Monday, November 20, 2023

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا
کدھر جا رہے ہو، کہاں کا خیال ہے
بیمار سائیکلوں کا یہی ہسپتال ہے
ہمیں سائیکل چلانے اور اس کے علاج سے کوئی لینا دینا تھا نہیں سو گھر کا لوہے کا گیٹ ملازم نے کھولا اور ہم سب اندر چلے گئے. ابو سیدھے بیٹھک میں چلے گئے جہاں پھوپھا اور دوسرے مرد حضرات بیٹھے ہوئے تھے، ہم بچے لوگ امی کے ساتھ صحن میں آ گئے، جہاں پھپھو کے بچے، دوسرے کزنز کے ہمراہ کچھ بیٹھے ہوئے تھے اور کچھ ادھر ادھر کود رہے تھے اور ساتھ ٹیپ پر ایک گانا چل رہا تھا
دل کی حالت کس کو بتائیں
ہم بھی پاگل، تم بھی پاگل
ہم بھی پاگل، تم بھی پاگل
اور برآمدے کے ماربل کے ستون سے ایک چہرہ ٹکا ہوا تھا، درمیان میں سے نکلی مانگ سے کچھ بال آوارہ ہو کے گالوں پر جھولا جھول رہے تھے اور ہونٹ "ہم بھی پاگل، تم بھی پاگل" گنگنا رہے تھے
لمحے ٹھہر جاتے ہیں، وقت نہیں رُکتا. پھپھو کے بیٹے کی شادی پر کوئی ہفتہ بھر وہاں رہے اور وہ سات دن تو نہیں رکے، ان سات دنوں کے کتنے ہی لمحات دل میں اترے، دماغ میں بسے اور آنکھوں کا طواف کرتے رہے. عمر کیا تھی،کوئی بارہ تیرہ رہی ہو گی، وہی محبت ہو جانے والی عمر، محبت کرنے والی عمر تو بہت سالوں بعد آتی ہے. سو محبت ہو گئی

اعترافِ جرمِ محبت میری طرف سے برملا تھا، اُس طرف چلمن سے البتہ کبھی احساس اور کبھی بـے اعتنائی کے اشارے ملتے رہے. میں اشاروں کی زبان سے نابلد تھا مگر خوابوں کی دنیا کا باسی تھا. کبھی دو جملے جو عنایت ہو جاتے تو مجھے لگتا جیسے موسٰی کو طور پر پیغمبری کچھ ایسے ہی ملی ہو گی

اُسے شاعری سے محبت تھی اور محسن نقوی کی شاعری سے اسے عشق تھا. ردائے خواب ہو یا موجِ ادراک، فراتِ فکر ہو یا ریزۂ حرف، خیمہ جاں ہو یا رختِ شب، عذابِ دید ہو یا برگِ صحرا یا پھر بندِ قبا ہو یا طلوعِ اشک، سارا محسن نقوی اس کے پاس تھا اور میں گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ محسن نقوی کی کتابوں کی بِھیڑ میں اپنا کوئی نشان، اس کے دل پر دیکھنے کی خواہش میں تھا. شاعری میں کرتا تھا مگر مجھے ادراک تھا کہ میں محسن نقوی نہیں ہوں، مگر میری شاعری، شعر و ادب کی حدود و قیود، رسم و ضوابط پہ یقیناً بالکل بھی پوری نہیں اترتی تھی مگر مجھے یہ زعم تھا اور آج تک ہے کہ میری شاعری اس کے دل میں ضرور اترتی تھی

اور دل اُس دن دس زینے ایک ہی دھڑکن میں اتر گیا تھا جب صرف سولہ سال کی عمر میں مجھے چاچا کی بیٹی سے بیاہنے کی بات ایک دَم نکلی اور کچھ ہی دنوں میں شادی کی تاریخ بھی پکی کر دی اور وہ تاریخ بھی بس کچھ ہی دنوں میں آنی تھی. میں رو سکتا تھا، رویا. مسجد میں ماتھا پھوڑ سکتا تھا، پھوڑا. آدھی آدھی رات دعاؤں کو بازو پھیلا سکتا تھا، پھیلائے مگر چین کیسے آئے! اوپر والا خدا چپ تھا اور زمین پر اترے خدا، جس کا میں لاڈلا بیٹا تھا، کے سامنے میں چپ تھا. نہ میں رو سکتا تھا، نہ ماتھا پھوڑ سکتا تھا، نہ بازو پھیلا کے دعا مانگ سکتا تھا نہ گلے لگا سکتا تھا

اُس نے بھی کچھ نہیں کہا.. ایک کزن کے ہاتھوں شادی کی ایڈوانس مبارک باد بھیجی اور پھر وہ رو دی

میری شادی مر کے دو سال چلی، جس سے شادی ہوئی تھی، میں اس کا تھا ہی نہیں، ایک مولوی، دو گواہ جو مرضی کرتے، میں کسی کا نہیں تھا. سہاگ رات سے طلاق کے دن تک، میں اسے چھونے کا گناہگار نہیں ہوا تھا. اور پھر شادی کا گناہ نہ کرنے کی قسم میں نے من ہی من میں کھا لی. تب تک میں ناروے آ چکا تھا بلکہ ہم سب واپس ناروے آ گئے تھے

یہاں پر جاب، سکول اور دیگر کاموں میں زندگی دوڑنے لگی. وقت رکتا نہیں، نہیں رکا، لمحے ٹھہر جاتے ہیں اور وہ لمحہ بھی ٹھہر گیا تھا اور چلتے چلتے میں بھی، جب مجھے خبر ملی کہ محسن نقوی کی اداس شاعری سے عشق کرنے والی، شادی کر کے ناروے آ چکی ہے۔ اُس لمحے، میں کس احساس سے گزرا، وہ مجھے نہیں پتا، اِس کے لیے کوئی لفظ کسی زبان میں ابھی تک بنا ہے کہ نہیں، مجھے نہیں پتا۔ فروگنر پارک میں لگے گُستاوو ویگیلاند کے کسی پتھر کے مجسمے کی طرح یا پھر ایڈورڈ مُنکھ کی کسی چپ چاپ پینٹنگ کی طرح، وہ لمحہ آیا اور رک گیا

میں اس دن گرونلاند کے علاقے میں ٹریفک کے رش میں گاڑی چلاتے ہوئے گزر رہا تھا کہ سڑک کی دائیں طرف اچانک وہ دکھائی دی، وہی درمیان سے نکلی مانگ مگر آوارہ بال کہیں قید ہو چکے تھے. وہ گنگناتے ہونٹ، مجھے سنائی نہیں دئیے. اُس سے نظریں ملیں، ایک سیکنڈ یا پھر سیکنڈ کے بھی کچھ حصے ملے، ان آنکھوں میں ان لمحوں میں صرف پہچان تھی، آئی اور گم ہو گئی. آنکھیں جھک گئیں، وہ گزر گئی، اشارہ کھل گیا، میں نکل گیا، وقت نکل گیا

اَس ماربل کے ستون سے ٹکے وقت کو کوئی پچیس سال بیت گئے، ان سالوں میں، میں نے زمینی خدا کی ہر بات مانی مگر شادی کی بات نہیں، پھر وہ خدا بھی چلا گیا، حکم اترنے بھی بند ہو گئے اور پھر ایک دن ایک بات مجھ تک پہنچی
"اُس سے کہو اب وہ شادی کر لے، میرے دل کو سکون نہیں ملتا"

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...