دشمن جاں
جس کے لیے وہ جو بھی تھا، زباں کے سبب تھا
لفظوں سے کھیلتا تھا وہ، باتوں کا رب تھا
جیتا تھا اپنے طور سے، اپنے ہی ڈھنگ میں
رہتا تھا اپنے آپ میں وہ اپنی ہی جنگ میں
تلخی تھی جتنی عمر کی، پیتا تھا رات کو
روتا تھا دھاڑیں مار کے اپنی ہی ذات کو
جن کے لیے وہ خوب تھا، بڑھ کے تھا خوب سے
جن کے لیے برا تھا وہ، بھرا تھا عیوب سے
کہتا تھا جی لیا ہے، جی بھر کے عمر کو
اب شوق سے چلوں گا میں اپنی قبر کو
ہنستا تھا خود وہ اور ہنساتا تھا خوب وہ
اور پھر ہنسی کے افق پر ہوا ہے غروب وہ
جو بھی وہ تھا وہ "تھا"، "ہے" تو نہیں وہ اب
لفظوں کی موت ہو چکی، باتیں گئیں وہ دب
زندہ تھا، زندہ دل تھا، وہ کیا مر گیا؟
رو عاصی بد بخت رو، رفیع عامر گیا
Comments
Post a Comment