Tuesday, November 19, 2019

کوئی نہیں ہے نظم

کوئی نہیں ہے 
یہاں پہ ایسا کوئی نہیں ہے
جو میری آنکھوں کے پار اترے
اور جا کے دیکھے

اندھی راتوں میں لمحہ لمحہ
میری آنکھوں کے غار میں جو
بہ صورتِ جبریل اترے
وہ خواب سارے
دن کے تپتے چوک میں
مجھے صلیب پہ ٹانگتے ہیں
پتھروں سے میرے لہو کے چھینٹے اڑاتے
عقیدتوں سے سمیٹتے ہیں
ثواب سارے

کوئی نہیں ہے جو دیکھ پائے
عذاب ہیں میرے خواب سارے

Sunday, November 17, 2019

کہ تماشا کہیں جسے

یہ شخص، یہ میرے سامنے تَن کے کھڑا یہ شخص، اس چھے فٹ کے 'بونے' شخص نے میری زندگی عذاب بنا کے رکھ دی ہے.
نہیں تھا میں ایسا، جیسا مجھے بنا دیا ہے اس نے. ایک عام سے ، اَدھ پڑھے والدین کے گھر میں، درمیانے کسی نمبر پہ پیدا ہوئے کو کچھ بھی خاص نہیں ملا تھا ،کسی انقلابی کی اذاں نہ کسی باغی کی گھٹی. نہ گھر میں علم و ادب کے حوالے شیلف سے باھر ابل رہے تھے نہ گھر کی محفلوں میں علم و فضل کے نئے جہان تراشے جاتے تھے. کچھ بھی ایسا نہیں تھا کہ مجھے اس عذاب تک لے آتا جہاں یہ شخص مجھے لے آیا ہے.
مجھے نہیں یاد کب اس چھے فٹ کے بونے شخص سے پہلی بار سامنا ہوا تھا یا کب یہ خبیث مری زندگی کے دائرے میں گھسا تھا اور ایسا گھسا کہ سارا چکر ہی الٹا دیا. 
جانے کیسا خناس بھرا ہے اس کے دماغ میں، جانے کس سانپ کا ڈسا ہے کہ ایسے ایسے زہریلے خیالات و سوالات سے کاٹتا ہے کہ سامنے والا پانی بھی نہ مانگ سکے.
اس نے میرا قتل کیا ہے، ہاں اس شخص کے لمبے ہاتھوں پہ میرا خون ابھی تک تازہ ہے. 
اس نے میرے ایمان کا قتل کیا ہے. اس باتوں کے سوداگر نے پہلے میری چھوٹی سی کائنات کو لامحدود کر دیا اور پھر بـے انتہا خدا کو بـے بس کر کے میرے سامنے لا کھڑا کیا. میرے پرخچے اڑا دئیـے اس شخص نے. کیسا اونچا سفید بـے داغ مینار تھا میرے اندر، اب اس کے ملبـے پہ بیٹھا سگریٹ پھونکتا ہے یہ شخص.
جی میں آتا ہے کہ اس شخص کا منہ نوچ لوں میں، یہ چیختا ہے، چلاتا ہے. ان دیواروں کے، جن کے کان ہوتے ہیں، کانوں کے پردے پھاڑتا ہے یہ شخص. یہ خون تھوکتا شخص، یہ چیختا شخص، کاش اس کی زبان کھینچ لے کوئی.
میں جو رشتوں کے گجرے بنا کے رکھتا تھا، اس شخص نے ان پھولوں میں کانٹے پرو دئیـے ہیں. میں جو شعروں اور گیتوں میں محبتوں کے سمندر کھوجتا رہتا تھا، اس شخص نے اس سمندر کو گلاس میں بھرا اور گھٹ گھٹ پی کے مسکراتے ہوئے خالی گلاس میرے منہ پہ مار گیا ہے. دل تو چاہتا ہے کہ اس خالی گلاس کی کرچیاں لوں اور اس شخص کے گلا کاٹ دوں.
میں جو اپنے بِھیتر یادوں کے، گزشتہ تعلق کے، محبت کے قبرستان آباد کیے بیٹھا تھا، جہاں پہ اگتے سبزے کو ہر روز برابر کاٹتا تھا، ہر روز نئی کھلتی کونپلوں کو چھوتا تھا، پرانے ہوتے پھولوں کو دفنا دیتا تھا، جہاں میرے لفظوں سے سجے کتبـے سر اٹھائے مان سے کھڑے رہتے تھے، اس کمینے شخص نے اس قبروں پہ ننگا ناچ کیا ہے. اس نے پھولوں کے رنگ کالے کر دئیـے ہیں. اس نے سر اٹھائے ان کتبوں پہ مُوتا ہے.
یہ شخص، اس کو خوشبو لگا کے کیچڑ میں گھستے اور پھر اسی کیچڑ سے باھر آ کے دھمالیں ڈالتے میں نے خود دیکھا ہے. 
یہ شخص، یہ میرے سامنے کھڑا یہ شخص، یہ دوغلا یہ 'سائیکو' شخص.......... 
کہاں ہے چھری، یہ.. یہ...  
یہ اس چھے فٹ کے شخص کی ٹانگ پہ چھے فٹ لمبا اور ایک انچ گہرا گھاؤ دیا ہے. اسے تڑپا تڑپا کے ماروں گا میں. 

