Posts

Showing posts from 2023

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا خیال ہے بیمار سائیکلوں کا یہی ہسپتال ہے ہمیں سائیکل چلانے اور اس کے علاج سے کوئی لینا دینا تھا نہیں سو گھر کا لوہے کا گیٹ ملازم نے کھولا اور ہم سب اندر چلے گئے. ابو سیدھے بیٹھک میں چلے گئے جہاں پھوپھا اور دوسرے مرد حضرات بیٹھے ہوئے تھے، ہم بچے لوگ امی کے ساتھ صحن میں آ گئے، جہاں پھپھو کے بچے، دوسرے کزنز کے ہمراہ کچھ بیٹھے ہوئے تھے اور کچھ ادھر ادھر کود رہے تھے اور ساتھ ٹیپ پر ایک گانا چل رہا تھا دل کی حالت کس کو بتائیں ہم بھی پاگل، تم بھی پاگل ہم بھی پاگل، تم بھی پاگل اور برآمدے کے ماربل کے ستون سے ایک چہرہ ٹکا ہوا تھا، درمیان میں سے نکلی مانگ سے کچھ بال آوارہ ہو کے گالوں پر جھولا جھول رہے تھے اور ہونٹ "ہم بھی پاگل، تم بھی پاگل" گنگنا رہے تھے لمحے ٹھہر جاتے ہیں، وقت نہیں رُکتا. پھپھو کے بیٹے کی شادی پر کوئی ہفتہ بھر وہاں رہے اور وہ سات دن تو نہیں رکے، ان سات دنوں کے کتنے ہی لمحات دل میں اترے، دماغ میں بسے اور آنکھوں کا طواف کرتے رہ...

جہانِ کُن فیکون

یہ جہانِ کُن، جہانِ رنگ و بُو ہے یہاں پہ سحر لہو پی کے اُگتی ہے یہاں سورج خون تھوکتا ہے سارا دن یہاں شام کے سر پر لہو کی اوڑھنی ہے یہاں پہ رات کی رانی قبروں پہ کھلتی ہے یہاں کے پھول پرانی لاش کی بدبو اگلتے ہیں ہم اس جہانِ کُن کے کس کربلا میں رہتے ہیں یہاں کرب و اَلم کے وہ طوفان چلتے ہیں یہاں جبریل بھی آئے تو اس کے پر جلتے ہیں یہاں پر آسماں سے بموں کے من و سلوٰی اترتے ہیں یہاں پر گولیوں کی بارشیں برستی ہیں تو زمیں سے ننھے بچوں کی لاشیں نکلتی ہیں یہاں آہ و افغاں، یہاں دعائیں رائیگانی ہیں یہاں کُن کی صدا کچھ نہیں، جھوٹی کہانی ہے یہ جہانِ فیکون ہے یہاں بس خون ہی خون ہے۔ ------------------------------

Anxiety Attack!

ایک بازار ہے دھند میں لپٹا ہوا کئی رنگ و بُو کی دوکانیں لگی ہیں دوکانوں کے ماتھے پہ نام لکھے ہیں جیسے قبروں کے کتبـے سجے ہوں رکوع میں جھکے ہوئے بجلی کے کھمبـے بلب جن کے سارے جاں بہ لب ہیں شور ہے آوازوں کا لفظ ہیں جن کے معانی نہیں کوئی ساز بجتے ہیں، ردھم کے بغیر ،لیکن مرتی ہوئی روشنی کا مزار ہے کوئی ایک بازار ہے کوئی جس کا فرش میں ہوں پاؤں رکھ کے چھاتی پہ میری خلق ساری گزر رہی ہے ابھ

