Posts

Showing posts from 2020

مجرمانہ ‏خاموشی ‏

گونگے دن ہیں راتیں چپ ہیں رات کے کالے سیاہ دیو کی سرخ انگارہ آنکھیں چپ ہیں وقت کے پاؤں جمے ہوئے ہیں دل کی دھڑکن مر رہی ہے مرتی کھنچتی سانسیں چپ ہیں اٹھے ہاتھوں پہ دھول پڑی ہے لفظوں کے کفن کھلے ہوئے ہیں دعاؤں کی ننگی لاشیں چپ ہیں

لاشاں کس ‏دفنائیاں

‏لاشاں کس دفنائیاں ....  ایہہ قبراں نیں کہ زمین دی چھاتی دے چھالے نیں تے اینہاں چھالیاں تے وا وا رُتاں جوبن دیاں آئیاں جیُون دے چاواں تے مٹی پائی ایتھے لاشاں کس دفنائیاں ‎#مقصود_عاصی

کہانی ختم ‏ہوئی ‏

زندگی مجھے اپنے میلوں اور جھمیلوں میں لیے پھرتی رہی اور میں سر پٹ دوڑتے وقت کی دُم زور سے پکڑے دوڑتا کم گھسٹتا زیادہ رہا اور اب ہانپ کے گر چکا ہوں ابھی ابھی سفید کپڑوں میں ایک خوبصورت نرس آئی تھی، زندہ مسکراہٹ لیے مجھ سے میرا حال پوچھا اور پھر کچھ دوائیں دے کے پھر آنے کا کہہ کے چلی گئی جیسے اسے امید ہو کہ یہ زندگی کی دوڑ سے تقریباً باھر پڑا بوڑھا، اس کے دوسرے راؤنڈ تک سانسیں گھسیٹ ہی لے گا ایک وقت تھا اور زیادہ دور کا بھی نہیں کہ جب محاورۃ ایک ہی سانس میں ایسی ایسی کہانی سنا جاتا تھا کہ لوگ سانس لینا بھول جاتے تھے. میں نے بچپن سے اب تک، صرف اپنا جہلم شہر دیکھ رکھا تھا مگر میری کہانیاں دہلی اور لکھنؤ کے نوابوں کے ایسے ایسے سربستہ راز کھولتی تھیں کہ سننے والے جیسے خود کو وہیں پاتے ہوں. کبھی مرزا غالب کے ساتھ آم کھاتے ہوئے ہماری گفتگو سناتا تو سننے والے جملوں کو شعر سمجھ لیتے. کبھی روم کی پتھریلی گلیوں میں اٹالین حسیناؤں کے پاس سے اپنا سیاہ گھوڑا دوڑاتے نکلتا تو وہ دیوار کے ساتھ لگ جاتیں اور دور تک ان کی نظریں میرا پیچھا کرتیں اور سننے والے گھوڑے کی ٹپ ٹپ صاف سنتے دکھائی دیتے. کبھی افری...

جمع ‏پونجی ‏

دائیں ہاتھ کی آخری انگلیوں میں سگریٹ دبائے، بند مٹھی سے کش لگاتا وہ گھر کی طرف جا رہا تھا. گرمی کہتی تھی کہ میں آج ہی دوزخ سے نکلی ہوں. گلیاں چپ تھیں، کتے دیواروں کی چھاؤں میں آدھ موئے پڑے تھے. گھر کے دروازے کی کنڈی جیسے ابھی ابھی لوھار کے ہاں سے نکلی تھی. کنڈی بجانے پہ ثریا نے دروازہ کھولا اور پھر اس کے پیچھے دروازہ کو کنڈی لگا کے چھوٹا سا صحن پار کرتے برآمدے سے کمرے میں جا رکے. پنکھا چل رہا تھا اور وہ سر پہ باندھے کپڑے کو اتار کے چارپائی پہ ڈھے سا گیا. ثریا چھابڑی میں دو روٹیاں، ایک پلیٹ میں کھکڑی اور بڑے مگ میں لسی لے آئی. ساتھ والے کمرے میں ناہید اور رفاقت ، کالج اور سکول سے آنے کے بعد سو رہے تھے. سارا گاؤں ہی سو رہا تھا مگر وہ روٹی کا نوالہ منہ میں ڈالتے اور ساتھ کھکڑی کھاتے کسی حساب کتاب میں گم تھا سب اسے استاد حسابی کہتے تھے گو کہ نام اس کا شوکت علی تھا. وجہ تسمیہ یہ تھی کہ وہ زندگی کا ہر چھوٹا بڑا کام بہت ناپ تول کے اور حساب کتاب لگا کے کرتا تھا. پڑھا لکھا وہ تھا نہیں مگر جوانی کے پہلے سال کنڈکٹری کرتے اور پھر آدھی سے زیادہ عمر ویگن کی ڈرائیوری کرتے وہ کافی سیانا ہو چکا تھا. ا...

