Saturday, May 21, 2016

خدا کا چور

وہ مسافر تھا، مسجد کا مسافر.. جانے آپ کے ھاں مسجد کے "کامے" کو کیا لقب دیتے ھوں مگر رنگ پور گاؤں میں اللّہ رکھا کو مسافر ھی کہتے تھے. اس کا باپ بھی 'مسافر' کے عہدے پر تا دم مرگ فائز رھا تھا. مسجد کی صفائی، دریاں بدلنا، ھاتھ والے نلکے سے پانی کی ٹنکی بھرنا، غسل خانوں کی صفائی، مرمت کا کام کرنا اور کرانا، جمعہ کے جمعہ مسجد کو چمکانا ، اگر بتیاں جلانا، منبر پہ نئی صاف چادر ڈالنا، مسجد کے دروازے کے باھر جھاڑو پھیر کے سفید چُونا پھینکنا اور سفید چُونا مٹی پہ ایسے ھی لگتا جیسے کسی سانولی مٹیار نے پورے بدن پہ سفید پاؤڈر مَل دیا ھو.. قصہ مختصر کہ اللّہ رکھے کو اللّہ نے اپنے گھر میں مسافر رکھا تھا. وہ اللّہ کا "کاما " تھا.. مسجد کا سارا حساب کتاب گاؤں کے نمبردار مہر رحم داد کے پاس رھتا تھا، اللّہ رکھے کا کام صرف کام کرنا تھا.
اللّہ رکھے کا گھر مسجد کے پاس ھی تھا بس ایک گلی اُدھر جدھر سے گزر کے لوگ بڑی سڑک پہ بس لیتے تھے.. سنتے ھیں کہ رکھا جوانی میں بڑا "شِیں جوان" تھا مگر تھا بہت شریف اور شرمیلا، جس گلی محلے سے گزرتا محلے والیاں ایڑیاں اٹھا اٹھا دیکھا کرتی تھیں. بڑا بِیبا بندہ تھا.. عورتیں اسے بہت چھیڑا کرتیں.. "ھائے رکھے، آگے پتھر اے، ویکھ کے چل نا" اور رکھا زمین میں گڑی آنکھیں اور نیچے کر لیتا تو ٹھوڑی چھاتی سے جا لگتی..
باپ کے مرنے اور "مسافری" ملنے کے بعد اللّہ رکھا اپنی پھوپھی کی بیٹی کلثوم کو بیاہ لایا تھا. کہتے ہیں کلثوم بھی "سوہنڑی زنانی" تھی.. مگر جانے کیا ھوا کہ نظر کھا گئی کلثوم کو، رکھے کے گھر آنے کے چھ آٹھ ماہ میں کلثوم سوکھنے لگ گئی، جانے کون سی بیماری لگ گئی تھی کسی روگ جیسی، مہلک جان لیوا.. وھی کلثوم جس کی جوانی پہ عورتیں بھی واری جاتی تھیں، چارپائی پہ پڑی دِکھتی نہ تھی.. رکھے نے تین سال کلثوم کی ایسے ھی خدمت کی جس ایمان سے وہ اللّہ کے گھر کی کرتا تھا مگر خدمت موت سے ھار گئی.. ساڑھے تین سال کی ساتھی یہ کہہ کے چھوڑ چلی کہ 'جا تجھے اللّہ رکھے'.. سال دو سال بعد بڑی بوڑھیوں نے بہت رشتے سجھائے مگر کوئی بھی رکھے کی' ناں' میں ہِلتی مُنڈی کو 'ہاں'  میں نہ ہلا سکا اور زندگی سَر پٹ دوڑتی رھی.
