Monday, December 26, 2016

قلم کار کی موت

دو دن پہلے اس سے ملاقات رہی اور اس نے ذرا سی بھی بھنک نہ لگنے دی کہ وہ مر رہا ہے.. مگر وہ مر گیا..
چھٹی جماعت میں تھا وہ جب اس نے عاصی تخلص رکھا اور اپنی پہلی غزل اپنے تایا کے جنازے میں شرکت کیلئے نہاتے ہوئے لکھی تھی.. ظالم نے اس موقعے پہ بھی عشقیہ غزل ہی لکھی.. حالات سے بھاگتا تھا وہ یا بغاوت، میں آج تک نہیں سمجھ پایا..

قلم کاری اس کا بچپن سے جنون تھا، وہ شاعری بھی کرتا رہا، بلکہ اردو کے کئی ایک نامور شعرا سے اپنے کلام پہ داد بھی وصول چکا تھا، مگر وہی اس کی باغی طبیعت کہ شعر بـے وزن بھی کہتا اور اسے "شعر" کہنے پہ بضد بھی رہتا.. اس کا ماننا تھا کہ شعر وہی جو وارد ھو گیا، اس میں رد و بدل شرک ہے.. مگر بـے وزن شعر کہنے پہ کوئی مر تو نہیں جاتا نا..

اس نے پہلا افسانہ تب لکھا جب وہ آٹھویں جماعت میں تھا، اور پہلا افسانہ ہی دو لڑکوں کی آپسی محبت پہ لکھا اور جن دو چار نے پڑھا خوب گالیوں سے نوازا.. تب سے وہ افسانوں کے نام پہ جو دل میں آئے لکھ دیتا ہے، اور چاہتا ہے کہ لوگ اسے پڑھیں، چاہے پھر گالیاں ہی دیں.. مگر گالیاں کھانے سے کوئی مر تھوڑی جاتا ہے؟؟

اپنے تایا، نانی، ماموں کسی کی موت پہ روتے نہیں دیکھا اسے مگر جب ارفع کریم رندھاوا فوت ہوئی تو بلک بلک کے رویا تھا، کہتا تھا مجھے لگ رہا ہے میری اپنی بچی مر گئی ہے..
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ وہ مرا کیسے، مطلب کس بیماری سے.. اسے کوئی بیماری نہیں تھی..
ہاں، وہ پانچویں میں تھا جب گاؤں کے باہر سرکس لگی تھی، سرکس کے آخری دن انھوں نے ایک زندہ شخص کو دو بجے دوپہر قبر میں اتارنا تھا اور شام چھے بجے زندہ نکالنا تھا.. سب نے چھے بجے وہاں جانا تھا مگر عاصی کو دیکھنا تھا کہ اسے دفناتے کیسے ہیں،
سو دوپہر کے ڈیڑھ بجے ہی چپکے سے ایک ویگن کے پیچھے لٹک لیا کہ سرکس کے پاس اتر جاؤں گا مگر ڈرائیور فل سپیڈ میں گاڑی دوڑا رہا تھا اور فل والیم میں "چاند نے کچھ کہا، رات نے کچھ سنا، تو بھی سن بـے خبر، پیار کر" سن رہا تھا، عاصی نے بہت کوشش کی مگر گاڑی نہ رکی تو بد بخت نے پکی سڑک پہ چھلانگ لگا دی اور سَر پہ بل سڑک پہ آرہا.. بـے ہوش رھا، سَر پھٹا بھی نہیں اور پھول کے فٹ بال سا ھو گیا.. خون کی الٹیاں کرتا رہا مگر سب ٹھیک رہا، نہ کوئی ہڈی ٹوٹی نہ سَر پھٹا.. اور اس بات کو اب دو دہائیوں سے اوپر ھو گئے ہیں.. اُس چوٹ کی وجہ سے اب مر سکتا ہے وہ؟ شاید سر کا کینسر ھو گیا تھا اسے...

ہاں مگر وہ بیٹھے بیٹھے کھو جاتا تھا، سب کے ساتھ بیٹھے باتیں کرتے کرتے وہ چپ سا ھو جاتا، اس کے چہرے کا رنگ، جو کالا تھا، اور کالا پڑ جاتا .. وہ کہیں اور پہنچ جاتا تھا، پھر اچانک ہڑبڑا کے ہوش میں آ جاتا .. کچھ یادیں، کچھ واقعات اس کے ذہن میں بیٹھ جاتے، بلکہ گھر کر جاتے تھے.. مگر اس بات پہ موت آ جاتی ہے؟ شاید اسے برین ہیمرج ھوا ھو گا...

وہ اپنے درد، اپنے دکھ کسی سے بانٹتا نہ تھا، چپ چاپ سہتا رہتا، سلگتا رہتا..وہ اپنے دکھوں کو پالتا تھا، انھیں اپنے دل کی زمیں پہ سیتا تھا، انھیں تناور درخت بناتا تھا.. میری مانو تو اس نے اپنے دکھوں کا ایک پورا جنگل آباد کر رکھا دل میں، جہاں وہ ایک ٹارزن کی طرح دن بھر ایک دکھ سے دوجے، دوجے سے چوتھے دکھ کے درختوں پہ لٹکتا، جھولتا رہتا..
ہاں، اسے ہارٹ اٹیک ھوا ھو گا..

"چلو بھئی، میت اٹھاؤ، کندھا دو... کلمہ شہادت..."

