بیماری تھی، ہاتھ پیر بھی سلامت تھے، پچھلے ساڑھے تین سال سے وہ کریانے کی اپنی دوکان کھول کے اچھا خاصا کما بھی رہا تھا. یہ بھی نہیں تھا کہ مجھے کوئی اور پسند ہو مسئلہ یہ تھا چھے سال پہلے باجی سعدیہ اور کاظم کی لو سٹوری شروع ہوئی تھی اور ان کے تمام تر خطوط، عید و سالگرہ کے کارڈز اور رقعہ جات کی قاصد میں رہی تھی. دونوں اطراف کے پیغامات میں خود پڑھتی رہی تھی. دونوں کی محبت تابڑ توڑ تھی. ایک ہی محلے میں رہنے کی وجہ ان کا آمنا سامنا ملنا ملانا ہوتا ہی رہتا تھا مگر پھر بھی پیغامات قریباً ہر دوسرے روز پہنچائے جاتے تھے. چاند راتوں پہ تحائف بھی میرے ذمے تھے کہ پہنچائے جائیں. بات خط و کتابت سے بڑھی اور خفیہ ملاقاتیں بھی ہوئیں جن میں، میں باجی سعدیہ کے ساتھ ہی جاتی تھی. اتنی نا سمجھ تو میں تھی نہیں کہ ملا...