اسی محلے میں جہاں اللّہ رکھا رھتا تھا، ایک گھر چھوڑ کے ایک بیوہ سیّدانی کا بھی چھوٹا سا گھر تھا، سات آٹھ سال سے بیوگی کی چادر اوڑھے جی رھی تھی. دو بچے تھے. پہلے پہل بچوں کو سپارہ پڑھا کے گزارا کرتی رھی مگر مولوی برکت علی، امام تھے مسجد کے، کہاں تک برداشت کرتے، سو سب بچوں کا قرآن مسجد میں پڑھنا 'فرض' قرار دے دیا گیا. گاؤں دیہات میں مولوی لوگ اللّہ کے ڈائریکٹ دستِ راست ھوتے ھیں.. پھر سیّدانی، جسے سب "شاہنی" کہتے تھے، نے کپڑے، سرہانے ، رضائیاں سی کر گزارا کرنا سیکھ لیا. شاہنی نے کڑے سے کڑے وقت میں بھی کبھی کسی انسان کے سامنے ہاتھ نہ پھیلایا تھا. رنگ پور کے اکلوتے دوکاندار فضل دین کے رجسٹر میں آج تک شاہنی کا کوئی کھاتا نہ کھُلا تھا. زکوۃ، فدیہ، فطرانہ اس نے خود پہ حرام کر رکھا تھا، ایک آدھ بار کسی نے خدا ترسی میں مدد کرنا بھی چاھی مگر شاہنی نے وہ سنائیں کہ کسی نے مُڑ کے پھر کبھی نہ پوچھا..وہ منہ پھٹ اور اکڑو مشہور تھی اور اسے اس کی پرواہ بھی نہ تھی، وہ روکھی سوکھی کھا کے اوکھے سوکھے دن کاٹ رھی تھی..
رکھا گھر آتا جاتا اکثر شاہنی کے گھر کے باھر کھڑا ھو کے آواز لگاتا "بہن جی، کوئی خدمت" تو شاہنی کبھی کبھار ھی کچھ کام کہتی ورنہ " نہ وِیر، اللّہ تجھے بوھتا دے" کہتی اور رکھا "جی اچھا" کہہ کے آگے بڑھ جاتا..
بات نلکے کی تھی بلکہ نلکے کی 'ہتھّی' کی تھی.. برسوں پہلے کوئی مسجد کے نلکے سے ہتھّی چوری کر کے لے گیا تھا تو اللّہ رکھے نے اپنے نلکے کی ہتھّی اتار مسجد میں لگا دی، تب سے رکھے کا نلکا خشک ھو رکھا تھا.. اکیلا آدمی تھا، روز اک بالٹی مسجد سے بھر کے گھر لے آتا..
ایک رات پھر یوں ہوا کہ کوئی چور شاہنی کے گھر سے نلکے کی ہتھّی لے اُڑا.. تب دیہات میں ہتھّی چوری بہت ھوا کرتی تھی.. شاہنی سحری وضو کرنے نلکے پہ آئی تو ہتھّی غائب، اک بالٹی پانی پڑا تھا، وضو کیا، بچوں کو منہ ھاتھ دھلا، ناشتہ کرا، سکول بھیجا، پھر پڑ گئے ھاتھ پیر کہ اب وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے.. نئی ہتھّی خریدنا اس کے بس سے کوسوں دُور تھا، سَر پکڑ صحن میں بیٹھ رھی.. اتنے میں رکھے کی آواز آئی "بہن جی، کوئی خدمت" شاہنی دروازے پہ آئی اور بپتا کہہ سنائی، قسم ھے اللّہ کی، اگر رکھے کے نلکے پہ ہتھّی ھوتی تو بلا جھجک شاہنی کے گھر لگا جاتا مگر وہ تو پہلے ھی ہتھّی اللّہ کو دے چکا تھا. رکھے نے تسلی دی کہ کچھ کرتا ھوں، کچھ دنوں میں شہر کا چکر لگا تو لا دوں گا، کچھ نہ کچھ ھو جائیگا بندوبست وغیرہ..
رکھا فجر سے پہلے مسجد کھولتا، پانی بھرتا اور رات عشا کے بعد مسجد بند کر کے آتا تھا.. ایک چابی اللّہ رکھے کے پاس تھی اور ایک مولوی برکت کے پاس.. دو دن تو رکھا دن میں دو چار بالٹیاں بھر بھر شاہنی کے گھر پہنچاتا رھا، مگر تِیجے دن مولوی برکت نے ڈانٹا اور ٹوکا کہ تُو تو مسافر ھے، تیرے گھر پانی جاوے تو ٹھیک ورنہ مسجد کا پانی کسی اور کو نہیں لگتا، تُو اپنے گھر سے لا دیا کر پانی مگر اللّہ کے گھر کا پانی سب کے لئے نہیں ھوتا.. سدا کا خاموش اللّہ رکھا، سَر جھکائے سوچنے لگا کہ مولوی برکت یزید کی نسل کا تو نہیں.. ادھر شاہنی نے اپنی زبان کی کڑواہٹ سے کسی سے بنا کے رکھی نہ تھی کہ کوئی مدد کرتا، رکھے نے دو دن پانی پہنچایا شاہنی کے گھر اور لوگوں کی زبانیں اُبلنے لگی تھیں کہ ایک رنڈوا دوجی بیوہ، شاہنی کسی کو منہ نہیں لگاتی، بس رکھے پہ مہربان ھے وغیرہ وغیرہ..
