Saturday, August 31, 2019

دوست کا نوحہ (حسنی بلوچ کی سچی تحریر)

لوگ کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا ایک مصنوعی دنیا ہے مگر اسی مصنوعی دنیا سے انسان کا ایک تعلق بن جاتا ہے جو عام رشتوں سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے.. مجھے اچھے دوست ملے، آپ سب نے بہت عزت دی میں شاید اس قابل نہیں تھا.. آپ لوگ بہت اچھے ہیں آپ سب کا احترام محبت ہی میری زندگی کا سرمایہ ہے .. اس مضمون کے بعد شاید میں پھر کبھی سوشل میڈیا استعمال نہ کر سکوں، وجہ وہی کہ میں خود پر جبر کرکے اپنے دکھ کو خوشی کا مصنوعی لبادہ پہنا نہیں سکتا.. مجھے الفاظ سے کھیلنا نہیں آتا ہے اس لئے جو باتیں یاد آئیں لکھتا گیا.. اب اصل بات کی طرف آتے ہیں

"زندگی میں آپ کو اتنے ہی دکھ اور آزمائشیں ملتی ہیں جتنا تم میں برداشت کرنے کا حوصلہ ہو "
یہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے.. دکھ کاٹتے اور غم سہتے ہوئے لوگ پاگل ہوجاتے یا مر جاتے ہیں.. لوگوں نے صرف ظلم اور جبر کی باتیں سنی ہیں، جبر اور ظلم کیا ہوتا ہے یہ مجھے اس مہینے پتہ چلا ۔۔۔
میں صرف اس واقعہ پر بات کرنا چاہتا تھا مگر ایک بات لازمی کروں گا.. لوگوں کو کلمہ پڑھوا کر مسلمان کیا جاتا مگر ہمیں جب کلمہ پڑھنے کا کہا جاتا تو اس کے معنی آپ کی موت ہے اور یہی لوگ خود کو مسلمان کہتے ہیں.. اللہ اکبر کہہ کر ہمیں موت کا تحفہ دینے والوں کو مسلمانوں پر غیر مسلم کے ظلم پر واویلا کرتے دیکھا مگر ہمیں کلمہ پڑھنے کا کہہ کر مارا جاتا ہے.. یہ کلمہ شاید موت کا پیغام ہے ہمارے لئے یا شاید ہم کافر ہیں

"زندگی ہم سے کبھی نہیں جیت سکتی اگر ہم ہار نہ مانے" گہرام ہمیشہ اداسی اور دکھ کے لمحات میں ہم دوستوں کو تسلی دیتے ہوئے یہ الفاظ ادا کرتا تھا اور مسکرا کر ہمیں دیکھتا تھا

