Friday, March 29, 2019

کنول اور کیچڑ

وہ معصوم، تازہ کلی جیسی، میرے پہلو میں تھی اور سامنے ساس پوتا نہ ہونے کی وجہ سے کچھ روکھی اور روٹھی ہوئی بیٹھی تھیں.. اعجاز، میں جانتی تھی اندر سے خوش ہیں مگر ماں کے سامنے اپنی بچی کی خوشی دبائے اِدھر اُدھر بلاوجہ مصروف دکھائی دینے کی کوشش میں تھے.. مگر میں خوش تھی... میرے گھر کنول کھلا تھا... ہم نے اس کا نام کنول رکھا تھا...

میں نے کوئی دنیا نہیں دیکھ رکھی.. ایک کچے گھر سے دوسرے کچے گھر تک کا سفر، میری دنیا تھا.. اس چھوٹی سی دنیا میں کنول سے خوبصورت کوئی شے دیکھی ہی نہیں تھی... شادی کے دس ماہ بعد کنول ہمارے گھر کھِلی تھی...

ہم خوش تھے... اعجاز بہت پیار کرتے تھے کنول کو... دادی بھی آہستہ آہستہ پگھل سی رہی تھیں.. کنول تھی ہی بہت خوبصورت.. بہت کم روتی تھی، ہر وقت منہ سے اپنی ہی زبان میں بولتی رہتی، ہنستی بہت کھل کے تھی... ساس اکثر کہا کرتی تھیں کہ اس کی ہنسی میں ڈھول بجتے ہیں، اور میں جانتی تھی کہ ڈھول کی تھاپ میری ساس کو کتنی پسند تھی...

وقت، مٹھی میں ریت جیسا نکلتا جاتا ہے، کنول اب پانچ سال کی ہو چکی تھی اور سکول جانا شروع کر چکی تھی.. جب وہ دو چوٹیاں کیے اچھلتی کودتی سکول جاتی تو میری چھوٹی سی دنیا ناچنے لگتی..

اب سارا دن اسی کے گرد گھومتا تھا... اسی کے ناشتے سے میرا دن شروع ہوتا اور اس کا ماتھا چوم کے لٹانے تک رات ہو جاتی...

پھر اس دن دوپہر کے تین بج گئے مگر کنول گھر نہ آئی.. میں خود محلے کا ہر وہ دروازہ کھٹکھٹا چکی تھی جہاں کنول کے سکول کے بچے تھے... سب گھر آ چکے تھے... بقول رابعہ کے، جو ہمارے گھر سے دو گلیاں دور ہی رہتی تھی، کنول گھر کی طرف ہی آئی تھی..

میں سارے محلے میں روتی پھر رہی تھی، ساس مجھے تھامے گھر لے آئیں، اعجاز بھی آ چکا تھے، جھوٹی تسلیاں دے کے ڈھونڈنے نکلے ... میں بھی ساتھ ہی نکل پڑی...

ہر جگہ ڈھونڈا، سکول پہنچے... کسی جگہ نہیں تھی... سارا محلہ ڈھونڈ رہا تھا، سارے گاؤں میں ڈھونڈ رہے تھے مگر کنول نہیں تھی... کنول نہیں مل رہی تھی،میری سانسیں میری دھڑکن سے نہیں مل رہی تھیں... میری چھوٹی سی دنیا زلزلوں کی زد میں تھی...

تبھی چاچے رفیقے کا لڑکا دوڑتا آیا اور جانے اس نے اعجاز کے کان میں کیا کہا کہ اعجاز نے سَر پٹ گاؤں کے باھر قبرستان کی طرف دوڑ لگا دی... میں چیختی پیچھے دوڑ رہی تھی مگر اعجازِ بجلی کی طرح دوڑ رہے تھے..

قبرستان کے پاس ہی کوڑے کا ڈھیر تھا، جہاں سارے اپنے اپنے گھر کا کوڑا پھینکا کرتے تھے.. میں دوڑتی وہاں پہنچی... سامنے کوڑے کے ڈھیر پہ میری کنول پڑی تھی... میں چیختی اس سے لپٹ گئی... میں اسے چومے جا رہی تھی.. اس کے سکول یونیفارم کا نچلا حصہ خون سے بھرا تھا.... وہ صرف چھے سال کی تھی.... چھے سال کی معصوم بچی.. ہوس مٹانے کے بعد گلا دبا کے مار دی گئی..

کنول کی لاش کوڑے کے ڈھیر جیسے معاشرے پہ پڑی تھی..
کنول جیسے پھولوں کی لاشیں اس گندگی کے بدبودار کیچڑ میں تیر رہی ہیں جسے ہم چھاتی پھلا کے "ہمارا معاشرہ" کہتے ہیں...