Monday, November 04, 2019

پتھروں کی ذات

باھر جون کے آخری دنوں کا سورج قیامت اٹھائے کھڑا تھا اور اندر وہ اپنی تمام حشر سامانیاں لیے میرے سامنے بیٹھی تھی. بالوں کا جوڑا سر کے پیچھے گردن اٹھائے ہوئے تھا. بجلی بند تھی سو پنکھا بھی بند تھا. پسینہ ماتھے پہ موتیوں کی طرح بکھرا پڑا تھا. کان کے پیچھے سے پسینہ لمبی صراحی جیسی گردن پہ نئے راستے کھوجتا سینے کی طرف گامزن تھا. گرمی کی مہربانی سے دوپٹہ میز پہ دھرا تھا اور وہ لان کی پتلی قمیض سے مجھ پہ دو نالی بندوق تانے بیٹھی تھی.

"کب تک راشی کب تک، ایسے سب کے سونے کے بعد دوپہر کالی کرنے آتی رہوں گی، چاچا کمال رشتے کی بات کر چکے ہیں ابا سے، سب راضی ہیں، میں کیا کروں، تم کیا کرو گے" 

اس کی بھوری آنکھوں میں التجائیں تیر رہی تھیں

"مجھے دے گا رشتہ تمہارا ابا؟ کیا ہے میرے پاس، یہ اماں ابا کا چھوڑا ہوا گھر، یہ ایک سکول ویگن اور بس؟ میں موچی کا پتر ہوں آسیہ ،تُو سیدانی ہے، تیرے ابا کے مریدوں کے جوتوں کی عزت مجھ سے زیادہ "

بات مکمل بھی نہ ہونے دی اس نے اور میرے ہونٹوں پہ اپنے رس بھرے ہونٹوں کی مہر لگا دی. وہ آدھی چارپائی اور آدھی میری داہنی ٹانگ پہ بیٹھی بار بار مہریں لگا رہی تھی... جب میرے منہ میں نمک گھلا تو پتا چلا وہ رو رہی تھی... میں نے اس کی آنکھوں سے نمک چوس لیا....

"کیا کروں آسیہ؟ بھاگ چلیں؟ میں یہ گھر بیچ دیتا ہوں اور ویگن لے کے کسی اور گاؤں یا شہر چلتے ہیں، نئی دنیا بنائیں گے. میں تم، جہاں تم شاہنی ہو گی نہ میں موچی. بس ہم ہوں گے، بس ہم" 

دو نالی بندوق میرے سینے پہ لگی تھی ، میری چھاتی کے دائیں طرف مسلسل مُکے چل رہے تھے...

" کیسے رہ لیں گے ہم خوش راشی، تمہارے لیے آسان ہو گا، میری ماں جس سے سارے گاؤں کی بچیاں سبق پڑھنے آتی ہیں، لوگ بھیجیں گے اپنی بچیاں اس کے پاس؟ میرا باپ، آس پاس کے دس گاؤں جسے جھک کے ملتے ہیں، ہاتھ چومنا سعادت سمجھتے ہیں، وہ جھک نہیں جائے گا سب کے سامنے؟ میری دو چھوٹی بہنیں ہیں ان کے سر ننگے ہو جائیں گے راشی، میرے بھائیوں کے چوڑے سینے تڑخ جائیں گے"

جذبات سے اس کا چہرہ انار ہو گیا تھا... وہ شاہوں والی اکڑ گردن میں آ چکی تھی

" تو میں کیا کروں، بولو. چھپ کے دوپہریں کالی کریں اور رات کو اپنے اپنے گھر چارپائی پہ تارے گنتے ہوئے روتے رہیں؟ کیا کریں ، اپنا مان رکھ لو یا اپنا مَن.. رہ لو گی میرے بغیر؟ ہو جاؤں گی چاچے کے پتر کو پیاری؟" 

اس کے زور زور سے چومنے سے میں جیسے چارپائی پہ ڈھے سا گیا. وہ مجھ پہ لیٹی ہوئی تھی. گرمی کی شدت اور جسموں کی حدت اور پسینے سے جسم چپک رہے تھے..

" جاؤ یار جاؤ. راہ پڑے پتھروں کے بت نہیں بنائے جاتے آسیہ "

یہ آخری بات تھی ہماری
راستے کا پتھر اور انگوٹھی میں جڑا نگینہ ایک ہی چارپائی پہ یک جسم تھے.
وہ زور سے مجھ سے لپٹ گئی. لپٹی رہی. لپٹی رہی یہاں تک کہ طیفے موچی اور سید جمال حسین شاہ کے خون میں فرق ختم ہو گیا. 

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...