پرانا دوزخ
آج موسم ہے کہ حُسن کی معراج پہ ہے گویا. نیلے آسمان کی جھیل میں کہیں کہیں سفید بگلے تیر رہے ہیں. سورج تک خوشگوار موڈ میں ہے. گرمی ہے مگر ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا بھی رواں ہے. میں لنچ بار میں باھر کھلے میں رکھی کرسی پہ بیٹھا ٹھنڈی ٹھار بئیر کے ساتھ brie cheese کے مزے لے رہا ہوں ساتھ والی کرسی پہ ایک عمر رسیدہ شخص وائٹ وائن کے سِپ لے رہا ہے. عمر کا اندازہ چہرے کی جھریوں، بازوؤں سے پروں کی طرح لٹکتے ماس اور ہاتھوں کی نیلی نَسوں سے نوے سال کا لگتا ہے یا پھر شاید سو کو چھو رہا ہو. عمر کتنی بھی گزری ہو اس کے بال سر پہ پورے ہیں. دودھ کی طرح سفید اور گھنے اور لمبے بال، جنہیں سر کے پچھواڑے باندھا ہوا ہے . کیپ میز پہ دھری ہے، آدھا پھونکا سگار ایش ٹرے میں ہے اور رے بین کی پائلٹ عینک آنکھوں پہ. وقفے وقفے سے بڑی نزاکت سے وائن کا گلاس ہونٹوں تک جاتا ہے، ایک سِپ لی جاتی ہے اور وہ پھر میز پہ لوٹ آتا ہے سامنے آسمان کے ساتھ رنگ کا مقابلہ کرتا نیلا سمندر ہے. لوگ آ جا رہے ہیں اور پھر اچانک ایک ادھیڑ عمر شخص سامنے سے گزرتے ہوئے پہلے مجھے مسکراہٹ پھینکتا ہے جو ہمارے ہاں عام رویہ ہے، پھر اسی مسکر...