طوائف کا کوٹھا
میرا دِل ہے کہ طوائف کا کوٹھا، جو بھی آیا کچھ دیر رکا پھر دل سے اتر گیا. مستقل محبت، مزاج میں ہے ہی نہیں. مگر یہ بھی نہیں کہ دل کے کوٹھے پہ آنے والے کسی ایک کو بھی فراموش کر دیا ہو. یادوں کے ساز ہمیشہ بجتے ہیں اور کیا خوب بجتے ہیں محبتوں کے زینوں پہ چڑھنے اور کوٹھے تک پہنچنے کی آہٹیں آج بھی دل میں دھڑکن کی طرح بجتی ہیں. کود پھاند کے چڑھتی جوانی کے بیل بوٹے آج بھی سر سبز ہیں، پھول دیتے ہیں، خوشبو میں نہاتے ہیں. وہ گالوں پہ شرم و جھجھک سےخون کا جم جانا، آج بھی ڈوبتی شام کے گلابی بادلوں میں جھلکتا ہے. آنکھیں جو کسی ان دیکھے بھار سے اٹھائی نہیں اٹھتیں. ان جھکی آنکھوں سے کیسے کیسے حسین منظر دیکھ رکھے ہیں. وہ جو ہاتھ، ہاتھ میں آنے سے دل کا دوڑتے ہوئے ہتھیلیوں میں آ دھڑکنا، ہتھیلیوں میں پسینے کی چشمے یوں پھوٹ نکلنے جیسے اچانک کسی پہاڑ سے آبشار نکل پڑے. وہ لَمس کی دستکیں جو دعاؤں کی طرح بار بار دی جاتی رہیں کہ کوئی وہ بند کواڑ کھلیں، وہ بند کواڑ کہ جیسے کسی خدا کے گھر کا دروازہ. وہ بوسے جو دھوپ میں پڑتی بارش کی طرح بدن کے ہر ایک کینوس پہ قوسِ قزح کے رنگ بھرتے رپے. وہ بدن کہ جیسے پر...