Sunday, April 21, 2019

نارویجن مِسنگ پرسن اور پاکستان

وہ جس قدر بھی بری حالت میں ہے مگر زندہ ہے،دس سال بعد یہ خبر ہی تین بچوں اور اس کی بیوی کے لیے زندگی کی سب سے بڑی دین ہے..

احسن ارجمندی، 46 سالہ نارویجن، تین بچوں کا باپ، اوسلو کا رہائشی... 2009 میں بیس سال بعد پاکستان جاتا ہے، بلوچستان پہنچتا ہے جہاں سے وہ ہے...

7 اگست 2009 کو مند (بلوچستان) سے بس پہ سوار ہوا کہ کراچی پہنچنا تھا، جہاں سے واپس ناروے کی فلائٹ لینا تھی.. مگر وہ کبھی کراچی پہنچا ہی نہیں..
اوتھال کے قریب بس سے اتارا گیا اور پھر اسے زمین کھا گئی کہ آسمان اُچک لے گیا....

گھر والے اور نارویجن حکومت پچھلے دس سال سے ارجمندی کی تلاش میں ہیں کہ کہیں کوئی خبر تو ملے مگر....
پاکستانی ریاست اس سلسلے میں خود کو مکمل بے خبر دکھاتی ہے اور ناروے میں پاکستانی ایمبیسی، مختلف اوقات میں سوالات کے جواب میں قبرستان کی سی خاموش ہے..

پاکستان میں missing persons کی 1800 افراد کی لسٹ میں 27 ویں پہ ارجمندی کا نام ہے... جن کے بارے میں پاکستانی حکومت بے بس ہے اور بلوچستان کے لوگ سڑکوں پہ اپنے پیاروں کی راہیں دیکھتے رہتے ہیں..

حکومتیں آتی رہیں جاتی رہیں مگر ماورائے قانون حرکات پہ کوئی ایک لفظ تک کہنے کی جرات نہیں کر سکا...

کون ہیں جو بلوچستان کے لوگوں کو گھروں سے، بازاروں سے، بسوں سے اٹھا لے جاتے ہیں اور پھر یا تو ان کی لاشیں کہیں پھینکی ہوئی ملتی ہیں یا پھر سرے سے ملتے ہی نہیں... کون ہیں یہ بدمعاش جن کے آگے عوام اور عوامی ووٹ سے آتی سبھی حکومتیں لاچار، سر جھکائے رہتی ہیں؟ کون ہیں جو غیر ملکی، کسی اور ملک کے نیشنل /شہری کو بھی اٹھا لے جاتے ہیں اور حکومت پاکستان جواب میں فقط کندھے اچکا دیتی ہے؟؟ کون ہیں یہ اچکے اٹھائی گیرے ؟ اور کہاں لے جاتے ہیں انھیں؟؟؟؟

پھر کچھ ماہ سے یوں ہوا کہ جانے کب سے لاپتہ چند افراد کو چھوڑ دیا گیا... مگر ظلم تو کیا ظلم، حشر ہی اٹھا جاتا ہے کہ کسی بھی حکومتی نمائندے نے ان رہائی پائے لوگوں سے یہ تک نہیں پوچھا کہ کون تھے جو اٹھا لے گئے تھے؟ آدھی آدھی زندگیاں کہاں گزار کے آئے ہیں؟ کون ہے وہ بلا جو کتنی زندگیاں کھا گئی ہے؟ کسی نے بھی وزیراعظم سمیت یہ تک نہیں پوچھا کہ ہم ان بدمعاشوں کے خلاف تادیبی کاروائی کریں جو ریاست کے اندر ظلم و جبر کی ریاست کھولے بیٹھے ہیں...

اسی خفیہ 'نامعلوم' جیل سے کچھ ہفتے پہلے رہائی پائے ایک شخص نے فیس بک پہ احسن ارجمندی کے بھائی کو ڈھونڈا اور بتایا کہ ارجمندی زندہ ہے اور اس شخص کو اپنے گھر والوں تک اپنے زندہ ہونے کی اطلاع دینے اور نارویجن حکومت سے اپنی رہائی کی التجا بھی ارجمندی نے خود کی تھی...