پرانے، نئے دھوکے

‏وہ پرانا خدا ہی اچھا تھا جس کے لیے ناممکن نہ تھا کچھ بھی کُن کہتا تھا سو ہو جاتا تھا جو چاہتا تھا وہ ہو جاتا تھا وہ پرانا خدا ہی اچھا تھا جس کے جاہ و جلال کے آگے یہ سورج، چاند، مشتری، عطارد یہ زہرہ، یہ زحل یہ مریخ ندارد جس کی چلی چال کے آگے سارے شطرنج باز بـے جاں دو جہاں، لا مکاں بـے نشاں وہ پرانا خدا ہی اچھا تھا جس نے کہف میں دھوپ بھی نہ گھسنے دی جس نے ایک کتے کی عمر بھی نہ گزرنے دی وہ پرانا خدا ہی اچھا تھا وہ کہاں ہے؟ وہ کہیں نہیں ملنا وہ بھی قصہ ہے ایک گزرا ہوا مگر یہ نیا خدا کسی کام کا نہیں کسی محمد کا نہیں، کسی رام کا نہیں اسے صلیب سے نہیں مطلب وہ کسی اسلام کا نہیں وہ کسی کی بھی نہیں سنتا، سب دعائیں بیکار ہیں کسی کو گنتی میں نہیں گِنتا، سفارشیں بیکار ہیں آہیں، سسکیاں، مناجتیں، سب فریادیں بیکار ہیں  یہ نیا خدا کسی کا نہیں بھوک دیتا ہے، ننگ دیتا ہے سر دیتا ہے تو سَنگ دیتا ہے خواب دے کے پھوڑتا ہے آنکھیں پھول مانگو تو جنگ دیتا ہے مرہم دیتا ہے زخم سے پہلے زخم کے بعد مرہم چھین لیتا ہے اک دن دیتا ہے کسی کو سب کچھ سب سے سب ایک دَم چھین لیتا ہے آسماں پر کہیں نہیں ملا اب تک زمین ساری ج...

دو سو روپے

اس رات بارش تھی کہ آسمان زار و قطار ہو رہا تھا. بجلی کڑکتی تھی جیسے اوپر کوئی زنجیر زنی کر رہا ہے اور رہ رہ کے کوئی اک چیختی دھاڑ سنائی دیتی تھی کہ جیسے دریا کے کنارے خشک حلق میں تیر اتر رہے ہوں. ماتمی سی ماتمی رات تھی اور ایک کربلا میرے گھر کے سب سے بڑے کمرے میں برپا تھا. ابا کے ہاتھ، اس کی زبان سے بازی لے جانے کی مسلسل تگ و دو میں تھے. تھپڑ اور مکّے برس رہے تھے، زبان سے گالیوں کی برسات جاری تھی اور میں فرش پر منہ بازوؤں میں دئیے آسمان کی طرح رو رہا تھا. کمرے میں جیسے آدھا محلہ جمع تھا. اماں چارپائی کی پائنتی پر ٹکی دوپٹے میں منہ دئیے رو رہی تھی. بھائی اور بھابھی منہ نیچے کیے چپ بیٹھے تھے. دونوں بہنیں کمرے کے ایک کونے میں دبکی بیٹھی تھیں. چاچا چاچی، پھوپھا، پھپھی،پڑوس کے ماسٹر سلیم بمع بیٹا اور بیوی اور محلے کے امام جو ابا کے دوست تھے، سب چپ چاپ ابا کے اٹھتے ہاتھوں اور چلتی زبان پر ایمان لا چکے تھے. جرم میرا بہت بڑا تھا اور سزا جرم سے بڑی ہو تو طاقت کی دھاک بیٹھی رہتی ہے. مجھ پر جو فردِ جرم عائد ہوئی تھی، وہ یہ تھی کہ میں نے مسجد کے چندے میں سے دو سو روپے چرائے ہیں. گاؤں کی جامع مسجد ...

خود سے ہارے ہوئے لوگوں کے مسیحا

خود سے ہارے ہوئے لوگوں کے مسیحا کہاں ہو؟ کہاں ہو، کہیں سے آواز دو ہم کہ اپنی ذات میں تنہائی کی محفل کی جاں ہیں ہم کہ اپنے درد کے خود جبریل ہیں خود قرآں ہیں ہم کہ اپنی وحشت میں سر بریدہ پر بریدہ یہاں ہیں یہاں ہیں کہ یہیں پر وحشت خرامیاں کھینچ لائی ہیں یہاں ہیں کہ یہیں پر ہم تماشا ہیں، ہم ہی تماشائی ہیں یہ تماشائی ہٹا دو اس تماشے کا پردہ گرا دو کہیں سے آواز دو، کہاں ہو خود سے ہارے ہوئے لوگوں کے مسیحا، کہاں ہو

