Tuesday, December 08, 2015

افغانستان میں گزارے دو سال

جب نیٹو کے کہنے پر نارویجن حکومت نے اپنے فوجی افغانستان بھیجنے پہ رضامندی ظاہر کر دی تو ان فوجیوں میں شامل ایک "میں" بھی تھا..
اچھا لگ رھا تھا کہ اک نئی جگہ پہ جا رھے ھیں اور ھمارے مقاصد جنگ کرنا نہیں تھے.. مگر اک ڈر بھی تھا کہ طالبان و القاعدہ کی گولی کبھی بھی زندگی کی تمام روشنیاں گُل کر سکتی ھے.. اور میری زندگی روشنیوں سے بھر پور تھی.. تمام تر سہولیات میرا وطن مجھے میری پیدائش سے دے رھا تھا.. دوست احباب بھی تھے اور ھر طرح کی انجوائےمنٹ میسر..
ھمیں دو سال کے لئے افغانستان بھیجا جا رھا تھا، مختلف ھدایات دی گئیں جن میں مجھے سب سے زیادہ مشکل اور تکلیف دہ یہ لگی کہ میں دو سال شراب کو ھاتھ نہیں لگا سکتا تھا.. میں نے شراب نوشی تیرہ سال کی عمر سے شروع کی تھی اور میں ایک "وھسکی کلب" کا باقاعدہ ممبر تھا..
جب ھم براستہ ترکی، نیٹو کے جہاز میں افغانستان کے شمالی شہر "مزار شریف" میں اترے تو جولائی کی کڑکڑاتی دھوپ اور ففٹی پلس درجہ حرارت نے جہاز کی سیڑھیوں پہ ھی ھمارا استقبال کیا.. میرا تو اتنی گرمی کا پہلا تجربہ تھا.. آپ اندازہ کر لیں کہ ھمیں تھرٹی پلس چولھا محسوس ھوتا ھے اور یہاں پچاس سے بھی اوپر اور پھر آپ ھماری وردی بھی دیکھ لیں کہ پیروں میں کھُلی چَپل،شورٹس اور ٹی شرٹ نہیں، بلکہ بھاری بھر کم  آرمی جوتے، مکمل یونیفارم، بلٹ پروف جیکٹ بھی، کمر پہ بیلٹ، بیلٹ سے بندھے پستول اور پانی کی بوتل،کندھے پہ کلاشنکوف، جس کے میگزین بھی کمر پہ بندھے، کندھے پہ بیگ اور سر پہ ھیلمٹ.. مجھے تو لگا کہ جہنم اگر ھے تو میں جہنمی ھو چکا ھوں..
ھم تو دھوپ والی عینک کے بغیر آنکھیں تک نہ کھول پاتے تھے مگر افغانی بنا عینک کے دھوپ میں سب کام کرتے تھے، بعد میں ھمیں بتایا گیا کہ عینک نہ استعمالنے کی وجہ سے چالیس پچاس کی عمر تک پہنچ کے یہ لوگ اندھیرے میں کچھ بھی دیکھنے سے معذور ھو جاتے ھیں.. اور سردیوں میں افغان باشندے پاؤں میں بنا جراب کے خالی کھُلی سینڈل کے ساتھ برف پہ چلتے تھے.. واقعی افغان سخت جان قوم ھے..
مگر مجموعی طور پر میرے دو سال بہت اچھے گزرے، ھمیں مختلف شہروں اور لوگوں سے ملنا ھوتا تھا اور میں نے افغان لوگوں کو بہت قریب سے دیکھا اور سمجھا کہ وھاں99.9 فیصد لوگ ھمیں بہت پیار سے ملتے رھے اور مہمان نواز تھے.. اور وھاں رہ کر میں نے جانا کہ وہ لوگ بھی، ھماری طرح پر امن اور سلامتی اور استحکام چاھتے ھیں..
ھم مختلف مساجد کے امام حضرات سے بھی ملتے رھتے تھے اور وہ سب اس بات کے قائل تھے کہ اسلام دھشتگردی کا درس نہیں دیتا.. اور اسی وجہ سے میں نے قرآن کے مختلف حصوں کے انگریزی تراجم پڑھے اور جہاں تک مجھے سمجھ آئی کہ قرآن کا خدا بھی امن و محبت کا خدا ھے..قرآن معاشرے کے مختلف پہلوؤں پہ بات کرتا ھے اور سوچنے اور ریسرچ کرنے کی بار ھا تلقین کرتا ھے..