رہا ہوئے شخص نے بتایا کہ وہ پاکستانی فوج کے کسی نامعلوم مقام پہ موجود تشدد خانے اور جیل میں ارجمندی کا ساتھی تھا.. جہاں پہ قیدیوں کے جرائم خود فوج طے کرتی ہے اور خود ہی تشدد سے مرنے تک سزا بھی دیتی ہے... ساری رات الٹے لٹکا کے مارا پیٹا جاتا ہے، ایک شخص پہ پانچ پانچ افراد صرف مُکے اور ٹھڈے مارنے کے لیے چھوڑے جاتے ہیں.. ہاتھ اور ٹانگیں باندھ کے چُوتڑ /سرین میں لال مرچیں اور پٹرول ڈالا جاتا ہے...

اب نارویجن حکومت، ارجمندی فیملی کی وکیل Randi Spyevold اور نارویجن لوگ اپنے شہری کی آزادی اور گھر واپسی کے لئے ایک نئی امید کے ساتھ سرگرداں ہیں...

( احسن ارجمندی کے حوالے سے خبر دینے، بات کرنے اور لوگوں تک پھیلانے میں نارویجن ٹی وی چینل TV2 اور صحافی اور رپورٹر قذافی زمان کا کام قابلِ ستائش ہے.. بالآخر 13 سال بعد 26 اگست 2021 کو ارجمندی کو آئی ایس آئی کے ٹارچر سیلز سے رہائی مل گئی.. تیرہ سال..... )



Wednesday, April 17, 2019

چڑیا اور پنکھا

چھت پہ لٹکتے پنکھے کے پَر کے ساتھ چڑیا کا ایک پَر بھی لٹک رہا تھا.. شاید گرمیوں کی دھوپ سے بچتی کوئی چڑیا ہمارے برآمدے میں آ گھسی اور چلتے پنکھے کے ہاتھوں مَر گئی...

ہم چار بہن بھائی تھے، دو بڑی بہنیں اور پھر میں اور چھوٹا بھائی.. زمیندار لوگ تھے ہم.. چونکہ ابا اکلوتے تھے تو دادا کی طرف سے ساری جائیداد اکیلے ابا کو ملی سو ہمارا گزارا باقی رشتے داروں سے بہت بہتر ہوتا تھا...

باجی نورین سب سے بڑی تھیں ہم میں اور وہ ہمارا خیال ماں سے بھی زیادہ رکھتی تھیں.. باجی اتنی پتلی تھیں کہ ہم انھیں باجی چڑیا کہا کرتے تھے... پانچویں تک ہی پڑھی تھیں، چھٹی جماعت کے لیے گاؤں سے دس کلومیٹر دور قصبے میں جانا پڑتا تھا اور ابا کو یہ پسند نہیں تھا کہ باجی لڑکوں کے ساتھ ویگن میں سفر کریں سو ابا نے چوراسی ماڈل ٹویوٹا کرولا خریدی اور ڈرائیور کے طور پہ اپنے بھتیجے کو ذمہ داری سونپ دی.. مگر چھے ہی ماہ میں ابا کو لگنے لگا کہ وہ بھتیجا بھی باقی لڑکوں کی طرح کا ہی ہے سو گاڑی بیچ دی اور باجی نورین کا سکول ختم ہو گیا...

مجھے غیر نصابی کتب کی طرف اور موسیقی کی ایک الگ ہی دنیا میں لے جانے کی وجہ بھی باجی نورین ہی تھیں.. ٹوٹی پھوٹی شاعری وہ خود بھی کرتی تھیں...