بغاوت ‏

تم اچھے رہے دوست جو ماں باپ نے سمجھایا، اسے مان لیا جو مولوی نے پڑھایا، اسے ایمان لیا جو سکول میں استادوں نے رٹایا اسے حق جان لیا تم اچھے رہے دوست تم نے سوال نہیں سوچے صرف جواب یاد رکھے ہم نے جوابوں میں بھی  کئی کئی سوال کھوجے تم اچھے رہے دوست تم نے اپنے اردگرد کھڑی دیواروں پہ رنگ برنگی تصویریں ٹانک دیں اور ہم ہم ہر روز انھیں دیواروں سے سر پھوڑتے ہیں اور اپنے خون سے یہ کالی دیواریں لال کرتے ہیں

خودکشی

میں تھک چکا ہوں اے میری عمرِ رواں تیرے قدموں کے نشاں ناپتے ناپتے گر چکا ہوں اپنے ہی سائے پہ اوندھے منہ اپنے ہی بوجھ تلے ادھڑی ہوئی چند سانسیں جو ہیں باقی  انہیں کھینچ رہا ہوں بدن سے ایسے جیسے اپنی صلیب کندھے پہ اٹھائے یسوع چھوڑ رہے ہوں بستی اپنی

جلی ‏بہار ‏

صحن کے ایک کونے میں اماں کی لگائی کیاری پہ بہار اتری تھی. مجھے سب پھول ایک سے لگتے تھے، ان کے مختلف نام مجھے یاد نہیں رہتے تھے، اماں نے جانے کون کون سے پودے اور پھول لگا رکھے تھے، اماں کو نئے پودے لگانے اور پھول اگانے کا بہت شوق تھا، کیاری کی صفائی بہت دل و جان سے کرتی تھیں مجھے یاد ہے کہ جب میں چھوٹا تھا اور ہم سب گرمیوں کی راتیں کھلے آسمان کے نیچے صحن میں سوتے تھے، رات کو اچانک جب مُوتنے کی حاجت ہوتی تو میں بجائے ٹائلٹ میں جانے کے، جانے کیوں اماں کی لگائی کیاری کا رخ کرتا اور پودوں پہ مُوت دیتا تھا پہلے پہل اماں بہت پریشان ہوئیں کہ اچھے خاصے بڑھتے پودے کس کارن جل جاتے ہیں، مرجھائے جا رہے ہیں. وہ نئی مٹی لاتیں کھاد ڈالتیں اور میں پھر کسی رات اٹھتا اور کاروائی ڈال آتا. میں اماں کی پریشانی سے قطعی واقف نہیں تھا. سکول، سکول سے گھر، گھر آ کے بھی سکول کے بستے میں ہی گھسے رہنا، یہی تمام دن تھے. لیکن جس دن اماں کی پریشانی کا علم ہوا تب میرے علم میں یہ اضافہ ہوا کہ پودے پانی سے جیتے ہیں مگر مُوتنے سے جل جاتے ہیں، مر جاتے ہیں. سو وہ دن اور آج کا دن، اماں کی لگائی کیاری پہ پودے جلنے بند ہوگ...

مالکِ ‏ارض ‏و ‏سماں ‏

توں تے کہندا ایں میرے حکم باہجھوں اک پتا وی ہل نئیں سکدا اک پھُل وی کھل نئیں سکدا جے کر مَن وی لیـے تیرے حکم نوں کوئی ٹوک نئیں سکدا تے فیر تیرے "کُن" نوں زنگ لگ گیا اے کہ توں وسدا مِینہہ روک نئیں سکدا !! 