گندا، بدبودار، غلیظ معاشرہ

Wednesday, March 27, 2019

اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں

اپنی کم علمی کا اعتراف ہے، جو اعداد و شمار آپ شاید دو چار منٹس میں کمپیوٹر /گوگل سے ڈھونڈ نکال سکتے ہیں، مجھے انھیں اعداد و شمار کو لکھنے، پھر جمع کرنے اور حساب کرنے میں سات اوراق اور سوا دو گھنٹے لگے ہیں...

کہتے ہیں کہ دنیا میں سات براعظم ہیں... زمین پانی سے بھری پڑی ہے اور جو خشک خطے ہیں وہ براعظموں اور پھر ملکوں میں تقسیم ہیں..

نہیں، میرا ارادہ کوئی جغرافیائی تحریر کا قطعی نہیں..

میرا موضوع ہے "اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں"

پاکستان کتنی مدت سے دہشت گردی کا شکار رہا ہے، اور یہ دہشت گردی کتنی ہی معصوم جانیں کھا چکی ہے اور کتنی ہی زندگیاں اس سے آج تک مسلسل متاثر چل رہی ہیں.. اور یہ سب معصوم جانیں "اسلام" کے نام پہ لی گئیں مگر ہمارا سَر وہیں ریت میں دبا ہے اور ہم چیخ رہے ہیں کہ 'اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں'

1979 کے ایرانی انقلاب کے بعد لیے گئے اعداد و شمار کے مطابق، مسلمانوں کے ہاتھوں، اسلام کی سربلندی کے لیے امریکہ، کینیڈا، یو کے، یورپ، روس، افریقہ، مشرق وسطیٰ، ایشیا اور آسٹریلیا تک قریب 11822 + جانیں لی گئیں اور 25757 + زخمی کیے گئے(کم و بیش) ... اور ان اعداد و شمار میں پاکستان میں ہوئے دہشت گردی کے واقعات کی ہلاکتیں اور زخمی شامل نہیں ہیں...

کیا ہم یہ کہہ کے جان چھڑا سکتے ہیں کہ ان سبھی مسلمان دہشت گردوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں؟

ان سے پوچھیے، وہ آپ کو قرآن و احادیث و خلفائے راشدین کے دور میں لیے گئے فیصلوں سے ثابت کر کے دیں گے کہ یہ سب سرا سر عین اسلامی ہے.. کتابوں کے قطب مینار کھڑا کر دیں گے آپ کے سامنے مگر ہم پھر بھی یہی کہیں گے کہ نہیں نہیں، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں؟؟

مساجد کے منبروں سے لے کر، مدرسوں کے در و دیوار تک گواہ ہیں کہ یہ سب معصوم جانیں اسلام کے عین مطابق لی گئی ہیں، اور آج بھی لوگ یہی قاتلانہ عمل دہرائے جا رہے ہیں...

تو غلطی کہاں ہے؟ غلطی، غلطی تسلیم نہ کرنے میں ہو رہی ہے...

اسلام امن کا دین ہے تو، اسی امن کے دین کے پیروکار، اسی امن کے دین کے علما کی کتب اور تعلیمات سے بہرہ ور ہو کے کیوں معصوم جانوں سے کھیلتے ہیں؟؟

پاکستان کی مثال لے لیجیے... مختلف فرقے سے ہونے پہ آپ کو قتل کر دیا جاتا ہے،
احمدیوں کو قتل کیا جاتا ہے، اللہ کے نام پہ خدا کے گھروں کو جلایا، گرایا جاتا ہے اور تو اور ہندو کم سن بچیوں کو زبردستی مسلمان کر کے زبردستی نکاح پڑھوائے جاتے ہیں..
جو یہ سب کرتے ہیں، کبھی جائیے، ان سے پوچھیے کہ کیوں اسلام کو بد نام کر رہے ہو ایسی غلیظ حرکتیں کر کے، تو اگلا کھینچ کے آپ کے منہ پہ تھپڑ مارے گا اور اپنے پورے ایمان سے، فخریہ کہے گا کہ میں نے یہ سب اپنے دین، اپنے اسلام کی خاطر کیا ہے اور عین اسلامی عمل کیا ہے...

