آخری رقعہ
کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آپ کے اندر جیسے دھواں سا بھر جاتا ہے، سانس لینا پھیپھڑوں سے جنگ لگتا ہے، آپ سانس کو جیسے کسی اندھے کنوئیں سے کھینچ کے لاتے ہیں جو اوپر آتے آتے ادھ موئی ہو جاتی ہے اور آپ اس دنگل میں ڈھے جاتے ہیں اس کی طرف سے خط وصول ہوا تھا، خط کیا تھا، ایک رقعہ تھا جسے بـے ڈھنگے طریقے سے کتاب سے پھاڑا گیا تھا. نیلی پنسل سے سب سے اوپر لکھا تھا "آخری رقعہ"..ان دو الفاظ نے جیسے آنکھوں کے پاؤں جکڑ لیے تھے، ان دو الفاظ کو کتنی دیر حروف میں توڑتا اور جوڑتا رہا، بار بار یہ عمل دوہرانے سے جیسے معانی بدل جائیں گے آگے لکھا تھا "سعد نہ میں بدلی ہوں نہ میری محبت، بس میری قسمت بدلی ہے اور مجھے کسی کالے اندھے کنوئیں میں لے آئی ہے، جہاں آپ کو میں کہیں بھی نہیں دیکھتی، جہاں میں خود کو بھی نہیں دیکھ پا رہی. اور جہاں میں نہیں، وہاں آپ کیسے ہوں گے، سو ہم دونوں اس زندگی کے کنوئیں میں کہیں بھی اکٹھے نہیں ہوں گے" بس آگے کچھ بھی نہیں تھا.. اس سے آگے اور ہو بھی کیا سکتا تھا سعدیہ، میری چھوٹی بہن ارم کی دوست تھی اور کلاس فیلو بھی.. ارم کے ساتھ پہلی بار گھر آئی تھی تو لگا جیسے ط...