Saturday, June 20, 2020

باجی ‏تانیہ ‏ ‏

چھت پہ بنے کمرے سے نیچے فرش تک لال نیلی پیلی لائٹیں لٹک رہی تھیں اور جل رہی تھیں، چھت پہ لیٹنے والے سو چکے تھے اور باقی ماندہ مہمان، کمروں میں اور کچھ برآمدے اور صحن میں، یا تو ٹولیاں بنا کے گپیں ہانک رہے تھے یا اونگھ رہے تھے اور میں...میں شیروانی پہنے اور کُلّا بغل میں دابے اپنے کمرے کے اس دروازے کے باھر کھڑا تھا جس کے باھر گلاب کے سرخ پھولوں کی لڑیاں لٹک رہی تھیں اور دروازے کے اندر کمرے میں، سجے سنورے بیڈ پہ سرخ شادی کے جوڑے میں سجی سنوری 'باجی' تانیہ بیٹھی تھی

ہمارے گھر کے ساتھ دیوار سے دیوار جڑی تھی تایا رفیق کی، اور جو دیوار جڑی تھی اس میں دونوں گھروں میں بلا روک ٹوک آنے جانے کے لئے جگہ چھوڑ دی گئی تھی. میں بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا پھر واصف اور فائزہ تھے اور تایا رفیق کی دو ہی بیٹیاں تھیں بڑی تانیہ اور چھوٹی تنزیلہ.. باجی تانیہ مجھ سے تین سال بڑی تھی اور امی بتاتی تھیں کہ جب میں پیدا ہوا تھا تو باجی تانیہ ہر وقت مجھے گود میں لے کے بیٹھی رہتی اور میری چھوٹی چھوٹی انگلیوں سے کھیلتی رہتی اور اتنی چھوٹی چھوٹی انگلیوں پہ حیران ہوتی رہتی

بچپن سے ہی ہم سب کزنز آپس میں ہی کھیلا کودا کرتے تھے، ہماری دوستیاں باھر نہیں تھیں، ہم سب ایک دوسرے کے ساتھی تھے. باجی تانیہ چونکہ بڑی تھیں سو مجھ سمیت سب چھوٹے انھیں باجی ہی کہتے اور سمجھتے تھے اور ان کے لیے ہم سب چھوٹے بہن بھائی تھے

میں تب ایف جی کالج کھاریاں کے تیسرے سال میں تھا اور پچھلے تین سال سے میں بوائز ہاسٹل میں ہی رہ رہا تھا، جب چھٹیوں پہ گھر آئے دوسرا دن تھا کہ اماں، ابا، تایا رفیق اور تائی ثریا، برآمدے میں بیٹھے تھے اور مجھے بلا بھیجا تھا. میں پہنچا اور سب کو سلام کیا اور بیٹھ رہا. سب خاموش نظروں سے مجھے دیکھ رہے تھے اور میں سوالیہ نظروں سے ان سب کو. تائی ثریا اٹھیں، میرا ماتھا چوما اور "یہ میرا بیٹا ہے اب" کہہ کے مسکراتی بیٹھ گئیں.. مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس میں نیا کیا ہے، تایا اور تائی مجھے ہمیشہ بیٹا ہی کہتے تھے. میں نے سوالیہ نظروں سے اماں کو دیکھا تو اماں نے مسکراتے ہوئے واضح کیا کہ تمہاری اور تانیہ کی بات پکی کر دی ہے

میں جہاں تھا وہاں سے چارپائی کے نیچے سے زمین سرکنے لگی تھی، تایا کی میرے سر پہ پیار سے لگائی گئی چپت اور ان کی باقی باتیں کانوں کے گرد گھومتے مچھر کی بھن بھن جیسی سنائی دے رہی تھیں اور میرے اندر کہیں 'تمہاری اور' باجی 'تانیہ کی بات پکی کر دی ہے' کی گردان گونج رہی تھی

