Monday, January 09, 2023

پرانا دوزخ

آج موسم ہے کہ حُسن کی معراج پہ ہے گویا. نیلے آسمان کی جھیل میں کہیں کہیں سفید بگلے تیر رہے ہیں. سورج تک خوشگوار موڈ میں ہے. گرمی ہے مگر ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا بھی رواں ہے. میں لنچ بار میں باھر کھلے میں رکھی کرسی پہ بیٹھا ٹھنڈی ٹھار بئیر کے ساتھ brie cheese کے مزے لے رہا ہوں 

ساتھ والی کرسی پہ ایک  عمر رسیدہ شخص وائٹ وائن کے سِپ لے رہا ہے. عمر کا اندازہ چہرے کی جھریوں، بازوؤں سے پروں کی طرح لٹکتے ماس اور ہاتھوں کی نیلی نَسوں سے نوے سال کا لگتا ہے یا پھر شاید سو کو چھو رہا ہو. عمر کتنی بھی گزری ہو اس کے بال سر پہ پورے ہیں. دودھ کی طرح سفید اور گھنے اور لمبے بال، جنہیں سر کے پچھواڑے باندھا ہوا ہے . کیپ میز پہ دھری ہے، آدھا پھونکا سگار ایش ٹرے میں ہے اور رے بین کی پائلٹ عینک آنکھوں پہ. وقفے وقفے سے بڑی نزاکت سے وائن کا گلاس ہونٹوں تک جاتا ہے، ایک سِپ لی جاتی ہے اور وہ پھر میز پہ لوٹ آتا ہے

 سامنے آسمان کے ساتھ رنگ کا مقابلہ کرتا نیلا سمندر ہے. لوگ آ جا رہے ہیں اور پھر اچانک ایک ادھیڑ عمر شخص سامنے سے گزرتے ہوئے پہلے مجھے مسکراہٹ پھینکتا ہے جو ہمارے ہاں عام رویہ ہے، پھر اسی مسکراہٹ کے ساتھ میرے ساتھ والی میز پہ اس بوڑھے کی طرف دیکھتا ہے مگر وہ بوڑھا شخص کسی اور طرف متوجہ ہے. مسکراہٹ پھینکنے والا شخص مگر ایک دَم جیسے پتھر کا ہو جاتا ہے مسکراہٹ مکمل بجھ جاتی ہے اور بجھی مسکراہٹ کا دھواں جیسے چہرے پر پھیل گیا ہے. تاثرات سے کچھ اندازہ نہیں ہو رہا کہ اس نے اچانک کوئی بھوت دیکھ لیا ہے یا پرانا محبوب. ساتھ والے بوڑھے نے سگار اٹھا کے دانتوں میں دبوچا اور اسے آگ دکھانے لگا. پتھر ہوا شخص بھاری قدموں سے چلتا اس کی میز کے پاس پہنچتا ہے، بوڑھا سگار کا دھواں تب تک چھوڑ چکا ہے سو میز پہ دھواں ہی دھواں ہے. وہ شخص، اس بوڑھے کی میز پہ سامنے والی کرسی گھسیٹ کے اس پہ بیٹھ گیا ہے