خدا کرنی یوں ھوئی کہ شاہنی کے گھر سے ہتھّی غائب ھوئے پانچواں دن تھا کہ رکھے کو شدید بخار نے آن دبوچا..جسم پھوڑے کیطرح دُکھ رھا تھا، رات کو مسجد کو تالا لگاتے جانے غریب کے دماغ میں یہ بات کہاں سے آئی کہ ہتھّی اتار کے لے جاتا ھوں اور شاہنی کے گھر لگا دیتا ھوں، وہ برتن سارے بھر لے پانی سے، فجر کو مسجد کھولنے سے پہلے ہتھّی لا کے لگا دوں گا.. رکھے نے ہتھّی اتاری اور چل پڑا مگر مولوی برکت علی نے رکھے کو ہتھّی لے جاتے دیکھ لیا.. دیہات میں لوگ باقی نمازیں پڑھیں نہ پڑھیں، فجر ضرور پڑھتے ہیں.. مولوی برکت نے فجر کی نماز پہ وہ شور اٹھایا کہ جیسے اسرافیل نے بھونپو بجا دیا ھو..
بس پھر مسجد کا صحن تھا، مولوی برکت، نمبردار، غرض کہ رنگ پور کا ھر رنگ کا بندہ اس وقت مسجد میں دائرہ بنائے بیٹھے تھے اور درمیان میں رکھا چور بنا سر جھکائے کھڑا تھا.. کچھ غریب کو بخار نے اَدھ موا کر رکھا تھا اوپر سے یہ افتاد.. وہ سب کہانی سنا چکا تھا مگر اس کی بات کوئی بھی ماننے کو تیار نہ تھا.. مولوی برکت نے بیس منٹ کا جلالی خطبہ ارشاد فرمایا اور پھر شرعی رُو سے سب نے مل کے اللّہ رکھے کو "چور" ثابت کیا اور سزا کے طور پہ "دیس نکالا" دے دیا.. رکھا بہت رویا، اللّہ کے گھر کی خدمات سنائیں مگر مولوی برکت کا خطبہ ایک ایمان افراز تھا کہ سب کے ایمان ایسے مضبوطی سے کھڑے تھے جیسے مسجد کے مینار کھڑے ھوں..
اللّہ کا 'کاما' مسجد سے نکلا، منڈیر پہ کوّا چلّا رھا تھا "خدا کا چور.. خدا کا چور" .. رکھا گھر آیا، سامان تھا ھی کیا، بس کلثوم کی یادیں تھیں، کالے صندوق میں رکھیں اور چل پڑا.. شاہنی دہلیز پہ بیٹھی رو رہی تھی "نہ بہن جی، آپ نہ روؤ، اللّہ بہتر کرے گا".. یہ سن کے شاہنی کی چیخیں نکل آئیں، یوں چھاتی پہ ہاتھ مار مار روتی تھی کہ جیسے آج ھی عاشورہ ھو..
آنکھ میں آنسو لئے، سَر جھکائے اللّہ رکھا مسافر، بس کا انتظار کر رھا تھا.. کالا صندوق یوں اٹھا رکھا تھا جیسے گناہ کا بوجھ اٹھا رکھا ھو.. بس آئی تو بیٹھ گیا.. رکھا یوں سَر جھکائے بیٹھا تھا جیسے اس نے نا قابل معافی گناہ کر دیا ھو.. بس چلے جارھی تھی، آس پاس سے گزرتی گاڑیوں کے ھارن چیخ رھے تھے "خدا کا چور... خدا کا چور" .. 

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...