چالیس اور چار قدم

وہ گھڑی آ گئی تھی جب کلائی پہ بندھی گھڑی اور دل کی دوڑ میں میل جول نہیں رہا تھا. دل کے پیروں میں گھڑی کی سوئیاں چبھ گئی تھیں، وہ دوڑ رہا تھا اور میرے سامنے پچھلے چالیس منٹ میں کئی میٹرو رکنے کے بعد دوڑ لگا چکی تھیں اور میں میٹرو سٹیشن پہ گوستاو ویگیلاند کے کسی مجسمے کی طرح چپ چاپ کھڑا تھا اُس دن کھانا کھانے کے بعد ڈرائنگ روم میں چالیس قدم چلنے کی سنت پوری کی جا رہی تھی. ابا اسے نبی کی سنت مانتے تھے اور میں اِسے ابا کی سنت. میں ابا سے دو قدم پیچھے تھا اور ابا دونوں ہاتھ پیچھے کو باندھے چل رہے تھے "ابا، آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے" ابا یونہی چلتے چلتے ہی بولے کہ کی گل کرنی آ "میں شادی کرنا چاہتا ہوں" ابا نے چلتے ہوئے مجھے مڑ کے دیکھا اور ہلکا سا مسکرا کے بولے "اچھااااا، ایہہ تے چنگی گل اے، کوئی رشتہ لبھنے آں" اور یہی سارا مسئلہ تھا کہ جو انہوں نے لبھنا یعنی ڈھونڈنا تھا، وہ میں چار سال پہلے ڈھونڈ چکا تھا میری ہتھیلیاں پسینے میں گویا نہا رہی تھیں اور دل چھاتی کو جیسے دونوں ہاتھوں سے پِیٹ رہا تھا. رنگ چونکہ پہلے ہی سیاہی مائل تھا سو سرخ تو نہیں ہوا، مزید ک...

طوائف کا کوٹھا

میرا دِل ہے کہ طوائف کا کوٹھا، جو بھی آیا کچھ دیر رکا پھر دل سے اتر گیا. مستقل محبت، مزاج میں ہے ہی نہیں. مگر یہ بھی نہیں کہ دل کے کوٹھے پہ آنے والے کسی ایک کو بھی فراموش کر دیا ہو. یادوں کے ساز ہمیشہ بجتے ہیں اور کیا خوب بجتے ہیں محبتوں کے زینوں پہ چڑھنے اور کوٹھے تک پہنچنے کی آہٹیں آج بھی دل میں دھڑکن کی طرح بجتی ہیں. کود پھاند کے چڑھتی جوانی کے بیل بوٹے آج بھی سر سبز ہیں، پھول دیتے ہیں، خوشبو میں نہاتے ہیں. وہ گالوں پہ شرم و جھجھک سےخون کا جم جانا، آج بھی ڈوبتی شام کے گلابی بادلوں میں جھلکتا ہے. آنکھیں جو کسی ان دیکھے بھار سے اٹھائی نہیں اٹھتیں. ان جھکی آنکھوں سے کیسے کیسے حسین منظر دیکھ رکھے ہیں. وہ جو ہاتھ، ہاتھ میں آنے سے دل کا  دوڑتے ہوئے  ہتھیلیوں میں آ دھڑکنا، ہتھیلیوں میں پسینے کی چشمے یوں پھوٹ نکلنے جیسے اچانک کسی پہاڑ سے آبشار نکل پڑے. وہ لَمس کی دستکیں جو دعاؤں کی طرح بار بار دی جاتی رہیں کہ کوئی وہ بند کواڑ کھلیں، وہ بند کواڑ کہ جیسے کسی خدا کے گھر کا دروازہ. وہ بوسے جو دھوپ میں پڑتی بارش کی طرح بدن کے ہر ایک کینوس پہ قوسِ قزح کے رنگ بھرتے رپے. وہ بدن کہ جیسے پر...

پرانا دوزخ

آج موسم ہے کہ حُسن کی معراج پہ ہے گویا. نیلے آسمان کی جھیل میں کہیں کہیں سفید بگلے تیر رہے ہیں. سورج تک خوشگوار موڈ میں ہے. گرمی ہے مگر ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا بھی رواں ہے. میں لنچ بار میں باھر کھلے میں رکھی کرسی پہ بیٹھا ٹھنڈی ٹھار بئیر کے ساتھ brie cheese کے مزے لے رہا ہوں   ساتھ والی کرسی پہ ایک  عمر رسیدہ شخص وائٹ وائن کے سِپ لے رہا ہے. عمر کا اندازہ چہرے کی جھریوں، بازوؤں سے پروں کی طرح لٹکتے ماس اور ہاتھوں کی نیلی نَسوں سے نوے سال کا لگتا ہے یا پھر شاید سو کو چھو رہا ہو. عمر کتنی بھی گزری ہو اس کے بال سر پہ پورے ہیں. دودھ کی طرح سفید اور گھنے اور لمبے بال، جنہیں سر کے پچھواڑے باندھا ہوا ہے . کیپ میز پہ دھری ہے، آدھا پھونکا سگار ایش ٹرے میں ہے اور رے بین کی پائلٹ عینک آنکھوں پہ. وقفے وقفے سے بڑی نزاکت سے وائن کا گلاس ہونٹوں تک جاتا ہے، ایک سِپ لی جاتی ہے اور وہ پھر میز پہ لوٹ آتا ہے  سامنے آسمان کے ساتھ رنگ کا مقابلہ کرتا نیلا سمندر ہے. لوگ آ جا رہے ہیں اور پھر اچانک ایک ادھیڑ عمر شخص سامنے سے گزرتے ہوئے پہلے مجھے مسکراہٹ پھینکتا ہے جو ہمارے ہاں عام رویہ ہے، پھر اسی مسکر...