تیسری ‏برسی ‏

جیسے گرتے ہیں پت جھڑ میں جھڑ جھڑ کے خشک پتے ایسے ہرا بھرا گرتا ہوں میں لیے پھرتی ہیں تیری یادوں کی ہوائیں مجھے در بدر، کو بہ کو دھوپ پھانکتا رہتا ہوں اور پھر ڈھونڈتا رہتا ہوں تیری آواز کے سائے چُنتا رہتا ہوں گئے وقت کے ٹوٹے سارے پھر ان سے بُنتا ہوں تیرے جسم کے تانے بانے وہی جسم کہ جس کا اک ٹکڑا ہوں میں وہی ٹکڑا جو ہرا بھرا روز ٹوٹ کے گرتا ہے 31 جولائی 2020 

مرن ‏ویہلے ‏دی ‏گل ‏

میں اج راتیں مر گیا تے میرے دن تے رات دے ساتھی مینوں مٹی تھلے نہ دبیں میں مٹی دا پتر نئیں اپنیاں پریتاں تے ہورے کدے کدے دکھاں دی بھانبھڑ بلدی اَگ نال میں اپنی چھاتی ساڑ بیٹھا واں میرے کلبوت نوں وی ساڑ دیناں تے باقی بچے گی راکھ جے میری اونہوں اُچے کسے پہاڑ تے جا کے جس پہاڑ توں تھلے جے ویکھیں نیلے تے ہرے رنگ کا دریا وی دِسے اوس پہاڑ تے کھلو کے ساتھی میرے راکھ نوں رکھیں ہوا دی تلی تے دل نال مینوں وداع کر دیویں تھلے ویندے دریا دے ناں کر دیویں 

یاکاھو ‏کا ‏خوف

یہ تب کی بات ہے جب انسان اپنے جسم پہ لدے بالوں سے کافی حد تک جان چھڑا چکا تھا اور غاروں اور جنگلوں میں رہتے ہوئے سر کے اوپری خانے کو استعمال کرنا سیکھ رہا تھا اور انسانی نسل کے "آدمی" تک پہنچنے کی راہ ہموار کر رہا تھا . گھر اور خاندان کے مروجہ اصولوں سے کہیں نابلد مگر شام تک غار میں لوٹنے اور اپنے قبیلے کے ساتھ ہی رہنے کے طریقہ کار تک بتدریج پہنچ رہا تھا اس کا نام 'یاکاھو' فرض کر لیتے ہیں یاکاھو افریقہ کے جنگلوں سے نکلے اور شمال کی طرف چلتے، رکتے، بستے اور پھر سفر کرتے ایک مسلسل قبیلے کا انسان تھا. اس کی عمر ابھی بہت کم تھی سو زیادہ تر وہ غار کے آس پاس ہی ہم جولیوں کے ساتھ کھیلتا کودتا رہتا تھا یہ اس دن کی بات ہے جس دن تیز ہواؤں کے بعد موسلا دھار بارش شروع ہو چکی تھی. دن کی روشنی پہ گھنے کالے بادلوں کا سایہ تھا. سبھی غار کے اندر دبکے پڑے تھے اور یاکاھو اپنی غار کے دہانے پہ کھڑا کالے آسمان سے گرتے قطروں کو دیکھ رہا تھا جو زمین پہ سر پٹخ رہے تھے. اچانک آسمان سے تیز روشنی لپکی، یاکاھو کی آنکھیں چندھیا گئیں اور پھر بجلی کی کڑک ایسی تھی کہ جیسے پہاڑ ہی الٹ دے گی. یاکا...