دھواں چھٹتا ہے اور بوڑھا اس شخص کو دیکھتا ہے
"آپ کون" 
بوڑھے کی آواز گلے کے کہیں پچھلے خانوں سے نکلتی ہے مگر عمر نے آواز کے بھاری پن پہ شاید کوئی اثر نہیں کیا
"میں کون؟ اتنے بوڑھے تو نہیں ہو کہ یادداشت کہیں رکھ کے بھول گئے ہو" 
اس شخص کی آواز میں ایک تڑپ سی ہے
"میں اور بہت سی چیزوں کے ساتھ ساتھ پہیلیوں سے بھی اکتا چکا ہوں، تو بتاؤ کون" 
یہ پوچھ کے بوڑھا وائن کا گھونٹ بھرتا ہے
"میں وہی جس کی وجہ سے تم نے یہ دنیا بنا ڈالی تھی"
بوڑھا چونکتا ہے اور آنکھیں سکیڑ کے اس شخص کو غور سے دیکھتا ہے. چند لمحے جیسے کسی بوسیدہ ورق کو پڑھنے کے بعد بوڑھا کرسی کے ساتھ ٹیک لگاتا ہے اور مسکرانے لگتا ہے
" بہت دیر بعد ملے ہو" 
وہ شخص ویٹر کو اشارہ کر کے ایک اور گلاس منگواتا ہے، ویٹر گلاس میں وائن ڈالتا ہے اور وہ شخص وائن کے دو گھونٹ لیتا ہے
"اتنی ہی دیر جتنی دیر میں یہ دنیا بنائی تھی، مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ مجھ سے اتنی نفرت تھی کہ اتنی محبت! بہر حال اصل تو دونوں کی ایک ہی ہے،  اصول بھی اور شاید حصول بھی. کیا حاصل ہوا تمہیں" 
بوڑھے کی مسکراہٹ مدھم ہوتی جاتی ہے
"میں بھول چکا ہوں، میں تمہیں بھی بھول گیا تھا، آج تو پہچانا بھی نہیں"
بوڑھا سمندر کو گھورنے لگتا ہے
" میں نہیں بھولا، تم میں ہمت ہے بھولنے کی، ہمت ہے یا بزدلی مگر مجھے یاد رکھنے کا خوف ہے. کوئی اپنی محبت کو یوں دھتکارتا ہے؟ پہلی محبت کو" 
اس شخص کی آواز میں صدیوں کا کرب چیخ رہا ہے
" کیا نہیں تھا ان صدیوں بھرے لمحوں میں، میں کہانیاں سناتا تھا تم ہنستے تھے، میں شعر سناتا تھا تمہاری آنکھیں بھر آتی تھیں، میں گاتا تھا تم سر دھنتے تھے، میں رقص کرتا تھا تم تالیاں پیٹتے تھے. میری چپ سے تمہیں اتنی تکلیف ہوتی
تھی کہ" 
"میں نے کہا ناں میں بھول چکا ہوں"
بوڑھے کی آواز میں لرزش جھلک رہی ہے
وہ شخص  آدھا گلاس ایک ہی گھونٹ کرتا ہے
" تمہاری آواز کی لڑکھڑاہٹ تمہاری بات سے ہاتھ نہیں ملا رہی"
بوڑھا ہاتھ بالوں میں پھیرتا ہے
" میرے پاس یاد رکھنے کو کچھ نہیں ہے اور اب تو بھول جانے کو بھی کچھ نہیں رہا. تم پرانی آگ سے مکمل جل چکی لکڑی کو سینکنے میں ہار جاؤ گے، یہ ہارنے والی بات دیجاوو تو نہیں؟ خیر اس یاد اور بھول کے اندر کھاتے دیجاوو نے اپنی الگ ہی دوکان کھول رکھی ہے" 
بوڑھا مسکراتا ہے اور اپنے بال ریڑ کی قید سے آزاد کر دیتا ہے، اس کے گھنگھریالے بال کندھوں پہ جھولنے لگتے ہیں
" تم آج بھی ساری جنتیں اور سارے جہنم اپنے اندر چھپا کے رکھنے کی بری عادت سے نہیں نکلے. تم بھولے نہیں ہو، تم بھولنے اور یاد رکھنے کی جنگ ہار چکے ہو، ورنہ تم یہاں کیوں آتے؟ تمہیں پتا ہے کہ میں تمہیں یہیں ملوں گا، تمہیں یاد ہے کہ یاد رکھنے کے گناہ گار تم بھی ہو. بھول جانے کے ثواب تمہارے کھاتے میں نہیں آنے"
وہ شخص رکتا ہے، بوڑھا اسے دیکھے جاتا ہے
" میں تھک چکا ہوں، تم نہیں تھکے"
وہ شخص بایاں ہاتھ چہرے پہ ملتا ہے
" تمہیں ملا ہوں تو صدیوں کی تھکاوٹ کندھوں پہ آن بیٹھی ہے. تمہیں دیکھا ہے تو احساس ہوا ہے کہ مسافتوں کی دیمک ٹانگیں چاٹ چکی ہے. تم سے بات کی ہے تو وجود کا ہر حصہ کسی بوڑھے مرتے گرتے درخت کی چھال لگ رہا ہے"
اس شخص کی آنکھوں میں نمی تیرتی ہے
"ساتھ چلو گے" 
بوڑھے کے اس سوال پہ وہ شخص چونکتا تک نہیں، جیسے اسے پتا ہے کہ اب آگے کون سا سین آنے والا ہے، جیسے وہ یہ فلم کئی بار دیکھ چکا ہے
" نئی محبت سے اکتا چکے ہو یا تھک چکے ہو؟ یا پرانی محبت سے روا رکھے سلوک پہ شرمندگی مٹانے کو پھر ہاتھ تھامنے آئے ہو؟ کیا پھر ایک دھوکا" 
بوڑھا کیپ اٹھا کے اس کے کونے سیدھے کرتا ہے
"میں بھول چکا ہوں، نئی محبت یا پرانی، مجھے کچھ یاد نہیں. میرا جسم اب سکون کی چادر اوڑھ کے کسی پہاڑ پہ ایک گھر کے آتش دان میں جلتی لکڑیوں کی تڑ تڑ کی دھن پہ برف سے لدے پہاڑوں کے پس منظر میں تمہاری کہانیاں سننا چاہتا ہے، سناؤ گے" 
اس شخص کی آنکھوں میں چمک آ جاتی ہے، وہ کرسی سے اٹھ جاتا ہے. بوڑھا کیپ  سر پہ رکھتا ہے، سگار اٹھا کے دانتوں میں دبوچتا ہے. گلاس میں بچی وائن کا آخری گھونٹ بھر کے ایک مسکراہٹ میری طرف پھینکتا ہے جو ہمارے ہاں عام رویہ ہے اور وہ دونوں سمندر کے کنارے آگے بڑھتے جاتے ہیں