میں ساتویں میں تھا جب باجی نورین کی شادی، ابا کے تایا زاد بھائی کے بیٹے سے ہوئی.. ہنسی خوشی شادی ہوئی اور روتے روتے رخصتی.. جانے یہ رخصتی کے وقت رونے کی نحوست تھی کہ باجی نورین دو سال بعد ہی طلاق لے کے واہس گھر آ گئیں...
طلاق کی وجوہات میں اول تو ابا کا باجی نورین کے سسرال کی طرف سے جائیداد میں باجی کا حصہ مانگنے پہ، نہ دینے کا فیصلہ تھا، ابا بضد تھے کہ جہیز کے نام پہ جتنا کچھ دے دیا گیاہے وہی نورین کا حصہ ہے، زمین میرے دونوں بیٹوں کی ہی ہے.. دوسری وجہ شادی کے ڈیڑھ سال بعد بیٹی کا پیدا ہونا تھا جبکہ باجی کے سسرال بیٹے کے طلب گار تھے...
ابا نہ زمینوں میں حصہ دینے پہ راضی تھے نہ باجی کے طلاق لینے کے حق میں.. سو باجی معصوم بچی کو لیے واپس گھر تو آ گئیں مگر ابا نہ ان دونوں کی طرف دیکھتے تھے، نہ بلاتے تھے...

باجی کو ہر روز مرتے دیکھ رہا تھا میں... وہ گھر میں رہ کے بھی گھر کی نہیں تھیں.. کمرے سے کچن اور کچن سے کمرہ.. بس... ننھی عالیہ کو ساتھ چمٹائے رکھتیں جیسے کوئی چھین لے گا...

اور پھر ایک رشتہ آیا اور ابا نے بنا دیکھے سنے ہاں کر دی.. نکاح ہوا اور ماتمی سی رخصتی تھی، اماں گھر بسنے کی دعائیں کم اور تلقین زیادہ کر رہی تھیں اور ابا کہیں آس پاس بھی نہیں تھے...

بہنوئی بجلی کا کام کرتے تھے اور ایک بچی کے باپ بھی تھے.. پہلی بیوی گھر چھوڑ کے کسی آشنا کے ساتھ بھاگ گئی تھی (جو ہمیں بتایا گیا).. باجی دو بچیوں کی ماں بن گئیں اور سال بھر بعد تیسری بچی نے بھی دنیا میں آنکھیں کھولیں..

باجی پچھلے تین سال میں ایک بار ملنےگھر آئی تھیں، ابا نے انھیں دیکھتے ہی اماں کو چیخ کے کہا تھا کہ یہ کُتیا میرے گھر میں پھر آ گئی ہے اور باجی انھیں قدموں سے واپس پلٹ گئیں...

تین بچیوں کا باپ، بجلی کا کام کبھی ملا کبھی نہیں، سو باجی مسلسل بہنوئی کی مار پیٹ کا نشانہ بنتی رہیں.. جب چوتھی بار بھی بیٹی پیدا ہوئی تو بہنوئی نے دائی کے سامنے باجی کے پیٹ میں ٹھڈے مارے تھے..

ہسپتال میں ملنے گئے تو باجی یوں لیٹی تھی جیسے لاش پڑی ہو.. وہ کتابوں کی شوقین وہ موسیقی کی دلدادہ کہیں نہیں تھی... باجی نے اماں سے دو لاکھ روپے مانگے جو بہنوئی کی فرمائش تھی... اماں نے ابا کو ڈرتے ڈرتے بتایا تو ابا کے یہ الفاظ میرے سینے میں آج بھی خنجر کی طرح پیوستہ ہیں "کون نورین، ہیں؟"... اور اماں کچھ بھی نہ بول سکیں....

پھر اس دن باجی کے پڑوسیوں کا فون آیا اور اماں نے مجھے ساتھ لیا اور ویگن پکڑنے بھاگ نکلیں... میرے بار بار پوچھنے پہ بھی اماں قبر کی طرح خاموش تھیں..

باجی نورین کے گھر کے آگے بھیڑ تھی، صحن میں پہنچا تو سامنے برآمدے کے فرش پہ چاروں بچیاں رو رہی تھیں اور اوپر چھت پہ لٹکتے پنکھے کے ساتھ باجی نورین کی لاش لٹک رہی تھی...