شام کو اماں ابا کے سامنے کھڑا میں اپنا مقدمہ لڑ رہا تھا کہ وہ باجی ہے میری اور مجھے ہمیشہ وہ چھوٹا بھائی سمجھتی ہے، آپ یہ کیسے سوچ سکتے ہیں.. مگر ابا اس بات پہ بضد تھے کہ شادی سے پہلے سب لڑکے لڑکیاں بہن بھائی ہوتے ہیں، شادی کے بعد سب بدل جاتا ہے اور مجھے یہ ہضم نہیں ہو رہا تھا
میں اس بات پہ اڑا تھا کہ باجی سے شادی کیسے ہو سکتی ہے، میرا ذہن نہیں مان رہا، یہ غلط ہے مگر ابا غصے میں آ گئے اور اپنی دلیل کی اخیر اس نکتے پہ کر دی کہ جب ہمارا دین اس کی اجازت دیتا ہے تو تُو کون اور میں کون
اور یہ دلیل نما شے ایسی تھی کہ جس نے میرا سارا مقدمہ یک مشت خارج کر دیا تھا

اور اب میں اس دروازے کے باھر کھڑا تھا جس کے باھر سرخ گلاب کی لڑیاں لٹک رہی تھیں. میں نے دروازہ کھولا اور کمرے میں بیڈ پہ سر جھکائے سرخ جوڑے میں وہ دلہن بنی بیٹھی تھی. دروازہ بند کر کے میں بیڈ کی طرف چلا تو ایسا لگا کہ جیسے میرے پاؤں کسی کیچڑ یا دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں، من من بھر کے قدم اٹھاتے میں بیڈ کے داہنی طرف بیٹھ گیا. میں نے کُلا ایک طرف رکھا اور سر جھکائے بیٹھ گیا. باجی تانیہ کا بایاں ہاتھ دو انگوٹھیوں اور مہندی کے پھول بوٹوں سے سجا باہنی ٹانگ پہ سامنے دھرا تھا. کافی دیر کی خاموشی رہی، سارے میں پرفیوم اور پھولوں کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی، سب ساکت تھا کہ پھر میں نے ہاتھ بڑھایا اور باجی تانیہ کے بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے کھیلنے لگا

Wednesday, June 17, 2020

چوتھی ‏دیوار ‏

گھر کیا ہے، چار دیواریں، تین بند دیواریں اور ایک دیوار میں اسی گھر میں گھسنے اور نکلنے کا دروازہ
گھر کی ایک دیوار مہر محمد دین کے گھر سے ملتی تھی جس کی مہری صرف نام کے ساتھ محدود تھی، دونوں بیٹے امریکہ جا بسے تھے، بڑھاپے نے کمر کمان کر دی تھی. اب یا تو مسجد میں چھوٹے بچوں کے شور پہ گالیاں نکال لیتا یا نواسے نواسیوں کے لاڈ اٹھا لیتا
گھر کی دوسری دیوار پھوپھی کی دیوار سے مل کے کھڑی تھی، جس کے بیچ میں ایک چھوٹا سا دروازہ نکال لیا گیا تھا جو فائر بندی کے دنوں میں کھلا رہتا، تُو تُو میں میں ہو جاتی تو ایک چارپائی سیدھی کھڑی کر کے راہ بند کر دی جاتی. پھوپھا ریٹائرڈ صوبیدار تھے، سروس کے دوران دو چار سال کوریا رہ آئے تھے اور یہی دو چار سال سبھی رشتہ داروں کو بھاری پڑتے رہتے تھے. پھوپھی سے ہماری بنتی تھی کہ نہیں، یہ کبھی اہم نہیں رہا، اہم یہ تھا کہ پھوپھا سے ہماری کبھی نہیں بنی. جانے فوج میں ان کی نوکری کیا تھی کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ان کا کام ہر ایک کے، ہر چھوٹے بڑے کے معاملات کو سونگھتے رہنا تھا

گھر کی تیسری دیوار میں آنے جانے کا بھاری بھر کم دروازہ تھا، جو کسی چور کے لیے توڑنا تو نہ ناممکن تھا مگر پھلانگنا قدرے آسان تھا

چوتھی دیوار کے ساتھ ابا کے تایا زاد بھائی کی زمین کا ایک ٹکڑا تھا جسے کمر تک لمبی دیوار سے احاطہ کیا ہوا تھا. پھوپھا کی دو بھینسیں اسی احاطے میں رہائش پذیر تھیں