یہ کہانی ہم تین دوستوں کی ہے.. گہرام (بلوچی میں گواہرام کہتے ہیں) دل مراد اور حسنی کی ہے.. چھٹی کلاس سے میٹرک تک اس اسکول میں صرف میں ہم تین بلوچ طالب علم تھے.. اسکول سے یونیورسٹی تک ساتھ ہی رہے اور ہمیشہ مجھے بڑے بھائی کی طرح احترام دیتے تھے.. گہرام کے والد سے تعلیمی رہنمائی لیتے تھے اور دل مراد کے والد کے پاس بیٹھ زندگی کے مختلف پہلو پر بات کرتے تھے..
دل مراد بہت حساس لڑکا تھا، ایک وقت آیا جب اس نے تعلیم ادھوری چھوڑ دی اور لانچ پہ چلا گیا.. یہ لانچ تقریبا دو سے تین مہینے سمندر میں رہتی ہے.. جون جولائی میں اسکی چھٹیاں ہوتی تھیں تو ہم تینوں ایک ساتھ رہتے تھے.. دل مراد اکلوتا تھا تو اسکا گھر ہمارا ڈیرا ہوتا تھا.. ہم گھر کے کام میں ماں کی مدد کرتے تھے، کھانے بناتے تھے، گھر کی صفائی سے لیکر برتن دھونا ہماری ذمہ داری ہوتی تھی.. فلمیں دیکھنا کتابیں پڑھنا موسیقی سننا دھنیں بنانا اور اس پر شاعری کرنا، ہمارا یہی لگا رہتا تھا.. دل مراد کی ماں کو ہم سب بی بی کہتے تھے بی بی ہمیں ڈانٹتی بہت تھی کہ ہم اپنا خیال نہیں رکھتے.. اتنے کمزور ہوگئے ہیں اور ہم بی بی کی ڈانٹ سن کر ہنسا کرتے تھے.. مائیں سانجھی ہوتی ہے یہ سبق ہم نے بچپن میں ہی سیکھا...
گہرام اپنے گھر میں سب سے بڑا تھا ایک ادارے میں اچھی پوسٹ پر کام کرتا تھا ، میں خیر حالات کی مجبوری کی بنا ملک سے باہر چلایا..
اب آپ دل مراد کی کہانی سنئیے.. دل مراد اپنے ماں باپ کا اکلوتا اولاد تھا، تعلیم حاصل کرنے باوجود سمندر سے محبت اور خاندانی پیشہ ماہی گیری سے محبت نے اسے اپنے لانچ پر کام کرنے کی ترغیب دی.. ایک اچھا میکنک اور ڈرائیور ہونے کی وجہ سے اسے کام کرنے میں آسانی رہی.. والد کی بیماری کی وجہ سے گھر کی ذمہ داری دل مراد نے اٹھائی.. یونیورسٹی میں تعلیم ادھوری چھوڑ کر وہ گھر کی کفالت میں لگ گیا.. 10 سال تک محنت کی، گھر بنایا.. پچھلے سال جب دل مراد لانچ کے سفر سے جون جولائی کی چھٹیوں پر گھر آیا تو ماں نے کہا کہ گہرام کے گھر والوں کو بلا لو وہ یہاں بچوں کی چھٹیاں منا لیں.. اگلے دن وہ کراچی کےلئے روانہ ہوا مگر گہرام سے نہ مل سکا اور اسی دن سے دل مراد لاپتہ ہوگیا..

بہت تلاش کیا مگر وہ نہ مل سکا سب اسی انتظار میں کہ اسکی کوئی اطلاع مل جائے.. مگر دل مراد کو آسمان نگل گیا یا زمین کھا گئی.. میں اس سے ملنے گیا تو ماں نے مجھے کہا بیٹا میرا ایک کام کرو اپنے دوست دل مراد کو ڈھونڈ کر لاؤ.. میں کیا جواب دیتا بس کہا ماں وہ جلدی آجائے گا..
اب گہرام کی کہانی سنیے.. میں گہرام سے جب ملا تو مجھے لگا وہ مجھ سے بہت کچھ کہنا چاہتا ہے مگر کہہ نہیں پارہا تھا اسکی آنکھوں میں کئی سوال تھے اور چہرے پر ایک عجیب سا دکھ.. میرے کریدنے پر بھی وہ خاموش رہا.. دل مراد کو لاپتہ ہوئے اس سال جون میں ایک سال بیت گیا، اسی سال جولائی میں مجھے گہرام نے فون کیا اور رونے لگا.. میں نے پوچھا کیا ہوا ہے تو پہلے خاموش رہا پھر کہنے لگا
"میرے دل پر ایک بوجھ ہے ایک سال سے میں نہ سو سکتا ہوں نہ مجھے سکون ہے،میں اس زندگی سے ہار گیا ہوں میں بزدل ہوں میں اپنے دوست کو بچا نہ سکا اس کی چیخیں مجھے آج بھی سنائی دیتی ہیں میں بہت تکلیف ہوں بھائی بلکہ میں اپنے دوست کے بارے میں کسی کو اطلاع بھی نہ دے سکا"..
میں نے پوچھا کس کے بارے میں بات کررہے ہو اس نے روتے ہوئے کہا دل مراد کے بارے میں.. اس نے کہا کہ اس دن دل مراد اس سے ملنے کے لئے آنے والا تھا کہ اچانک میرے موبائل پر دل مراد کی کال آئی .. دوسری طرف ایک شخص نے کہا کہ آپ کے دوست ہسپتال میں زخمی حالت میں پڑا ہوا ہے.. تم جلدی سے ہسپتال پہنچ جاؤ .. ہسپتال میں مجھے ایک شخص ملا اور اس نے کہا کہ تم گہرام ہو میں کہا جی ہاں اس نے مجھے ایک گاڑی میں بٹھایا اور اس گاڑی میں دو اور بندے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے پھر اچانک کسی میرے منہ پر رومال رکھ دیا اور میں بیہوش ہوگیا...
جب آنکھ کھلی تو ایک کمرے میں موجود تھا دو نقاب پوش میرے سامنے کھڑے تھے اور انہوں نے دل مراد کے بارے میں پوچھنا شروع کیا میں نے کہا کہ وہ ایک شریف بندہ ہے لانچ پہ کام کرتا ہے انہوں نے مجھے گالی دی تو میں نے جوابی گالی دی پھر انہوں نے مجھ پراتنا تشدد کیا کہ میں بیہوش ہوگیا...
جب ہوش آیا تو پورے جسم سے ٹیسیں اٹھ رہی تھیں.. میری آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی، وقت کا اندازہ نہیں تھا.. کچھ لوگ اندر آئے مجھے اس کمرے سے نکال کر دوسرے کمرے میں لے گئے اور آنکھوں سے پٹی اتار دی..