Thursday, April 11, 2019

ہمیں بہت ترس آیا

ہوش سنبھالتے ہی جو بات سب سے پہلے مکمل اصرار سے بتائی گئی، وہ یہ تھی کہ ایک خدا ہوتا ہے، جو سب کچھ ہمارے ارد گرد ہو رہا ہوتا ہے، وہی کرتا ہے... اور ہم مان گئے...
سو جب بھی بارش کا طوفان آتا اور بجلی کڑ کڑ کڑکتی تو ہم گھبرا کے خدا کے غصے ہونے کی وجہ سمجھنے کی کوشش کرتے اور پھر اپنی یا اماں کی کسی غلطی (جو ابا اکثر ڈھونڈ کے نکال لاتے تھے) کو وجہ قرار دے کے معافی مانگتے رہتے...

پھر جب مسجد جانے جوگے ہوئے اور وہاں یہ بتایا گیا کہ وہ خدا اکیلا ہے، اس کے آگے پیچھے کوئی نہیں، نہ ماں کا پیار نہ باپ کی شفقت ، نہ بھائی کا سہارا نہ بہنوں کے چاؤ، نہ بیوی کا ساتھ، نہ اولاد کی خوشیاں... ہم گھر آ کے رات کو بستر میں دبک کے خوب روئے.. ہمیں خدا پہ بہت ترس آیا.. اتنا اکیلا... کاش ہم اسے مسجد (خدا کا گھر بتایا گیا تھا) سے اپنے ساتھ لے آتے، ہمارے گھر رہتا.. ہم اکٹھے سکول جاتے، ساتھ کھیلتے مگر....

پھر سکول میں بتایا گیا کہ ہم مٹی سے بنے ہیں، تو ہم کافی دن نہاتے ہوئے اپنے جسم کو کھرچتے اور نہا چکنے کے بعد تولیہ دیکھا کرتے تھے کہ مٹی تو نہیں اتر رہی ہماری.. بجائے اس کے کہ روز روز نہانے سے اور منہ ہاتھ دھونے سے ہم گھٹتے جاتے، ہم اور بڑھتے جاتے تھے، قد بڑھ رہا تھا، ہاتھ پاؤں لمبے ہو رہے تھے.. جانے کس مٹی سے بنے تھے ہم... اکثر ہم جب اماں کی بات نہ مانتے تو اماں کہتی کہ ڈھیٹ مٹی کے بنے ہو تم... شاید ہم کسی ڈھیٹ مٹی کے تھے...

پھر جب کچھ ابتدائی غیر نصابی سائنسی کتب تک رسائی ہوئی تو ہم عجیب سی کشمکش میں پڑ گئے... لیکن بھلا ہو پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ لاہور والوں کا، جنہوں نے بیالوجی میں بھی قرآنی آیات سے ہمیں واپس وہیں لا کھڑا کیا، جہاں ہم بچپن سے کھڑے کرائے گئے تھے...

جوانی کے ایام، یقین مانیے، جوانی کی ضروریات و خواہشات کو پورا کرنے میں ہی صرف کرنے چاہئیں، سو ایسا ہی ہوا... مگر ایک اکیلے ہی سب کچھ کرتے خدا سے ایک تعلق پھر بھی رہا....

جب وقت نے دوڑ لگاتے ذرا بھر کو سانس لی تو ہم پھٹی آنکھوں سے، مٹی سے بنے جسم کی حقیقت، کڑکتی بجلیوں کی وجہ ، کائنات اور اس کے اندر ہوتی تبدیلیوں، موسموں کی آمد و رفت، بارشوں سے سمندری طوفانوں تک، زلزلوں سے پہاڑوں کے آگ اگلنے تک کی وجوہات کو دیکھ رہے تھے...
ہمیں خود پہ بہت ترس آیا

Sunday, April 07, 2019

مگر ایسا کچھ ہوا نہیں

ہمارا خدا سے پہلا تعارف، کان میں دی گئی اذان نہیں، بلکہ ابا کی نمازیں اور دعائیں تھیں... ابا چھے وقت کے نمازی تھے اور نوافل اس پہ مستزاد ..

ہوش سنبھالنے تک خدا ہمارے لیے گویا فیملی ممبر بن چکا تھا... صبح تڑکے کی نماز سے رات سونے کی دعا تک، وہ ساتھ ہی رہتا تھا.. یقیناً سوتا بھی ساتھ ہی ہو گا...

