Tuesday, April 27, 2021

خراب ‏کیسٹ ‏

گرمی تھی یا ہمارا گاؤں ہی تندور میں تھا. گلیاں سونی پڑی تھیں،کتے بھونکنا بھول گئے تھے، زبان نکالے کہیں کوئی دیوار کے سائے یا کوئی تھڑے کے نیچے لیٹا ہوا تھے. بستے سے صافہ نکال کے گردن اور سر پہ ڈالے میں سکول سے گھر جا رہا تھا

جیسے ہی میں گھر میں داخل ہوا تو باجی نسرین، چاچو کے کمرے سے نکل رہی تھی ، ایک نظر اس نے مجھے دیکھا اور لپک کے اپنے کمرے میں گھس گئی. اس کا چہرہ تھا کہ کوئی دہکتا انگارہ، لال سرخ جیسے اماں بجھتے چولہے میں جب پھونکنی مارتی تھی تو انگارے جیسے جل اٹھتے تھے، بالکل ویسے ہی سرخ

میں نے بستہ برآمدے کے کونے میں پھینکا اور اماں کے کمرے میں گیا جہاں اماں اور ابا دونوں اونگھ رہے تھے، فرج انہیں کے کمرے میں تھی سو پانی کا جگ نکالا اور لے کے باجی نسرین کے کمرے میں آ گیا

باجی اپنی چارپائی پہ سمٹ کے لیٹی ہوئی تھی اور کانپ رہی تھی، جیسے سردیوں میں ٹھنڈے پانی سے نہا کے نکلی ہو.. میں نے جگ میز پہ دھرا اور انہیں ہلانے کے لیے ہاتھ ہی لگایا تھا کہ جیسے وہ تڑپ کے دیوار سے جا لگی.. "باجی میں ہوں، عاصم، ابھی سکول.." میری بات میرے منہ میں ہی دم توڑ گئی، باجی کی آنکھیں جیسے خون سے بھری ہوئی تھیں اور وہ رو رہی تھی.. میں اسے روتا دیکھ کے اس سے لپٹ کے رونے لگا
ہم دونوں بہن بھائی جانے کتنی دیر ایک دوسرے سے لگے چپ چاپ روتے رہے.. باجی نسرین کے جسم کی کپکپاہٹ ختم ہو چکی تھی، اس نے مجھے پرے ہٹایا، اٹھی اور میز پہ رکھے جگ کو منہ لگا لیا.. باجی بہت پیاسی تھی، پانی منہ سے نیچے گردن اور چھاتی پہ گر رہا تھا مگر وہ ایک ہی سانس میں جگ خالی کر گئی تھی

جگ میز پہ رکھنے کے بعد وہ میری طرف مڑی اور میرا ماتھا چوم کے کھانے پینے کا پوچھا، میری بھوک مر چکی تھی میں نے کبھی باجی کو اس تکلیف دہ حالت میں کیا، کبھی روتے نہیں دیکھا تھا. میرے منع کرنے پہ وہ چارپائی پہ بیٹھ گئی، "باجی، چاچو نعیم نے کچھ کہا آپ کو؟" باجی نسرین کی گردن مزید نیچے جھک گئی، پھر جھکی گردن سے بولی "تم نے کچھ نہیں دیکھا، سمجھے عاصم کچھ بھی نہیں" مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اصل میں ہوا کیا ہے، مگر جب بھی اماں، ابا سے چھپ کے پان کھاتی تھی تو ہم سے یہی کہتی تھی کہ تم لوگوں نے کچھ نہیں دیکھا، سمجھے تم دونوں، تم دونوں کو کچھ نہیں پتا، جیسے سلیٹ پہ سلیٹی سے لکھا مٹاتے ہیں ایسے ہی یہ بات اپنے دماغ کی سلیٹ سے صاف کر دو
آج باجی بھی یہی کہہ رہی تھی... "چاچو نے آپ کو مارا ہے؟ آپ نے ان کی گانوں کی کیسٹ خراب کر دی ہو گی".. باجی نے سر اٹھا کے مجھے دیکھا، اس کی آنکھوں میں کہیں کہیں سرخ دھبـے سے باقی تھے.. کچھ لمحے مجھے دیکھتی رہی.. "مجھ سے ہر روز ہی ان کی کوئی نہ کوئی کیسٹ خراب ہو جاتی ہے" اور وہ خالی جگ اٹھا کے کمرے سے نکل گئی 