Sunday, October 02, 2016

مُسکان

جب مجھے وہ کرایہ پکڑاتی تھی تو اس کے ہونٹوں پہ ایک دھیمی سی، نامعلوم سی مسکراہٹ ھوتی تھی ویسی ہی نا معلوم جیسے رویت ہلال کمیٹی والوں کو چھوٹی عید کا چاند دکھائی دیتا بھی ھے اور نہیں بھی..اور پھر وہ اسکی بڑی بڑی آنکھیں، ڈوبتے ڈوبتے سارا دن سکون سے گزر جاتا تھا.. میں اپنی زندگی کی سبھی تلخیاں بھول جاتا تھا.. میں بھول جاتا تھا کہ جب میں صرف چار ماہ کا تھا تو میرا باپ ہالینڈ کا ویزہ لگوا کے ایسا گیا کہ پھر آج تک خبر نہیں کہ وہ ھے بھی کہ نہیں.. میں بھول جاتا تھا کہ کیسے میری ماں رو رو کے روز مرا کرتی تھی، وہ چھوڑ کر جانے والے کو یوں روتی تھی جیسے وہ مر ہی گیا ھو.. میں بھول جاتا تھا کہ جب جانے والے کو روتی روتی مجھے صرف آٹھ سال کی عمر میں ایک بار پھر یتیم کر گئی تھی.. میں بھول جاتا تھا کہ کیسے میرے ماموں نے ماں کے گھر پہ قبضہ کر کے مجھے آٹھ سال کی عمر میں گھر سے نکال دیا تھا.. میں بھول جاتا تھا کہ کیسے کبھی مسجد میں ، کبھی قبرستان کے دربار میں سوتے جاگتے میں نے چھے سال گزار دئیے اور اب پچھلے چار سال سے میں ایک ویگن پہ کنڈکٹر تھا جہاں وہ اپنی بڑی بڑی آنکھیں لئے کالج جایا کرتی تھی اور میں اس کی آدھی جلتی آدھی بجھتی مسکراہٹ اور آنکھوں میں ڈوبتے ڈوبتے سب بھول جاتا تھا..
صبح صبح اٹھ کے سردیوں میں جب ٹھنڈے پانی سے گاڑی دھوتا تھا تو سب کچھ کسی فلم کی طرح میری آنکھوں میں چلتا تھا اور ساری فلم گیلی ھو جاتی تھی..
زندگی کی تمام تر تلخیاں میرے اردگرد ایسے ناچتی تھیں جیسے کوئی افریقی وحشی قبیلہ جلتی آگ پہ مجھے الٹا باندھ کے آگ کے گرد گھومتا جاتا ھو اور اپنی اول فول زبان میں خونخوار گانے گاتا ھو.... مگر وہ ایک لمحہ جب وہ بڑی بڑی آنکھوں میں سمندر سمائے اور آدھی جلتی آدھی بجھتی مسکراہٹ کے ساتھ کرایہ پکڑاتی تھی تو مجھے لگتا کہ جیسے میں بکنگھم پیلیس میں تخت پر بیٹھا ھوں اور سب گورے گوریاں میرے سامنے آدھے جھکے ھوئے کہہ رھے ھوں، یس یور ھائی نیس، آرڈر "...
......
زندگی ایسے سرپٹ دوڑتی ھے جیسے ہرن شیر کے آگے بھاگتا ھے.. وہ بڑی بڑی آنکھوں میں ھزاروں رنگ کے سپنے سموئے کسی کے گھر میں روشنیاں بھر رھی ھو گی اور میں اب دو ویگنوں اور ایک نئی ٹویوٹا کرولا کا مالک ھوں، تلخیاں، کب آسانیوں میں بدل گئی، پتہ بھی نہیں چلا.. کام کرتے، زندگی کے ساتھ دوڑتے بھاگتے کاروبار بھی چل پڑا شادی بھی کر لی اور شادی کے چار سال بعد ایک بیٹی بھی دی خدا نے... بیٹی اب سات سال کی ھے، نام مسکان رکھا ھے اس کا... جب دن بھر کی کمائی اور تھکاوٹ لئے گھر آتا ھوں تو مسکان بڑی بڑی آنکھیں لئے، مسکراتی ھوئی بابا بابا کہتی جب ٹانگوں سے آ لپٹتی ھے تو لگتا ھے کہ جیسے میں بکنگھم پیلیس کے تخت پر بیٹھا ھوں اور سب گوریاں گورے میرے سامنے آدھے جھکے ھوئے کہہ رھے ھوں، یس یور ھائی نیس، آرڈر "...

Sunday, September 18, 2016

جھنگ کا مسافر

"بابا یہ عشق میرا وجود تک مٹا دے گا، میرے جسم کو فنا کر دے گا جیسے"
"پُت،عشق وجود کے خلاف ھے، یہ روحوں کا سردار ھے، یہ جسم کا قائل ہی نہیں، اس کے مذہب میں جسم شرک ھے پُت"
"مگر بابا لگتا ھے میں مر جاؤں گا، مر ہی جاؤں گا میں " وہ بابا کے سامنے بیٹھا کچی مٹی پہ انگلی سے لکیریں کھینچ رھا تھا.
"پُت،تو نے جو مذہب اب کے اختیار کیا ھے، اس میں کوئی مرتا نہیں ھے، یہاں اجل کا گزر نہیں پُت، یہ عشق ھے یہ زندوں کی بستی ھے، بھلا روحیں مری ھیں کبھی، یہ روحوں کا ڈیرا ھے" بابا، جو کچھ وہ مٹی پہ لکھتا تھا، مٹائے جا رھا تھا. "تُو کیا موت سے ڈر گیا پُت؟؟"
اس نے تڑپ کر بابا کو دیکھا، "موت کا ڈر نہیں بابا بس ایک بار پھر اسے دیکھ لوں بس اک چہرے کی بھیک، پھر ھزار رنگ سے موت آئے"، وہ بابا کی گود میں سر دھرے پھوٹ پھوٹ کے رو دیا.
بابا ایک بـے نام قبر کا مجاور تھا، جانے کس کی قبر تھی، لوگ امیدیں باندھے آتے تھے، مطمئن ھو کے واپس جاتے تھے.

