خراب کیسٹ
گرمی تھی یا ہمارا گاؤں ہی تندور میں تھا. گلیاں سونی پڑی تھیں،کتے بھونکنا بھول گئے تھے، زبان نکالے کہیں کوئی دیوار کے سائے یا کوئی تھڑے کے نیچے لیٹا ہوا تھے. بستے سے صافہ نکال کے گردن اور سر پہ ڈالے میں سکول سے گھر جا رہا تھا جیسے ہی میں گھر میں داخل ہوا تو باجی نسرین، چاچو کے کمرے سے نکل رہی تھی ، ایک نظر اس نے مجھے دیکھا اور لپک کے اپنے کمرے میں گھس گئی. اس کا چہرہ تھا کہ کوئی دہکتا انگارہ، لال سرخ جیسے اماں بجھتے چولہے میں جب پھونکنی مارتی تھی تو انگارے جیسے جل اٹھتے تھے، بالکل ویسے ہی سرخ میں نے بستہ برآمدے کے کونے میں پھینکا اور اماں کے کمرے میں گیا جہاں اماں اور ابا دونوں اونگھ رہے تھے، فرج انہیں کے کمرے میں تھی سو پانی کا جگ نکالا اور لے کے باجی نسرین کے کمرے میں آ گیا باجی اپنی چارپائی پہ سمٹ کے لیٹی ہوئی تھی اور کانپ رہی تھی، جیسے سردیوں میں ٹھنڈے پانی سے نہا کے نکلی ہو.. میں نے جگ میز پہ دھرا اور انہیں ہلانے کے لیے ہاتھ ہی لگایا تھا کہ جیسے وہ تڑپ کے دیوار سے جا لگی.. "باجی میں ہوں، عاصم، ابھی سکول.." میری بات میرے منہ میں ہی دم توڑ گئی، باجی کی آنکھیں جیسے خون سے...