ایک کھڑکی کے سامنے مجھے کھڑا کردیا، اندر بلب کی روشنی میں ایک شخص کے ہاتھ اوپر دیوار سے بندھے ہوئے تھے جسکا پوارا جسم لہو لہان تھا.. مجھ سے پوچھا کہ یہی ہے تمھارا شریف بندہ ؟ میں نے غور سے دیکھا تو وہ دل مراد تھا.. میں کہا کیوں اس اتنا ظلم کررہے ہو ؟ جواب میں انہوں نے قہقہہ لگایا پھر ایک شخص نے دل مراد پر پانی پھینکا تو وہ کراہ کر رہ گیا اور اسی شخص نے ایک ڈنڈے سے اس کو مارنا شروع کیا وہ چیخنے لگا اور پھر بیہوش ہوگیا پھر اس پر پانی ڈالا گیا اور کہا کہ کلمہ پڑھ لو

مجھے دوبارہ اسی کمرے میں لایا گیا اور کہا کہ تم بھی کلمہ پڑھ لو ۔۔۔۔کلمہ پڑھ لوں؟ اور ایک زوردار تھپڑ میرے منہ پر لگا پھر مجھے ایک انجیکشن دیا گیا اور میں ایک گہری نیند میں چلایا..
جب نیند سے جاگا تو مجھے کمرے سے باہر لے جایا گیا اور ایک لاش کے پاس کھڑا کیا کہا کہ اپنے شریف بندے کا آخری دیدار کرلو تم بھی جلدی ہی اس سے ملنے جارہے ہو... وہ لاش دل مراد کی تھی تشدد زدہ جیسے کسی درندے نے چھیڑ پھاڑ کر رکھ دیا ہو... میں نے پوچھا
"کیا اس نے کلمہ پڑھا تھا ؟ کیا کلمہ پڑھنے سے اس کی موت آ گئی تھی ؟ اگر میں کلمہ پڑھ لوں، پڑھنے کا یہ نتیجہ ہے تو میں کبھی بھی کلمہ نہیں پڑھوں گا"
اس کے بعد میرے ہاتھ پیچھے باندھ دیے گئے اور مجھے دھکیلتے ہوئے ایک جگہ لے گئے تو ایک آواز آئی اسے میرے کمرے میں لے کر آجاؤ... مجھے لے جایا گیا آنکھوں پہ پٹی بندھی ہوئی تھی.. مجھے بٹھایا گیا اور پانی کا ایک گلاس دیا، پھر کہا کہ تمھیں چھوڑ رہے ہیں یہاں جو کچھ بھی دیکھا کسی سے ذکر مت کرنا ورنہ انجام تم جانتے ہو.. تمھارے پورے خاندان کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کیا جائے گا..
مجھے گاڑی میں بٹھایا گیا اور ایک جگہ پر پھینک کر چلے گئے .. میرے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور آنکھوں پر پٹی تھی کافی وقت گزرا تو کچھ لوگ وہاں آئے اور میرے ہاتھ کھول دئے آنکھوں سے پٹی اتاری اور مجھے ہسپتال پہنچایا.. جہاں میں نے پولیس سے کہا مجھے کچھ لوگوں نے اغواء کیا تھا مگر میں نہیں جانتا کہ وہ کون لوگ ہیں..