باجی ‏تانیہ ‏ ‏

چھت پہ بنے کمرے سے نیچے فرش تک لال نیلی پیلی لائٹیں لٹک رہی تھیں اور جل رہی تھیں، چھت پہ لیٹنے والے سو چکے تھے اور باقی ماندہ مہمان، کمروں میں اور کچھ برآمدے اور صحن میں، یا تو ٹولیاں بنا کے گپیں ہانک رہے تھے یا اونگھ رہے تھے اور میں...میں شیروانی پہنے اور کُلّا بغل میں دابے اپنے کمرے کے اس دروازے کے باھر کھڑا تھا جس کے باھر گلاب کے سرخ پھولوں کی لڑیاں لٹک رہی تھیں اور دروازے کے اندر کمرے میں، سجے سنورے بیڈ پہ سرخ شادی کے جوڑے میں سجی سنوری 'باجی' تانیہ بیٹھی تھی ہمارے گھر کے ساتھ دیوار سے دیوار جڑی تھی تایا رفیق کی، اور جو دیوار جڑی تھی اس میں دونوں گھروں میں بلا روک ٹوک آنے جانے کے لئے جگہ چھوڑ دی گئی تھی. میں بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا پھر واصف اور فائزہ تھے اور تایا رفیق کی دو ہی بیٹیاں تھیں بڑی تانیہ اور چھوٹی تنزیلہ.. باجی تانیہ مجھ سے تین سال بڑی تھی اور امی بتاتی تھیں کہ جب میں پیدا ہوا تھا تو باجی تانیہ ہر وقت مجھے گود میں لے کے بیٹھی رہتی اور میری چھوٹی چھوٹی انگلیوں سے کھیلتی رہتی اور اتنی چھوٹی چھوٹی انگلیوں پہ حیران ہوتی رہتی بچپن سے ہی ہم سب کزنز آپس میں ہی...

چوتھی ‏دیوار ‏

گھر کیا ہے، چار دیواریں، تین بند دیواریں اور ایک دیوار میں اسی گھر میں گھسنے اور نکلنے کا دروازہ گھر کی ایک دیوار مہر محمد دین کے گھر سے ملتی تھی جس کی مہری صرف نام کے ساتھ محدود تھی، دونوں بیٹے امریکہ جا بسے تھے، بڑھاپے نے کمر کمان کر دی تھی. اب یا تو مسجد میں چھوٹے بچوں کے شور پہ گالیاں نکال لیتا یا نواسے نواسیوں کے لاڈ اٹھا لیتا گھر کی دوسری دیوار پھوپھی کی دیوار سے مل کے کھڑی تھی، جس کے بیچ میں ایک چھوٹا سا دروازہ نکال لیا گیا تھا جو فائر بندی کے دنوں میں کھلا رہتا، تُو تُو میں میں ہو جاتی تو ایک چارپائی سیدھی کھڑی کر کے راہ بند کر دی جاتی. پھوپھا ریٹائرڈ صوبیدار تھے، سروس کے دوران دو چار سال کوریا رہ آئے تھے اور یہی دو چار سال سبھی رشتہ داروں کو بھاری پڑتے رہتے تھے. پھوپھی سے ہماری بنتی تھی کہ نہیں، یہ کبھی اہم نہیں رہا، اہم یہ تھا کہ پھوپھا سے ہماری کبھی نہیں بنی. جانے فوج میں ان کی نوکری کیا تھی کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ان کا کام ہر ایک کے، ہر چھوٹے بڑے کے معاملات کو سونگھتے رہنا تھا گھر کی تیسری دیوار میں آنے جانے کا بھاری بھر کم دروازہ تھا، جو کسی چور کے لیے توڑنا تو نہ ناممکن ...

