Thursday, August 31, 2017

ابّا کی روح سے....

"کیسے ہیں ابا"؟
"یہ تُو ہی ہے کھوتے دا پُتر، میری ساری اولاد مجھے ابو جی کہتی ہے، تیری زبان کیوں جلتی ہے ابو جی کہتے"؟

"ابا میں اپنائیت بہت ہے ناں.."
"بدتمیز".... اور دوسری طرف منہ موڑ لیا اور مجھے پورا یقین ہے کہ ابا مسکرائے ہوں گے مگر چھپ کے..

ابا سے یہ ملاقات کہاں ہوئی ہے، میں نہیں بتا سکتا کہ پتا مجھے بھی نہیں.. بہت سارے لوگ تھے وہاں، سب نے ایک سے سفید چٹے دُودھ چولے پہن رکھتے تھے.. کوئی باغ لگتا تھا.. سبزے سے لدی زمین.. ھزاروں طرح کے پھل تھے لاکھوں رنگوں کے پھول.. مختلف انواع کے کھانے تھے مگر سب سے حیران کن امر یہ تھا کہ شور ذرا سا بھی نہیں تھا.. ابا ایک پیالے میں سے کچھ پی رہے تھے، بھاپ اڑ رہی تھی..
"چائے پی رہے ہیں"؟؟
"او کتھے یار، کہاں تیری ماں کے ہاتھ ہی کڑک چائے اور کہاں یہ کھجور کا ابلتا پانی.. انھیں ہزار بار کہا کہ پیکٹ والی نہیں ملتی تو کھلی پتی ہی لے آؤ، اس میں بناؤ چائے مگر... چھوڑو ان سے بننی ہی کہاں ہے"
ابا نے پیالہ واپس دھرا اور ادھر ادھر دیکھنے لگے...

" ابا یہ چولا کہاں سے لے لیا، آپ تو شلوار قمیض اور بھی ایسی استری شدہ کہ ہلکی سی سلوٹ بھی ناگوار گزرتی تھی.. گھر سے باھر تو آپ شلوار قمیض پہنتے تھے.. "

" میں جوانی میں تہبند بھی باندھتا تھا مگر پھر مکمل چھوڑ دیا، شلوار قمیض دل کو لگ گئی تھی.. پَر کی دساں میں نے کہا بھی کہ مجھے شلوار قمیض دے دو، یہ چولا ہے کہ ڈی ایچ ایل کا پیک شدہ پارسل.. مگر یہ چولا دے گئے، ظلم تو یہ ہے پتر کہ دھوتی بھی نہیں دیتے، دھوتی بھی کیا ظالم ایجاد ہے یار، اتنا ایزی پُر سکون لباس "...

اتنے میں کوئی ویٹر جیسا بندہ آیا اور کھانا دے گیا.. باغ میں ویٹر!!

پلیٹ میں کچھ سبزی نما شے تھی.. میں سمجھ نہیں پایا کہ ہے کیا..
" ابا، یہ ساگ ہے کہ بھنڈی " بھنڈی میں ابا کی جان بستی تھی
" بھنڈی تے ایتھے؟ سواہ تے گھٹّا.. بھنڈی تو بنتی ہی پیاز سے ہے..  اور یہاں پیاز نامی شے سے سب دور بھاگتے ہیں، یہ خاک جانتے ہیں کہ کھانا ہوتا کیا اور کھانے میں بھنڈی.. ملکہ ہے سبزیوں کی.. اور تُو.. یاد کروا کے اداس کرا رہا ہے کھوتے دا پتر.."....

ابا نے کھانا کھایا اور اپنی عادت کے مطابق چالیس قدم کا ٹور لگانا شروع کر دیا..
ٹہلتے ٹہلتے دوسروں سے سلام دعا ہوتی رہی..
ابا چالیس قدم پورے کر کے بیٹھ رہے..

" ابا،جیو ٹی وی نہیں دیکھنا"..