اغواء سے رہائی کا دورانیہ 36 گھنٹے کا تھا.. جسم کے زخم بھر گئے مگر روح پر لگے گھاؤ مجھے جینے نہیں دیں گے.. مجھے شاید اس دنیا میں آنا ہی نہیں چاہئے تھا میں ہمیشہ عدم تشدد کا حامی تھا بھائی.. مگر میرے ہی بیگناہ دوست کو تشدد کرکے مارا گیا کلمہ پڑھوا کر مارا گیا اور میں کچھ نہ کرسکا.. اب میں پہلی اور آخری مرتبہ ہتھیار اٹھاؤں گا.. ہوسکے تو مجھے معاف کردینا پھر وہ دھاڑیں مار کر رونے لگا اور فون بند ہوگیا.. میں نے اسکے گھر پر فون کیا تو اور اسکے والد سے کہا کہ گہرام کو ڈھونڈ لیں پتہ کریں کہ وہ کہاں ہیں ایک گھنٹے کے بعد پتہ چلا کہ اس نے خودکشی کرلی ہے....

دوست کا نوحہ۔۔

گہرام تم بھی چھوڑ کر چلے گئے.. اتنا ظلم.. میں نے کہا تھا ناں کہ میں آرہا ہوں.. میرا انتظار کیا ہوتا یار، ایسی بھی کیا جلدی تھی.. کیا مجھے آخری بار گلے لگ کر رونے کا حق بھی نہیں تھا.. گہرام میں تمھاری بہادری کی مثال دیا کرتا تھا اور تم نے بزدلی کا مظاہرہ کیا.. آج تمھاری ماں کو کیا کہوں ؟ کیا تسلی دوں ابا کو ؟ بھابی اور بچوں سے کیا کہوں جو مجھ سے کہہ رہے ہیں چاچو ابا کو واپس بلالو.. وہ تمھاری بات نہیں ٹالتا، بہنوں کی نظریں ، مجھ میں اپنے گہرام کو ڈھونڈ رہی ہیں.. کہاں سے لاؤں، کیا کہوں ان بھٹکتی ہوئی نگاہوں سے، گہرام یار تم چلے گئے مگر دکھ و درد کی جس صلیب سے تم نے چھٹکارا پانے کی کوشش کی اب وہ میرے کندھوں پر آگئی ہے.. مجھے اب صلیب اٹھانے کی ضرورت نہیں بلکہ مجھے صلیب پر گاڑھ دیا گیا ہے.. میرے ذہن میں دو دوستوں کے بچھڑنے کا شکنجہ کس دیا گیا ہے.. میرے دونوں ہاتھوں میں درد و غم کی کیلیں ٹھونک دی گئیں.. میں کوئی پیغمبر نہیں ہوں پھر مجھے یہ سزا کیوں دی گئی..
یار تم تو جانتے تھے کہ مجھے تعزیت کرنا نہیں آتا، اپنے دوست کا پرسہ کیسے دے سکوں گا.. میں تیری قبر پر آکر بہت رویا، یار تم نے اپنے ساتھ مجھے بھی دفن کردیا میرے دوست، اب ماں کو کیا کہوں کیوں تم نے ایسا کیا.. پتہ ہے مجھے دیکھ کر ماں نے کیا کہا " تمھارا دوست جھولے میں لیٹ کر سونے چلا گیا ہے اسے مت جگانا ناراض ہوجائیگا " وہ 2 دن سے نہیں روئی مجھے دیکھ کے دھاڑیں مار مار کے رونے لگی..

"بہادری ، صرف اس لمحہ پر قابو پانے کا نام ہے، جب آپ کو ڈر لگے یا خوف آئے، اگر خود اور ڈر پر قابو پالیا تو آپ بہادر ورنہ بزدل اور ڈرپوک صرف ایک لمحہ یہ فیصلہ کرتا ہے " گہرام کو جب بھی میں پوچھتا یار تم اتنے بہادر کیسے ہو وہ ہنس یہ جملہ کہا کرتا تھا

