Thursday, June 27, 2019

تلاش خاک ہوئی

‏میں خاک زادہ
آسماں کے سفر پہ نکلوں تو کیونکر

چاند سورج اور چند بـے نام ستارے
اس کے آگے بڑھوں تو کیونکر

وہ کہتے ہیں  آسمانوں کے پار
حدِ نظر سے پرے
وہم و گماں سے ماورا
کوئی خدا کہیں ہے

میں خاک زادہ
میرا آسماں، یہ میری زمیں ہے

اور اس زمیں پہ .. خدا کہیں نہیں ہے

‎#مقصود_عاصی

Monday, June 24, 2019

سُچی محبتوں کی سَچی کہانی.. (حصہ دوم)

ماں کی آواز ٹیلی فون سے سیدھی دل میں اتر گئی..
"بڈھا گھر آجا مجھے تیری بہت ضرورت ہے"

اگلے دن ٹکٹ لے کر بلوچستان کیلئے روانہ ہوا.. جہاز میں بیٹھتے ہی خیالوں کا ایک ہجوم ذہن میں امڈ آیا، حال کا اپنا وجود ہی نہیں ہے۔ محفل میں حال تنہائی کو تلاش کرتا ہے اور تنہائی میں محفل کو یاد کرتا ہے۔

ایک بڑا گھر اور صحن تو جیسے کوئی کھیل کا میدان، گہما گہمی کا عالم مگر میں ان تمام چیزوں سے لاتعلق ہی رہتا تھا... میری دنیا میری مائیں تھیں..

بابا سائیں اپنے علاقے کے امیر شخص تھے.. میں نے کبھی انہیں عورتوں سے اونچی آواز میں بات کرتے نہیں سنا.. روایت اور اصول کے بندے تھے.. ملازمین کو گھر کے فرد کی حثیت کا درجہ حاصل تھا، گھر کے کسی فرد کی جرات نہیں ہوتی تھی کہ ملازمین سے سخت زبان میں بات کریں..
میرے پیدا ہونے اور میری ماں کے گزر جانے کے بعد بابا نے دو شادیاں اور کیں.. مجھے جنم دینی والی ماں کو میں نے کبھی نہیں دیکھا... دو سوتیلی ماؤں ( سوتیلی کہتے ہوئی میری زبان کانپ رہی ہے ) نے مجھے پالا پوسا بڑا کیا دونوں آپس میں بچپن کی سہیلیوں کی طرح پیار کرتی ہیں.. اپنے بچوں سے زیادہ پیار اور عزت دی..
میں سب دوستوں کو فخر سے بتاتا تھا کہ میری دو مائیں ہیں.. دونوں مائیں بلوچ نہیں تھیں مگر مجھے یاد نہیں کبھی انہوں مجھ سے بلوچی کے علاوہ کبھی کسی اور زبان میں بات کی ہو... ہاں ایک ماں نے (جو پنجابی ہیں ) مجھے بلھے شاہ سے متعارف کروایا.. ہمیشہ اس کی شاعری پڑھ کر مجھے ترجمہ کرکے سناتی تھی اور دوسری ماں ( جو سندھ سے تعلق رکھتی ہے ) نے مجھے سندھی شاعری اور ادب سے ملوایا...
اور میوزک میں دلچسپی ان ماؤں کی بدولت آج تک قائم ہے... بلوچستان کی تاریخ کے بارے میں دونوں کی آشنائی کمال کی ہے.. مجھے ہمیشہ تحفے میں تاریخی اور شاعری کی کتابیں دیتی تھیں اور مجھ سے آج تک شاعری کی فرمائش کرتی ہیں وہ بھی گا کر... سُر اور لے میں ذرا سی غلطی پر ایک پیار بھری ڈانٹ ، اس ڈانٹ کیلئے میرا بے سرا گانا اور انکی ہنسی بھلائے نہیں بھولتے...