بَنیـے کی حویلی ‏

سردیوں کی دھوپ تھی، چھت کی منڈیر پہ مالٹے چھیلتے اور کھاتے سامنے 'بَنیـے کی حویلی' کی چھت پہ نظر پڑی، وہ انگڑائی لینے کے بعد بازو نیچے گرا رہی تھی اور سِلک کی قمیض میں اٹھتے مدوجزر، میری سانسوں کی کشتی الٹنے کو کافی تھے ہمارے چھت سے دو چھت چھوڑ کے وہ گھر تھا. گھر قبل از تقسیم کا تھا، لوگ کہتے تھے کہ کسی امیر ہندو بَنیـے کا گھر تھا، سرخ اینٹوں اور بھاری بھر کم لکڑی کے دروازے اور کھڑکیوں سے بنا یہ گھر 'بَنیـے کی حویلی' کہلاتا تھا گو کہ حویلی والی کوئی بات نہیں تھی اس میں. لوگ کہتے تھے کہ اس گھر کے ہندو مالک کے پاس اتنا سونا تھا کہ اس نے صحن بھی ایسا بنوایا تھا کہ جس کے چاروں طرف گھر کے کمرے اور دیواریں تھیں اور صحن میں دھوپ تک کا گزر نہیں تھا، چور کیسے گھستا اب یہ گھر دو بھائیوں امتیاز اور اعجاز کے پاس تھا. امتیاز دوبئی نوکری کرتا تھا اور اعجاز فیصل آباد کی کسی کپڑے کی مل میں ملازم تھا. وہ امتیاز کی بیوی تھی. نام اس کا نائلہ تھا اور کسی دور دراز کے شہر سے آئی تھی. اس کی ایک بیٹی تھی جو کچھ ماہ کی تھی سردیوں میں جتنے درختوں پہ پتے رہ جاتے ہیں اتنے کوئی میری مونچھ کے...

رائیگانی ‏

لفظ گرتے ہیں زباں کی شاخ سے کچھ آتے ہیں ہوا کے ہاتھ کچھ تیرے پاؤں کے نیچے ‎#مقصود_عاصی

پہلا ‏ظالم ‏

جب اس دھرتی پہ پہلا ظلم ہوا تھا جب پہلے معصوم کی گردن پہ تلوار چلی تھی مرتی آنکھوں سے اس نے آسمان کی اَور تھا دیکھا تب ان آنکھوں میں پہلی بار خدا قتل ہوا تھا

لڑائی

محلے میں شائستہ کی چیخیں اور اس کے چار چھوٹے بچوں کے رونے کی آوازیں تھیں اور آدھا محلہ چھت کی منڈیر پہ اور باقی آدھا اپنے گھروں کے دروازے کے باھر کھڑا تبصرہ کر رہا تھا کہ یہ تو روز کا معمول ہے، جیدے (جاوید) کا دماغ ہر وقت تپتی کڑاہی میں رہتا ہے، شیستا (شائستہ) بیچاری کی تو ہاری گئی جاوید اور شائستہ کی شادی کو چار سال سے اوپر ہو گئے تھے. جب شائستہ پہلی بار دلہن بنی گھر پہنچی تو محلے کی کتنی ہی خواتین جل بھن گئی تھیں. ایک تو شائستہ کا سرخ لہنگا بہت خوبصورت تھا، اس پہ شائستہ کے چست بدن پہ سج بھی بہت رہا تھا. دوسری وجہ شائستہ کی صاف رنگت اور اونچا قد تھا. جاوید کی لاٹری نکل آنے پہ خوش جاوید کے سوا اور کون ہو سکتا تھا پہلی لڑائی کب ہوئی ہو گی، معلوم نہیں.. مگر پہلی لڑائی جو سارے محلے میں سنی گئی، وہ شادی کے تیسرے چوتھے ہی ہفتے میں ہوئی تھی. بات گالیوں سے نکل کے مار پیٹ تک پہنچ گئی تھی جب محلے والے چھڑانے پہنچے جاوید اپنی بجلی کے ساز و سامان کی دوکان سے لوٹا تھا اور شائستہ نے ابھی تک توا چولہے پہ نہیں دھرا تھا. سو جاوید کا دماغ چولہے پہ چڑھ گیا اور لڑائی مارپیٹ سے 'طلاق' تک پہن...