یہ لڑکا جھنگ کے مشہور بزرگ پیر سید اکبر عباس شاہ کا پوتا، سید یاور عباس شاہ کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا سید عمیس شاہ.. سب کا لاڈلا، عمیس شاہ کو بچپن سے ھی سب "عیمی سائیں" کہتے تھے. عیمی سائیں کا سارا بچپن، لڑکپن اپنے ننھیال ڈیرہ حسینی میں گزرا تھا. اس کے ننھیال ددھیال پشتوں سے گدی نشین چلے آرھے تھے. جب اس کے نانا ابو کی وفات ھوئی تو اس نے واپس جھنگ کا ارادہ باندھا. یہ وارداتِ عشق بھی واپسی کے سفر میں پیش آئی تھی، جس نے ایسا رستہ کاٹا کہ وہ ڈیرہ حسینی کا رھا نہ جھنگ کا.
ھوا کچھ یوں کہ جب وہ ٹرین میں بیٹھا تو اسکی پیچھے کی سیٹیں خالی تھیں. تب تک اسے جھنگ ہی جانا تھا. وہ "طلوعِ اشک" پڑھ رھا تھا جب دو لڑکیاں پچھلی سیٹ پر آ کے بیٹھی تھیں. اس نے مڑ کے نہیں دیکھا. جب تک اس نے مڑ کے نہیں دیکھا تھا، تب تک وہ جھنگ کا مسافر تھا. ٹرین چل پڑی،وہ طلوعِ اشک میں گم تھا کہ پچھلی سیٹ سے کہنی اس کے سر پہ آن لگی، اچھا خاصا جھٹکا تھا.  ساتھ ہی "اوہ سوری" کی جلترنگ سنائی دی مگر سَر جھٹک کے بنا کچھ کہے وہ کتاب پڑھنے لگا. یہ کہنی مارنے والی کی سرگوشی تھی، "بولے نہیں صاحب، لگتا ھے کچھ ٹھیک سے جمی نہیں" دونوں ہنسنے لگیں. عیمی کے بھی ہونٹ مسکرا دئیـے "آہستہ بولو نُور، وہ سن رھا ھو گا" دوسری سرگوشی تھی. عیمی سائیں نے مُڑے بنا کہا،
"نُور، آپ کے خیال میں اگر ٹھیک سے جمی نہیں تو ھمارا سَر پھر سے حاضر ھے، اپنے شوق کی بھرپور تسکین فرما لیں"
دونوں کھلکھلا کے ہنسی تھیں... "اچھا.. بصدِ شوق، لیجیے".. اور ٹھاہ کر کے کہنی عیمی سائیں کے سر پہ بجی. عیمی کے منہ سے" اوئی"نکل گئی.
"صاحب اگر سہہ نہیں سکتے تو کہنے کی کیا تُک تھی".. نور کی آواز ہنسی دبا رہی تھی.
"سہنے کی بات نہیں، ھم نے تو قاتل کی خوشی کے لئے اوئی کی تھی ورنہ
پوچھ تیغِ قاتل سے، مقتلوں کے میلے میں
ھم نے کس کو ڈھونڈا ھے، کس کی آرزو کی ھے"
"مقتل کی رِیت یہ بھی ھے صاحب کہ قاتل سَر مانگے تو کٹے سر بھی لبیک لبیک کہتے آٹھ آتے ہیں کٹنے کو، اوئی تک نہیں کرتے "ساتھ ایک قہقہہ بھی تھا.
" خوب کہا، تبھی ھم ہنس کے قاتل کو سَر پیش کیا تھا کہ دوبارہ شوق آزما ھو"
"اچھا، ایک بار اور کیا.. " دونوں ہنسنے لگی تھیں.. عیمی سائیں نے بڑی لَے سے کہا،
یہ کس نے ھم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کر کے
نور گویا ھوئی" ویسے صاحب لگتا ھے آپ کو محسن نقوی بہت پسند ھے"
عیمی نے بازو سیٹ کی پشت پہ ٹکایا، پیچھے مُڑا اور بولا،
"عشق ھے"
بس یہ پیچھے مڑ کر دیکھنے اور بولنے کا لمحہ تھا کہ جھنگ کا مسافر راستہ کھو بیٹھا، دونوں کی نگاہیں ملی تھیں کہ جھنگ کا مسافر بھٹک گیا. بات کیا کر رھا تھا، کہاں تھا، سب بھول گیا. اگر نور بات نہ کرتی تو عیمی سائیں سنگی مجسمہ بنتا جا رھا تھا. نور نے پتھر کو جان دی تھی. "ھمیں بھی، بہت اچھوتی شاعری ھے، مَن کو چھُوتی"
عیمی نے آنکھیں بند کیں، کھولیں، گود سے طلوعِ اشک اٹھائی اور نور کو تھما دی، نور نے کتاب تو تھام لی مگر بولی" آپ رکھ لیں نا، میں تو بس اترنے لگی ھوں، آپ نے شاید آگے جانا ھو گا، کیا کریں گے" عیمی نور کو دیکھتے ہوئے بولا "رکھ لیں، میرے پاس اب ایک اور چیز ھے پڑھنے کو" نور نے کتاب گود میں رکھی اور ورق گردانی کرنے لگی. عیمی کے پاس پڑھنے کو اور کوئی کتاب نہیں تھی. ٹرین کی رفتار کم ھونے لگی، کوئی اسٹیشن آ رھا تھا، عیمی کے دل کی رفتار کم ھونے لگی. کوئی اتر ہی نہ جائے..
"ماموں آئے ھوں گے سعدیہ، سامان اکٹھا کرو جلدی"نور کی آواز نے عیمی کے سارے خدشے پورے کر دیئے تھے. کوئی اترنے لگا ھے. بس اتنا سا ساتھ....
"آپ نے صاحب کہاں جانا ھے"؟ نور تھرماس بیگ میں رکھ رھی تھی.
"میں تو جھنگ کا مسافر ھوں"
"او، ہو سرائیکی لوگ، میٹھے لوگ، میڈھا عشق وی تُو، میڈھا یار وی تُو" نور ہنسنے لگی. ٹرین رک رہی تھی، جمال پور کا اسٹیشن آ چکا تھا. نور کتاب پرس میں رکھ رہی تھی، "اس کتاب کا بہت شکریہ صاحب، خوش رھیں، خدا حافظ" وہ نام تک نہ پوچھا اور 'میڈھا عشق وی تُو' گنگناتے ھوئے اتر گئی. وہ ماموں سے مل رہی تھی، عیمی دیکھ رھا تھا، ٹرین ایک جھٹکے سے رینگنے لگی. نور نے کھڑکی کی طرف دیکھا اور آنکھیں بند کر کے ہلکا سا مسکرائی، عیمی سائیں نے مسکرا کے آنکھیں بند کر لیں. تب کھولیں جب ٹرین رفتار پکڑ چکی تھی. اس کی آنکھیں سرخ انگارہ ہو رہی تھیں. جھنگ کے مسافر کے پاس پڑھنے کو کتاب تو نہیں تھی، لے دے کے ایک چہرہ تھا جو حفظ ھو چکا تھا. ٹرین دوڑ رھی تھی. جھنگ آخری سٹاپ تھا مگر جھنگ کا مسافر کہیں دُور اسٹیشن پہ ہی رک گیا تھا...