مزار شریف کے مضافات میں ایک گاؤں کے امام مسجد سے ملاقات ھوئی، میں حیران تھا کہ وہ اتنی شستہ انگریزی کیسے بول لیتا ھے، باتوں باتوں میں جانا کہ وہ انگلینڈ رھا اور وھیں کا پڑھا ھوا ھے اور یہاں کے بچوں کو اب دینی و دنیاوی تعلیم دیتا ھے.. اس کی ایک بات میں کبھی نہیں بھول سکتا جو اس نے افغانستان پہ حملوں کے حوالے سے کہی تھی.. اس نے کہا "آپ لوگ آؤ، بمباری کرنی ھے کرو، دھشت گردوں کو مارنا ھے مارو مگر خدارا یہ ایک سب ایک ہی بار میں ختم کر کے جاؤ، بار بار کچھ عرصہ کے وقفوں کے بعد یہ عمل مت دہراؤ" ..
اور میری رائے میں یہی بات امریکی افواج اور نیٹو کو سمجھنی چاہیے تھی جو کہ نہیں سمجھی گئی.. مثال لیجے کہ آپ نے پوست کے کھیتوں کے کھیت جلا ڈالے "وار آن ڈرگز" کے نام پہ مگر آپ یہ بھول گئے کہ کتنے ھزاروں افغانی خاندانوں کی کُل روزی روٹی اسی پہ چلتی تھی، اب ان کے گھر کیسے چلیں گے؟؟ آپ جلاتے پوست مگر اس کا متبادل روزگار بھی دیتے مگر یہی اور ایسی غلطیاں، طالبان و القاعدہ کے حق میں کار آمد ثابت ھوئیں اور انہوں نے عوام کو پیسےکے لالچ  اور جذبات کے بَل بوتے پہ اپنی نفری بڑھا لی.. عوام کا طالبان کے ساتھ نرم رویـے کا یہی کارن ھے کہ بار بار کے بمباری نے کسی کے گھر کو تباہ کیا، کسی کو بے روزگار کیا، کسی کے والدین مَرے، کسی کے بچے جاں بحق ھوئے، تو  جو زندہ بچے وہ دلوں میں نفرت لے کے زندہ ھیں اور اسی نفرت کا فائدہ یہ دھشت گرد تنظیموں نے اٹھایا.. ھم لوگوں نے یہاں بھی غلطی کی، ھمیں وھاں کے لوگوں کو ایجوکیٹ کرنا تھا اور کرنا ھے.. ھمیں انھیں روزگار کے مواقع دینے تھے اور دینے چاہئیں، یہی ان کے زخموں کا مرھم اور یہی انھیں نارمل زندگی کی طرف لا سکتا ھے.. اب بھی انٹرنیشنل کمیونٹی کو ان باتوں کی طرف توجہ دینی چاہئے تبھی متشدد رویوں میں کمی آ سکتی ھے..
اور پھر کچھ ھمارا میڈیا بھی کچھ کم نہیں جو اسلام فوبیا کا شکار ھے.. مثال لے لو کہ جب نارویجن کرسچن "برائیوِک" اپنے ھی لوگوں کا کھُلے عام قتل کرتا ھے جس میں زیادہ بچے تھے تو یہ اس کا ذاتی فعل ھے اور کوئی نہیں کہتا کہ پوری کرسچن کمیونٹی دھشت گرد ھے، مگر جب کوئی مسلمان ایسا کرتا ھے تو مغربی و امریکی میڈیا پوری مسلم کمیونٹی کو دھشت گرد بنا کے پیش کرتا ھے اور ایسا کرنا بھی مسلمان نوجوانوں کو نفرت سکھاتااور متشدد بناتا ھے.. جیسے یہ "اسلامک سٹیٹ" گروپ ھے، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، یہ میں کہہ رھا ھوں جو کرسچن ھوں کیونکہ جہاں تک میں نے قرآن کو پڑھا اور سمجھا ھے وہ ان کی تعلیمات و رویوں سے کہیں بھی میل نہیں کھاتا..
آخری اور صاف بات ھے کہ  عوام کو "ایجوکیٹ" کیا جائے.. ایجوکیشن، ایجوکیشن اور پازیٹویٹی..