قیدِ قرنطینہ

صاحبو وقت بڑا کمینہ ساتھی ہے آپ کے دوستوں میں ایک دوست ایسا بھی ہوتا ہے جو، سب باتیں جو آپ سب ایک دوسرے کے بارے مذاق میں کرتے ہیں، انہیں صرف سنتا ہے مسکراتا ہے مگر اس میں اپنا حصہ مسکراہٹ کے علاوہ کچھ نہیں ڈالتا. لیکن جب کبھی موڈ میں آتا ہے تو وہی دوست سبھی پرانی جگتیں ایسی بھگو بھگو کے اور ایسے سب کے سامنے آپ کے منہ پہ مارتا ہے کہ دھواں ہر معلوم و نامعلوم سوراخ سے نکلنے لگتا ہے یہ وقت بھی ویسا ہی کمینہ دوست ہوتا ہے ہمیں کوئی لکھاری ہونے کا زعم ہے نہ دعویٰ، اور "دوستوں" کا دانشور (چاہے چائینہ کا سہی) کہنا ہم خالصتاً طنز شمار کرتے ہیں مگر یہ زعم ہمیں بہرحال تھا کہ ہم لوگوں میں گھلنے ملنے کے نہیں ہیں، ہم اپنے گھر میں بھلے ہیں. اس کے علاوہ گھر میں رہنے، نیٹ فلکس پہ چھلانگیں مارنے، کسی پرانی کتاب کو پھر سے پڑھنے کی کوشش کرنے اور ٹویٹر پہ بار بار، جب بھی ہاتھ کو موبائل سجھائی دے، راؤنڈ لگاتے رہنے کو افضل سمجھتے ہیں مگر پھر یہ موا کورونا وائرس آ دھمکا پہلے پہل تو یہ کرنٹین کی اردو "قرنطینہ" کسی وسطی یورپ کی حسینہ معلوم پڑتی تھی. (ظالموں نے قید کو قرنطینہ جیسا سیکس...

خالقِ حقیقی

سارے گاؤں کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا. پھٹی آنکھوں اور بند ہونٹوں سے سب ایک دوسرے کو دیکھتے اور مسجد کی طرف چلے جا رہے تھے. منہ ڈھانپے کچھ خواتین بھی ساتھ تھیں ساٹھ ستر گھروں کا یہ گاؤں تھا جس کے بیچوں بیچ سفید سنگ مر مر کے آسمان کو گردن اٹھا کے تکتے دو میناروں والی مسجد تھی. مسجد کے امام سید انوار الحق شاہ یزدانی تھے جن کے آباؤ اجداد کی قبور پہ ہر سال عرس کی تقریب ہوا کرتی تھی. گاؤں کے لگ بھگ سبھی لوگ انھیں کے مرید تھے. گاؤں والوں کی ہر مشکل اور بیماری کا تعویز اور دعا انھیں سے ملتا تھا. مسجد کے پچھواڑے میں یزدانی شاہ کا حجرہ تھا جو مدرسے کے طور پہ بھی کام آتا تھا سہ پہر کو نظام موچی کی تیرہ سالہ بیٹی شازیہ کی لاش جا بجا پھٹے اور ادھڑے ہوئے کپڑوں میں گھر پہنچی تھی جو تین چار گھنٹے پہلے یزدانی شاہ کے پاس قرآن پڑھنے گئی تھی. ماں اور بہنوں کی چیخوں سے محلہ لرز اٹھا تھا. سارا محلہ نظام موچی کے چھوٹے سے صحن میں تھا جب یہ بات وہاں پہنچی کہ شازیہ کو امام یزدانی شاہ نے قتل کیا ہے. اس قیامت کی خبر پہ سارے میں خاموشی یوں پھیل گئی جیسے پچھلی سردیوں میں دھند پھیلی تھی، اطلاع دینے والے نے یہ بھ...

اُبال

محبت؟ اس خبیث کو محبت ہو گئی ہے.. او گدھے کے کھُر محبت کچھ نہیں ہوتی، جسم کے گرم چولہے پہ رکھی جوانی کو آیا اُبال ہے بس ابا نے محبت کا پوسٹ مارٹم کر دیا تھا اس کا دوسرا محبت نامہ پکڑا گیا تھا. اڑنے سے بیشتر ہی اس کا رنگ زرد پڑ گیا تھا شاید. اسے اپنا پہلا محبت نامہ زبانی یاد تھا. کیسے ساری رات جاگ کے اس نے محبت کے اظہار کو لفظوں کے موتی پروئے تھے جو تنزیلہ کے گلے کا ہار ہوئے. ساری رات کا جاگا صبح کالج پہنچا تو ایک دم تر و تازہ تھا. رات بھر کی تھکاوٹ، ویگن میں پہلا خط تنزیلہ کی گود میں رکھے بیگ میں رکھنے اور تنزیلہ کے گلابی پڑتے گالوں نے، دور کر دی تھی. سارا دن وہ کبھی کالج کے گراؤنڈ کبھی کینٹین میں اگلی صبح کے جوابی خواب دیکھتا رہا تھا اگلی صبح ویگن میں بیٹھے ہوئے اس نے پچھلی سیٹ پہ بیٹھی تنزیلہ کو مڑ کے دیکھا تو گلابی گالوں پہ آئی لٹ کو پیچھے کرتے ہوئے اس نے اپنی ہتھیلی عرفان کو دکھائی جس پہ مارکر سے سرخ رنگ کا دل بنا ہوا تھا. عرفان کا دل تھا کہ یوں پھڑکا جیسے چھاتی کے اندر بھونچال آ گیا ہو. وہ سارا دن نئے خوابوں نے آنکھوں میں جگہ بنا لی تھی. ساری دنیا گھر سے ویگن اور پھر ویگن سے...