ماں لفظ میری زندگی کی جَڑ ہے.. میری طاقت میری تربیت اور میری خوشی کا مرکز صرف ماں ہے ... مجھے شاید ماں سے اتنی محبت نہیں جتنی میری ماؤں کو مجھ سے عشق ہیں، مجھ میں ان کی جان ہے.. ماں رحمت کا سمندر ہے...
ایک بار بچپن میں، میں نے کسی کو ماں کی گالی دی تو مائیں مجھ سے ناراض ہو گئیں.. پھر مجھے بلا کر ایک نصیحت کی
" بیٹا ماں صرف تمھاری نہیں ہے، مائیں سب کی ایک جیسی ہوتی ہیں، اگر اپنی ماں کی عزت کرتے ہو تو کوئی کمال نہیں ہے ، سب ماؤں کی عزت کرنا اصل بات ہے.. چاہے وہ انسان ہو یا بے زبان جاندار "
بڑی مشکل سے معافی ملی اور آج تک دوبارہ یہ غلطی نہیں کی.. ایک دفعہ شکار پر گیا تو شکار کرنے سے پہلے ماں کی بات یاد آگئی، شکار کئے بغیر واپس آیا اب صرف پہاڑوں پر پکنک منانے جاتا ہوں جانوروں کا شکار کرنے نہیں...

جب میں شہر پڑھنے کیلئے آیا تو دونوں مائیں باری لگا کے ہمیشہ میرے ساتھ رہتی تھیں کہ بڈھا کا خیال کون رکھے گا .. یہ میری مائیں نہیں میری سب سے اچھی دوست ، میرے استاد، میرے محافظ، میری کل کائنات ہیں...

مجھے کبھی پیسے مانگنے کی ضرورت نہیں پڑی، صبح اٹھتا تو تکیہ کے نیچے پیسے پڑے ملتے تھے.. عید پر کپڑے جوتے ہمیشہ تیار ملتے تھے...
مجھے وہ دن نہیں بھولتا جب میں نے اپنی پہلی کمائی ماں کی ہاتھ میں رکھی تو دونوں مائیں مجھ سے لپٹ کر دیر تک روتی رہی..
میں جب بھی کسی کھیل کے مقابلے میں حصہ لیتا تھا تو دونوں میں سے ایک ضرور میدان میں موجود ہوتی تھی .. مجھے گھر میں پڑھایا جب داخلے کیلئے پہلی دفعہ گیا تو مجھے کلاس ششم میں داخلے کا ٹیسٹ دینے کو کہا میں ٹیسٹ دیکرباہر آیا ماں نے ہیڈ ماسٹر کے کمرے مجھے بلایا اور میرا ماتھا چوما کر کہا "بڈھا مبارک ہو داخلہ ہوگیا "

میں نے کبھی اپنی کوئی پریشانی ماؤں سے بانٹی نہیں مگر ناجانے انہیں کیسے پتہ چل جاتا تھا.. وہ صرف میری مائیں نہیں بلکہ میرے تمام دوستوں کی مائیں تھیں... ہر جمعرات کو تمام دوستوں کا کھانا میرے گھر پہ ہوتا تھا.. ایک دفعہ ہم فائنل میچ ہار گئے، سب دل برداشتہ تھے ماں نے پوری ٹیم کو گھر بلاکر دعوت دی کھانا کھلایا اور کہا "بچوں ہار سے سبق حاصل کرو اور اسے اپنی کامیابی کا زینہ بناؤ"
جب بارہویں جماعت پاس کی مجھے پورے پاکستان کے ٹور کیلئے بھیجا، کہا :بڈھا جا گھوم کر آؤ" پورے ایک مہینہ میں نے پورا پاکستان گھوما.. ہرروز ماں کو خط لکھتا تھا.. جب واپس آیا تو ماں نے ایک بھی خط نہیں کھولا تھا، کہا :بڈھا اب تم خود پڑھ کر سناؤ " میں خط سنا رہا تھا اور دونوں ماؤں کی وہ 'واہ واہ اور ہائے ہائے' آج تک یاد ہے...

میری شیرین سے شادی پر دونوں ماؤں نے سب کی مخالفت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے میرا ساتھ دیا..
شیرین تو جیسے انکی بیٹی بن گئی ہے.. میری بہنیں میری بیوی کی پکی سہیلیاں ہیں.. جب میں ملک چھوڑ کر جارہا تھا تو دونوں ماؤں نے اپنے آنسو چھپا کر مجھے حوصلہ دیا.. وہ جملہ تو میں کبھی بھول ہی نہیں سکتا سکتا کہ "بڈھا، اگلے جنم میں ہم اپنی کوکھ سے تمہیں جنم دینا چاہتے ہیں"....