گہرام ہمیشہ عدم تشدد کا حامی رہا اور مشکل حالات میں بھی گہرام کو کبھی گھبراتے نہیں دیکھا اور اب بس اسکی یادیں ہیں باتیں ہیں اور ایک کہانی ۔ زندگی کبھی بھی سازگار نہیں رہی مگر گہرام اسی کو زندگی کا حاصل سمجھتا تھا
" اگر مشکلات نہ ہوی تو جینے کا مزہ کیا ہے حسنی"
گہرام تم ہی تو میرا آسرا تھے، جب بھی کسی مسئلے پر بات کی، کسی مشکل کا ذکر کیا تم نے ہی مجھے حوصلہ دیا.. اب کہاں سے لاؤں وہ ہمت وہ حوصلہ، کس سے بانٹوں اپنے غم اپنی خوشیاں، مجھے جگا کر خود سوگئے.. زندگی میں پہلی بار خود کو تنہا محسوس کررہا ہوں.. میرے دونوں بازوں کٹ گئے ہیں اب زندگی بھی موت کی پرہول خاموشی میں تبدیل ہوکر رہ گئی ہے.. اب صرف تلخ یادیں ہیں جو زندگی میں کڑواہٹ گھول کر رگ رگ میں سرایت کر چکی ہیں

زندگی کی آندھی میں ذہن کا شجر تنہا
تم سے کچھ سہارا تھا آج ہوں مگر تنہا

جھٹپٹے کا عالم ہے، جانے کون آدم ہے
اک لحد پہ روتا ہے منہ کو ڈھانپ کر تنہا

Friday, August 23, 2019

جہنم کی دوپہر

اس کبوتر کے بارے آپ نے ہزار بار سنا اور سو بار پڑھا ہو گا جو بلی کو دیکھ کے آنکھیں بند کر لیتا ہے... مگر یہاں بلی کی آنکھیں بند تھیں اور کبوتر بلی کے چہرے پہ پسینے کے قطرے تک گن سکتا تھا...

جون کی دوپہر تھی کہ جہنم کی دوپہر.. لوگ کمروں میں گھسے پنکھے لگائے سو رہے تھے.. کچھ جانوروں کو لے کے گاؤں کے باھر درختوں کی چھاؤں میں لیٹے تھے مگر میری نیندیں اڑ گئی تھیں، صحن میں درخت کے نیچے بیٹھے کبوتروں میں سے میرا ایک کبوتر (شاہ رخ خان، جس کا میں نے نام رکھا تھا) اڑ گیا تھا... میں دوڑ کے چھت پہ چڑھا... بنیان اور شلوار میں دو چھتیں پھلانگیں تو حوالدار منظور کی چھت پہ شاہ رخ خان دکھائی دیا... مخصوص آواز میں اسے بلایا مگر وہ کم بخت منڈیر سے اڑ کے نیچے صحن میں اتر گیا... لوگوں کی چھتوں پہ بنا آواز چلتا ہوا  میں حوالدار صاحب کی چھت پہ جا پہنچا...