اور آپ یقیناً گال سہلاتے ہوئے کہیں گے کہ نہیں نہیں، "اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں"

Wednesday, March 13, 2019

گرم گوشت

"وہ ماما ہے تیرا، بـے غیرت، میرا سگا بھائی، کون بھرتا ہے تیرے کان؟ کتنی گندی سوچ ہے تیری اس عمر میں" امی کی آنکھیں خون اگل رہی تھیں اور میں بغیر کسی جرم کے مجرم بنی کھڑی رو رہی تھی...
"اپنی یہ غلیظ سوچ اپنے اندر ہی رکھ، آئندہ یہ بات سوچی بھی تو ادھیڑ کے رکھ دوں گی" میں پھر جیسے گونگی ہو گئی..

میں بچپن سے ہی گول مٹول تھی.. گھر کا ہر بڑا میرے گال ضرور کھینچتا تھا.. میرے ابا مجھے" گونگلو"کہا کرتے تھے.. مجھے ہمیشہ پیار ملا اور بہت ملا... چاچو، پھپھو، خالائیں سبھی مجھے بہت پیار کرتے تھے، مگر ماموں کی گود....

ماموں مجاہد، بہت کم آتے تھے ہمارے گھر، مگر جب بھی آتے مجھے زبردستی گود میں لے کے بیٹھے رہتے... مجھے شروع میں سمجھ نہیں آئی مگر آہستہ آہستہ میں سب محسوس کرنے لگی.. ان کا ہاتھ میرے گالوں سے گردن، بازوؤں سے پیٹھ پہ چلتا پھرتا رہتا تھا... اور اس سے بھی زیادہ وہ گود جہاں ہاتھ کی انگلیوں کے ساتھ بڑھتا ارتعاش مجھے برداشت نہیں ہوتا تھا اور کبھی کبھار بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو جاتی اور کبھی ماموں، امی سے شکایت کرتے اور مجھے امی کی ڈانٹ سننے کے بعد بھی اسی ارتعاشی گود میں بیٹھنا پڑتا...

پھر اس دن امی سے یہ بات کرنے کے بعد میں امی کی نظر میں ایک "گندی لڑکی" بن چکی تھی .. مجھے امی حتی الامکان نہ بلاتی تھیں نہ کام کے علاوہ کوئی بات کرتی تھیں.. جیسے میں کوئی ناپاک کپڑا ہوں..
مگر اس سارے وقت میں، مجھے اس گود کے عذاب سے گزرنا پڑتا رہا...

وہ عید کا دن تھا اور ہم سب خالا کشور کے گھر اکٹھے تھے... کھانوں کی خوشبو سے زیادہ میرے لیے کزنز کے ساتھ کھیلنے کا موقع ملنا اہم تھا.. ہم چھپن چھپائی کھیل رہے تھے اور میں چھپنے کے لیے چھت پہ بنی گمٹی کی داہنی دیوار کے ساتھ چپک رہی..
تبھی میرے منہ پہ کسی نے ہاتھ رکھا اور کان میں ماموں مجاھد کی آواز گونجی "آواز نہ آئے" اور مجھے بازوؤں میں بھینچ کے دیوار سے لگ گئے... میں نے بہت کوشش کی مگر اتنے بڑے بازوؤں میں میں دبی تھی اور ماموں کی بھاری سانسیں میرے کانوں میں آندھیوں کی طرح چل رہی تھیں.. ماموں کا دوڑتا دل میری پیٹھ پہ دھڑا دھڑ بج رہا تھا اور اُسی ارتعاش کی زد میں، میں مچل رہی تھی... ماموں نے میرا بازو مروڑا اور ہاتھ پیچھے کی طرف موڑا، میں درد سے کراہ اٹھی.. مگر انھیں اس کی ذرا بھی پرواہ نہ ہوئی اور اچانک میرے ہاتھ میں جیسے گرم گوشت کا ٹکڑا تھما دیا..

Sunday, March 10, 2019

عورت مارچ اور مرد

( یہ تحریر ایک خاتون کی جانب سے موصول ہوئی، جو اپنا نام سامنے لانے سے کترا رہی ہیں، اس سے اس سوسائٹی میں عورت کی حالتِ زار سمجھی جا سکتی ہے،یہ تحریر من و عن پیش کی جا رہی ہے)

‏گزشتہ دنوں خواتین کے عالمی دن کے حوالے سےایک مارچ کیا گیا جس میں خواتین نے مختلف کارڈز اُٹھا رکھے تھے ان کارڈز پر مختلف تحاریر لکھی گئی تھی.

جسِ میں خواتین کی آزادی ان کے حقوق کو اجاگر کیا گیا تھ ااور اس معاشرے میں خواتین کے ساتھ روا رکھا گیا سلوک کو ایک الگ انداز سے بیان کیا گیا .

