Tuesday, January 29, 2019

بریانی بمقابلہ پلاؤ.. ایک سازش

ہماری عادت ہے کہ ہم بہت جلد کسی فیصلے پہ پہنچ نہیں پاتے.. مثال لے لیجیے کہ جب ہماری پہلی محبت نے ہمیں بتایا کہ اس کی شادی ہو رہی ہے وڈی پھپھو کے چھوٹے بیٹے سے، تو ہم جہاں بیٹھے تھے، بیٹھ رہے.. ہم جانتے تھے کہ شادی تو اس نازک حسینہ کی ہم جیسے کالے کوے سے ممکن ہی نہیں تھی تو ہمارے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ جا کے کرسیاں لگائی جائیں یا مہمانوں کو کھانا سرو کیا جائے...
تو پچھلے کچھ دنوں سے مسلم امہ کے ٹائیگر اور مبینہ نشاۃ ثانیہ کے مجاھد اعظم پاکستان میں ایک خانہ جنگی کا سماں ہے... فرقوں میں بٹی مسلم امہ کو کفار کی ایک سازش "ٹویٹر" کے ذریعے اور تقسیم کی کوشش کی جا رہی ہے.. ہماری اقدار پہ حملے ہو رہے ہیں..
اور اس بار بیرونی سازش گروں نے "بریانی اور پلاؤ" کو نشانہ بنایا ہے.. اس سے اندازہ لگ جاتا ہے کہ ہمارے کھانے بھی دشمنوں کو دہشت گرد لگتے ہیں...
حالانکہ ہم پر امن کھانوں والی قوم ہیں... کبھی ہمارے نان پھٹتے دیکھے؟؟
تو ساتھیو مجاھدو.. بریانی کے عشاق اس کے رنگ و نسل اور مصالحوں کی مہک بارے زمین آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں اور پلاؤ کو محبوب بنائے ہوئے لوگ اس کی سادگی، ڈاؤن ٹو ارتھ پنے اور ذائقے بارے مشاعرے کر رہے ہیں..
رہتے ہیں ہم کھوئے کھوئے گم سم، کیونکہ آنکھوں میں تم ہو آنکھوں میں تم
سینے میں دل، دَھک دَھک دُھم دُھم، کیونکہ آنکھوں میں تم ہو آنکھوں میں تم

سو ہماری عادت کے عین مطابق ہمارے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ بریانی پلاؤ سے بہتر ہے کہ پلاؤ کو بریانی پہ فضیلت حاصل ہے... قوم و ملت کی اس پریشانی میں پچھلی تین راتیں مسلسل جاگ کے نیٹ فلکس پہ کفار کی فلمیں دیکھ دیکھ کے ان کی چالوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے کاٹی ہیں.. دن بھر ان چالوں سے امت مسلمہ کو بچانے کے خواب دیکھنے کے لیے سونا پڑتا رہا...
کوئی فیصلہ کرنا مشکل سے ناممکن ہوتا جا رہا تھا کہ اچانک کچن میں برتن دھوتے ہوئے لذیذہ کے مصالحوں پہ نظر پڑی اور ہماری ساری پریشانی اڑن چھو ہو گئی... امت مسلمہ باہم بغل گیر دکھائی دینے لگی...
اور فیصلہ ہو گیا... فیصلہ تصویر کی شکل میں ثبوت کے طور پہ خود دیکھ لیجیے... اور مجھے برتن دھونے دیجیے

