Saturday, August 25, 2018

کوئی خدا کو بچاؤ

ہمہ وقت عبادتوں، سجدوں اور جی حضوری سے اکتا کے میں نے فرشتوں سے الگ اک مخلوق تخلیق کر ڈالی... انسان جس کا نام رکھا... خمیر تو بظاہر مٹی تھا اس کا مگر اصل خمیر "سَت رنگی" تھا... محبت، نفرت، غلامی، سرداری، تسلیم و سرکشی سب تھے اس میں اور سب سے بڑھ کے "آزادی"... میں نے انسان کو آزاد تخلیق کیا...

اب کردار بنا لیے تو انھیں 'پرفارم' کرنے کی آزادی دی، ایک تھیٹر بنایا اور ایک دنیا تخلیق کر ڈالی...  پھر سٹیج پہ کردار آتے رہے اور اپنا کام کرتے رہے...

جب انسان نے اپنا پہلا گھر بنایا تو ساتھ میرا بھی یعنی "خدا کا گھر" بھی بنایا...

انسان کو سوچ دی تو سوچ کی پرواز بھی دی... اپنے تخیل و فکر سے انسان مجھے کھوجتا بھی رہا، اور میرے علاوہ  کئی اور خدا تلاشتا اور تراشتا رہا...

کئی فکریں عقائد بھی بدلتے ہوئے نئےمذاہب کی بنیاد بنیں.. مگر ایک چیز قریباً سب میں یکساں رہی اور وہ تھی "خدا کا گھر"....

کوئی مذہب ہو، کوئی عقیدہ ہو.. اپنے اپنے خدا کے گھر سے عقیدت سبھی کو رہی...

وہ آدم پہلے آدمی سے لے کر  گنتی سے بھی باھر آج کے انسان تک... سبھی محبتیں میرے لیے تھیں، سبھی نفرتیں میرے لیے ہیں...

کتنے اربوں، کھربوں سال گزر گئے ہیں، میں بوڑھا ہو چکا ہوں... مگر انسانی فطرت میں نفرت آج بھی جوان ہے... نفرت اور وہ بھی میرے نام پہ!!!

جب اپنے اپنے خدا سے بـے انتہا محبت کے نام پہ ، کسی دوجے کے خدا سے نفرت میں خدا کا گھر جلاتے ہیں تو انسان مرتے ہیں، وہی انسان جنہیں "ست رنگی" خمیر سے گوندھا تھا میں نے... ایک انسان  مارتا ہے، ایک انسان مرتا ہے، ایک انسان اس ظلم پہ چپ سادھ لیتا ہے اور ایک انسان اس ظلم پہ چیختا ہے مگر اپنے اپنے دین کے دیوانے، کبھی یہ نہیں چیختے "خدا کو بچاؤ، کوئی خدا کو بچاؤ"....

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...