(ایک نارویجن آرمی کے جوان سے کچھ بیس منٹ بات کرنے کا موقع ملا، جو اس نے باتیں کیں، من و عن اسی کی زبانی آپ کی نذر کر دیں)

Saturday, November 14, 2015

لمبی چھٹیاں.. بیروت 12 نومبر 2015

میں اس کا نام نہیں جانتا تھا اور نہ ھی وہ میرا.. مگر ھم دونوں ایک دوجے کے چہرے جانتے اور پہچانتے تھے اور کوئی پانچ چھے سال سے..
وہ اوسلو شہر کے ایک رھائشی علاقے "تھورشوو" میں ایک اٹالین پِزا شاپ پہ کام کرتا تھا اور میں تب اُسی علاقے میں روزگار کے لئے جاتا تھا..  اٹالین پِزا تو میں نے بہت کم کھایا مگر وھاں کا شوارما اور کباب بہت اُڑائے اور اسی بدولت ھم ایک دوجے کے "چہرہ واقف" ھو گئے..
وہ بہت خوش اخلاق تھا اور ھر وقت ایک مسکراہٹ اس کے چہرے پہ سجی رھتی تھی.. تھوڑا فربہی کی جانب گامزن اور سفید رنگ.. لمبے کالے بال.. اعتراف کر لوں کہ میری شدید خواہش رھی کہ میں بھی ویسے ھی لمبے رکھ سکوں مگر میرے سَر کا سفر بہت تیزی سے "گنج" کی طرف جاری ھے..
باتوں باتوں میں جانا کہ وہ بیروت (لبنان)  کا ھے مگر نام نہ میں نے پوچھا کبھی نہ اُس نے.. (کَل رات کو پتا چلا کہ اس کا نام محمود بلال تھا) ھم اک دوجے کو "برُور" BROR ھی بلاتے تھے جو کہ Brother کے لئے نارویجن میں استعمال ھوتا ھے
تین ماہ پہلے کی بات ھے کہ میں نے اُسے کام پہ دیکھا اور پھر مسلسل تین چار روز،صبح شام دیکھا.. میں نے پُوچھا کہ ھر وقت کام ھی رھتے ھو کیا؟ کہنے لگا کہ برُور کولیگ چھُٹی پہ گیا ھے بس آجائے گا ایک آدھ ھفتے میں تو پھر میں بھی  لمبی چھٹیوں پہ نکل جاؤں گا اپنے لبنان.. وہ بیروت جانے پہ بہت خوش تھا اور پھر دو ماہ قبل وہ اپنی بیوی اور تین بچوں کے ساتھ بیروت چلا گیا..
بیروت:
کَل اس کی واپسی تھی اور وہ ائیر پورٹ جانے سے پہلے بیروت کے بازاروں میں شاپنگ کرنا چاھتا تھا اور لبنانی کھانا کھانا چاھتا تھا.. تینوں بچوں کو دادا دادی کے پاس چھوڑ کے دونوں گھومنے نکل پڑے.. کچھ شاپنگ کی اور پھر کھانا کھانے بیٹھ گئے اور.... ایک دھماکہ ھوا اور اس کی بیوی شدید زخمی ھوئی مگر وہ جو بیروت کی لمبی چھٹیوں پہ آیا تھا، موت کی لمبی اور کبھی نہ ختم ھونے والی چھٹیوں پہ چلا گیا...

