Posts

Showing posts from January, 2023

پرانا دوزخ

آج موسم ہے کہ حُسن کی معراج پہ ہے گویا. نیلے آسمان کی جھیل میں کہیں کہیں سفید بگلے تیر رہے ہیں. سورج تک خوشگوار موڈ میں ہے. گرمی ہے مگر ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا بھی رواں ہے. میں لنچ بار میں باھر کھلے میں رکھی کرسی پہ بیٹھا ٹھنڈی ٹھار بئیر کے ساتھ brie cheese کے مزے لے رہا ہوں   ساتھ والی کرسی پہ ایک  عمر رسیدہ شخص وائٹ وائن کے سِپ لے رہا ہے. عمر کا اندازہ چہرے کی جھریوں، بازوؤں سے پروں کی طرح لٹکتے ماس اور ہاتھوں کی نیلی نَسوں سے نوے سال کا لگتا ہے یا پھر شاید سو کو چھو رہا ہو. عمر کتنی بھی گزری ہو اس کے بال سر پہ پورے ہیں. دودھ کی طرح سفید اور گھنے اور لمبے بال، جنہیں سر کے پچھواڑے باندھا ہوا ہے . کیپ میز پہ دھری ہے، آدھا پھونکا سگار ایش ٹرے میں ہے اور رے بین کی پائلٹ عینک آنکھوں پہ. وقفے وقفے سے بڑی نزاکت سے وائن کا گلاس ہونٹوں تک جاتا ہے، ایک سِپ لی جاتی ہے اور وہ پھر میز پہ لوٹ آتا ہے  سامنے آسمان کے ساتھ رنگ کا مقابلہ کرتا نیلا سمندر ہے. لوگ آ جا رہے ہیں اور پھر اچانک ایک ادھیڑ عمر شخص سامنے سے گزرتے ہوئے پہلے مجھے مسکراہٹ پھینکتا ہے جو ہمارے ہاں عام رویہ ہے، پھر اسی مسکر...

میں ہی کیوں

مجھے سمجھ نہیں آتی کہ تمہارا مسئلہ ہے کیا، کیا نہیں ہے تمہارے پاس، کیا ہے جو تمہیں نہیں ملتا، کس شے کی کمی ہے تمہیں؟ ابو بول رہے تھے.. تم بہن بھائیوں کے لیے دن رات ایک کیا ہوا ہے، برینڈڈ کپڑے، برینڈڈ جوتے، نئے سے نیا موبائل، اور کیا چاہیے تمہیں؟؟ میں ان کے سامنے صوفے کے داہنی کونے میں بیٹھی سن رہی تھی مگر سنتے ہوئے ان کی آواز ایسے لگتا تھا جیسے گھر کے آخری کمرے سے آ رہی ہو. دل کا دھڑکنا تو دو چار گہری اور لمبی سانسیں لینے کے بعد آپ محسوس کر سکتے ہیں، کیا آپ نے کبھی کان دھڑکتے محسوس کیے ہیں؟ میرے کان دھک دھک دھک دھک دھڑک رہے تھے بولو، بولتی کیوں نہیں ہو اب؟ ابو کی آواز اونچی ہو رہی تھی. ادھر دیکھو، سامعہ ادھر دیکھو.. میری گردن مزید ڈھلکی جا رہی تھی، ٹھوڑی چھاتی کو چھو رہی تھی ادھر دیکھ، بہری ہو گئی ہے کیا؟ ابو کی آواز اتنی سخت اور اونچی تھی کہ میری گردن خودبخود اونچی ہو گئی. میں نے ابو کی طرف دیکھا. ان کی آنکھیں مجھے چِیر رہی تھیں. دل تیز سے تیز تر دوڑے جا رہا تھا اور پیٹ جیسے کسی سے رسی سے کَسنا شروع کر دیا ہو، میری آنکھیں بائیں ہاتھ کی کلائی پہ بندھی سفید پٹی پہ جمی ہوئی تھیں بول، ...

رائیگانی

مجھے زندگی سے نفرت ہے اور میری زندگی کی سب سے پہلی نفرت 'پڑھائی' تھی. یہ ایک ایسی چڑیل تھی جس نے میرا بچپن ایک ہی لقمہ کر کے ہڑپ کر لیا تھا. کیسا بدبخت انسان ہو گا وہ جس نے سکول میں کلاسیں بنائیں اور پھر کلاسوں میں نمبر ون نمبر ٹو اور نمبر تھری والی نفرت پیدا کی، اور پھر وہ ناہنجار یہیں پہ رکا نہیں، پاس ہونے اور فیل ہونے کے لیے بھی نمبر بنا ڈالے میں جب پیدا ہوا تب کیا ہوا تھا، پھر میری سانسوں اور قد کے ساتھ بڑھتے سالوں میں کیا کیا ہوا، مجھے یاد نہیں، یا یوں کہہ لیں مجھے ہوش نہیں. زندگی کی پہلی یاد جو سر کے پچھواڑے میں کہیں ثبت ہو گئی تھی وہ یہ ہے کہ میں بہتی آنکھوں اور بہتے ناک کے ساتھ مسلسل آگے پیچھے ہِل ہِل کے سرہانے پہ رکھے قرآن سے سبق پڑھ رہا تھا اور رونے کی وجہ یہ تھی کہ میں لفظ صحیح سے تلفظ نہیں کر پاتا تھا، پڑھتے ہوئے کچھ الفاظ کو جوڑ کے پڑھنا میرے لیے بہت مشکل تھا. اس مشکل پہ مزید مشکل ابا کی جھڑکیاں تھیں جو اس وقت تھپڑوں جیسی لگتی تھیں اور رونا تو جیسے میرے سرہانے دھرا رہتا تھا یہ سکول نامی ٹارچر سیل میں جانے سے پہلے کی یاد تھی.. پہلی کلاس میں ابا پہلے دن چھوڑ کے آئ...