گھر آنے کے دو ہفتے بعد اس بـے نام قبر کے مجاور بابا سے عیمی کی ملاقات ھوئی تھی، ایسا لگا کہ ساتھی مل گیا ھو، سب کھول کے سامنے رکھ دیا.

عیمی کی گھر واپسی پہ سب بہت خوش تھے ، سب کو پیارا ہی بہت تھا. بہت خوش رھا وہ سب سے مل کے مگر  اندر کہیں ایک درد ساتھ ساتھ رھتا تھا. کھِلتا تھا، سلگتا تھا، جلتا تھا جلاتا تھا.
عصر کی نماز کے بعد وہ پھر بابا کے سامنے بیٹھا، وھی باتیں دہرائے جا رھا تھا.
"بابا میں اسے بھول ہی نہیں پا رھا" عیمی کی آنکھیں بہنے لگیں
"نہیں بھول سکتا بندہ پُت، بندے کے بس میں موت اور عشق نہیں ھوتے، یہ روحوں کے میل ھیں، روحیں کب کسی کے بس کی ھوتی ھیں.. چل جا پُت شام گہری ھو چلی، چل جا گھر جا".. عیمی اٹھا اور گھر کو چل دیا. شام ھو رہی تھی. عشق کی شام، جو کبھی نہ ڈھلی، جس کے بعد سحر کی بات کبھی نہ چلی، عشق میں بس شام ہی شام ھوتی ھے، اچھوتی شام...
...
"عیمی بیٹا کیا بات ھے؟ دو ہفتے سے تک رہے ہیں بجھے بجھے ھو، شاہ جی بھی پوچھ رھے تھے، کوئی پریشانی ھے تو کہو بیٹا ".. ماں جی نے رات اسے کمرے میں جا ہی لیا. ایک نہ ایک دن یہ سوال پوچھا ہی جانا تھا صد شکر کہ ماں جی نے پوچھا تھا.. بُو دبائی نہیں جاسکتی، عشق زدگی ظاہر ھو کے رہتی ھے. عیمی سائیں نے ماں جی کی گود میں سَر رکھا تو پھر بولتا ہی چلا گیا. ماں جی چپ سنتی رہیں بولیں تو بس اتنا "یہ کیا روگ لگا لیا ھے بیٹا"
"ماں جی.. کوئی دعا... کوئی دوا... کوئی تعویذ ماں جی".. عیمی روئے جا رھا تھا. ماں جی کی پلکیں بھیگنے لگیں.. "بیٹا نہ میں حکیم نہ مُلّا، میں تو ماں ھوں بس اور ماؤں کے پاس ایک ہی تعویذ ھوتا ھے، یہ لے لے" اور عیمی کا چہرہ ہاتھوں میں اٹھایا اور ماتھا چُوما تو ہونٹ ہٹانے بھول گئیں. ماں جی کے آنسوؤں عیمی سائیں نے وضو کر لیا...
سب گھر کو خبر ھو گئی.. کئی سمجھانے کو آئے، بڑے شاہ جی بس دیکھے جار ھے تھے مگر بظاہر لگتا تھا کہ اس معاملے سے انجان ھیں.. کبھی ماں جی کے کمرے اور کبھی حارث لالا سے جا لپٹتا.. حارث لالا کی تو جان تھا عیمی سائیں.. اس دن بھی حارث لالا کو کئی دفعہ سنائی داستان سناتا رھا. پھر اٹھا اور باھر بابا کی اَور چل پڑا.
"بابا یہ کوئی سزا ھے"؟
"نہیں پُت، سزا کیسی اور جزا کیسی، یہ تو عطا ھے، یہ تو رم جھم ھے پُت،صدیاں پیاس مٹی پھانکتی زمینوں پہ نصیب سے ہی رم جھم ھوتی ھے، تیری زمیں پہ تو ترسے بنا برس گئی" دونوں کیکر کے نیچے بیٹھے تھے، "مینہ برسا ھے تو یہ خزانہ تو اُگنا ہی تھا نا، سو اُگ گیا"
یہ باتیں ھو رہی تھیں کہ بارش ھونے لگی.. دونوں بھیگتے رھے اور گاتے رھے؛
میڈھا عشق وی تُو، میڈھا یار وی تُو 
بارش رقص کرنے لگی، شام ہو رہی تھی، عشق کی شام...
...
"عیمی سائیں بارش میں بھیگنے کی یہی جزا ھے کہ بخار لے لو اور لگ جاؤ بستر سے، دو دن سے تمہارا بدن انگارہ تپ رھا تھا، آج کچھ حالت بہتر ھے، تم تو ہوش میں ہی کب تھے" حارث شاہ پائینتی بیٹھے تھے اور ماں جی سرہانے، کچھ پڑھ پڑھ پھونک رہی تھیں.. شاہ جی بھی آئے، دعائیں دیں، کچھ پڑھ کے پھونکا اور پھر کتنی ہی دیر چاروں بیٹھے ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے.. پھر شام نے کالی چادر پھیلانی شروع کی تو حارث لالا کمبل ٹھیک کر کے سونے کا کہہ کے چل دیئے.. جھنگ کا مسافر اکیلا لیٹا ایک چہرے کی ورق گردانی کرنے لگا. جانے کب تلاوت ختم ھوئی اور کب آنکھ لگی..
..
"بابا کیا ھوا"؟  وہ چار دن بعد بابا کے پاس آیا، تو بابا مزار کے اندر لیٹا تھا، قبر کے پاس جیسے مُردہ نکل کے لیٹا ھو.. کمزور نحیف.. "کیا ھو گیا بابا".. بابا مسکرائے جا رہا تھا..
" کچھ نہیں پُت، بارش میں بھیگنے کی جزا ھے ساری، دونوں بھیگے تھے پُت، آدھا آدھا حصہ دونوں کا بنتا تھا" بابا بہت ٹھہر ٹھہر کے بول رھا تھا.. "ھم کو معاف کرنا، ھم نے سارا حصہ ہی مانگ لیا" عیمی روہانسا ھو گیا.. "بابا یہ زیادتی ھے" عیمی نے ھاتھ پکڑا تو گویا گرم کوئلہ چھو لیا ھو