Monday, April 26, 2021

آدھی ‏ملاقات ‏


14 فروری 1998

سلام دعا
میڈم نازی

میں آپ کا بہت بڑا فین ہوں
یہ ایک جملہ میرے احساسات کے ساتھ انصاف نہیں کرتا

ہم پانچ دوستوں نے مل کے پاکستانی فلم " بہاراں" دیکھنے کی ٹھانی. ہمارے گاؤں سے نزدیک ترین سینما ہال کوئی سوا دو سو کلومیٹر دور ہے، اس لیے قریبی فلم سٹور سے فلم بھی کرائے پہ لی اور وی سی آر بھی

آپ کو عجیب لگا ہو گا، ہے ناں مگر ہمارے ادھر ایسے ہی چلتا ہے

ثاقب کی بیٹھک میں ہم نے سینما کا ماحول بنا لیا کہ سب کھڑکیاں دروازے بند، گھپ اندھیرا اور فلم چل رہی ہے. فلم کے تیسرے منٹ اور بیالیسویں سیکنڈ پہ فلم کی ہیروئین کی انٹری ہوتی ہے. کریم کلر کی ساڑھی پہ جابجا خوبصورت رنگوں کے پھول کڑھے ہوئے، کھلے سرخی مائل بال سورج کی روشنی میں ہوا میں اڑتے ہوئے، جیسے ابھی آگ پکڑ لیں گے

آپ کے سکرین پہ آنے کے منٹ سیکنڈز بھی یاد ہیں مجھے، آپ تو پھر آپ ہیں. سو یہ جملہ کہ میں آپ کا بہت بڑا فین ہوں ،ناکافی ہے

جانے یہ اخبارِ نوجہاں والے واقعی یہ خط آپ تک پہنچائیں گے کہ نہیں.. لکھا تو یہی تھا کہ "اپنے محبوب فنکار کو خط لکھیں، آپ کا خط ہم پہنچائیں گے" اب جانے وہ کیسے پہنچائیں گے یہ خط آپ تک

بیٹھک کے گھپ اندھیرے کی انگلیاں ہوتیں تو وہ بھی آپ کو خط لکھتا. لکھتا کہ اس شام ساری بیٹھک میں آپ ہی تھیں. لکھتا کہ جب یہ گیت  "یہ نظر ان نظاروں سے ناراض ہے" چل رہا تھا تو سویٹزرلینڈ کے وہ برف پوش پہاڑ، وہ سبزے سے سجی وادی اور وادی کے بیچوں بیچ ناچتی ندی ، سب اس بیٹھک میں تھے

بیٹھک کے گھپ اندھیرے کا خط آپ تک کون ، کیسے پہنچائے گا

ورنہ وہ گھپ اندھیرا لکھتا کہ فلم میں جب جب آپ ہنسی ہیں،بیٹھک کے فرش پہ بیٹھے 'ندیم' کے ہونٹ مسکرائے ہیں. آپ کی آنکھوں کی نمی پہ، اس کی آنکھوں سے وہ سویٹزرلینڈ کی وادی کی ندی بہہ نکلی ہے

کیا آپ یہ خط پڑھ رہی ہیں؟ کیا واقعی اخبارِ نوجہاں والوں نے اپنے محبوب فنکار تک خط پہنچانے کا وعدہ پورا کیا ہے یا پھر یہ بھی غریب کی محبت کا مذاق ہے

کیا محبوب فنکار اپنے چاہنے والوں کے رقعوں کا جواب بھی دیتے ہیں؟ میں نے آج تک کسی کو خط نہیں لکھا، کبھی بھی نہیں. سکول میں چھٹی کی درخواست لکھوانا سکھایا تھا، مگر خط کیسے لکھتے ہیں، یہ کبھی نہیں سکھایا

پتا نہیں میں کیا کیا لکھ گیا ہوں، برا لگے تو پہلے خط کی پہلی غلطیاں سمجھ کے معاف کر دیجیے گا. رات بہت ہو چکی ہے. صبح جلدی اٹھوں گا کہ ڈاک خانے سب سے پہلے پہنچوں

اب آخر میں کیا لکھوں؟ آپ کا فین؟ آپ کا چاہنے والا؟ نہیں یہ شاید آپ کو اچھا نہیں لگے گا. آپ کا سب سے بڑا فین؟ کیا لکھوں، کچھ سمجھ نہیں آ رہا
ہاں اپنا پتا لکھ دیتا ہوں، مجھے امید تو  رہے گی

پہلی بار خط لکھنے والا

ندیم عالم

ڈاکخانہ بمقام سَدراں
براستہ سُفنا پور
ضلع و تحصیل منڈی تصور آباد




ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...