Monday, August 04, 2014

بھینسا اور انسان

ہمارے گاؤں میں اسے "مسجد کا مالی"  کہا جاتا ہے، آپ کے گاؤں کی خبر نہ رکھنے پہ معذرت.. 
وہ ایک بھینسا جسے تُو فلاں سمجھتا ہے
کئی بھینسوں کو  کرتا ہے صاحبہ اولاد!!

اکثر ایک گاؤں میں ایک ہی بھینسا ہوتا ہے، دیکھنے میں تو یہ بھی آیا کہ تین چار گاؤں کی بھینسوں کا فقط "ایک ہی دولہا"  ہوتا ہے، یہ اس بات پہ دلالت کرتا ہے کہ فی میل بدل جاتی ہے "میل"  کبھی نہیں بدلتا...
مسجد کے مالی، یا آپ جو بھی اسے کہتے ہیں، کو کُھلی چھُٹی ہوتی ہے جو مَن میں آئے کرے.. آئی مِین کہ وہ کسی ایک جگہ پہ رات نہیں کاٹتا، مسافر جیسا ہوتا ہے.. جہاں رات چلی آنکھ لگا لی، درویشی صفت ہے.. جہاں سے جو ملا وہی کھا لیا، فقیر بھی ہوتا ہے.. جس کی فصل چاہے برباد کر دے اسے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا، گُلو بٹ کا باپ دادا لگتا ہے... اب تو گاؤں کے لوگ اُْسے "امریکا امریکا"  کہہ کے بلاتے ہیں، ویسے بھی اس کے سینگوں اور جارج ڈبلیو بُش کے کانوں میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے... گاؤں کے لوگوں کا کُھلے سانڈ کو امریکا کہنا اس بات کی طرف صاف اشارہ ہے کہ اب گاؤں دیہات کے لوگ بھی "انفارمیشن" رکھتے ہیں.. 
پتا نہیں کیوں اس کو کبھی کبھار جیسے "پاگل پنے"  کا، دورہ سا پڑ جاتا ہے، تو پھر اس سے بچنا نا ممکن ہوتا ہے، بانو قدسیہ جی کی "راجہ گدھ"  کھنگال ڈالی مگر اس کے پاگل پن کی وجہ ایسے ہی غائب ہے جیسے طاہر القادری کی صداقت...
جوانی میں گاؤں کا ہر چھوٹا بڑا چوہدری اسے ایسے عزت سے گھر لاتا ہے جیسے..... اب رہنے دیں کچھ زیادہ ہو جائے گا... اور یہ بھی نواب کا پُتر چھاتی پُھلا کے آتا ہے اور کچھ ہی دیر میں سَر اٹھا کے ہلکی سی طنزیہ سمائل دیتا گاؤں سے نکل جاتا ہے..
مگر بڑھاپا سچ کہتے ہیں کتے پہ بھی آتا یے تو بُرا ہی آتا ہے.. بوڑھے بھینسے کا دکھ کیسے سمجھے، نہ کوئی بیوی دکھ سکھ کی ساتھی، نہ اولاد کا پتا.. اولاد بھی اسی کی ہوتی ہے چاہے ڈی این اے ٹیسٹ کروا لیں مگر اتنی اولاد ہونے کے بعد بھی کَھجل خوار ہی ہوتا ہے، کوئی "اولڈ ہاؤس"  بھی تو نہیں ہوتا نا..  میاں صاحبان ایسے دکھ سمجھتے ہی ہوں گے امید ہے کچھ "ایکشن"  لیں گے. .. 
انسان اور بھینسے میں کم ہی فرق ہوتا ہے، بھینسا اپنی طاقت اور زور کی اکڑ پہ سارا گاؤں آگے لگائے پھرتا ہے اور انسان کبھی طاقت، کبھی دولت اور کبھی اولاد کے غرور میں ظلم کی حدیں توڑتا جاتا ہے..
بھینسے کے "پاگل پن"  کی وجہ تو ابھی تک نا معلوم ہی ہے جیسے عام شہریوں کے قاتل ہمیشہ نا معلوم ہی ہوتے ہیں، مگر انسان اکثر و بیشتر اپنی "اندھی عقیدت"  میں سُدھ بُدھ گنوائی پھرتا ہے...
جیسے کہتے ہیں کہ بہار کے اندھے کو ہَرا ہَرا سُوجھتا ہے ایسے ہی عقیدت کے اندھے کو "انقلاب"  دکھائی دیتا ہے (اس سے مُراد "گرین انقلاب"  تو قطعی نہیں، ہاں جی)..

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...