گھر کی چار دیواری میں رہنے والوں سے تو سبھی محبت کرتے ہیں، ہمیں گھر کی چوتھی دیوار (احاطے) کے باھر بھی ایک دن محبت مل گئی

ہوا یوں کہ جانے کہاں سے آئی ایک کُتیا نے اپنے سات عدد بچوں کو چوتھی دیوار کے ساتھ جنم دیا. کتے کے وہ ساتوں پلے اتنے پیارے تھے کہ نقلی ہونے کا گماں ہوتا تھا. پہلے پہل ہم ڈرتے دور سے دیکھتے رہے، پھر دو دن بعد ہمت جمع کی اور وہاں جا پہنچے جہاں ماں اپنے ساتوں بچوں کو بیک وقت دودھ پلا رہی تھی. دودھ پینے کے بعد پلے ادھر ادھر لڑھکنے لگے. ہم نے ڈرتے ڈرتے ایک پلے کو چھوا، اتنا نرم جیسے کوئی روئی کا گولہ ہو. وہ پلا ہمارے ہاتھ کے ساتھ کھیلنے لگا. ہمیں ساتوں کے سات ایک جیسے ہی لگتے تھے. جانے وہ کتیا کیسے تمیز رکھ پاتی ہو گی

چار دن کیا گزرے، پھوپھا کو اس بات کی بھنک پڑ گئی اور وہ غصے میں کتیا کو نکالنے پہ تل گئے. ہم چھوٹے تھے، سب بہن بھائیوں کی منت سماجت نے دو چار دن تک اس معاملے کو لٹکائے رکھا مگر پھوپھا کی سوئی اٹک جاتی تھی، سو وہ اٹک چکی تھی

پہلے دن میں کتیا کو بھگایا، وہ شام کو بیچاری پھر آ گئی ، صبح ڈنڈے مار کے نکالتے، شام کو لوٹ آتی. مار کے بھگانا کام نہ آیا تو پھوپھا کے فوجی دماغ نے سکیم لگائی، جب صبح کتیا نکالا بھگایا تو دوپہر کو ساتوں پلوں کو بوری میں ڈالا اور گاؤں سے دور کہیں باھر کھیتوں میں چھوڑ آئے. ہم دھندلی آنکھوں سے پھوپھا کے بائیں کندھے پہ لٹکی بوری کو دیکھتے رہے. شام کھانے کو دل ہی نہیں کر رہا تھا، ابا کی گالیاں سن کے لقمے حلق سے اتارنے پڑے. ساری رات بوریاں خوابوں میں گھومتی رہیں

صبح اٹھے اور عادتاً چوتھی دیوار کے باھر پہنچے، کیا دیکھتے ہیں کہ کتیا وہیں لیٹی تھی اور ایک پلا ادھر ادھر گھوم رہا تھا. باقی چھے کہیں نہیں تھے، ایک واپس لوٹ آیا تھا. ہماری خوشی کو پھوپھا کی آواز نے آگ لگا دی "یہ حرام زادی پھر آ گئی" پھر وہی سکیم کہ کتیا کو بھگا دیا اور پلے کو پھر وہیں چھوڑ آئے

اگلی صبح پھر کتیا اسی ایک پلے کے ساتھ چوتھی دیوار کے سائے میں موجود تھی. پھوپھا کے ناک منہ سے دھواں نکلنے لگا. سکیم کی مسلسل ناکامی سے پھوپھا کی آنکھیں لال ہو رہی تھیں. پھر کتیا کو مارا بھگایا اور پلے کو گاؤں سے باھر چھوڑ آئے.. اگلی صبح پلا اکیلا ہی واپس لوٹ آیا. کتیا احاطے میں کہیں نہیں تھی. بعد میں محلے میں ادھر ادھر گھومتی نظر آتی رہی. اکیلے پلے کو پھر اسی سکیم کے تحت گاؤں سے باھر پھینک آئے اور اگلی صبح پلا واپس چوتھی دیوار کے سائے میں سو رہا تھا. صوبیدار صاحب پھر سے اپنی ڈیوٹی دہرانا چاہتے تھے مگر اس پلے کی محبت اور ہمارے شور شرابے کے بعد اسے بخش دیا گیا اور وہ چوتھی دیوار اس پلے کا گھر ہو گئی 

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...