نیچے جھانکا تو حوالدار صاحب کی اکلوتی بیٹی صاعقہ، جسے نیلی آنکھوں کی وجہ سے بلی کہتے تھے، صحن میں لگے لیموں کے پودوں کو پانی دے رہی تھی اور میرا شاہ رخ خان ان کے پائپ سے گرتے پانی کے آگے پیچھے گھوم رہا تھا... میں سیڑھیاں اتر کے نیچے آیا تو مجھے دیکھ کے صاعقہ نے گھبرا کے پائپ نیچے پھینکا اور پتلی سی سفید قمیض سے جھانکتے دو سفید ٹیلے، بازوؤں سے چھپانے لگی.. میں تھوڑا آگے بڑھا اور وہ نظریں جھکائے، گالوں پہ اترتی سرخیاں لیے دو قدم پیچھے ہٹ گئی...
"گھر میں کوئی نہیں ہے"
اس کی آواز دھوپ کی شدت میں پانی کے چھینٹوں جیسی تھی...
"میں شاہ رخ لینے آیا ہوں جی"
یہ کہتے ہی میں کبوتر کی طرف لپکا مگر وہ اڑ کے دو قدم دوسری طرف چل پڑا...
اس کی ہنسی چوڑیوں کی چھنکار جیسی تھی...
"یہ شاہ رخ خان ہے... ہی ہی ہی... تو آپ کیا ہو"
اس کی موٹی موٹی آنکھیں شرارت سے اور پھیل گئیں ...
"میں شوکی ہوں جی"
اور صحن میں اس کی ہنسی کے جلترنگ گونجنے لگے.... شاہ رخ اس کے پاؤں کے پاس جا کھڑا ہوا.....
"واہ بھئی، بڑا جی دار کبوتر ہے آپ کا ، بلی کے ساتھ یوں لگ کے کھڑا ہے"
چارپائی سے دوپٹا اب گلے کے بیچ لٹک رہا تھا
"آخر شاہ رخ خان ہے جی"
میں نے مخصوص آواز دی تو وہ ٹس سے مس نہ ہوا... وہ صحن میں گرے پانی کے قطرے پینے میں مصروف تھا.
"جی، آپ ہی پکڑ دیں اسے، آج تو مجھ سے بھی اجنبی ہو گیا ہے "
"ہائے.. میں کیوں پکڑوں، اب یہ میرا ہو گیا ہے"
"یہ بھی ٹھیک ہو گیا جی،آپ کا ہی سہی مگر آپ کہاں اسے سنبھالتی پھریں گی، مجھے دے دیں، سنبھال کے رکھوں گا جی"
"بہت چالاک ہیں آپ"
ماتھے پہ پسینے کو دوپٹے سے صاف کرتے ہوئے اس نے جھک کے کبوتر اٹھا لیا... شاید زور سے پکڑنے پہ کبوتر پھڑپھڑانے لگا... میں جلدی سے پاس گیا اور کبوتر کو اس کے ہاتھ سے لینا چاہا... اس کے ہاتھوں میں کبوتر تھا اور میرے ہاتھوں میں اس کے ہاتھ ... دل کا پمپ زوروں سے چلنے لگا تھا... اس کی آنکھیں گلاب رنگ ہونے لگی تھیں.. میں نے کبوتر پکڑنا چاہا مگر وہ اس کے ہاتھوں سے اڑ گیا... اس کے ہاتھ مسلسل میرے ہاتھوں میں تھے اور وہ پسینے میں بھیگتی سمٹتی جا رہی تھی... میں نے اس کے ہاتھ چھوڑے اور بازوں اس کی کمر کے گرد ڈال کے اپنی طرف کھینچا تو دو نالی بندوق جیسے میرے سینے پہ آن لگی... اس کے ہونٹوں کی تپش سے میرے ہونٹ جل اٹھے مگر کسی جہنمی کی طرح میرے ہونٹ اس آگ کو چھوڑ نہیں رہے تھے ... بلی کی آنکھیں بند تھیں اور کبوتر بلی کے چہرے پہ پسینے کے قطرے گن رہا تھا...

Thursday, August 15, 2019

طاری کی گرفتاری

میری تو مجبوری تھی مگر یہ شبیرا پچھلے دو دن سے پانچ وقت کی باجماعت نمازیں کن چکروں میں پڑھ رہا تھا.. میری مجبوری ابا جی کے بزورِ ایمان و بازو و جوتے پر قائم تھی مگر شبیرے کی کوئی ایسی مجبوری تھی ہی نہیں.. (شبیر وہ صرف شناختی کارڈ پہ تھا ورنہ پیدا ہونے سے آج تک کبھی اسے شبیر نہیں کہا گیا تھا، وہ شبیرا ہی تھا)

پہلے تو اس کی باجماعت نمازیں ہی ہضم نہیں ہو رہی تھیں اوپر سے ہر نماز کے بعد کبھی سیپارا لے کے بیٹھ رہنا کبھی اضافی نوافل پڑھنے لگنا تو میرے حلق میں اٹک گیا تھا..

اس دن بارش زوروں پہ تھی سو جماعت میں مولوی صاحب سمیت سات افراد ہی تھے جن میں ایک میں مجبور اور ایک شبیرا بھی تھا... سب چلے گئے تو میں نے اسے جا لیا.. میرے پوچھنے کی دیر تھی کہ وہ رو دینے کو تھا.. اور اتنے خشوع و خضوع کی وجہ تھی طارق عرف طاری کی گرفتاری.. طاری اس کا دوست تھا اور چور تھا...

ہوا یوں کہ طاری اپنی گینگ کے ساتھ چوری کرنے ایک ایسے گھر پہنچا جہاں صرف ایک بوڑھی خاتون رہتی تھیں، جن کے دونوں بیٹے امریکہ میں رہتے تھے اور اپنے علاقے کے امیر ترین لوگ تھے.. بوڑھی دادی کو ملنے ان دنوں امریکہ سے پوتی بھی آئی ہوئی تھی ...