میں ہی کیوں

مجھے سمجھ نہیں آتی کہ تمہارا مسئلہ ہے کیا، کیا نہیں ہے تمہارے پاس، کیا ہے جو تمہیں نہیں ملتا، کس شے کی کمی ہے تمہیں؟ ابو بول رہے تھے.. تم بہن بھائیوں کے لیے دن رات ایک کیا ہوا ہے، برینڈڈ کپڑے، برینڈڈ جوتے، نئے سے نیا موبائل، اور کیا چاہیے تمہیں؟؟ میں ان کے سامنے صوفے کے داہنی کونے میں بیٹھی سن رہی تھی مگر سنتے ہوئے ان کی آواز ایسے لگتا تھا جیسے گھر کے آخری کمرے سے آ رہی ہو. دل کا دھڑکنا تو دو چار گہری اور لمبی سانسیں لینے کے بعد آپ محسوس کر سکتے ہیں، کیا آپ نے کبھی کان دھڑکتے محسوس کیے ہیں؟ میرے کان دھک دھک دھک دھک دھڑک رہے تھے بولو، بولتی کیوں نہیں ہو اب؟ ابو کی آواز اونچی ہو رہی تھی. ادھر دیکھو، سامعہ ادھر دیکھو.. میری گردن مزید ڈھلکی جا رہی تھی، ٹھوڑی چھاتی کو چھو رہی تھی ادھر دیکھ، بہری ہو گئی ہے کیا؟ ابو کی آواز اتنی سخت اور اونچی تھی کہ میری گردن خودبخود اونچی ہو گئی. میں نے ابو کی طرف دیکھا. ان کی آنکھیں مجھے چِیر رہی تھیں. دل تیز سے تیز تر دوڑے جا رہا تھا اور پیٹ جیسے کسی سے رسی سے کَسنا شروع کر دیا ہو، میری آنکھیں بائیں ہاتھ کی کلائی پہ بندھی سفید پٹی پہ جمی ہوئی تھیں بول، ...

رائیگانی

مجھے زندگی سے نفرت ہے اور میری زندگی کی سب سے پہلی نفرت 'پڑھائی' تھی. یہ ایک ایسی چڑیل تھی جس نے میرا بچپن ایک ہی لقمہ کر کے ہڑپ کر لیا تھا. کیسا بدبخت انسان ہو گا وہ جس نے سکول میں کلاسیں بنائیں اور پھر کلاسوں میں نمبر ون نمبر ٹو اور نمبر تھری والی نفرت پیدا کی، اور پھر وہ ناہنجار یہیں پہ رکا نہیں، پاس ہونے اور فیل ہونے کے لیے بھی نمبر بنا ڈالے میں جب پیدا ہوا تب کیا ہوا تھا، پھر میری سانسوں اور قد کے ساتھ بڑھتے سالوں میں کیا کیا ہوا، مجھے یاد نہیں، یا یوں کہہ لیں مجھے ہوش نہیں. زندگی کی پہلی یاد جو سر کے پچھواڑے میں کہیں ثبت ہو گئی تھی وہ یہ ہے کہ میں بہتی آنکھوں اور بہتے ناک کے ساتھ مسلسل آگے پیچھے ہِل ہِل کے سرہانے پہ رکھے قرآن سے سبق پڑھ رہا تھا اور رونے کی وجہ یہ تھی کہ میں لفظ صحیح سے تلفظ نہیں کر پاتا تھا، پڑھتے ہوئے کچھ الفاظ کو جوڑ کے پڑھنا میرے لیے بہت مشکل تھا. اس مشکل پہ مزید مشکل ابا کی جھڑکیاں تھیں جو اس وقت تھپڑوں جیسی لگتی تھیں اور رونا تو جیسے میرے سرہانے دھرا رہتا تھا یہ سکول نامی ٹارچر سیل میں جانے سے پہلے کی یاد تھی.. پہلی کلاس میں ابا پہلے دن چھوڑ کے آئ...