Tuesday, January 03, 2023

میں ہی کیوں

مجھے سمجھ نہیں آتی کہ تمہارا مسئلہ ہے کیا، کیا نہیں ہے تمہارے پاس، کیا ہے جو تمہیں نہیں ملتا، کس شے کی کمی ہے تمہیں؟ ابو بول رہے تھے.. تم بہن بھائیوں کے لیے دن رات ایک کیا ہوا ہے، برینڈڈ کپڑے، برینڈڈ جوتے، نئے سے نیا موبائل، اور کیا چاہیے تمہیں؟؟ میں ان کے سامنے صوفے کے داہنی کونے میں بیٹھی سن رہی تھی مگر سنتے ہوئے ان کی آواز ایسے لگتا تھا جیسے گھر کے آخری کمرے سے آ رہی ہو. دل کا دھڑکنا تو دو چار گہری اور لمبی سانسیں لینے کے بعد آپ محسوس کر سکتے ہیں، کیا آپ نے کبھی کان دھڑکتے محسوس کیے ہیں؟ میرے کان دھک دھک دھک دھک دھڑک رہے تھے
بولو، بولتی کیوں نہیں ہو اب؟ ابو کی آواز اونچی ہو رہی تھی. ادھر دیکھو، سامعہ ادھر دیکھو.. میری گردن مزید ڈھلکی جا رہی تھی، ٹھوڑی چھاتی کو چھو رہی تھی
ادھر دیکھ، بہری ہو گئی ہے کیا؟ ابو کی آواز اتنی سخت اور اونچی تھی کہ میری گردن خودبخود اونچی ہو گئی. میں نے ابو کی طرف دیکھا. ان کی آنکھیں مجھے چِیر رہی تھیں. دل تیز سے تیز تر دوڑے جا رہا تھا اور پیٹ جیسے کسی سے رسی سے کَسنا شروع کر دیا ہو، میری آنکھیں بائیں ہاتھ کی کلائی پہ بندھی سفید پٹی پہ جمی ہوئی تھیں
بول، کیا چاہتی ہے تُو، مجھے مارنا چاہتی ہے، تُو چاہتی تیرا باپ مر جائے بس.. میری چھاتی پہ جیسے کسی نے دونوں پاؤں دھر دئیے تھے. سانس لینا مشکل ہو گیا.. میں چیخنا چاہتی تھی مگر گلے سے نہ سانس نکل رہی تھی نہ آواز.. آنکھوں کے سامنے سیاہ دائرے پھرنے لگے اور