جہاز کے کراچی ائیرپورٹ پہ اترنے کی اطلاع نے خیالوں کے بادلوں سے باھر نکالا...

جب میں کراچی ائیر پورٹ پہنچا تو مائیں سامنے کھڑی تھیں... وہی شفقت وہی پیار.. وہی رحمت وہی جنت... میں نے جھک کر پاؤں چھوئے تو کہنے لگی "اب ہمارا بڈھا بڑا ہوگیا ہے "میں ہمیشہ ماؤں کے سامنے بچہ بن جاتا ہوں وہی بچپن کا بڈھا..

میں تیرے ہاتھ کے تکیے پر اب بھی رات کو سوتا ہوں
ماں میں چھوٹا سا اِک بچہ
تیری یاد میں اب بھی روتا ہوں

اب آتے اس مسئلے کی طرف، جس نے میری ماؤں کو مجبور کیا مجھے واپس بلانے پر.. جب میں نے بابا سائیں اور خاندان سے بغاوت کرکے شیرین سے شادی کی تو بابا نے مجھے عاق کردیا تھا.. مگر ان کی وفات کے بعد جب وکیل نے ان کی وصیت اور دیگر کاغذات خاندان والوں کو دکھائے تو سب کو جائیداد اور پیسوں میں حصہ دینے کے بعد، اپنی جائیداد انہوں نے میرے نام کردی تھی... باقی میرے سگے بہن بھائی جو مجھ سے عمر میں کافی بڑے ہیں انکو اپنی زندگی میں حصہ دے دیا تھا سب اپنے اپنے گھروں میں ہنسی خوشی رہ رہے تھے کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا.. میں نے اپنے حصے کی زمینیں اپنی ماؤں اور بہنوں کے نام ٹرانسفر کردی تھیں.. مگر خاندان کے کچھ لوگ اس بات کے خلاف تھے اور انہوں نے میری ماؤں کو تنگ کرنا شروع کیا تھا...
خیر جب میں ماؤں کو لیکر گاؤں پہنچا تو ذہن میں یہ خیال رقص کرنے لگے کہ 'میں تو ایک باغی ہوں.. ظلم سے، جبر سے، سماج کے طبقاتی نظام سے، مذہب و زبان سے، رنگ و نسل اور ذات پات سے باغی ہوں، پھر کیوں یہ منجمد سی کیفیت مجھ پر طاری ہوجاتی ہے؟ کیوں اس کیفیت سے فرار ممکن نہیں؟ ذہن کی فضاء میں تب ہی ایک آواز گونجتی ہے

"ماں"

کتنے برس گزر گئے تھے.. لوگ بدل گئے تھے، رویے تبدیل ہوگئے تھے، اب اس صحن میں گہما گہمی نہیں تھی ایک عجیب خاموشی تھی اور جیسے میں کسی اجنبی جگہ پر آگیا ہوں.. کسی چیز میں اپنائیت نہیں تھی.. سب بدل گیا تھا، نہیں بدلے تو دشمنی کی شدت، انتقام کی آگ نہیں بدلے.. وہی روایتوں کی سختی، وہی بندشیں جو سماج کی گھٹن کو قائم رکھے ہوئے ہیں ، جن میں کمی کی بجائے اضافہ دیکھنے کو ملا جن سے تنگ آ کر میں ملک چھوڑ گیا تھا...
خیر سب کام بخوبی نمٹانے کے بعد ایک بار پھر واپسی کا سفر جہاں میری زندگی میری منتظر تھی.. تمام نفرتوں سے دور مگر ایک خلاء جو کبھی پر نہ ہو سکے کہ مائیں ایک بار پھر سے میری منتظر رہیں گی...
شاید ایک بار پھر فون کی گھنٹی بجے گی اور ماں کی آواز ٹیلی فون سے سیدھی دل میں اتر جائے گی
" بڈھا گھر آجا مجھے تیری بہت ضرورت ہے "
...........................................

