Tuesday, October 29, 2019

وقت کی قید

ڈرائیور نے ویگن ہلکی سی آگے بڑھائی، سامنے میں کھڑا تھا میں نے زور اور غصے سے ڈرائیور کی بائیں طرف سکرین پہ زور سے ہاتھ مارا
" رُک "
سب کچھ رک گیا تھا اس لمحے میں، وہ لمحہ ہی رک گیا تھا

آتے جاڑے کے دن تھے جن دنوں دھوپ مدہوش جوانی سی اترتی ہے، ہم سب ہر روز کی طرح صبح صبح گورنمنٹ ڈگری کالج کے وسیع گراؤنڈ میں دھوپ سینک رہے تھے جب سالک منہ لٹکائے ہمارے پاس آن کھڑا ہوا
"کیوں سالے، اتنی صبح تیرے بارہ کس نے بجا دئیے؟"
عارف کی بات پہ سب ہنس دئیے مگر سالک کے منہ پہ بارہ بج کے ایک منٹ ہو گئے
"وہ اے جے کے تینتیس تیرہ نے مجھ سے کرایہ لیا ہے، وہ بھی پورا.."

اس بات پہ سب سنجیدہ ہو گئے،
"تو نے بتایا نہیں کہ تو سٹوڈنٹ ہے؟ “
بارہ بج کے دو منٹ ہو گئے
" بتایا تھا، آگے سے کنڈیکٹر کہتا ہے یہ بدمعاشی میرے ساتھ نہیں چلے گی، کرایہ دے ورنہ یہیں راستے میں اتار دوں گا ٹھڈے مار کے، میں نے دے دیا"

میں نے گود پہ دھری چادر کمر کے پیچھے سے لا کے سامنے سے دونوں کندھوں ڈالی اور قمیض جھٹک کے کھڑا ہو گیا
"تینتیس تیرہ ابھی گیا ہے یہاں سے، دس منٹ میں واپسی ہے اس کی. چلو آ جاؤ سڑک پہ.."
سب اٹھ کھڑے ہوئے
" کنڈیکٹر کی طبیعت ایسے صاف کرنی ہے جیسے ایریل کپڑوں کی صفائی کرتا ہے، طبیعت سے"

ہم سب سڑک کے دونوں طرف کھڑے ہوگئے... تبھی سالک چیخا
"وہ... وہ تینتیس تیرہ ہے، یہی ہے"
سب الرٹ ہو گئے.... میں نے شمشیر کو ساتھ لیا اور بیچ سڑک میں گاڑی رکوا تھی... لڑکے کنڈیکٹر والا مسافر دروازہ کھول کے کنڈیکٹر پہ پل پڑے

ڈرائیور نے ویگن ہلکی سی آگے بڑھائی، سامنے میں کھڑا تھا... میں نے زور اور غصے سے ڈرائیور کی بائیں طرف سکرین پہ زور سے ہاتھ مارا
" رُک "
سب کچھ رک گیا تھا اس لمحے میں، وہ لمحہ ہی رک گیا تھا..زمان و مکاں ساکت، سارا جہاں ساکت ہو گیا تھا... جب میں نے سکرین پہ زور سے ہاتھ مارا تو "پیسنجر سیٹ" پہ اپنی ماں کے ساتھ بیٹھی وہ دبک گئی تھی... سفید برق لباس میں اس خوفزدہ ہرنی کی آنکھوں والی کے چہرے کو جیسے نور کے ہالے نے لپیٹ رکھا تھا.. سفید دوپٹے سے کالی سیاہ رات جیسے بالوں کی ایک لٹ، الجھی الجھی سی دائیں آنکھ کے پاس انگور کی بیل کی طرح لٹک رہی تھی... میرا ہاتھ سکرین پہ دھرا تھا اور گاڑی روکتے روکتے میں انجانے میں وقت روک بیٹھا تھا... اس کی آنکھوں میں خوف دھیرے دھیرے دھندلانے لگا تھا، کیا تھا اس کی آنکھوں میں، کیا نہیں تھا ان آنکھوں میں... جیسے وہ آنکھیں مجھے کہہ رہی ہوں،
"چل چھوڑ دے وقت کی کلائی سُودے ، جانے دے ناں"

اور میں نے ہاتھ سکرین سے اٹھایا اور چیخا
"چھوڑ دو جانے دو.... بس.... بس بس... جانے دو"