"بابا میں آیا... ایک منٹ میں آیا... میں ڈاکٹر کو... "وہ جتنی تیزی سے اٹھا، اتنی ہی تیزی سے بابا نے کھینچ کے بٹھا دیا
" چھوڑ نہ پُت، یہ گئی کہ گئی... تُو تو پاس بیٹھ.. " عیمی چیخا " نہیں میں آیا" اور ڈاکٹر انیس کے گھر کی طرف دوڑا.. دوڑے جا رھا تھا اور دعائیں کیے جا رھا تھا. بھلا موت دعا سے ٹلتی ہے ، جب تک ڈاکٹر انیس مزار تک پہنچا، پنچھی اڑ چکا تھا.. خالی پنجرہ پڑا تھا.. عیمی چیخ رھا تھا "یہ زندوں کی بستی ھے بابا... یہ روحوں کا ڈیرا ھے" وہ روئے جا رھا اور یہی الفاظ دہرائے جا رھا تھا.. اتنا رویا بابا سے لپٹ کے کہ بـے ہوش ھو گیا.. شام ہو چکی تھی، عشق کی شام...
.....
عیمی کو تین دن بعد ہوش آیا تو تب تک جسم مٹی میں سما چکا تھا، روح کھُلے آسمانوں میں چکرا رہی تھی، وہ روئے جا رہا تھا.. "مجھے وھاں لے چلو حارث لالا، مجھے بابا کے پاس جانا ھے" سبھی رو رھے تھے کہ پیارا رو رھا تھا.. "بابا کہتا تھا یہ زندوں کی بستی ہے یہاں موت کا کیا کام، یہ روحوں کا ڈیرا ہے، یہاں اجل کا گزر کیا"...
" عیمی میری جان کل چلے جانا، ابھی آرام کر لو، دیکھو وعدہ ھے کہ کل چلے جانا"... عیمی چپ چاپ لیٹ گیا، کھڑکیوں سے جاتی شام جھانک رہی تھی.. عشق کی شام...
...
وہ بابا کی قبر پہ تھا.. مزار اندر دو قبریں ھو گئی تھیں اب..
"بابا وہ نور تھی، جمال پور اسٹیشن پہ اتری تھی، ماموں لینے آئے تھے اسے....... "
وہ پرانا قصہ سبق کی طرح دہرا رہا تھا...
" بابا وہ تو نور تھی، ھاتھ کیسے آتی.. تُو تو اپنا تھا، پاس تھا، میرا ساتھ تھا... تُو بھی نہ رھا.. کیا ہاتھ آیا اس جھنگ کے مسافر کے.. کچھ بھی نہ، خالم خالی ہاتھ.. ایک نور تھی، ایک بابا تھا... دونوں کہاں ھیں اب؟ میں اکیلا تن تنہا... کلم کلا...  "وہ بولے جا رھا.." کسے پڑی ھے کہ ڈیرہ حسینی سے چلے جھنگ کے مسافر کو راہ دکھا دے.. نہ جمال پور کی نور... نہ میرا ساتھی بابا.. کلم کلا جھنگ کا مسافر.... "
جھنگ کا مسافر قبر کے پاس سے اٹھا، باھر نکلا.. بارش اور ہوا زوروں کی تھی.. شام آ گئی تھی، وہ مزار کے باھر کھڑا تھا، بارش میں بھیگتا جا رھا تھا اور بارش میں بھیگنے کی جزا اب جھنگ کے مسافر کو اکیلے بھگتنی تھی .. دُور کسی ٹریکٹر پر ٹیپ چل رہی تھی، پٹھانے خان کی آواز گونج رہی تھی؛
میڈھا عشق وی تُو میرا یار وی تُو
میڈھا دین وی تُو، ایمان وی تُو....
وہ بارش میں بھیگ رھا تھا دھمال ڈال رھا تھا... اندھیر گہرا ھو رھا تھا.. شام ھو چکی تھی.. مکمل عشق کی شام... اچھوتی شام...
....
سترہ سال میں بہت کچھ بدل گیا ھے... جمال پور بہت بڑا شہر ھے اب... جھنگ شہر بدل گیا ھے.. عمارتیں، سڑکیں، لوگ.. نسلیں... مگر ایک مزار ھے، بس وہی کا وہی.. ہلکا سبز رنگ کا... "نُور بابا" کا مزار... تین قبریں ھیں مزار کے اندر..  ایک بـے نام قبر... ساتھ میں لیٹا "نُور بابا" اور اس کے پہلو میں "عیمی سائیں"... سید عمیس شاہ... مزار کے اندر سفید دیواروں پہ سبز رنگ سے لکھا ھے
" یہ زندوں کی بستی ھے، یہ روحوں کا ڈیرا ھے".. 
ھر سال مزار پہ میلا لگتا ھے.. لوگ ڈھول بجاتے، گھڑے سر پہ دھرے دھمالیں ڈالتے، دعائیں مانگنے آتے ھیں.. مزار کو رونق لگا دی ھے عیمی سائیں نے.. ھر سال میلے میں شام کو ہلکی ہلکی بوندا باندی ضرور ھوتی ھے.. ھر سال ھوتی ھے..
آج بھی میلا ھے.. باھر شام ھے، بارش کی رم جھم ھے اور جھنگ کا مسافر اندر لیٹا سن رھا ھے کہ کوئی سوز بھری آواز میں گا رھا ھے؛
میڈھا عشق وی تو میڈھا یار وی تو
میڈھا دین وی تو ایمان وی تو
میڈھا جسم وی تو میڈھا روح وی تو
میڈھا قلب وی تو جند جان وی تو
میڈھا قبلہ، کعبہ، مسجد تے منبر
مصحف تے قرآن وی تو
میڈھا فرض فریضے، حج، زکاتاں
صوم صلوٰۃ، اذان وی تو...............