یہ پہلی بار نہیں تھا.. پچھلی بار میں نے اپنا سر دیوار سے مارا تھا ، اس سے پہلے میں نے پانی کی بوتل اپنے سر پہ دے ماری تھی، میں یہ دونوں کام نہیں کرنا چاہتی تھی، اور اب کھانے والی چھری سے بازو کی نَس کاٹنے کی کوشش، میں پاگل ہو چکی ہوں کیا؟ مجھے کسی پاگل خانے بھیج دیں گے گھر والے؟ میں پاگل نہیں ہونا چاہتی، لیکن میرے چاہنے سے کیا ہوتا ہے

میں نے کبھی نہیں چاہا کہ میرے ابو تب سو رہے ہوں جب میں سکول جاؤں اور گھر واپس آؤں تو وہ سو رہے ہوں، پھر اٹھ کے نہا کے جلدی جلدی ناشتہ کریں اور ٹیکسی کی یونیفارم پہن کے کام پہ نکل جائیں. میں نے یہ بھی کبھی نہیں چاہا کہ اکثر ہی انہیں امی کے ناشتے میں کبھی نمک کم کبھی مرچ زیادہ ، کبھی چائے کم کڑک اور کبھی زیادہ چینی پہ غصہ آئے اور وہ بڑبڑاتے ہوئے کام پہ نکل جائیں.. میں نے کبھی نہیں چاہا کہ سکول میں میرے ابو ایک بار بھی والدین کی میٹنگ میں نہ آئیں، وہ کبھی بھی نہیں آئے. انہیں پتا بھی نہیں ہوتا کہ میں کون سی کلاس میں ہوں اب
میں نے کبھی نہیں چاہا کہ میری امی گھر کے کاموں میں لگی رہیں اور اتنی جلدی تھک جائیں، امی ہر وقت تھکی رہتی ہیں. میں نے کبھی نہیں چاہا کہ امی اتنی چڑچڑی رہیں کہ گھر کے در و دیوار تک محبت کے دو نہیں، ایک لفظ کو ترستے رہیں. میں نے کبھی نہیں چاہا کہ امی کو میری ہر بات پہ میرے ہر کام پہ اعتراض ہو، میں کچھ بھی کروں انہیں اس میں کچھ نہ کچھ کمی دکھائی دیتی ہے، اگر نہ بھی دے تو ایک "ہونہہ" ہی  میرے حصے میں آتے تعریفی کلمات ہیں. میں نے کبھی نہیں چاہا کہ میرے امی ابو جو چیز میرے بڑے بھائی کے لیے ٹھیک سمجھتے ہیں، میرے لیے اسے غلط سمجھیں، مگر وہ ایسا سمجھتے ہیں. فیصل مجھ سے دو سال ہی بڑا ہے مگر امی کو یا ابو کو اس پہ کوئی اعتراض نہیں جب وہ اپنے سکول کی لڑکیوں کے ساتھ کھیلنے جائے یا دوستی رکھے. مگر میں اپنے کلاس فیلو کسی بھی لڑکے کے ساتھ نہ کھیل سکتیں ہوں، نہ دوستی کر سکتی ہوں... کیوں ؟ مجھ سے چھوٹے فہد کو بھی اجازت ہے مجھے نہیں، کیوں؟ کیونکہ میں بُری ہوں؟ میں ایک بُری لڑکی ہوں؟ میں نے کبھی نہیں چاہا کہ میں بُری لڑکی بنوں، پھر بھی میں کیوں بُری ہوں؟ کیا عمر کے تیرہ سال میں ہی کوئی اتنا بُرا ہو سکتا ہے؟ اس عمر میں ہی میرے ابو کو میرے کپڑوں پہ اعتراض ہے کہ اس کی لمبائی کم ہے، اس کا گلا بڑا ہے، اس میں سے کوئی غور سے دیکھے تو سب نظر آتا ہے، یہ بہت چپک رہا ہے اور میری کلاس فیلو لڑکیوں کو بھی میرے کپڑوں پہ طنز اور قہقہے یاد آ جاتے ہیں کہ پورا خیمہ ہی پہن لو، آنٹی بن گئی ہو، ماما بچے کدھر ہیں. کیوں؟ میرے کپڑے نارمل کیوں نہیں ہو سکتے؟ دوسری لڑکیوں جیسا کپڑے کیوں نہیں پہن سکتی؟ وہ سب پہنتی ہیں، انھیں کوئی نہیں روکتا، مجھے ہی کیوں؟ کیونکہ میں بری ہوں

