تیرھواں پارہ
عصر کا وقت سر پہ تھا اور مسجد میں مولوی عبدالحق کا سایہ تک نہ تھا. جون کی تپتی دوپہر تھی، ماسٹر انعام اللہ کے علاوہ اکا دکا نمازی ہی تھے جو دیواروں سے لگے سستا رہے تھے. ماسٹر جی نے دیوار کا سہارا لے کے اپنا فربہی جسم اٹھایا اور پھر گھٹنوں پہ ہاتھ رکھ کے آہستہ آہستہ کھڑے ہوئے. گھڑی کی سوئیاں ٹک ٹک چکر لگا رہی تھیں. ماسٹر جی نے ادھر ادھر دیکھا اور گھڑی کو گھورتے ہوئے سپیکر کی طرف بڑھے. سپیکر آن کیا اور اپنی منحنی آواز میں اللہ اکبر اللہ اکبر کی آواز لگانی شروع کر دیں . ماسٹر جی حتی الامکان کوشش کرتے تھے کہ وہ اذان نہ ہی دیں کیونکہ ان کی آواز ان کے جثے کے بالکل برعکس تھی. خیر اذان تھی، چار رکعت سنت پڑھی، سلام پھیر کے دیکھا تو مولوی عبدالحق ابھی تک مسجد نہیں پہنچے تھے. مولوی عبدالحق مسجد کی پچھلی گلی میں ہی رہتے تھے، مسجد کی طرف سے رہائش ملی تھی وہ خود نواں والی سے تھے. ماسٹر جی نے وقار مچھی کو بھیجا کہ جاؤ مولوی صاحب کو بلا کے لاؤ، شاید سو گئے ہوں گے. جماعت کے وقت میں پانچ منٹ باقی تھے کہ وقار مچھی دوڑتا ہانپتا آیا اور بتایا کہ دروازے کو باھر سے تالا لگا ہوا ہے.. پہلے سب حیران ہوئے اور پھ...