ان کارڈز ان تحاریر کو جہاں پذیرائی ملی وہی مردوں کی طرف سے اس کو بے ہودہ فحش اور اس معاشرے کے بگاڑ کا سبب بھی کہا گیا ہے

اس تحریر میں مردوں کے ان الفاظ کو بیان کیا جائے گا جن کو خواتین ہر روز برداشت کرتی ہے
سب سے پہلے ایک بیوی جو کہ دن بھر خدمت کرے نوکروں کی طرح گھر کا ہر کام کرے اور رات کو تھکی ہاری نام نہاد شوہر جس کو سجدے کا حقدار بھی ٹھہرایا گیا ہے اور جسے گھر کا ولی کہا جاتا ہے کی ہوس گالی اور جسم کا پانی نکالنے کا کام سرانجام دینا ہوتا ہے وہ مرد کی   گالی اور گندگی کا نشانہ بنتی ہے

ایک بہن دوپٹے میں اپنے بھائی کی غیرت سنبھالے زندگی گزارتی ہے پھر بھی اسے شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے چاہے وہی بھائی ساری رات سیکسٹنگ کرے لیکن اس کی غیرت کی رکھوالی بہن ہے

اسی طرح گھر میں کام کرنے والی خواتین کما کر بھی لاتی ہے اور کام کرتے ہوئے ہوس زدہ آنکھوں کو سہتی بھی ہیں جھاڑو پونچھا کرتے جسم کے اتار چڑھاو سے مرد تسکین لے رہا ہوتا ہے

دراصل مرد کی غیرت,عزت اور مردانگی عورت کی ٹانگوں کے درمیان اٹکی ہوئی ہے اگر وہاں تک رسائی ہو جائے تو عورت کو پاکبازی کا سرٹیفیکیٹ دے دیا جاتے  اور اگر عورت خود کو پیش نا کرے تو بدکردار ,کنجری,گشتی اور ٹیکسی جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے

ایک شادی کر کے جانے والی عورت کو خون آلود بیڈ شیٹ سے تولا جاتا ہے کہ وہ استعمال شدہ تو نہیں.مردوں کے  Virgin ہونے کامعلوم پیمانہ کون سا ہے??

کوٹھا چلانے والی عورت کے جسم کو استعمال کرنے والا
مردوں کو اشد ضرورت ہے کہ وہ اپنی غیرت کی سمت درست کرے اور عورت کے پلو سے غیرت نا باندھے بلکہ اپنے گریبان میں بھی جھانکے عورتیں اپنے حق اور آزادی کے لیے چند تحاریر لکھ کر اپ کی غیرت عزت پہ تازیانےہی بجا سکتی ہیں

یہاں آزادی سے مراد  وہ آزادی ہے جس کا حقدار ہر اک انسان ہے جو کہ اس کا بنیادی حق ہے عورت کو بھی انسان سمجھیے...

Wednesday, March 06, 2019

بـے بس خدا

مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ برا لگنا کیا ہوتا ہے اور یہ تب کی بات ہے جب میں ابھی اچھے اور برے کی تفریق سے کافی دُور تھا.. اماں رو رہی تھی اور ابا کے تھپڑوں اور ٹھوکروں کی زد میں تھی.. مجھے نہیں پتا تھا کہ کس وجہ سے ابا پہ وحشت سوار تھی، میں ساتھ والے کمرے کے دروازے کی آڑ سے دیکھ رہا تھا کہ اچانک احساس ہوا کہ میں رو رہا ہوں..
ابا اپنی وحشت نکال کے تھک چکا تھا اور ہانپتے ہوئے اپنی چارپائی پہ سیدھا لیٹ گیا... اماں چپ چاپ روتی رہی پھر کچھ دیر بعد اٹھی اور ابا کی ٹانگیں دبانے لگی.. ابا خاموش لیٹا رہا.. میں پتھر بنا کھڑا دیکھ رہا تھا.. تھوڑی دیر ٹانگیں دبانے کے بعد ابا کی دھوتی چارپائی کے نیچے پڑی تھی اور ابا نے اپنی وحشت نکالنے کا دوسرا راستہ نکال لیا تھا .. اماں پھر ابا کی وحشت کی زد میں تھی مگر اب رو نہیں رہی تھی... کچھ دیر بعد ابا کھڑا دھوتی باندھ ریا تھا اور اماں اپنی چارپائی پہ سر جھکائے بیٹھی تھی.. میں اس وحشت کے کھیل سے تھک کے سو گیا...
ابا گاؤں کی جامع مسجد کے پیش امام تھا اور سارا گاؤں جھک کے انہیں سلام کرتا تھا.. ابا اکثر محافل میں کہا کرتا تھا کہ میری زندگی بھر کی کمائی یہ عزت ہے بس..