جانے کیا تھا اس وقت میرے چہرے پہ، سب ٹھٹھک کے رک گئے..
شمشیر نے مجھے ہلا کے سڑک سے ہٹایا
"سُودے، تُو ٹھیک ہے ناں، تیرا تو چہرہ ہی بدل گیا ہے"

میں سڑک کنارے کھڑا ایک ہاتھ سے "جانے دو، جانے دو" کے اشارے کر رہا تھا اور ویگن ہلکی ہلکی آگے بڑھنے لگی، اس نے پاس سے گزرتے گردن بائیں طرف موڑی، میری طرف دیکھا، ویگن آگے بڑھ گئی..
اس کی آنکھیں، میرے لوحِ دل پہ نقش ہو گئیں، میں کوئی شاعر نہیں کہ ان آنکھوں کے کہے چند حروف کو قصیدوں میں پرو سکوں نہ ہی کوئی ادیب کہ لفظوں کے پیچ و خم سے بتا سکتا کہ وہ آنکھیں آخری بار جاتے جاتے کیا کہہ گئی تھیں.. وہ آنکھیں جیسے آسمانی صحیفہ تھیں جن پہ گِن کے چودہ الفاظ درج تھے ،

"مجھے جانے دیا تو نے سُودے، اب یہ وقت کہاں کہیں جا سکے گا"

Sunday, October 20, 2019

جھوٹی امید... پنجابی

‏"جھوٹی امید" 

اک سُفنے دی قبر اتے
جدے مَتھے لخیا ناں وی
وریاں بارشاں دے گل لگ کے
اپنے سارے اَکھر رو بیٹھا اے
جدی مٹی اپنے اندر
ساریاں دُھپاں دی اَگ لے کے
اپنی کوکھ ساڑ بیٹھی سی

آج اس سُفنے دی قبر اتے
اک بے ناواں پھُل اُگیا اے
..... 

‎#مقصود_عاصی

‎#MaqsoodAsi

Wednesday, October 16, 2019

تماشائی

سنتے آئے ہیں کہ زندگی امتحان ہے.. امتحان میں سوال نامہ کیا ہے، کہتے ہیں کہ وہ بھی معلوم ہے، بس جواب درست دینے کی مسلسل تگ و دو میں رہنا جینے کا مقصد ہے...

اب ہم ٹھہرے سدا کے نالائق، سامنے کی بات سمجھنے میں ہمیں کئی کئی دن 'ضائع' ہو جاتے ہیں، یہ تو پھر زندگی ہے، الجھی ہوئی ریشم جیسی.. ہمارے پلے کہاں سے پڑتی !!

سو آدھی عمر، زندگی کے گھمبیر سوال کی تلاش میں سر کے بال اڑانے اور داڑھی میں سفیدی اتارنے کے بعد ہم نے یہ سوال نامہ پھاڑ کے ہوا میں اچھال دیا ہے اور جواب پہ فاتحہ پڑھ لی ہے...

اب ہم کسی بھی شے یا وجود کے ہونے یا نہ ہونے کا جواز تراشتے ہیں نہ جواب تلاشتے ہیں...
جب تک ہم تلاش میں تھے، ہم تماشہ تھے... اب ہم تماشائی بن کے بیٹھتے ہیں کبھی ہونہہ کہہ کر سر ہلاتے ہیں اور کبھی دانت نکال کے تالیاں پیٹتے ہیں..
اگر ہم نالائق نہ ہوتے تو یہ بات سمجھنے میں عمر نہ گال دیتے... سامنے دھرے جواب پہ قہقہے لگاتے گلی میں بھاگ گئے ہوتے...

بات یوں ہے کہ مولوی فرید ہمارے گاؤں کا ایک کردار تھا... ہمیشہ صاف سفید تہہ بند اور کُرتے میں ،سفید پگڑی باندھے صبح صبح گاؤں سے نکلتی سڑک پہ سائیکل پہ 'پیڈل' مارتا گاؤں سے نکلتا اور عصر کے بعد سائیکل پہ کچھ تھیلے لٹکائے واپس آتا دکھائی دیتا تھا...لوگ کہتے تھے کہ وہ دور دراز علاقوں میں جا کے دَم درود کر کے دیتا ہے اور پیسہ، آٹا، گندم جو ملے، لے لیتا ہے.. مگر نہ ہم نے کبھی پوچھا نہ اس نے کبھی ایسا ظاہر ہونے دیا...
شادی اس نے کی نہیں تھی اور اپنے بھائی کے گھر ہی رہتا تھا... ہم سے مسجد یا باھر جہاں بھی ملتا ہمیں ہم عمر لگتا... ہماری ابھی کہیں کہیں سے داڑھی نے سر اٹھانا شروع کیا تھا اور اس کی آدھی سے زیادہ داڑھی سفید ہو چکی تھی...اسے عمر میں بڑا اور ہمیں چھوٹا ہونے کا کوئی مسئلہ نہیں تھا...