Sunday, July 19, 2015

پُل صراط کا سفر ..حقیقی سفر

وہ گجرات شہر کا باسی تھا، نام اعجاز بٹ اور عین بٹ ھونے کا ثبوت فربہی جسم.. عمر تیس سے اوپر.. ایک اوسط سے کم درجے کا خاندان..باپ رنگ روغن کا کام کرتا تھا مگر کام سے زیادہ بیمار رھتا تھا.. تین بہنیں اور دو بھائی.. اعجاز سب سے بڑا اور  فیصل آباد میں ایک کپڑے کی فیکٹری میں ملازم.. تنخواہ سے گھر چلتا تھا، چلتا کیا رینگتا تھا
اعجاز تنگ تھا، گھر کے حلات سے،تین بہنوں کی شادیاں.. باپ کی بیماری.. چھوٹا بھائی ابھی ھر لحاظ سے چھوٹا.. فیکٹری کی تنخواہ سے زندگی نہ بدل سکتی تھی.. تمام عمر رینگنا، زندگی گھسیٹ گھسیٹ کے آگے بڑھانا کب تک... آخر کب تک؟؟
اس کی جان پہچان کے دو دوست ایجنٹ کے ذریعے یورپ جا رھے تھے.. اعجاز بٹ نے بھی ادھر ادھر سے پیسے اٹھائے اور ایجنٹ کے ھاتھ پہ رکھ دئیے..
گجرات سے کوئٹہ کا سفر.. کوئٹہ سے دس لوگوں کا قافلہ "زندگی بنانے" چل پڑا.. آگے ایران کا بارڈر پار کرنا آسان قطعی نہیں تھا.. مگر جیسے تیسے ایران کی سرحد پار کی، سبزیوں کے ٹرک میں گھُس کے وہ چار دنوں میں ترکی کے بارڈر پہ جا پہنچے...
ترک کی سرحدی پولیس گولی چلانے کے علاوہ کچھ نہیں جانتی.. اور ترکی بارڈر پہ اس قافلے کو تین دن تک چھپ چھپا کے رھنا پڑا... بٹ کی حالت غیر تھی.. بھوک بہت لگتی تھی اور بھوک برداشت نہیں ھوتی تھی.. اللّہ اللّہ کر کے ترک بارڈر کراس کیا تو سارے قافلے نے شکرانے کے سجدے کیـے...
مختلف شہروں سے گزرتے، ٹھہرتے، بلغاریہ کے بارڈر پہ پہنچے..
دسمبر کا مہینہ.. برف کی سفید چادر نے سارے میں سفیدی بھر دی تھی.. اور یہ گجرات سے آئے بٹ سمیت تینوں لوگوں کی پہلی برف یاترا تھی.. سردی ہڈیاں چیر رھی تھی اور ان لوگوں کے پاس اتنے گرم کپڑے نہ تھے..  ایک چھوٹے سے کمرے میں دس بندوں کو ٹھونس کے ایجنٹ تین دن بعد ھی لوٹا..
ایجنٹ نے بلغاریہ کا بارڈر پار کرنے کا ایسا نقشہ کھینچا کہ بٹ دھاڑیں مار مار کے رو پڑا...  بقول ایجنٹ، آگے برف ھی برف ھے اور پہاڑ ھی پہاڑ.. سارا راستہ چڑھائی کا ھے.. اور عین بلندی پہ چیک پوسٹ جہاں سے پولیس والےوقفے وقفے سے سرچ لائٹس ڈالتے ھیں اور جہاں ھلکی سی بھی ھلچل دکھائی دے، گولیاں چلا دیتے ھیں... جان کی گارنٹی نہیں...
قافلہ چل پڑا.. برف گھٹنوں تک تھی اور برف میں چلنا انتہائی مشکل... ایجنٹ سب سے آگے تھا اور بٹ سب سے پیچھے... پہلی بار برف میں چلنا وہ بھی چڑھائی، اوپر سے موٹاپا.. بٹ ھر دو منٹ بعد چار منٹ سانس لینے کو رکتا تو پورا قافلے کو رکنا پڑتا.. 
سرد ھوا کی آندھی.. سانس لینے میں دقت کا سامنا سب کو تھا اور سب سے زیادہ بٹ متاثر ھو رھا تھا.. قدم اٹھانا مشکل سے مشکل تر ھوتا گیا اور بٹ گر پڑا... سانس رکنے لگی.. ساتھیوں نے منہ سے سانس دے کے سانس بحال کرنے کی کوشش کی... بٹ کے ھاتھ اور منہ نیلے پڑ چکے تھے جیسے خون جم چکا ھو.. سب کی منزل بلغاریہ کا بارڈر کراس کر کے زندگی بنانا، پیسے کمانا تھا... اور بٹ ایک قدم چل نہ پارھا تھا.. ساتھیوں نے مختلف شفٹوں میں اسے کندھوں پہ اٹھا کے آگے بڑھنے کی کوشش کی مگر بٹ کا وزن اور اوپر سے برفیلی ھوا اور نیچے سے گھٹنوں تک برف... بٹ برف کی طرح سفید پڑ چکا تھا... سامنے ھی سرچ لائٹس وقفے وقفے سے جاگتی تھیں پھر سفید اندھیرا... سب یورپ کے مسافر سپاہیوں کی شفٹ بدلی ھونے کا انتظار کر رھے تھے اور اعجاز بٹ موت کے دھانے پہ... ایجنٹ نے آگے بڑھنے کااشارہ دیا اور بٹ نے ھاتھ اٹھا کے ساتھیوں کو شاید جانے کا اشارہ دیا یا الوداع کہا.. ساتھی منزل کی چاہ میں آگے بڑھ گئے اور گجرات شہر کے باسی نے ترکی اور بلغاریہ کی سرحد پہ موت کی سفید چادر اوڑھ لی...
(یہ فسانہ نہیں، حقیقی واقعہ ھے، جو اعجاز بٹ کے کوئٹہ سے ھم سفر علی ھزارہ نے سنایا جو آج ناروے میں مقیم ھے)

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...