میری امی کو میرے میک اپ، آئی لیشز پہ اعتراض ہوتا ہے، میری لپ اسٹک انہیں بھڑکیلی لگتی ہے، چاہے وہ خود وہی استعمال کرتی ہیں. میں کیوں نہیں؟ کیونکہ میں ایک بری لڑکی ہوں؟ میں ہی غلط کیوں ہوتی ہوں؟ ہر بار ہر ایک کے لیے میں ہی غلط ہوں، میں ہی بُری ہوں، ایسا کیوں ہے؟ میں بھی چاہتی ہوں کہ مجھے ابو ساتھ لے کے شاپنگ سینٹر جائیں جیسے باقی لڑکیوں کے باپ جاتے ہیں، میری امی بھی مجھے سراہیں، گھر کے کام جتنے باقی لڑکیاں کرتی ہیں میں بھی کرتی ہوں، میں بھی چاہتی ہوں کہ سکول میں مجھے بھی دوست بنائیں، جیسے سب ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں، میں بھی چاہتی ہوں، میں اچھی لگوں، مجھے بھی کوئی پیار سے بلائے، دیکھے، میں بھی چاہتی ہوں.... مگر میرے چاہنے سے کیا ہوتا ہے؟ کچھ نہیں، کچھ بھی نہیں
میں سونا چاہتی ہوں، میں تھک گئی ہوں، مجھے نیند بھی بہت کم آتی ہے، آ جائے تو خواب ایسے ڈراؤنے آتے ہیں کہ اس سے جاگتے رہنا ہی بہتر ہے.. مگر میں سونا چاہتی ہوں، میں نہیں چاہتی کہ صبح ساڑھے سات بجے الارم بجے، میں نے الارم لگایا ہے مگر میں نہیں چاہتی کہ الارم بجے. پھر امی جگانے آ جائیں گی کہ تیار ہوو سکول جانا ہے، میں نے امی کی نیند کی گولیاں کھا لی ہیں، آدھی ڈبی تھی، اب پتا نہیں وہ گولی کے بغیر سو پائیں گی؟ .. مگر میں تھک چکی ہوں، مجھے نیند آ رہی ہے.. میں سونا چاہتی ہوں ایک بار بس 

Sunday, January 01, 2023

رائیگانی

مجھے زندگی سے نفرت ہے اور میری زندگی کی سب سے پہلی نفرت 'پڑھائی' تھی. یہ ایک ایسی چڑیل تھی جس نے میرا بچپن ایک ہی لقمہ کر کے ہڑپ کر لیا تھا. کیسا بدبخت انسان ہو گا وہ جس نے سکول میں کلاسیں بنائیں اور پھر کلاسوں میں نمبر ون نمبر ٹو اور نمبر تھری والی نفرت پیدا کی، اور پھر وہ ناہنجار یہیں پہ رکا نہیں، پاس ہونے اور فیل ہونے کے لیے بھی نمبر بنا ڈالے

میں جب پیدا ہوا تب کیا ہوا تھا، پھر میری سانسوں اور قد کے ساتھ بڑھتے سالوں میں کیا کیا ہوا، مجھے یاد نہیں، یا یوں کہہ لیں مجھے ہوش نہیں. زندگی کی پہلی یاد جو سر کے پچھواڑے میں کہیں ثبت ہو گئی تھی وہ یہ ہے کہ میں بہتی آنکھوں اور بہتے ناک کے ساتھ مسلسل آگے پیچھے ہِل ہِل کے سرہانے پہ رکھے قرآن سے سبق پڑھ رہا تھا اور رونے کی وجہ یہ تھی کہ میں لفظ صحیح سے تلفظ نہیں کر پاتا تھا، پڑھتے ہوئے کچھ الفاظ کو جوڑ کے پڑھنا میرے لیے بہت مشکل تھا. اس مشکل پہ مزید مشکل ابا کی جھڑکیاں تھیں جو اس وقت تھپڑوں جیسی لگتی تھیں اور رونا تو جیسے میرے سرہانے دھرا رہتا تھا