طاری گروپ دیوار پھلانگ کے اندر گھسا اور الماریوں کی خاموش تلاشی شروع کر دی... کچھ ہاتھ لگتا گیا مگر کھٹکے سے یا جانے کیسے دادی کی آنکھ کھل گئی اور پھر دادی کے چِلانے پہ پوتی کی بھی.. سو عین اصول کے مطابق یہ بھاگنے کا وقت تھا مگر دادی کی مسلسل چیخ پکار کو بند کرنا بھی ضروری تھا... سو طاری نے دادی کے منہ پہ ہاتھ رکھا اور پستول پوتی کی طرف کر کے منہ بند رکھنے کو کہا... دادی پہلے کسمسائی پھر ہاتھ کے پیچھے سے اس کی گھوں گھاں رکی تو طاری نے ہاتھ ہٹایا... جب وہ دادی کو چپ کرا کے مڑا اور دو چار قدم ہی چلا تو دادی کی آواز نے اس کے پاؤں جیسے برف میں لگا دئیے

"تُو طاری ہے ناں، تُو طاری ہی ہے"

گھبراہٹ میں کچھ نہ سُوجھا، پلٹا اور گولی دادی کے سینے میں داغ کے دیوار پھلانگ گیا....

دونوں بیٹے امریکہ سے آئے اور پوتی کی گواہی میں دادی کے قتل کی ایف آئی آر طاہر عرف طاری کے خلاف کاٹ دی گئی.. گھر سے طاری کو گرفتار کیا گیا اور پھر پولیس کے ریمانڈ میں دے دیا گیا...

سو شبیرے کی ساری نمازیں، مناجاتیں اپنے دوست طاری کی جان بخشی کے لیے تھیں... اپنی دلچسپی کے لیے میں بھی اس واقعے سے جڑ گیا اور پھر ساری بات یوں ہوئی...

گجرات کے نامور سیاسی خاندان سے تعلق تھا امریکہ پلٹوں کا سو طاری کی خاطر مدارت جیل میں خوب ہونے لگی.. تب تک مارا پیٹا جاتا جب تک وہ بے ہوش نہ ہو جاتا... چودہ دن کے ریمانڈ میں طاری تمام تر تشدد کے باوجود اپنی بیگناہی پہ اَڑا رہا تو مزید ریمانڈ لے لیا گیا اور پھر اس کی خوب خاطر مدارت ہونے لگی..

طاری جی دار تھا... تشدد برداشت کرتا رہا مگر یہ ماننے سے مسلسل انکاری تھا کہ اس نے چوری کی اور قتل کیا... جن کی ماں مری تھی وہ پولیس پہ غصہ نکال رہے تھے کہ ایک سنگل پسلی چور سے اقرارِ جرم تک نہیں کروا سکتے.. پولیس پہ سیاسی خاندان کا زور بھی بڑھ رہا تھا سو سرگودھا سے ایک حوالدار کو منگوایا گیا جو "تفتیش" کرنے اور اقرارِ جرم کروانے میں پورے پنجاب میں مشہور تھا... آج تک اس نے چونسٹھ کامیاب "تفتیشیں" کی تھیں... طاری اس کی پینسٹھویں تفتیش تھا...

حوالدار پہنچا، ساری کہانی سنی اور تفتیشی کمرے میں گھس گیا... پہلے راؤنڈ میں اپنے داؤ پیچ لگائے.. پھر کچھ وقفے کے بعد دوبارہ چٹخنی لگا کے شروع ہو گیا... چیخوں کی آوازیں تھمیں تو بند کمرے سے حوالدار بنیان میں سے باھر لٹکتے پیٹ کو کھجاتا باھر آیا اور پانی کا آدھا جگ پینے کے بعد بولا

"دیکھیں جی، دو سخت راونڈز میں وہ مانا نہیں.. میرے پاس اب آخری داؤ ہے، اس میں تکلیف سے یا تو بندہ اقرار کرتا ہے جو کہ آج تک ہوتا آیا ہے یا پھر مر جاتا ہے، انکار کی گنجائش نہیں رہتی ... اب باقی آپ دیکھ لیں"

... دو تین گھنٹے آپس میں صلاح مشورے کے بعد حوالدار کو "گو آن" کا سگنل دے دیا گیا... تب تک امریکہ سے آئے دونوں بھائی، پولیس افسران تھانے پہنچ چکے تھے.. حوالدار اندر گھسا اور اپنے آخری داؤ آزمانے لگا... طاری کی چیخیں سارے تھانے میں گونجنے لگی...