اماں یا تو دن میں گھر سنبھالتی تھی یا پھر رات کو ابا کی وحشت، اس کے علاوہ اماں کو کوئی کام نہیں آتا تھا..

میں دن بھر قرآن پڑھتا، سکول جاتا اور نمازیں پوری کرتا تھا مگر رات، ہر رات میں اپنے برا لگنے کے پہلے احساس تلے کاٹتا تھا... میں جب بھی اماں کو پڑے نیل دیکھتا، تو اماں کی بے بسی پہ روتا تھا.. اماں میرا رونا سمجھتی تھی اور میرے آنسو پونچھتے بس یہی کہتی تھی کہ "خدا سب دیکھ رہا ہے، وہ میرے صبر کا پھل بھی دے گا اور میری بے بسی کا صلہ بھی، میرے بیٹے میرا خدا بے بس نہیں ہے، اور پھر تم ہو ناں میری ساری دنیا" .. اور پھر اماں کے اپنے ہی آنسو سے تر ہونٹ میرے ماتھے پہ ثبت ہو جاتے...
پھر ابا نے مجھے میری اماں سے دُور مجھے دارالعلوم میں ڈلوا دیا... فجر کی نماز سے عشا کی نماز تک ہر روز ایک ہی روٹین کے دن گزرتے تھے اور رات اپنی چارپائی پہ لیٹا اماں پہ گزرتی رات گزارا کرتا تھا.. جب بھی کبھی چھٹیوں میں گھر آتا مجھے اماں بہت کمزور لگتی اور اماں کو میں... ہم ایک دوسرے سے کوئی بات نہیں کرتے تھے مگر میرا سارا درد اور اماں کے سارے نیل ہم بانٹ لیتے تھے...
اماں سوکھتی جا رہی تھی جیسے کوئی درخت.. ابا بھی بوڑھا ہو گیا تھا مگر اس کی سخت طبیعت، جسے میں پورے ایمان سے وحشت مانتا تھا، ویسی ہی تھی..اماں اب بھی زیرِ عذاب تھی...
جی چاہتا تھا کہ اماں کو لے کے کہیں نکل جاؤں، جہاں ابا نہ ہو... جہاں اماں اپنی سانولی رنگت کے ساتھ دھوپ اڑائے اور زندگی میں کہیں بھی کوئی نیلا رنگ نہ ہو... مگر میں بے بس تھا... میں رو سکتا تھا، اماں کے نیل گن سکتا تھا مگر اس سے آگے میرے پَر جلتے تھے... مگر مجھے اماں کے ایمان پہ یقین تھا کہ میری اماں کا خدا بے بس نہیں ہے...
دارالعلوم میں سال پہ سال گزر رہے تھے، وہی کھونٹے سے بندھے جانور جیسی زندگی گزر رہی تھی کہ ایک دن فارسی کے استاد صاحب نے کہا کہ تم گاؤں جاؤ فوراً... وجہ پوچھنے پہ بھی نہ بتا رہے تھے بس جانے کا کہہ رہے تھے.. میرا دل سر پٹ دوڑ رہا تھا اور بس گاؤں کی طرف دوڑ رہی تھی.. دل میں خیالات ایسے آ رہے تھے کہ دل ڈوبنے لگتا تھا... بس سے اتر کے گھر کی طرف دوڑ لگا دی...
گھر کے باھر تک لوگ کھڑے تھے، اندر سے رونے کی آوازیں آ رہی تھیں.. میرا تھوک گلے میں اٹک رہا تھا... جانے کب میں دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا کہ کاش میرا ابا مرا ہو...
جانے کیسے گھر کے اندر داخل ہوا، کون کون گلے سے لگا مجھے نہیں پتا... صحن کے درمیان میں چارپائی پڑی تھی اور چارپائی کے گرد عورتیں بیٹھی رو رہی تھی... میں قریب گیا.. اماں بائیں آنکھ کے نیچے بڑا سا نِیل لیے سفید چادر میں لپٹی پڑی تھی... کچھ فاصلے پہ ابا اپنا سَر جھکائے مردوں کے درمیان بیٹھا ہوا تھا...
اماں مر گئی تھی، ایمان مَر گیا تھا ... دُور کہیں خدا گردن جھکائے اپنی بے بسی کے بوجھ تلے کُبڑا ہوا جا رہا تھا....

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...