یہ سکول نامی ٹارچر سیل میں جانے سے پہلے کی یاد تھی.. پہلی کلاس میں ابا پہلے دن چھوڑ کے آئے تو مجھے اتنا یاد ہے کہ ابا کو سکول کے دروازے سے جاتے دیکھ رہا تھا اور پھر جیسے سارے میں دھند پھیل گئی تھی. پہلے دو چار دن سوائے رونے کے نہ مجھے کچھ یاد ہے اور شاید نہ ہی میں نے رونے کے علاوہ کچھ کیا تھا

چوتھی جماعت کا وہ منحوس دن بھی یادوں کے صحیفوں میں کہیں درج ہے کہ جب ایک دن اچانک ابا سکول آ دھمکے اور اس وقت ریاضی کا ایک عام پرچہ ہم حل کر رہے تھے. پانچ سوالات تھے ریاضی کے اور فی درست جواب دس نمبر، جو کل ملا کے پچاس بنتے تھے. مجھے یاد ہے کلاس کے باھر چار لائنوں میں ہم سب کلاس فیلو سر کاپی میں دے کے سوال حل رپے تھے اور ابا میرے پاس آ کے کھڑے ہوئے اور کچھ دیر کاپی دیکھنے کے بعد "شاباش، محنت کر" کہہ کے چلے گئے. ماسٹر لطیف نے کاپیاں چیک کیں اور میرے پانچ میں سے چار جواب درست نکلے یوں میں چالیس بٹا پچاس نمبر لے کے کلاس میں دوسرے نمبر پہ رہا. صرف شیدے لوہار کے بیٹے کے پچاس بٹا پچاس تھے. چھٹی کے بعد گھر گیا اور پھر عصر کے قریب کہیں گھر کے صحن میں بیٹھے ابا نے پوچھا "ہاں وئی، کتنے نمبر آئے نیں تیرے اَج؟" میں نے فوراً کاپی بستے سے نکالی اور خوش ہو کے انہیں دی. ابا نے پہلے کاپی دیکھی اور میرے باھر نکلے دانت دیکھے " او کھوتے دیاں پُترا، پورے نمبر کیوں نئیں لئے" بس پھر ابا کی چپل تھی اور مجھے روتا ہوا یاد ہوں میں. ابا چپل بھی وہ پہنتے تھے جس کا تلوا بہت موٹا اور سخت ہوتا تھا. میں روئے جا رہا تھا، ابا مجھے پِیٹے جا رہے تھے، اماں ہلکے سُروں میں ابا کو "بس کر دیو" کہے جا رہی تھی، اماں کو ڈر تھا کہ کہیں باقی غصہ، ڈبل ہو کے کہیں اس پہ نہ جا نکلے. پڑوس میں پھوپھی رہتی تھیں، وہ میرا رونا اور ابا کی گالیاں سن کے آئیں اور اپنے بھائی کو روکنے میں کامیاب و کامران ہوئیں

پھر پانچویں پاس کر کے ہائی سکول پہنچے. سکول کے دروازے کے اوپر لکھا ہوا تھا

سبق پھر پڑھ صداقت کا،عدالت کا، شجاعت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا 