Saturday, January 19, 2019

نیلی رات اور چاند

چاند بچپن سے میرے ساتھ ساتھ چلتا تھا.. گاڑی میں کہیں جا رہے ہوتے تو سَر پہ پاؤں رکھے ہماری گاڑی کے ساتھ ساتھ دوڑتا.. گھر سے باھر نکلتے ہی چاند جیسے میری انگلی پکڑ لیتا پھر جہاں میں وہاں چاند.. اوسلو سے امرت پورہ آ گئے اور چاند میرے ساتھ ہی چلا آیا...
کبھی برف سے لدے پہاڑ کی چوٹی پہ چاند کی چاندنی برستے دیکھی ہے؟ اَنت حُسن، سفید پہاڑ، نیلی رات اور چاند... وہ اتنی ہی حسین تھی... پہلی بار اسے دیکھا، نیلی شلوار قمیض میں برف سے سفید بازو اور جیسے نیلی رات کے اوپر چاند سا چہرہ..
نام صفورہ تھا اس کا.. امرت پورہ کی ہی تھی.. چاچے رحیم کی بیٹی تھی اور بچپن سے جوانی تک اپنی نانی کے پاس ہی رہی تھی، اب نانی کے گزر جانے کے بعد واپس اپنے گھر لوٹی تھی.. وہ گاؤں کیا لوٹی، میرا تو سب چین سکون لوٹ لے گئی..
کالج آتے جاتے گاڑی میں اسے دیکھنا اور پھر دیکھتے جانا، مبہوت کہتے ہیں اسے شاید... میری سدھ بدھ کھو جاتی تھی.. محبت اقرار کی محتاج نہیں ہوا کرتی.. یہ شعاعوں کا چکر ہے... پہلے دل ملے، پھر نظریں ملیں، پھر ہم ملنے لگے.. کبھی کسی دوکان سے کالج کی ویگن تک کا بولتا سفر، کبھی گاؤں کے کھیتوں سے گلی کے کونے تک کا خاموش سفر، اس خاموشی میں ہم محبت کا اظہار کرتے، اقرار کرتے، زندگی بھر ساتھ ساتھ چلنے کے وعدے کرتے... کبھی بدن بولتے سنے؟ کبھی راستے پہ چلتے جوتے کی آواز میں گانے سنے؟ ہم یونہی ملتے تھے...
نئی نئی جوانی تھی، پہلی پہلی محبت.. سب جہاں نیا لگتا تھا... سارا جہاں اپنا لگتا تھا... مگر صرف لگتا تھا، تھا نہیں...
گاؤں کے باھر بڑی سڑک کے پاس میلا لگا تھا.. تین دن کا میلا تھا... یہ تیسرا دن تھا جب بالآخر ہمیں ملنے کا موقع دستیاب ہوا... ہم میلے سے ذرا دور ایک بوڑھے درخت کے نیچے بیٹھ رہے...وہ نیلی شلوار قمیض میں تھی، میرا ایک بازو اس کے کندھے پہ دھرا تھا اور وہ میرے پہلو سے لگی پگھلتی جا رہی تھی... جی میں آتا تھا کہ اسے چھاتی سے لگا کے بھاگ جاؤں، برف سے لدے پہاڑوں کی وادی میں لے جاؤں، جہاں نیلی رات میں دو دو چاند چمکیں.. ہم خاموشی کے سمندر میں چُپ بول رہے تھے کہ صفورہ کے بھائی کی للکار نے ہمیں جھنجھوڑ ڈالا.. وہ میرے پہلو سے آٹھ کے کھڑی ہو گئی اور دوجے کی لمحے میرے گلے لگ گئی... اس کے بھائی کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا اور ہاتھوں میں کلہاڑی تھی... وہ میرے سینے سے لگی ہوئی تھی، اس نے سر اٹھا کے مجھے دیکھا اور میرے منہ پہ خون کا فوارہ چھلک گیا.. اس کے بھائی کی کلہاڑی صفورہ کے سر کے بیچ میں تھی اور میری آنکھوں کے آگے سیاہ رات آ گئی... بے ہوش ہو گیا... ہوش میں آیا تو ہاسپٹل میں تھا... چاند دو دن پہلے دفن ہو چکا تھا.. ہم سب گھر والے واپس ناروے لوٹ آئے...
زندگی دوڑ رہی ہے یہاں... میں بھی اسی دوڑ میں شامل ہوں... دن رات گزر رہے ہیں... رات سورج اگلتی ہے اور سورج شام اوڑھ لیتا ہے.. شام رات کی بانہوں میں کھو جاتی ہے اور رات بھی سیاہ رات... اب نیلی رات کہیں نہیں ملتی اور چاند.... چاند کب کا دفن ہو چکا ہے....

