Posts

دشمن جاں

جس کے لیے وہ جو بھی تھا، زباں کے سبب تھا لفظوں سے کھیلتا تھا وہ، باتوں کا رب تھا  جیتا تھا اپنے طور سے، اپنے ہی ڈھنگ میں رہتا تھا اپنے آپ میں وہ اپنی ہی جنگ میں  تلخی تھی جتنی عمر کی، پیتا تھا رات کو روتا تھا دھاڑیں مار کے اپنی ہی ذات کو جن کے لیے وہ خوب تھا، بڑھ کے تھا خوب سے جن کے لیے برا تھا وہ، بھرا تھا عیوب سے کہتا تھا جی لیا ہے، جی بھر کے عمر کو  اب شوق سے چلوں گا میں اپنی قبر کو  ہنستا تھا خود وہ اور ہنساتا تھا خوب وہ اور پھر ہنسی کے افق پر ہوا ہے غروب وہ   جو بھی وہ تھا وہ "تھا"، "ہے" تو نہیں وہ اب  لفظوں کی موت ہو چکی، باتیں گئیں وہ دب  زندہ تھا،  زندہ دل تھا،  وہ کیا مر گیا؟ رو عاصی بد بخت رو،  رفیع عامر گیا 

ٹھنڈی آگ

"آج یہ بدبخت گرمی ایسی ہے کہ جیسے دوزخ کی کوئی کھڑکی کھلی رہ گئی ہو۔ لیکن تم لوگ یہ سوچو کہ دوزخ کی آگ پھر کیسی سخت ہو گی اللہ اللہ.. یہاں کی گرمی تو دوزخ کا ایک چھوٹا سا دہکتا ہوا کوئلہ ہے۔ دوزخ سے ڈرو مومنو، اللہ سے ڈرو، اس سے کچھ چھپا ہوا نہیں ہے".... مولوی صاحب کی جمعے کی تقریر مسجد کے سپیکر سے برس رہی تھی اور صاعقہ اس شدید گرمی میں چھپ چھپا کر ناظم سے ملنے قبرستان کے پچھواڑے بنے ایک ڈیرے کی دیوار سے لگی ہانپ رہی تھی۔ ناظم دیوار سے لگا اس طرف آ رہا تھا۔ پسینے کی لہریں کمر پر بہہ رہی تھیں اور سامنے گردن سے نیچے دو پہاڑوں کے بیچ پسینے کی آبشار رواں تھی۔ ناظم نے آتے ہی اسے کھینچ کے لگے سے لگایا اور پھر دو جسموں کے دوزخ مزید دہکنے لگے ناظم مشرقی محلے کا تھا اور صاعقہ ڈوبتے سورج کے محلے میں رہتی تھی۔ جانے کب گلی میں آتے جاتے آنکھیں لڑیں، اور کم بخت ایسی لڑیں کہ بات ان وعدوں تک جا پہنچی جو قَسموں سے بھاری ہوتے ہیں۔ ملاقاتوں کے لیے کبھی جمعے کا انتظار کیا جاتا کہ دونوں کے اباؤں سمیت سارے مرد مسجد جائیں تو چھپ چھپا وہ اپنی محبت کی جماعت کھڑی کریں، کبھی کسی دوکان پر سودا لیتے، کبھ...

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا خیال ہے بیمار سائیکلوں کا یہی ہسپتال ہے ہمیں سائیکل چلانے اور اس کے علاج سے کوئی لینا دینا تھا نہیں سو گھر کا لوہے کا گیٹ ملازم نے کھولا اور ہم سب اندر چلے گئے. ابو سیدھے بیٹھک میں چلے گئے جہاں پھوپھا اور دوسرے مرد حضرات بیٹھے ہوئے تھے، ہم بچے لوگ امی کے ساتھ صحن میں آ گئے، جہاں پھپھو کے بچے، دوسرے کزنز کے ہمراہ کچھ بیٹھے ہوئے تھے اور کچھ ادھر ادھر کود رہے تھے اور ساتھ ٹیپ پر ایک گانا چل رہا تھا دل کی حالت کس کو بتائیں ہم بھی پاگل، تم بھی پاگل ہم بھی پاگل، تم بھی پاگل اور برآمدے کے ماربل کے ستون سے ایک چہرہ ٹکا ہوا تھا، درمیان میں سے نکلی مانگ سے کچھ بال آوارہ ہو کے گالوں پر جھولا جھول رہے تھے اور ہونٹ "ہم بھی پاگل، تم بھی پاگل" گنگنا رہے تھے لمحے ٹھہر جاتے ہیں، وقت نہیں رُکتا. پھپھو کے بیٹے کی شادی پر کوئی ہفتہ بھر وہاں رہے اور وہ سات دن تو نہیں رکے، ان سات دنوں کے کتنے ہی لمحات دل میں اترے، دماغ میں بسے اور آنکھوں کا طواف کرتے رہ...