چھٹی جماعت میں آئے تو آگے انگلش منہ کھولے تیار کھڑی تھی. اے بی سی کے رٹے لگنے شروع ہو گئے. بات انگلش تک رہتی تو شاید کہیں اوکھے سوکھے آگے بڑھ بھی جاتے مگر یہ سکول میری جان کا دشمن بنا ہوا تھا. چھٹی جماعت میں انگلش سے ہاتھ ملایا تو سامنے  عربی اور پھر فارسی کو بھی گلے لگانا ضروری ہو گیا تھا. ہمیں ابا کی "شاباش محنت کر" والی دوا یاد تھی سو خوب محنت کی جانے لگی. انگلش سے دوستی تو نہیں، مگر دُور سے ہیلو ہائے ہو گئی. فارسی، اردو کی قریبی ہونے کی وجہ سے اکثر پلے پڑ جاتی تھی مگر عربی، ایس جناتی زبان کہ اُسے سوائے رٹا لگانے کے چارہ ہی کوئی نہیں تھا
امتحان ہوئے، 31 مارچ کو نتیجہ نکلا اور میں کلاس میں دوسرے نمبر پہ آیا، سکول کی طرف سے دوسرے نمبر پہ آنے پہ ایک ڈائری بھی انعام میں ملی مگر گھر آ کے ابا سے جو انعامات ملے وہ انعامات میں کئی دن تک سہلاتا رہا

ساتویں جماعت میں پہنچا اور سر پہ گویا کفن باندھ لیا کہ اب کے پہلا نمبر لیے بنا سانس نہیں لینا. سوتے جاگتے کتابوں کے رٹے تھے اور ابا کی چپل کے خواب. خوب جی لگا کے محنت کی، امتحان دیا اور اکتیس مارچ کا انتظار کرنے لگا. مجھے اپنی محنت اور رٹے پہ پورا ایمان تھا کہ اس بار مجھ سے میری پہلی پوزیشن کوئی ماں کا لعل اور باپ کا ہیرا نہیں چھین سکے گا

میری یاد میں وہ دن سینما کی چادر پہ چلتی فلم کی طرح آج بھی چلتا ہے کہ جب سکول کے گراؤنڈ میں سکول کے تمام لڑکے کھڑے تھے اور نتیجے نکل رہے تھے. چھٹی جماعت کا نتیجہ نکلا اور پھر بات میری جماعت تک آئی. مجھے ہاتھوں میں آیا پسینہ اور سر میں چلتیں چیونٹیاں آج بھی یاد ہیں. مجھے یاد ہے جب ماسٹر الطاف نے ساتویں جماعت میں پہلے نمبر پہ آنے والے نام کا اعلان کیا تھا... وہ نام میرا نہیں تھا. میری سانسیں اتھل پتھل ہو رہی تھیں، پسینہ ہر جگہ سے پھوٹ رہا تھا، دوسرے نمبر پہ میرا نام لیا گیا، یہ مجھے یاد ہے، اس کے بعد مجھے کچھ یاد نہیں. ابا کو جانے مجھ سے کیوں امیدیں تھیں اور ہر بار وہ خود ہی لگائی گئی امیدوں کے ٹوٹنے پہ مجھے مارا کرتے تھے. قسم لے لیں مجھ سے میں نے انہیں ایسی کوئی جھوٹی بھی امید نہیں دلائی تھی کبھی

بس پھر میں نے آٹھویں جماعت میں مزید محنت اور ابا کی جھوٹی امید کو سچا کرنے کے لیے محنت شروع کر دی. اب کے مسئلہ مزید سنگین تھا وہ اس طرح کہ آٹھویں جماعت کا امتحان بورڈ کا امتحان ہوا کرتا تھا. وہاں دوسرے کتنے ہی سکولوں سے آئے کتنے ہی لڑکے امتحان دیتے تھے. میں نے بھی دیا اور اپنی جماعت میں تیسرے نمبر پہ آیا اور پھر معجزہ ہوا. ابا کے ہاتھ نہ چپل کی طرف گئے اور نہ ہی میری طرف بڑھے. انہوں نے جیسے ٹوٹے دل سے، تاسف سے سر ہلاتے ہوئے مجھے دیکھا اور دس بارہ گالیاں دے ڈالیں. اب گالیاں، تھپڑوں کی طرح نہیں لگتی تھیں سو سب سکون رہا اور اسی سکون میں میں نے فیصلہ کر لیا کہ محنت جائے بھاڑ میں، جتنی کوئی ہو سکی کیا کروں گا، باقی اپنے حساب کتاب سے ذرا گرد و نواح میں اٹھتی جوانیاں دیکھوں کیونکہ آٹھویں جماعت میں علامہ اقبال نے کہا تھا کہ کچھ کر لو نوجوانو، اٹھتی جوانیاں ہیں 

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...