( بڈھا نے جو کہانی جیسی سُنائی ، سُنا دی گئی.. عاصی )

Sunday, June 23, 2019

دھواں سا دھواں

سارے میں برف ایسے پڑی ہے جیسے مائی زینب نے رُوئی سُکھانے چھت پہ ڈال رکھی ہو... سورج سوا نیزے پہ بھی ٹھنڈا ہوا پڑا ہے ... دستانے پہنے ہاتھوں میں کافی کے گرم مگ سے اور منہ سے دھواں نکل رہا ہے اور ہوا میں گھل رہا ہے... لوہے کے بینچ پہ بیٹھا برف، کافی کے مگ اور اپنی سانسوں سے نکلتا دھواں دیکھ رہا ہوں، سارا منظر دھواں لگ رہا ہے ....

رسوئی (باورچی خانہ) میں دھواں ہی دھواں بھرا تھا اور اماں پھونکنی سے گیلی لکڑی سلگانے کے لیے اپنے پھیپھڑے پھاڑ رہی تھی... میں سکول سے آیا تھا اور بھوک سے پیٹ کمر سے لگا ہوا تھا...
"اماں، بھوک لگی ہے"... اماں دھوئیں سے چھابڑی میں ایک روٹی، اور روٹی پہ ہری مرچ کا اچار رکھے نمودار ہوئی .. اماں کی داہنی آنکھ کے اوپر خون جما ہوا تھا اور جانے وہ رو رہی تھی کہ دھوئیں نے آنکھیں دھو دی تھیں.. میں بھوکا روٹی پہ جھپٹ پڑا، تین چار لقموں کے بعد ہی لقمے گلے میں اٹکنے لگے، اماں دھوئیں میں چلی گئی تھی اور میری آنکھوں میں دھواں بھرنے لگا....

اماں کا دن تہجد سے بھی پہلے شروع ہو جاتا تھا.. گھر داری کے سبھی کام اماں اکیلے کرتی تھی، اس کے علاوہ تین بھینسوں اور دس مرغیاں بمع اہل و عیال کے کھانے پینے، نہلانے وغیرہ کے کام بھی اماں کے ذمے تھے..

ابا صبح اٹھتے، مونہہ نہار دو چار گالیاں دیتے اور پھر ناشتہ کھاتے اور کھیتوں کو نکل جاتے، دن بھر کھیت ہوتے اور شام کو چوہدری لطیف کی بیٹھک... بیچ میں وقت ملتا تو گھر آتے اور کسی نہ کسی بات پہ اماں کو گالیاں دیتے یا دو چار مُکے اور ٹھڈے مار کے حقہ اٹھائے گھر سے نکل جاتے....

اماں ابا کی خدمت عین دین سمجھ کے کرتی تھیں.. کبھی شکایت یا غصہ اماں کو کرتے دیکھا ہی نہیں تھا... اماں بس ایک بار غصہ ہوئی تھیں جب میں نے Latvia جانے سے انکار کیا تھا... ماموں رشید لاتویا کے شہر جرمالا میں ایک ڈھابہ نما ریسٹورنٹ چلاتے تھے...

زمینوں کی زرخیزی متاثر ہو رہی تھی، گھر کا خرچہ چل سکتا تھا مگر وقت ویسا نہیں رہا تھا کہ جہاں نائی اور درزی گندم کے عوض بال کاٹتے، دیگیں بناتے یا کپڑے سیتے... ماموں رشید کی منتیں کی تھیں اماں نے کہ جمشید کو وہاں بلا لو کسی طرح... پہلے پہل میں خوش ہوا مگر جب جانے کا سوچتا تو اماں سے اتنا ٹوٹ کے پیار جانے کہاں سے امڈ آتا کہ لگتا مر ہی جاؤں گا جو جدا ہوا... جانے کا سوچتا تو ابا کے سفید بال اور کمر پہ ہاتھ دھرے رک رک کے چلنا دل چیرنے لگتا... مگر اماں بضد تھیں اور پھر ایک دن اماں کے آنسوؤں نے مجھے جہاز پہ بٹھا کے ہی چھوڑا.. اماں دوپٹے کا کونا منہ میں دبائے رو رہی تھی اور ہاتھ ہلا رہی تھی، میں چلتا جاتا اور مڑ کے دیکھتا جاتا.. آنکھیں دھواں ہوتی گئیں اور پھر سارا منظر دھواں ہو گیا....