کالی صبح

صبح اٹھتے ہی اسے لگا کہ یہ دن کوئی سانحہ لیے ہوئے ہے.. یہ صبح تھی کوئی.. کالی صبح.. سامنے والی خالہ رشیدہ کی کالی بلی جیسی کالی صبح، جو ہزار بار اس کا راستہ کاٹ چکی تھی مگر اس نے کبھی راستہ نہیں بدلا.. اسے بلیاں بالکل پسند نہیں تھیں، اسے لگتا تھا کہ بلیاں انسانوں میں رہ کے انسانی حرکتیں کرنے لگتی ہیں. یہ خیال اس کا بچپن سے تھا جب وہ ماموں عادل کے ہاں جاتے تو ان کی پالتو بلی کو کھانا چارپائی پہ بیٹھ کے کھاتے دیکھتا تو اسے عجیب سا خوف محسوس ہوتا.. اور بچپن کا خیال یقین میں مکمل تب بدلا جب وہ اس کالونی میں کرائے پہ مکان لے چکا تھا. وجہ تھی سامنے والے گھر میں رہتی خالہ رشیدہ کی لڑاکا طبعیت اور گلے کا لاؤڈ سپیکر. خالہ رشیدہ اتنا اونچا بولتی تھیں کہ ان کی سرگوشی دو سو کانوں تک پہنچتی ہو گی. اور ان کی کالی بلی انھی کی ہم آواز تھی. اونچے سُروں میں بلی کی میاؤں میاؤں اسے چیخوں جیسی لگتی تھی ، بات یہاں تک رہتی تو شاید اس کے بچپن کا خیال، یقین کی منزل پہ پڑاؤ نہ ڈالتا مگر خالہ رشیدہ کی طرح ان کی بلی کی لڑاکا طبیعت، اسے بلیاں پسند نہیں تھیں مگر اس بلی سے اسے نفرت تھی اور شدید نفرت کے باوجود وہ وہ...

لاڈلا

مولوی احتشام الحق کی اذان اور تقریر سارے میں مشہور تھی. جتنے اونچے مسجد کے مینار تھے اتنی ہی اونچی مولوی احتشام کی آواز تھی. اونچے سُروں میں جب گلے سے "حیی علی الفلاح" نکلتا تو قدم مسجد کی طرف چل نکلتے. ارد گرد کے قریباً سبھی گاؤں عید میلاد النبی، سب برات، شب معراج، بڑی گیارہویں، محرم، عاشورہ وغیرہ کے لیے مولوی احتشام کو ہی تقریر کے لیے بلایا کرتے تھے. ایسی جوشیلی تقریر کہ سننے والے جھوم جھوم اٹھتے. ایسی پُر اثر تقریر کہ ابھی پچھلے دس محرم کے دن ان کی تقریر کے دوران بلک بلک کے روتے لوگوں میں چاچا رحمت اتنا روئے تڑپـے کہ مسجد میں ہی دل کا دورہ پڑا اور چل بسے. ختم سے لے کر تعویز تک، سب مولوی صاحب کے پاس ہی جایا کرتے تھے مولوی صاحب فجر سے عشا تک سبھی اذانیں خود دیا کرتے تھے اور سبھی جماعتیں خود کروایا کرتے، کبھی کوئی ختم ، دعوتِ خطاب، سفر یا مسئلہ درپیش ہو تو الگ بات ہے. عصر سے پہلے کبھی مسجد میں اور کبھی اپنے حجرے میں بچوں کو قرآن پڑھایا کرتے تھے. حجرہ کیا تھا، مسجد کے پچھواڑے میں تین کمروں کا پکا مکان تھا جہاں مولوی احتشام اکیلے رہا کرتے تھے. ان کے بیوی بچے آبائی گاؤں خیر نگ...