Friday, July 08, 2016

الوداع زندہ مسکراہٹ الوداع

ایدھی صاحب رخصت لے گئے ھیں... یہ خبر پڑھ کے حواس جانے منجمد ھو گئے تھے کہ پھُوہ کر کے بکھر گئے تھے مگر میں رویا نہیں...

گو کہ دکھ اور اشک جڑواں بھائی ھیں، ایک ساتھ کھِلتے اور کھُلتے ھیں.. اور یہ خبر میری اب تک کی زندگی کا سب سے بڑا دکھ ھے مگر میں رویا نہیں..

گو کہ آنے اور جانے کا ایک سلسلہ سا چلا ھوا ھے کہ جو آ جاتا ھے، جانے کو ھی آتا ھے اور ظلم سا ظلم کہ جو جاتا ھے، اسے واپس نہیں آنا.. اور ایسے میں کوئی آئے اور پھر چلا جائے تو کیسا پہاڑ سا دل پہ آ ٹکتا ھے اور وقت کیسا نوکیلا خنجر کہ چبھتا جاتا ھے.. یہ دُکھ کتنا دُکھتا ھے اور پھر دل پہ ٹکا پہاڑ کیسے آنسو بن بن آنکھ سے بہتا ھے اور یہ پہاڑ میرے دل پہ آ ٹکا ھے مگر میں رویا نہیں...

میں کیسے رو سکتا ھوں؟ میں اس دکھ کے پہاڑ کو کیسے آنسوؤں میں بہا سکتا ھوں؟ جو شخص کسی کی بھی آنکھ میں آئے آنسو ایک دھیمی سی زندہ مسکراہٹ سے پونچھتا ھو، میں اسے کیسے رو لوں؟

وہ زندہ مسکراہٹ بـے گھر انسانیت کا چھت ھے، بـے سہارا انسانیت کا آسرا ھے... کیسے کیسے مَرتے ھوئے لمحوں کو اس زندہ مسکراہٹ نے جیون دیا ھے.. کہاں کہاں سے اور کیسی کیسی ننھی کونپلیں اس ایک زندہ مسکراہٹ نے گلاب کی ھیں..
ایسی زندہ مسکراہٹ کو کوئی کیسے رو سکتا ھے..  مسکراہٹ مَرتی کب ھے.. اور وہ بھی ایسی زندہ مسکراہٹ ..