Thursday, June 20, 2019

سُچی محبتوں کی سَچی کہانی (حصہ اوّل)

فون کی گھنٹی بجی، لفظ "ماں" نمودار ہوا تو جھٹ سے فون اٹھا لیا.. ماں کی آواز کانوں میں پڑی تو دل تک اتر گئی
"بڈھا گھر آجا مجھے تیری بہت ضرورت ہے"
زندگی بھر ماں نے مجھ سے کبھی کچھ نہیں مانگا تھا اور آج وہ مجھے بلا رہی تھی.. انکار تو کفر تھا.. "ماں میں آرہا ہوں"

اور ذہن کے پردے پہ ماضی کی فلم سی چلنے لگی.. جب ماں نے کہا تھا
"بڈھا تو یہاں سے چلا جا کبھی واپس مت آنا"
میں نے پوچھا "ماں، آپ کے لیے بھی نہیں"؟
ماں نے کہا "جب میں تجھے تیرے بچپن کے نام (بڈھا) سے پکاروں تو سمجھ لینا ماں کو تیری ضرورت ہے، مگر ان حالات میں یہاں سے چلا جا ہمیشہ کیلئے"...

دو خاندان، دو گاؤں اور دو دلوں کی یہ کہانی ہے.. کہانی سننے سے پہلے بوڑھے بلوچ کی ایک نصیحت جو اس نے مجھے کی اور کہا
"بیٹا آپ کی ایک خرابی کی سزا آئیندہ آنے والی تمھاری ساری نسلیں بھگتیں گی، کچھ بھی کرنے سے پہلے یہ بات یاد رکھنا "...
بوڑھے بلوچ نے مجھے ایک کہانی سنائی تھی کہ ایک شہزادے کو کسی دشمن قبیلے کی لڑکی سے عشق ہوا تھا، دونوں ایک دوسرے کے پیار میں دیوانے ہوگئے تھے.. شادی کرنا ناممکن تھا تو شہزادے اور اس لڑکی نے بھاگ کر شادی کرنے کا فیصلہ کیا.. اب شہزادے کو علاقے میں سب سے تیز رفتار اونٹ کی ضرورت تھی اگر کوئی پیچھا بھی کرے تو انہیں پکڑ نہ سکے.. اسی اونٹ کی تلاش اسے ایک شخص کے پاس لے گئی.. اس شخص نے کہا کہ اس سے تیز رفتار اونٹ آپ کو سینکڑوں کوس دور دور تک نہیں مل سکتا مگر اس نسل میں خامی ہے۔ شہزادے نے پوچھا کیا ؟ اس شخص نے کہا کہ اونٹ دوڑتے دوڑتے رک جاتا ہے، نیچے بیٹھ جاتا ہے اور پھر بھاگنا شروع کرتا ہے..
جب شہزادے نے اونٹ کو خرید کر اس پر سواری کی تو اونٹ تیز رفتاری سے دوڑنے لگا، شہزادہ بہت خوش ہوا دوڑتے دوڑتے اچانک اونٹ رک کر بیٹھ گیا چند لمحوں کے کھڑا ہوا اور پھر دوڑنے لگا... اور شہزادے کا دماغ بھی دوڑنے لگا کہ ایک خامی نسل در نسل چلتی ہے....

میں اور شیرین، جو پاس والی گاؤں کی تھی، ہم نے بچپن ساتھ کھیلتے ہوئے گزارا اور مجھے بچپن سے ہی بتایا گیا تھا کہ شیرین آپ کے نام پر ہے ( منگیتر) ہے..
وقت اور حالات نے بچپن سے ہی ہمیں جدا کردیا.. میں تعلیم حاصل کرنے شہر چلا آیا اور شیرین پتہ نہیں کہاں تھی، کن حالات میں تھی.. کیسی تھی..
میں ہر طرح کے ہتھیار چلانے اور جوڈو کی ٹریننگ لے چکا تھا مگر مجھے ان چیزوں کے مقابلے میں میوزک اور فوٹو گرافی کا شوق زیادہ تھا.. پہاڑوں سے، صحرا اور پھر ساحل سمندر سے ایک محبت سی ہو گئی تھی... یونیورسٹی کا دوسرا سال تھا.. ایک دن کینٹین میں دوستوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ چند لڑکیاں داخل ہوئیں .. اور ان میں سے کسی ایک لڑکی نے کو آواز دی " شیرین "