" جب سے آیا ہوں یہاں.. نہ اپنے ملک کی کوئی خبر ہے نہ کوئی پتا.. نواز شریف کو ھٹا دیا.. ظالموں نے بڑا ظلم کمایا.. اب پتا نہیں کیا ہو رہا ہو گا پیچھے.. ہن کی بنو گا ملک دا.."

"کچھ نہیں ہوتا ملک کو نہ کچھ بننا ہے اس ملک کا"

ابا نے غصے سے مجھے دیکھا..
" کھوتے دا پتر.. تجھے کیا لگے اب پاکستان سے. تُو تو گورا بن گیا ہے ناں.. وڈا آیا گورا.. کالا شاہ گورا "..
میں ہنسی چھپانے کو سَر جھکا گیا...

" اچھا چھوڑیں، اور کیا کرتے ہیں سارا دن"

" کیا کرنا ہے.. کھاتا ہوں تو پتا نہیں کیا ہوتا ہے کھانے میں، پیتا ہوں تو کیا.. نہ یہاں ریسلنگ دیکھ سکتا ہوں، کہاں وہ ہُلک ہوگن.. وہ بھی چھوڑو یہاں تو نہ عزیز میاں کی قوالی ہے.. نہ عالم لوہار کے گیت.. عالم لوہار تجھے پتا ہے کہ ہمارے پڑوسی گاؤں کا تھا.. کیا اونچی آواز تھی.. اس کا وہ "بول مٹی دیا باویا"... بہت دل کر رہا ہے سننے کو... "

میں نے ہلکا سا گنگنایا..

" تُو رہن دے، یہ تو اس کا بیٹا عارف لوہار بھی ویسے نہیں گا سکتا.. بہت کوشش کرتا ہے ابـّے کی طرح گا سکے مگر نہیں.. اچھا بندہ ہے عارف لوہار.. میں نے دو ہی شخص دیکھے ہیں جو اپنے باپ کی ایسی عزت کرتے ہوں، ایک تو حاجی خالق ہے اور یہ عارف لوہار.. تبھی مولا نے رنگ بھی تو لگا رکھے ہیں "..

یہ پہلا دن تھا رمضان کے انتیس/تیس دنوں کے علاوہ کہ میں نے ابا کو بنا سگریٹ دیکھا ھو، ورنہ ایک بجھتا نہ تھا کہ دوجا جلا لیتے تھے.. میں پوچھتے پوچھتے رہ گیا کہ اور اداس نہ ہو جائیں..

ابا چادر تان کے سیدھے لیٹ گئے... چادر منہ پہ لے لی.. پھر منہ باھر نکالا اور اپنی خوبصورت آنکھوں (جن آنکھوں میں دیکھنا میرے لیے کیا، کبھی بھی کسی بھی شخص کے لیے ممکن نہ تھا، اتنی تیز اور چمکتی ) سے مجھے دیکھتے ہوئے بولے
"چل جا اب.. کل آ جانا... جیتے جی تو آیا نہیں، اب ھر روز سرہانے آ کھڑا ہوتا ہے کھوتے دا پتر"
اور چادر منہ پہ لے لی..
ابا چادر اندر مسکرائے ہوں گے چھپ کے؟؟

Thursday, August 10, 2017

جی ایچ کیو

گاؤں کی گلیاں جہاں جا کے گلے ملتی تھیں، وہاں سے آگے سڑک چلتی تھی.. اسی سڑک کے کنارے کنارے مختلف دوکانیں تھیں، جن میں راجو نائی کے نام نہاد 'راجہ جی ہئیر سیلون' سے لے کر کے ڈاکٹر شبیر کی 'ایم بی بی ایس بُک شاپ' تک سب کچھ تھا.. قریب قریب سبھی دوکانوں کے اندر اور باھر لکڑی کے 'پھَٹّـے' پڑے رہتے تھے جن پہ موسم کے اعتبار سے لوگ بیٹھتے اور سارے جہاں کے مسئلوں پہ تجزیے گھڑتے اور پھر 'لائک این ایکسپرٹ' سبھی کے حل بھی پیش کرتے تھے..