الوداع اے زندہ مسکراہٹ.. الوداع

  ایدھی صاحب رخصت لے گئے ھیں..  مگر میں رویا نہیں ھوں

Thursday, June 30, 2016

کچّی مٹّی کی ٹھِیکری

پورے دو ماہ بعد آخر "ٹھِیکریاں" گاؤں کی مسجد کو امام مل ھی گیا. اس کا سہرا نمبردار نور محمد کے سر آیا کہ بڑی تگ و دو کے بعد وہ کوئی امام ڈھونڈ لائے تھے. گاؤں کے لوگ مسجد میں جمع تھے اور نمبردار تعارف کروا رھا تھا کہ یہ ھیں ھمارے نئے امام قاری سجاد شفیع.. قاری سجاد کی عمر کوئی لگ بھگ تیس سال تھی، بڑی بڑی کٹورا آنکھیں، پلکوں پہ جیسے نمی سی ٹھہری ھو، چھوٹی داڑھی اور ھونٹوں پہ ھمہ دم مسکراہٹ.. جب قاری سجاد شفیع نے تلاوت شروع کی تو سب کی حیرت کہیں گم ھو گئی کہ ایسی تلاوت تو کبھی ریڈیو ٹی وی پہ نہ سنی تھی. اتنی بندھی لَے اور خوبصورت آواز پہ صاف شفاف نیلے امبر جیسا گلا...
قاری صاحب کچھ ھی دنوں میں گاؤں پہ یوں چھا گئے جیسے پیاسی زمیں پہ گھنگھور گھٹائیں جو رم جھم برستی ھیں ،دل میں اترتی نگاہ کے جیسے... مسجد کا نظم و نسق سنبھال لیا، صبح فجر کی نماز کے فوراً بعد بچوں کا ناظرہ و حافظہ، کسی کے گھر ختم ھو تو قاری سجاد، کوئی بیمار ھے تو دَم کے لئے قاری سجاد، کسی کی تیمارداری میں سب سے آگے قاری سجاد، شادی بیاہ پہ سب سے پہلے قاری سجاد..
ٹھِیکریاں میں قاری صاحب یوں عام ھو گئے، بلکہ سیل پہ لگ گئے گویا کہ جیسے حکومت نے فری آٹا سٹال لگایا ھو کہ جو آئے، آٹا لے جائے، گوندھے اور کھائے..
سب اچھا چل رھا تھا جیسے چلنا چاہیے تھا مگر ایک دن قاری سجاد شفیع پہ قیامت سی اتر آئی.. دل کے کسی کونے میں کسک آ ٹھہری اور درد جاگ اٹھا ..
بس ایسا ھوا کہ اس دن قاری صاحب کو نمبردار نورمحمد نے گھر بلایا کہ اس کا پوتا بیمار ھے دَم کر جائیں.. قاری صاحب عصر کی نماز پڑھانے کے بعد مسجد سے خیریت سے نکلے، نمبردار کے گھر خیریت سے پہنچے، وھاں بھی خیریت ہی رھی، بچے کو دَم کیا، چائے سے انکار کیا کہ روزہ سے ھیں.. خیریت سے نمبردار کے گھر سے نکلے، اک گلی سے گزر رھے تھے کہ خیریت مَر گئی اور درد نے پہلی سانس لی.. گلی میں کوئی ہنسی تھی اور قاری سجاد شفیع نے وہ ہنسی سنی تھی.. کچی مٹی کی ٹھِیکری جیسی کھنکتی ہنسی.. ہنسی کی یہ ٹھِیکری قاری سجاد کے دل پہ گری اور ٹوٹ گئی.. سارے ٹوٹے دل میں رہ گئے، اب کون حکیم علاج کرے کہ بھلا دل میں گئی چیز پھر نکلی ھے بھلا؟ قاری سجاد شفیع نے ایک نظر وہ چہرہ دیکھا اور پھر سارا راستہ دو دو من کے قدم اٹھاتے طے ھوا.. گھر تک آئے اور چارپائی پہ لیٹ رھے.. کان تھے کہ ہنسی پہ ٹھہر گئے تھے اور آنکھیں تھیں کہ چہرے کا وِرد کیے جاتی تھیں.. وہ کیوں ہنسی، میں نے کیوں دیکھا، میں کیوں گیا اس گلی، کون ہنسی، میں نے کیوں دیکھا، یہی تکرار تھی خود سے اور مغرب کا وقت ھو چلا.. اٹھے وضو کیا اور پانی سے روزہ کھولا، وضو کے پانی میں آنسو مل مل گئے، درد آنکھوں میں اتر آیا..
مغرب کی نماز میں قرات کی تو پیچھے کھڑے نمازی بھی نم دیدہ ھو گئے.. گاؤں والے بیچارے کہاں آیات کا ترجمہ جانیں مگر آج کی تلاوت میں کچھ ایسا درد ایسا کرب تھا کہ آنکھیں بہہ نکلیں.. یوں ھی عشا کی نماز پڑھائی اور عشا کے بعد گھر جانے کی بجائے قاری صاحب مسجد ھی بیٹھ رھے.. تسبیح ھاتھ میں لی تو کان ہنسی بن گئے، آنکھیں بند کیں تو ہنسی کا چہرہ اتر آئے.. بس ساری رات پھر یوں گزری کہ مسجد کا ٹھنڈا ٹھار فرش، ھاتھ میں تسبیح، کانوں میں ہنسی، دل میں درد، آنکھوں میں چہرہ اور اس چہرے کو دھوتے آنسو.. رات یوں گزر گئی اور سحر یونہی آ گئی..