Wednesday, January 16, 2019

جمعہ برائے فروخت

جمعہ کا دن گویا چھوٹی عید کا نصف ہوتا تھا... خوب نہا دھو کے تیل سے بال چمکائے جاتے.. آنکھوں میں سرمہ ڈالا جاتا.. استری شدہ شلوار قمیض ملتی.. عطر کے بھبھوکے اٹھتے تھے... سَر پہ ٹوپی سجاتے اور مسجد کی جانب چل پڑتے... مسجد کے باھر گلی میں چُونے کی سفیدی مٹی پہ برف باری کا منظر پیش کرتی تھی... اذان ہوتی.. ابا کی آنکھوں کے اشاروں کے حکم پہ خوب لہک لہک کے لاؤڈ-اسپیکر پہ نعت پڑھتے.. پھر مولوی صاحب تقریر کرتے جو اکثر و بیشتر مافوق العقل و فطرت واقعات پہ مبنی ہوتی تھی، سننے والے سَر دھنتے تھے اور بیچ بیچ میں نعرے بھی لگاتے تھے.. پھر اذان ہوتی، مولوی صاحب کتاب سے عربی میں خطبہ پڑھتے، پھر جماعت کھڑی ہو جاتی.. نماز کے بعد درود و سلام لاؤڈ-اسپیکر پہ پڑھا جاتا اور پھر سب گلے ملتے...
یہ ہمارے بچپن و لڑکپن کے جمعے تھے.... گاؤں کی ایک ہی جامع مسجد تھی... اتنے لاؤڈ-اسپیکر نہیں بدلے گئے تھے جتنے مولوی بدلے گئے...
ایک قاری صاحب ایک معذور بارہ تیرہ سالہ لڑکی کا ریپ کر کے اسے اپنے حجرے کے کمرے میں بند کر کے ایسے بھاگے کہ پتا ہی نہیں چلا کہ اسے کہاں پناہ ملی ہو گی...

پھر ایک مولوی صاحب ایک دس بارہ سالہ لڑکے کے ساتھ بدفعلی کرتے پکڑے گئے سو نکال دئیے گئے...
سو انھیں مولویوں کے پیچھے ہمارے جمعے ادا ہوا کرتے تھے..
پھر وقت دوڑا اور ہم اسی دوڑ میں ناروے آ پہنچے کہ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا...

شروع میں فراغت تھی تو اسی باقاعدگی اور اسی باقاعدہ اہتمام سے جمعے کی نمازیں پڑھا کرتے تھے.. پھر غمِ عشق اور غمِ روزگار نے آہستہ آہستہ جمعوں سے چھٹیاں دینی شروع کر دیں... مگر گاہے گاہے جمعہ پڑھنے جاتے رہے...
جتنے مکتبہ ہائے (بـے) فکر ہیں اوسلو میں، قریب قریب سبھی کی مساجد میں جمعے ادا کیـے...

پورے ناروے میں قریباً اڑھائی لاکھ مسلمان بستے ہیں اور ان اڑھائی لاکھ مسلمانوں کے لیے 220 مساجد ہیں...
اوسلو میں 60 کے قریب مساجد ہیں اور ان ساٹھ مساجد کو 2018 میں حکومت کی طرف سے 94 ملین کرونرز ملے ہیں...
المیہ مگر یہ ہے اتنی مساجد ہونے کے باوجود ہر جمعے کو، ہر فطر و بقر عید پہ، اور رمضان کی ہر تراویح کے بعد مسجد کے لیے پیسے مانگنے والے آپ کے آگے چادر لے کے پھرتے ہیں کہ مسجد کی خدمت کرو اور پھر اور مساجد کی تعمیر کے نام پہ اور پیسے دو....
اب سوال تو یہ ہے کہ خدا "ایک" ہے تو اتنے گھروں کی "ایک خدا" کو کیا ضرورت ہے... کون سا برف میں کھڑا ہے خدا...

اب تو اکثر کوئی ساتھی (بھولے سے) جمعہ پڑھنے جانے کا کہے ہمارا جواب یہی ہوتا ہے "یار، وہ جمعہ پڑھنے کے پیسے بھی لیتے ہیں"

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...