Posts

Showing posts from June, 2023

دو سو روپے

اس رات بارش تھی کہ آسمان زار و قطار ہو رہا تھا. بجلی کڑکتی تھی جیسے اوپر کوئی زنجیر زنی کر رہا ہے اور رہ رہ کے کوئی اک چیختی دھاڑ سنائی دیتی تھی کہ جیسے دریا کے کنارے خشک حلق میں تیر اتر رہے ہوں. ماتمی سی ماتمی رات تھی اور ایک کربلا میرے گھر کے سب سے بڑے کمرے میں برپا تھا. ابا کے ہاتھ، اس کی زبان سے بازی لے جانے کی مسلسل تگ و دو میں تھے. تھپڑ اور مکّے برس رہے تھے، زبان سے گالیوں کی برسات جاری تھی اور میں فرش پر منہ بازوؤں میں دئیے آسمان کی طرح رو رہا تھا. کمرے میں جیسے آدھا محلہ جمع تھا. اماں چارپائی کی پائنتی پر ٹکی دوپٹے میں منہ دئیے رو رہی تھی. بھائی اور بھابھی منہ نیچے کیے چپ بیٹھے تھے. دونوں بہنیں کمرے کے ایک کونے میں دبکی بیٹھی تھیں. چاچا چاچی، پھوپھا، پھپھی،پڑوس کے ماسٹر سلیم بمع بیٹا اور بیوی اور محلے کے امام جو ابا کے دوست تھے، سب چپ چاپ ابا کے اٹھتے ہاتھوں اور چلتی زبان پر ایمان لا چکے تھے. جرم میرا بہت بڑا تھا اور سزا جرم سے بڑی ہو تو طاقت کی دھاک بیٹھی رہتی ہے. مجھ پر جو فردِ جرم عائد ہوئی تھی، وہ یہ تھی کہ میں نے مسجد کے چندے میں سے دو سو روپے چرائے ہیں. گاؤں کی جامع مسجد ...

خود سے ہارے ہوئے لوگوں کے مسیحا

خود سے ہارے ہوئے لوگوں کے مسیحا کہاں ہو؟ کہاں ہو، کہیں سے آواز دو ہم کہ اپنی ذات میں تنہائی کی محفل کی جاں ہیں ہم کہ اپنے درد کے خود جبریل ہیں خود قرآں ہیں ہم کہ اپنی وحشت میں سر بریدہ پر بریدہ یہاں ہیں یہاں ہیں کہ یہیں پر وحشت خرامیاں کھینچ لائی ہیں یہاں ہیں کہ یہیں پر ہم تماشا ہیں، ہم ہی تماشائی ہیں یہ تماشائی ہٹا دو اس تماشے کا پردہ گرا دو کہیں سے آواز دو، کہاں ہو خود سے ہارے ہوئے لوگوں کے مسیحا، کہاں ہو