Friday, July 31, 2020

تیسری ‏برسی ‏

جیسے گرتے ہیں پت جھڑ میں
جھڑ جھڑ کے خشک پتے
ایسے ہرا بھرا گرتا ہوں میں

لیے پھرتی ہیں تیری یادوں کی ہوائیں مجھے
در بدر، کو بہ کو
دھوپ پھانکتا رہتا ہوں اور پھر
ڈھونڈتا رہتا ہوں تیری آواز کے سائے
چُنتا رہتا ہوں گئے وقت کے ٹوٹے سارے
پھر ان سے بُنتا ہوں تیرے جسم کے تانے بانے

وہی جسم
کہ جس کا اک ٹکڑا ہوں میں
وہی ٹکڑا
جو ہرا بھرا روز ٹوٹ کے گرتا ہے


31 جولائی 2020 

Thursday, July 23, 2020

مرن ‏ویہلے ‏دی ‏گل ‏



میں اج راتیں مر گیا تے
میرے دن تے رات دے ساتھی
مینوں مٹی تھلے نہ دبیں
میں مٹی دا پتر نئیں

اپنیاں پریتاں تے ہورے کدے کدے
دکھاں دی بھانبھڑ بلدی اَگ نال
میں اپنی چھاتی ساڑ بیٹھا واں
میرے کلبوت نوں وی ساڑ دیناں

تے باقی بچے گی راکھ جے میری
اونہوں اُچے کسے پہاڑ تے جا کے
جس پہاڑ توں تھلے جے ویکھیں
نیلے تے ہرے رنگ کا دریا وی دِسے

اوس پہاڑ تے کھلو کے ساتھی میرے
راکھ نوں رکھیں ہوا دی تلی تے
دل نال مینوں وداع کر دیویں
تھلے ویندے دریا دے ناں کر دیویں 

Wednesday, July 15, 2020

یاکاھو ‏کا ‏خوف

یہ تب کی بات ہے جب انسان اپنے جسم پہ لدے بالوں سے کافی حد تک جان چھڑا چکا تھا اور غاروں اور جنگلوں میں رہتے ہوئے سر کے اوپری خانے کو استعمال کرنا سیکھ رہا تھا اور انسانی نسل کے "آدمی" تک پہنچنے کی راہ ہموار کر رہا تھا . گھر اور خاندان کے مروجہ اصولوں سے کہیں نابلد مگر شام تک غار میں لوٹنے اور اپنے قبیلے کے ساتھ ہی رہنے کے طریقہ کار تک بتدریج پہنچ رہا تھا

اس کا نام 'یاکاھو' فرض کر لیتے ہیں
یاکاھو افریقہ کے جنگلوں سے نکلے اور شمال کی طرف چلتے، رکتے، بستے اور پھر سفر کرتے ایک مسلسل قبیلے کا انسان تھا. اس کی عمر ابھی بہت کم تھی سو زیادہ تر وہ غار کے آس پاس ہی ہم جولیوں کے ساتھ کھیلتا کودتا رہتا تھا

یہ اس دن کی بات ہے جس دن تیز ہواؤں کے بعد موسلا دھار بارش شروع ہو چکی تھی. دن کی روشنی پہ گھنے کالے بادلوں کا سایہ تھا. سبھی غار کے اندر دبکے پڑے تھے اور یاکاھو اپنی غار کے دہانے پہ کھڑا کالے آسمان سے گرتے قطروں کو دیکھ رہا تھا جو زمین پہ سر پٹخ رہے تھے. اچانک آسمان سے تیز روشنی لپکی، یاکاھو کی آنکھیں چندھیا گئیں اور پھر بجلی کی کڑک ایسی تھی کہ جیسے پہاڑ ہی الٹ دے گی. یاکاھو کا دل چھاتی پھاڑ کے باھر نکلنے کو تھا، وہ چیخیں مارتا دوڑا اور اندر غار کی دیوار سے لپٹ گیا. اس نے دیوار کو ایسے اور اتنے زور سے پکڑ رکھا تھا کہ اس کے لمبے ناخنوں کے نشان دیوار پہ پڑ گئے تھے. وہ چیخ رہا تھا اور اس کی ساتھیوں نے اسے گھیرے میں لے لیا اور اپنی زبان میں اسے تسلیاں دینے لگے
یاکاھو کی زندگی کی یہ پہلی موسلادھار بارش، بجلی کی چمک اور گرج تھی. رات کو بادل گرجنے اور بارش کے پتھروں پہ گرنے کی آوازیں اس کے اندر خوف کو مسلسل بڑھاتے رہے اور وہ اسی خوف کے جھولے پہ جھولتا سو گیا

صبح اٹھا تو آسمان صاف نیلا تھا اور سورج بھی خوب چمک رہا تھا. وہ سارا دن غار کے ارد گرد کھیلتا رہا اور پھر رات کو آسمان کے صبح شام بدلتے رنگوں، آسمان سے برستی بارش، آسمان سے گرتی بجلی اور آسمان سے ہی آتی کڑکتی آوازوں کے بارے خوف کو تھپکیاں دیتے سو گیا

یاکاھو کچھ بڑا ہوا تو اس نے اپنے اندر آسمان کے خوف کو ایک نیا نام دیا اور اس خوف کو دوسرے ساتھیوں کو سنانے لگا. پہلے پہل سب اس کی باتوں پہ دانت نکالتے رہے مگر وہ اپنی بات پہ اڑا رہا. اس کا کہنا تھا کہ اوپر کوئی بہت بڑی بلا ہے جو طاقتور بھی بلا کی ہے. جو آسمان میں رہتی ہے اور وہ وہیں سے کبھی پانی پھینکتی ہے اور کبھی روشنی سے ڈراتی ہے، زیادہ غصہ ہو تو بہت زور سے چیختی چنگھاڑتی ہے جس کی آواز سے سب دہل جاتے ہیں، درخت گر جاتے ہیں پہاڑ ٹوٹ جاتے ہیں. پھر جب وہ بلا سو جاتی ہے تو سب ٹھیک ہو جاتا ہے. سارے میں روشنی پھیل جاتی ہے. ہمیں اس آسمانی بلا کو منانا چاہیے، ہم اپنے اوپر حملہ آوروں سے نمٹ سکتے ہیں، انہیں مار سکتے ہیں بھگا سکتے ہیں مگر ہم اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے کیونکہ ہم اسے دیکھ ہی نہیں سکتے. وہ سارے آسمان پہ پھیلی ہوئی ہے، ہمیں اس کے آگے اپنے سر جھکا دینے چاہئیں اور اس سے معافی مانگتے رہنا چاہیے تا کہ اس کا قہر ہم پہ نہ اترے

یہ انسانی قبیلے کے یاکاھو کا پہلا خوف تھا جسے "خدا" کا نام دیا گیا 

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...