قرآن ناظرہ مکمل کرانے کی ابا کو بہت جلدی تھی، اور خدا کا کرم رہا کہ ہم دماغی طور پہ بہت تیز نہیں تھے، سو حفظ سے بچ گئے... ناظرہ مکمل کیا پھر سکول کی کتابیں ہاتھ میں دے دی گئیں...

سکول شروع کر چکے تو جماعتیں پھلانگتے آگے بڑھنے لگے.. شرارتی تھے مگر ابا کے خوف نے شرارتیں اندر ہی دفن کرا دی تھیں.. ہر جماعت میں اول آنا لازمی تھا، بلکہ جیسے نماز فرض ہوتی ہے ناں ویسے فرض تھا...

جیسے تیسے پانچویں تک تو ہر جماعت میں اول آتے رہے مگر چھٹی میں ساتھ کے گاؤں سے ڈاکٹر زیدی صاحب کا بیٹا ہم جماعت ہو لیا... باپ ڈاکٹر، اماں استاد سو ذہانت خون میں تھی... سو چھٹی جماعت میں عباس زیدی اول رہا اور ہم دوسرے نمبر پہ....

گھر آ کے وہ مار پڑی کہ پوچھیے مت... ابا سخت تلوے کی چپل پہنتے تھے، اس کمینی چپل نے ہمارے سر، کندھے، پیٹھ مطلب سبھی پہ نشان چھوڑے...

اور یہ مار ہمارا بغاوت کی طرف پہلا قدم تھا... ساتویں میں پھر دوسرے نمبر پہ آنے پہ پھر چپل باری ہوئی اور ہم باغی کیا ہوتے، عادی ہو گئے ، سوچا کہ جب کھانی ہی مار ہے تو اندر دفن شرارتیں کیوں نہ دوبارہ زندہ کی جائیں سو آٹھویں میں تیسرے، نویں میں چوتھے اور دسویں میں پانچویں نمبر پہ آنے کے بعد ابا ہم سے مایوس اور ہم پڑھائی سے دور ہو چکے تھے....

سکول کے ساتھ ساتھ پانچ وقت کی نمازیں چلتی رہیں.. فجر سے عشا تک باجماعت نمازیں ہم پہ فرض تھیں... سو جیسے ہمارا گھر، خدا کا دوسرا گھر تھا سو اسی طرح مسجد، ہمارا دوسرا گھر تھی...

جمعہ، عیدین، اور دیگر مذہبی و فرقوی تہواروں پہ ہم نعت بھی پڑھا کرتے تھے، اور اکثر جمعہ کی نماز کے بعد ایک گمنام فون گھر کے فون پہ آتا تھا، کوئی اور اٹھاتا تو کٹ جاتا، ہم اٹھاتے تو کوئی دوشیزہ ہماری آواز کی تعریف کرتی تھیں ...

مسجد کی داہنی دیوار پہ تین چار عدد فریم شدہ عبادات درج تھیں... جن میں پورے ہفتے کا شیڈیول ہوتا تھا کہ فلاں دن اتنی بار فلاں ورد کرنے سے کتنی جنتیں ملتی ہیں، کتنے ثواب کے پہاڑ قیامت کے دن ہمارے نام کے کھڑے ہوں گے، کیسے عمر بھر کی نمازوں کا ثواب ملتا ہے وغیرہم...

سو ہم اُن فریم شدہ عبادات کے انوسار ، مکمل جنتی، دنیا جہاں کے ثوابات کے مالک اور ہر دینی عبادت و فرائض سے فارغ ہو چکے تھے..

چاہیے تو یہ تھا کہ کچھ فرشتے اترتے، ہمیں دھوپ میں چھاؤں دیتے، چھاؤں میں بہار دیتے، بہار میں تازہ پھل دیتے، پھلوں میں جنتی سیب دیتے، جو بہتر حوریں وہاں ہماری منتظر ہیں، ان میں سے دس بارہ ہی بھیج دیتے،

مگر ایسا کچھ ہوا نہیں...
حالانکہ ہم اور خدا، دونوں ایک دوسرے کے گھر کے بندے تھے، مگر ایسا کچھ ہوا نہیں..

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...