جہانِ کُن فیکون

یہ جہانِ کُن، جہانِ رنگ و بُو ہے یہاں پہ سحر لہو پی کے اُگتی ہے یہاں سورج خون تھوکتا ہے سارا دن یہاں شام کے سر پر لہو کی اوڑھنی ہے یہاں پہ رات کی رانی قبروں پہ کھلتی ہے یہاں کے پھول پرانی لاش کی بدبو اگلتے ہیں ہم اس جہانِ کُن کے کس کربلا میں رہتے ہیں یہاں کرب و اَلم کے وہ طوفان چلتے ہیں یہاں جبریل بھی آئے تو اس کے پر جلتے ہیں یہاں پر آسماں سے بموں کے من و سلوٰی اترتے ہیں یہاں پر گولیوں کی بارشیں برستی ہیں تو زمیں سے ننھے بچوں کی لاشیں نکلتی ہیں یہاں آہ و افغاں، یہاں دعائیں رائیگانی ہیں یہاں کُن کی صدا کچھ نہیں، جھوٹی کہانی ہے یہ جہانِ فیکون ہے یہاں بس خون ہی خون ہے۔ ------------------------------

Anxiety Attack!

ایک بازار ہے دھند میں لپٹا ہوا کئی رنگ و بُو کی دوکانیں لگی ہیں دوکانوں کے ماتھے پہ نام لکھے ہیں جیسے قبروں کے کتبـے سجے ہوں رکوع میں جھکے ہوئے بجلی کے کھمبـے بلب جن کے سارے جاں بہ لب ہیں شور ہے آوازوں کا لفظ ہیں جن کے معانی نہیں کوئی ساز بجتے ہیں، ردھم کے بغیر ،لیکن مرتی ہوئی روشنی کا مزار ہے کوئی ایک بازار ہے کوئی جس کا فرش میں ہوں پاؤں رکھ کے چھاتی پہ میری خلق ساری گزر رہی ہے ابھ

پرانے، نئے دھوکے

‏وہ پرانا خدا ہی اچھا تھا جس کے لیے ناممکن نہ تھا کچھ بھی کُن کہتا تھا سو ہو جاتا تھا جو چاہتا تھا وہ ہو جاتا تھا وہ پرانا خدا ہی اچھا تھا جس کے جاہ و جلال کے آگے یہ سورج، چاند، مشتری، عطارد یہ زہرہ، یہ زحل یہ مریخ ندارد جس کی چلی چال کے آگے سارے شطرنج باز بـے جاں دو جہاں، لا مکاں بـے نشاں وہ پرانا خدا ہی اچھا تھا جس نے کہف میں دھوپ بھی نہ گھسنے دی جس نے ایک کتے کی عمر بھی نہ گزرنے دی وہ پرانا خدا ہی اچھا تھا وہ کہاں ہے؟ وہ کہیں نہیں ملنا وہ بھی قصہ ہے ایک گزرا ہوا مگر یہ نیا خدا کسی کام کا نہیں کسی محمد کا نہیں، کسی رام کا نہیں اسے صلیب سے نہیں مطلب وہ کسی اسلام کا نہیں وہ کسی کی بھی نہیں سنتا، سب دعائیں بیکار ہیں کسی کو گنتی میں نہیں گِنتا، سفارشیں بیکار ہیں آہیں، سسکیاں، مناجتیں، سب فریادیں بیکار ہیں  یہ نیا خدا کسی کا نہیں بھوک دیتا ہے، ننگ دیتا ہے سر دیتا ہے تو سَنگ دیتا ہے خواب دے کے پھوڑتا ہے آنکھیں پھول مانگو تو جنگ دیتا ہے مرہم دیتا ہے زخم سے پہلے زخم کے بعد مرہم چھین لیتا ہے اک دن دیتا ہے کسی کو سب کچھ سب سے سب ایک دَم چھین لیتا ہے آسماں پر کہیں نہیں ملا اب تک زمین ساری ج...

دو سو روپے

اس رات بارش تھی کہ آسمان زار و قطار ہو رہا تھا. بجلی کڑکتی تھی جیسے اوپر کوئی زنجیر زنی کر رہا ہے اور رہ رہ کے کوئی اک چیختی دھاڑ سنائی دیتی تھی کہ جیسے دریا کے کنارے خشک حلق میں تیر اتر رہے ہوں. ماتمی سی ماتمی رات تھی اور ایک کربلا میرے گھر کے سب سے بڑے کمرے میں برپا تھا. ابا کے ہاتھ، اس کی زبان سے بازی لے جانے کی مسلسل تگ و دو میں تھے. تھپڑ اور مکّے برس رہے تھے، زبان سے گالیوں کی برسات جاری تھی اور میں فرش پر منہ بازوؤں میں دئیے آسمان کی طرح رو رہا تھا. کمرے میں جیسے آدھا محلہ جمع تھا. اماں چارپائی کی پائنتی پر ٹکی دوپٹے میں منہ دئیے رو رہی تھی. بھائی اور بھابھی منہ نیچے کیے چپ بیٹھے تھے. دونوں بہنیں کمرے کے ایک کونے میں دبکی بیٹھی تھیں. چاچا چاچی، پھوپھا، پھپھی،پڑوس کے ماسٹر سلیم بمع بیٹا اور بیوی اور محلے کے امام جو ابا کے دوست تھے، سب چپ چاپ ابا کے اٹھتے ہاتھوں اور چلتی زبان پر ایمان لا چکے تھے. جرم میرا بہت بڑا تھا اور سزا جرم سے بڑی ہو تو طاقت کی دھاک بیٹھی رہتی ہے. مجھ پر جو فردِ جرم عائد ہوئی تھی، وہ یہ تھی کہ میں نے مسجد کے چندے میں سے دو سو روپے چرائے ہیں. گاؤں کی جامع مسجد ...