شہنائی

ڈھول کی تھاپ پہ میرے کندھے نہ چاہتے ہوئے بھی تھرکنے لگتے ہیں مگر آج سامنے والی گلی میں ڈھول بج رہا ہے اور اپنی بیٹھک میں، میں کندھے جھکائے بیٹھا ہوں ڈھول ایک ردھم میں بجتا ہے، پھر زور کی تھاپ شروع ہوتی ہے اور آخر میں ردھم وہی رہتا ہے مگر ڈھول پہ تھاپ کی رفتار تیز تر ہوتی جاتی ہے اور سننے والوں کے پیروں میں جیسے کرنٹ چھوڑ دیا جاتا ہے. ڈھول بج رہا ہو اور بھنگڑا ڈالنے کا من نہ کرنا، دل پہ کالی مہر لگے ہونے کی نشانی ہے ڈھولی ڈھول بجا رہا ہے اور شہنائی جانے کس کا ماتم کر رہی ہے . مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ شہنائی کا شادی پہ کیا مطلب، شہنائی تو چیخ ہے، دل چیرنے دینے والی چیخ اس وقت بیٹھک کے ایک کونے میں میں دبکا بیٹھا ہوں اور ایک چیخ میرے اندر دبکی بیٹھی ہے، بیٹھک میں باھر سے آتے شور کا طوفان ہے اور اندر کہیں گھپ اندھیری چُپ کا آسیب ایک خط سامنے دھرا ہے، خط کیا ہے رقعہ ہے. کاپی کا جلدی میں بے ترتیبی سے پھاڑا ہوا آدھا کاغذ.. آدھی تقدیر کا ٹکڑا... کاغذ پہ نیلی سیاہی میں لکھے کچھ جملے ہیں ، اس پہ چار چھے جگہوں پہ سیاہی پھیلی ہوئی ہے، کچھ لفظوں کے اندر سے طوفان شاید باھر امڈ آیا ہو گا ...

الٹی گنتی

جب یہ حکم مجھ پہ صادر ہوا تب میرے پاس انکار کی گنجائش تو کیا خاک ہوتی، سمجھنے کی عمر بھی نہیں تھی "نبیل حافظِ قرآن بنے گا" حفظ کراتے ہوئے الٹا قرآن حفظ کرانا شروع کراتے ہیں، سو حفظ کا پہلا سبق تیسواں پارہ تھا. پہلے دن کا سبق ہی ہوش اڑانے کو کافی تھی. زبان تھی کہ نہ کبھی بولی نہ سنی، سمجھنی تو بہت دُور کی بات ہے. اب ایک سطر ختم ہوتی تو دوسری شروع کرنے تک پچھلی بھول جاتی مولوی صاحب کے پاس جاتے کوئی چوتھا پانچواں دن تھا اور جو پچھلے دنوں رٹا لگایا تھا وہ سناتے ہوئے بار بار گڑبڑ ہو رہی تھی. دو تھپڑ بھی رٹا ہوا سبق یاد نہیں کرا سکے تھے کہ میں نے روتے ہوئے قمیض سے بہتی ناک صاف کرتے تقریباً منت کرتے ہوئے کہا کہ "مولوی صاحب، کوئی قرآن اردو میں نہیں ملتا کہیں سے؟ وہ آسانی سے رٹ لوں گا میں" مولوی صاحب کی داڑھی میں جیسے طوفان آ گیا، میرے سر کے بال پکڑے اور اپنے گوڈے کے نیچے میرا سر دے کے میری کمر پہ تھپڑوں کی موسلا دھار بارش کر دی "معاف کر دیں مولوی صاحب، معاف کر دیں، آئندہ نہیں کہوں گا" شکایت ابا کو لگائی گئی تو مسجد اور گھر میں فرق ہی مٹ گیا. وہاں خدا کے گ...