Tuesday, June 13, 2017

خالق اور تخلیق

اس کا رنگ، دانت اور ناک اس کے اندر اعتماد پیدا ہونے ہی نہ دیتے تھے.. گو کہ وہ بالکل کالا نہ تھا مگر گھر کے باقی افراد خوب سفید و صاف رنگت رکھتے تھے، اسے جانے کیا ہوا تھا کہ گدلا سا رنگ لے کے پیدا ہو گیا.. نہ ماں پہ رنگ تھا نہ باپ پہ... شاید وہ رنگ بھی برداشت کر لیتا مگر دانت باھر کو نکلے اور ناک پھول کے پکوڑے جیسا.. وہ سب کے سامنے ہنسنا تو دور، بات تک نہ کرتا کہ منہ کھولوں گا تو دانت دکھائی دیں گے.. عینک لگاتا تو لگتا کہ نقلی بڑا سا ناک رکھا ہو.. سو اپنے آپ گم رہتا، اپنی اندر کی کمیوں اور بد صورتیوں کی فہرستیں بناتا رہتا.. ھر روز ان فہرستوں میں کبھی کچھ نیا اندراج ہوتا اور کبھی کبھار کچھ مٹا بھی دیتا..

ساتویں آٹھویں جماعت تک داڑھی بھی پھوٹنے لگی اور وہ داڑھی اب ایک اور بداعتمادی کہ وجہ قرار پائی کہ کہیں کہیں سے بال نکلے تھے اور بال مڑتے جاتے تھے..

کمزور جسم اور لمبا قد.. سَرُو کے بوٹے کی طرح لگتا تھا.. ماسٹر رفیق کہا کرتے کہ لوگ ابھی جانتے نہیں اسے، شریف سمجھتے ہیں اسے.. جتنی داڑھی باھر ہے اس کی، اس سے دوگنی اندر ہے... جتنا لمبا دکھائی دیتا ہے اس سے دوگنا زمین میں ہے.. وہ سب سنتا اور ان سنا کر دیتا..

دوست یار بنانے میں بلا کا ناکام تھا کہ پہل کرتے موت پڑتی تھی اور کوئی اور ہاتھ بڑھاتا تو اس کی آنکھوں میں 'کمیوں اور بد صورتیوں' کی فہرست آ جاتی اور وہ بھاگ جاتا..

گھر میں باھر کے سارے کام اسی کے ذمے ہوا کرتے تھے اور وہ اپنی خوشی سے وہ سارے کام کرتا بھی تھا.. گھر  اسے سنٹرل جیل تھا گویا.. ابا جی انتہائی سخت گیر واقع ہوئے تھے، ھر کام، ھر شے وقت مقرر پہ اور انھیں کے بنائے گئے قواعد کے مطابق ہوتی تھی.. بچپن میں اسے لگتا تھا کہ قصے کہانیوں میں غلط کام کرنے پہ جو سزا دیتا ہے، وہ خدا دراصل اس کا باپ ہی ہے... اس کی طبیعت باغی تھی.. خدا اور شیطان ایک جگہ اکٹھے نہیں رہ سکتے.. گھر سے مار، گالیاں اور جھڑکیاں کھاتا تو گھر سے دور ہوتا جاتا...

یہی زندگی جیتے جیتے کالج داخلہ ہو گیا... کالج وہ ایسے جاتا جیسے کوئی عابد و زاہد عبادت کو جائے ہے.. صبح کا نکلتا، بسوں کی چھتوں اور ویگنوں کے پیچھے لٹک کے کالج جاتا اور واپس گھر آتے شام ڈھلنے کو ہوتی تھی.. وہ سارا دن آزاد رہا ہے، یہ خیال اس کے اندر کئی گلاب کھلا دیتا.. وہ کالج سے ایسے لوٹتا جیسے آگ لاتے لاتے موسی پیغمبری لے آئے ہوں اور گھر میں یوں رہتا کہ جیسے آدم جنت سے نکلنے کے بعد زمین پہ اداس پھرتے ہوں...

دوست تو تھے نہیں سو اپنی تنہائی میں خدا جیسا وہ، اپنی سوچوں میں نئی نئی دنیائیں بناتا.. ہوا نظر آتی، سانس کے بنا جیون ہوتا..چاند کبھی نیلا پڑتا پھر گلابی ہو جاتا.. سورج رک جاتا اور زمین اچھلنے لگتی.. پہاڑ سبزے سے سج جاتے، دریا پانی اچھالتے، سیپیاں پھینکتے.. جانور خوش گپیاں کرتے، پرندے زمین پہ گھر بناتے اور انسان ہوا میں آزاد اڑتے...

اپنی سوچوں میں مگن اور نئی خوبصورت دنیاؤں کی تخلیق میں گم، وہ سڑک پار کرتے گاڑی سے ٹکرا گیا.. سَر پھٹا، خون خوب نکلا، بازو ٹوٹی اور ٹانگ مڑ گئی.. اسپتال میں چار دن بعد زندہ بچا لیا گیا.. ماں اس کا بد رنگ چہرہ چومتی جاتی تھی اور روتی جاتی تھی.. چھوٹی بہن نم آنکھوں سے اس بھدا موٹا ناک دباتی اور وہ اپنے باھر کو نکلے دانت اور باھر نکالتا اور مسکراتا جاتا...

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...