یہ نام میرے ساتھ اس وقت سے جڑا تھا جب میری عمر صرف 3 سال تھی .. ذہن میں پرچھائیاں ابھریں " بیٹا ، شیرین تیرے نام پر ہے "

میری نگاہ بے اختیار اسکی طرح گئی وہ میری خوابوں کی رانی، جو میری ہر سانس میں چلتی تھی، دل کی ہر دھڑکن میں دھڑکتی تھی، آج وہ سامنے کھڑی تھی اور میں صرف اسے دیکھتا ہی رہ گیا.. جیسے وہ کوئی دیوی ہو گر چادر (بلوچی چادر) میں سر کو چھپائے ہوئے اور ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ جیسے کوئی نو خیز کلی سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ہی کھل اٹھتی ہو.. مجھے اپنی طرف مبہوت دیکھ کر کہا
"مسٹر طبیعت تو ٹھیک ہے "
میں نے بلوچی میں کہا" تم شیرین ہو ناں، اماں گنج جان کی بیٹی "
وہ حیرت سے مجھے دیکھنے لگی، کچھ لمحات بعد کہا
"پھر آپ کوئی اور نہیں 'یاہو' ہو"
بچپن سے وہ مجھے یاہو کہہ کر پکارتی تھی.. ہم دونوں کینٹین سے نکل کر ایک بینچ پر آکر بیٹھ گئے.. باتوں باتوں میں اس نے کہا کہ کیا آپ کو معلوم ہے دونوں خاندانوں میں دشمنی ہوگئی ہے، اب شاید ہم کبھی ایک نہیں ہونگے..
"ہم الگ تھے ہی کب" میں نے کہا تو وہ مسکرائی اور کہا اب فیصلہ آپ نے کرنا ہے، جینا مرنا ساتھ ہی ہوگا..
میں تمھارے ساتھ ہوں.. ایک بلوچی بتل (ضرب مثل) ہے " نامرد کی بیوی کو لوگ اس سے چھین لیتے ہیں مگر مرد کی منگیتر کو نہیں"

اب صورتحال کو سمجھنے کیلئے میں گاؤں چلا آیا.. سب نے شادی کی مخالفت کی کہ ہم اس شادی سے راضی نہیں ہیں

اب کوئی اور راستہ نہیں تھا کہ ہم بھاگ کر شادی کرلیں مگر مجھے اس بوڑھے بلوچ کی سنائی کہانی اور نصیحت یاد آگئی...
گاؤں کے حالات بہت کشیدہ تھے.. دو گاؤں کے بیچ سرحد بن چکی تھی، دشمن ملک کے سرحد...
بلوچ معاشرے میں منگیتر سے ملنا تو کجا اس کے علاقے میں جانا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا.. ماں سے بات کی تو اس نے کہا اپنے والد سے بات کرو۔ والد سے بات کی تو انہوں نے سختی سے منع کردیا کہ "شیرین کو بھول جاؤ"

گاؤں سے مایوس ہوکر شہر چلا آیا اور پھر چند 'معززین' نے شیرین کے والد سے ملاقات کی.. کافی لمبی بحث و تکرار کے بعد، بلوچی کلچر کے مطابق شادی کی بات منظور تو ہو گئی، مگر اس شرط پہ کہ وہ کسی کی زندگی کی کوئی گارنٹی نہیں دیں گے...
سو مجھے اپنی اور شیرین کی زندگی کی حفاظت دونوں خاندانوں سے خود کرنی تھی، سادہ سا نکاح ہوا اور میں اور شیرین اس سماج سے دور چلے آئے...

اور اب مجھے اتنے سالوں کے بعد اکیلے دوبارہ دشمنوں کے درمیان جانا تھا... اپنی ماں کیلئے....
"بڈھا گھر آجا مجھے تیری بہت ضرورت ہے"

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...