کِتھوں اینہے درد لیاویں، دَرداں والیا یارا

قاری سجاد شفیع کے دو دن اور تین راتیں یونہی گزریں.. رنگ اڑا، آنکھیں تھکی اندر کو دھنسی ھوئی، گاؤں والے بھی پریشان کہ ھوا کیا... بخار و سَر درد کا بہانہ بنایا لیا کہ یہی کارآمد تھا.. مگر آگے کیا؟ اور کچھ نہ بن پایا تو تین دن چھٹی مانگ لی.. قاری صاحب تو جلے پاؤں چلتے رھے.. خدا کرنی کہ تین دن کی امامت کا مسئلہ بھی حل ھو گیا کہ نذیر لوہار کا بیٹا کسی دارالعلوم میں پڑھتا تھا، وہ حافظ تھا اور تین چار دن کی چھٹی پہ گھر آیا تھا، گاؤں والوں کا مسئلہ سلجھ گیا مگر قاری صاحب کا مسئلہ کون سنوارے؟
چھٹی سے ایک رات پہلے ساری رات مسجد میں روتے کاٹ دی، خود سے باتیں کرتے کرتے خدا سے باتیں ھونے لگیں..
"اللّہ جی، میری محبت بچپن سے آپ کے قرآن کی تلاوت ھے، کوئی اور شوق رھا ھی نہیں، بس اک تیرا شوق کہ تیری کتاب یوں پڑھوں کہ تو بھی نیچے اتر آئے، میرے پہلو میں بیٹھے اور سنے.. مگر اللّہ جی یہ کیا ھو گیا ھے؟ یہ درد مجھ میں کہاں سے آ گیا، جو میرے اندر بَس گیا ھے.. میں ٹوٹ رھا ھوں اللّہ جی! وہ ہنسی مجھے مار دے گی.. وہ ہنسی میرے اندر یوں گونجتی ھے جیسے میری تلاوت مسجد کے گنبد میں گونجے.. وہ چہرہ یوں آن ٹھہرا ھے پلکوں تلے کہ جیسے ھر شے میں تُو نظر آتا ھے، میں کیا کروں اللّہ جی! "...
مسجد کے در و دیوار بھی قاری سجاد سے ایسے مانوس کہ جیسے وہ بھی اس کے ساتھ ہچکیوں میں رو رھے ھوں...

پھَس گئی جان شکنجے اندر، جوں ویلن وچ گنّاں
رَو نوں کہہ ھُن رَو محمد، ھُن رَوے تے مَنّاں

درد جانے کہاں کہاں لئے پھرتا رھا قاری سجاد شفیع کو مگر تین دن کا وعدہ تھا، سو لوٹ آئے.. گاؤں کی کچی سڑک پہ تانگے سے اترے اور سیدھے مسجد کو چل دیئے.. راستے میں ناجو نائی نے حال احوال پوچھنے کے بعد بتایا کہ عزیز کشمیری کی بیٹی فوت ھو گئی ھے، نمونیا ھو گیا تھا.. ظہر کے فورا بعد جنازہ ھے.. قاری صاحب نے جلدی جلدی وضو کیا، اور قبرستان کی اَور لپکے.. جنازہ گاہ میں جنازہ پڑھانے ساتھ کے گاؤں سے سید انوار الحق شاہ آئے تھے.. قاری سجاد پچھلی صفوں میں کھڑے ھو گئے، جنازہ پڑھا، اور پڑھایا گیا.. قاری صاحب جا کے شاہ صاحب سے ملے پھر عزیز کشمیری سے ملے، تعزیت کی، حوصلہ دیا، بھلا درد میں حوصلہ کیسا.. قبرستان کے داخلی راستے پہ عورتوں کے رونے کی آوازیں آ رھی تھیں، قاری سجاد شفیع نے ایک اچٹتی سے نظر میت کی طرف ڈالی تو آنکھیں پھٹ گئیں، چہرہ زرد پڑ گیا.. یہ تو وھی چہرہ ھے، وھی ہنسی والا.. وہ کچی مٹی کی ٹھیکری کی ہنسی والا چہرہ.. وہ چہرہ مَر گیا!!
قاری سجاد نے جھک کے میت کے چہرے پہ کپڑا کر دیا مگر دو آنسو اس ہنسی کے چہرے کو وضو کرا گئے.. اونچی آواز میں کلمہ شہادت پڑھا، اور میت اٹھانے لگے.. میت دفنا دی گئی، اس کچی مٹی کی ٹھیکری پہ مَنّوں مٹی ڈال دی گئی.. قاری سجاد نے قبر کے سرہانے تلاوت کی، خود بھی روئے اور سب کو رلا دیا.. بس وہ آخری پل تھے قاری سجادکے، پھر وہ درد اٹھا کہ کچھ نہ بس میں رھا.. روتے روتے قاری سجاد ٹھِیکریاں گاؤں کی مغرب کی سمت چل دیئے، اُس ہنسی کے گاؤں سے دُور..

تُو بیلی تے سب جگ بیلی، اَن بیلی وی بیلی
سجناں باجھ محمد بخشا، سُونجھی پئی اے حویلی

اس کے بعد گاؤں والوں نے قاری سجاد کو کبھی نہیں دیکھا..

کسی کو کیا خبر کہ اُسی گاؤں سے کوئی آٹھ کلومیٹر دُور، ایک گمنام دربار کے دروازے پہ بیٹھا ھڈیوں کا ڈھانچہ وہ ملنگ وہ سیاہ چادر میں لپٹا بابا وھی ھے جس جیسا جوان پورے گاؤں میں کوئی نہ تھا.. وہ کٹورا آنکھیں مَر چکی تھیں.. وہ مسکراہٹ جل جل کے بجھ چکی تھی.. وہ ملنگ ھر سال میں ایک دفعہ اس قبرستان میں آتا ھے، قبرستان کی اندھی چُپ میں تلاوت گونجتی ھے اک قبر کے سرہانے.. اُس ہنسی کی قبر کے سرہانے تلاوت کرتا ھے، قبر کی مٹی میں نمی گھولتا ھے اور چپ چاپ واپسی چل پڑتا ھے..  کسے خبر کہ درد کہاں سے آتا ھے اور کہاں کو لے جاتا ھے.. ھم بـے دَرد کیا جانیں!!!
(2003)

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...