مگر انھیں قطار اندر قطار دوکانوں کے اخیر میں ایک دوکان تھی، بالکل الگ تھلگ، جس کے باھر پھَٹا تو پڑا تھا مگر اس کے اوپر کوئی بیٹھتا نہ تھا، ہاں البتہ اس کے نیچے کبھی کُتے منہ کھولے زباں لٹکائے بیٹھے ہوتے اور کبھی کبھی بلیّاں بھی اپنے محاورے والے خوابوں کی تعبیریں نوچتی دکھائی دیتی تھیں..

جی ہاں.. دوکان اندر ایک آنکھ سے سب کو برابر دیکھتا(کانا تھا تو ایک آنکھ پتھر کی ٹکا رکھی تھی) ٹوکا لیے مرغیوں کی گردنیں اڑاتا، ٹانگیں کاٹتا، ننگے اور گنجے سَر کے ساتھ، بِنا قمیص اپنی کالی چھاتی پہ سفید بالوں کا جنگل دکھاتا یہ شخص غلام حسین قصائی ہے، اور باھر دوکان کے ماتھے پہ بڑا بڑا لکھ رکھا ہے "جی ایچ کیو" غلام حسین قصائی...

غلام حسین پیدائشی قصائی نہیں تھا.. انتہائی نرم مزاج، سادہ دل بندہ تھا.. لائلپور کی کسی کپڑے کی مِل میں مزدوری کرتا تھا.. مالکوں کا وفادار اور اپنے کام میں کمال تھا.. جب ایک حادثے میں آنکھ جاتی رہی تو گھر آ بیٹھا.. صُغراں بی بی، غلام حسین کی گھر والی تھی.. شادی کو مدتیں گزر چکی تھیں مگر اولاد سے محرومی کے احساس کو دُور کرنے خاطر گھر میں دس بارہ مرغیاں پال رکھی تھیں.. صحن میں رونق لگی رہتی تھی.. صبح سحری مرغے کی اذان سے ہوتی اور پھر دن بھر کے کام اور اپنے بچوں (مرغیوں) کے پیچھے بھاگتے پھرنا..

صُغراں کی چھوٹی بہن عُظماں آخری ماہ کے پیٹ سے تھی تو اسے ڈیڑھ دو مہینے کے لیے بھیگا پور جانا پڑا اور مرغیوں کی مکمل دیکھ بھال غلام حسین کے سَر آن پڑی.. ہفتہ ڈیڑھ تو برداشت کر گیا مگر اسے مرغیوں کے پیچھے ایک آنکھ سے بھاگنا بہت اذیت ناک لگتا تھا، ایک دوپہر جب ایک مرغا بـے وقتی اذان میں جی جان سے اور مسلسل مصروف تھا، غلام حسین کے صبر کا گلاس نک و نک ھو چکا تھا، تو اذان دیتا مرغا غلام حسین کے ہاتھوں حلال ہو گیا.. دو دن وہ مرغا چلا اور غلام حسین کے منہ کو اذان دیتے مرغے اور صفیں توڑتی مرغیاں لگ چکی تھیں..

جب تک صُغراں بی بی گھر آتی، غلام حسین 'قصائی' بن چکا تھا..
وہ دن اور آج کا دن، صغراں بیچاری جِند جان سے گھر مُرغیاں اور چُوزے پالتی ہے، غلام حسین ھر دوجے دن کوئی نہ کوئی مُرغی اٹھا لیتا ہے اور اپنے "جی ایچ کیو" کی رونقیں بحال رکھتا ہے، وہی "جی ایچ کیو" جس کے باھر لگے پھَٹّے کے نیچے دنیا جہان کے مسائل کے تجزیے گھڑتے اور پھر "لائک این ایکسپرٹ" مسائل کے حل بتاتے، منہ کھولے زبانیں لٹکائے غلام حسین قصائی کے پھینکے ٹکڑوں کے منتظر پائے جاتے ہیں...

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...