مسئلہ ہماری آنکھ کو ہوا..داہنی آنکھ سُوج گئی اور ہم بلا وجہ 'کانے کانے' سے لگنے لگے.. جانے کیا ہوا تھا، رات کو سوئے تو کوئی مسئلہ نہیں تھا، صبح اٹھے تو سب کو 'ایک آنکھ' سے دیکھنے لگے... اماں کے بقول رات کو کوئی کیڑا آنکھ سے گزرا ہے تو آنکھ سوج گئی ہے.. علاج بھی اماں نے یہ عنایت فرمایا کہ ساتھ والے گاؤں میں ایک 'بابا جی' کا مزار ہے، وہاں جھاڑو دیں تو آنکھ ٹھیک ہو جاتی ہے...

ہم نے جگری یار شاقی کو ساتھ لیا اور گپیں ہانکتے دربار پہنچے... دربار کی حالت واقعی 'جھاڑو مانگ' تھی.. دیوار کے ساتھ پڑے جھاڑو اٹھا کے بسم اللہ پڑھ کے جھاڑو دینا شروع کیا تو جانے کب ہمارے گناہ گار ہونٹ "میرے رنگ میں رنگنے والی، پری ہو یا ہو پریوں کی رانی، یا ہو میری پریم کہانی" گنگنانے لگے، شاقی کا جھاڑو ہماری تشریف پہ پڑا تو ہم تھمے..

"شرم کر حیا کر، دربار میں گاتا ہے ؟ آنکھ ٹھیک کرانے آیا ہے کہ سُر سیدھے کرانے"... شاقی اپنی ہی جگت پہ ہنسنے لگا اور ہم دونوں ہنستے ہوئے "میرے سوالوں کا.. جواب دو... دو ناں" گاتے جھاڑو دے کے نکل آئے...

عصر کی نماز تک واپس اپنے گاؤں پہنچے تو ہم بدستور 'ایک آنکھ سے دیکھ رہے تھے'... مسجد میں پرائمری اسکول کے ہیڈ ماسٹر 'ماسٹر حسین' نے ہمیں ایک آیت(وَإِذَا بَطَشْتُم بَطَشْتُمْ جَبَّارِينَ) سنا کے پوچھا "آتی ہے؟" ہم نے ایسے ہی "جی سر" کہہ دیا.. بولے، "یہ آیت پڑھتے پڑھتے شہادت کی انگلی ہتھیلی پہ رگڑتے جاؤ، جب انگلی گرم ہو جائے تو سوجی آنکھ پہ پھیرو، یہ عمل بار بار دہراتے جاؤ اور آیت پڑھتے جانا "... ہم نے پھر "جی سر" کہہ دیا....

نماز کے بعد ہم اور شاقی سر جوڑ کے بیٹھ رہے کہ وہ آیت کون سی تھی.. سوچا کچھ سپارے پھرولتے ہیں مگر تیس سپارے! اتنے میں مولوی فرید آ گیا اور ہم نے اپنی سمسیا اس کے آگے رکھ دی...مولوی فرید نے پوچھا "وہ شہادت کی انگلی گرم کی؟"... ہماری نفی میں ہلتی گردن پہ وہ ہنسنے لگا....
"یار، تو انگلی رگڑ ہتھیلی پہ اور انگلی گرم ہو جائے تو سوجی آنکھ پہ رکھ، دس بارہ بار ، کچھ دیر میں ٹھیک ہو جائے گی آنکھ"....
"تو وہ آیت کے بغیر"؟؟
مولوی فرید ہنستے ہوئے اٹھا اور "تیرا سوال ہی تیرا جواب ہے" کہہ کے وضو کرنے چل پڑا....

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...