آدھے گھنٹے بعد حوالدار پسینے میں شرابور کمرے سے نکلا اور اپنے افسروں کے سامنے تن کے کھڑا ہو گیا... کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد بولا..
"سَر جی، یہ بندہ قاتل نہیں ہے، یہ قاتل ہو ہی نہیں سکتا"

بے ہوش، ٹوٹے پھوٹے طاری کو ہاسپٹل داخل کروا دیا گیا... کیس میں ثبوت کوئی تھا نہیں اور اقرارِ جرم ہوا نہیں...

کچھ دن بعد سرگودھا سے حوالدار خاص طور پر طاری سے ملنے ہاسپٹل آیا.. اس نے شاپر میں ڈالے کچھ پھل طاری کے سرہانے رکھ دئیے..
"دیکھیں جی،پہلی بار مجھے خوشی ہوئی ہے کہ میں ہارا ہوں، میرے آگے بڑے بڑے جی دار نہیں ٹھہرے مگر تُو سچا تھا، یہ سچائی کی طاقت تھی"...

طاری نے مشکل سے تھوک نگلا اور مری ہوئی آواز میں بولا، "بہن چود، میں نے ہی مارا تھا اس بڑھیا کو یہ چھاتی کے بیچ، کر لے جو کرنا ہے"..

حوالدار کھسیانی ہنسی ہنستا اٹھا اور پیٹ کھجاتا واپس مڑ گیا....

....( یہ ایک سچا واقعہ ہے )

Wednesday, August 07, 2019

بونا خدا

سورج سر اٹھاتا ہے تو مشرقی کناروں سے رنگ پھوٹنے لگتے ہیں اور دن چڑھتا ہے، ہر سو روشنی ہو جاتی ہے.. صبح اچھی خبر کا استعارہ ہے..
مگر اسی صبح کی ایک خرابی ہے کہ سب کھُلنے لگتا ہے، روشنی میں ہر شے دکھائی دینے لگتی ہے.. من کے کعبـے میں رکھے سینکڑوں بُت رفتہ رفتہ ٹوٹنے لگتے ہیں... فلک کو چیرتے عقیدت کے مینار گرنے لگتے ہیں... ماتھے پہ لگیں سجدوں کی مہریں، کلنک کا ٹیکا بن جاتی ہیں...کائنات کی تخلیق جو ہمارے لیے کی گئی تھی، ایک سازش لگتی ہے.. خونیں سازش..

ہمارے آگے کائنات کو کیسا پراسرار بنا کے رکھا گیا، ہم انگلیاں دانتوں میں دبا کے رہ گئے... جب روشنی ملی سب کھُلنے لگا تو وہی عقیدوں کی انگلیاں اپنے ہی دانتوں سے چبا ڈالیں..

وہ جو امن و محبت کے سبق ساتویں آسمان سے اترے صحیفوں میں لکھے گئے، سب دھوکہ نکلے... انھیں صحیفوں سے نفرت کے وہ طوفان اٹھے کہ زمین جو کبھی نیلی تھی، خون رنگ ہو گئی... انھیں صحیفوں نے کالی سیاہی سے لہو رنگ سرخ سیاہی تک کا سفر دنوں میں طے کیا...

صبح سے شام تک کا سفر اپنی ذات کا سفر ٹھہرا... جو رات کے دھوکے ہمیں گھٹی میں پلائے گئے، دن کی روشنی میں قے کرنا پڑے... جو اندھیرے ہمارے ذہنوں پہ چھائے رہے ، دن کی روشنی نے انہیں گرد و غبار جانا... اسی گرد و غبار کی رات سے جب دن چڑھتا ہے تو سوچ کے کناروں سے رنگ پھوٹنے لگتے ہیں... دن بھر کی روشنی گونگے بہرے عقیدوں اور اندھی عقیدت کے پَر جلانے لگتی ہے...

چڑھے دن کی روشنی نے خدا کے جسم پہ چڑھا خوش رنگ لبادہ کھینچا تو اندر سے خدا بونا نکلا 

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...