Sunday, September 18, 2016

جھنگ کا مسافر

"بابا یہ عشق میرا وجود تک مٹا دے گا، میرے جسم کو فنا کر دے گا جیسے"
"پُت،عشق وجود کے خلاف ھے، یہ روحوں کا سردار ھے، یہ جسم کا قائل ہی نہیں، اس کے مذہب میں جسم شرک ھے پُت"
"مگر بابا لگتا ھے میں مر جاؤں گا، مر ہی جاؤں گا میں " وہ بابا کے سامنے بیٹھا کچی مٹی پہ انگلی سے لکیریں کھینچ رھا تھا.
"پُت،تو نے جو مذہب اب کے اختیار کیا ھے، اس میں کوئی مرتا نہیں ھے، یہاں اجل کا گزر نہیں پُت، یہ عشق ھے یہ زندوں کی بستی ھے، بھلا روحیں مری ھیں کبھی، یہ روحوں کا ڈیرا ھے" بابا، جو کچھ وہ مٹی پہ لکھتا تھا، مٹائے جا رھا تھا. "تُو کیا موت سے ڈر گیا پُت؟؟"
اس نے تڑپ کر بابا کو دیکھا، "موت کا ڈر نہیں بابا بس ایک بار پھر اسے دیکھ لوں بس اک چہرے کی بھیک، پھر ھزار رنگ سے موت آئے"، وہ بابا کی گود میں سر دھرے پھوٹ پھوٹ کے رو دیا.
بابا ایک بـے نام قبر کا مجاور تھا، جانے کس کی قبر تھی، لوگ امیدیں باندھے آتے تھے، مطمئن ھو کے واپس جاتے تھے.

یہ لڑکا جھنگ کے مشہور بزرگ پیر سید اکبر عباس شاہ کا پوتا، سید یاور عباس شاہ کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا سید عمیس شاہ.. سب کا لاڈلا، عمیس شاہ کو بچپن سے ھی سب "عیمی سائیں" کہتے تھے. عیمی سائیں کا سارا بچپن، لڑکپن اپنے ننھیال ڈیرہ حسینی میں گزرا تھا. اس کے ننھیال ددھیال پشتوں سے گدی نشین چلے آرھے تھے. جب اس کے نانا ابو کی وفات ھوئی تو اس نے واپس جھنگ کا ارادہ باندھا. یہ وارداتِ عشق بھی واپسی کے سفر میں پیش آئی تھی، جس نے ایسا رستہ کاٹا کہ وہ ڈیرہ حسینی کا رھا نہ جھنگ کا.
ھوا کچھ یوں کہ جب وہ ٹرین میں بیٹھا تو اسکی پیچھے کی سیٹیں خالی تھیں. تب تک اسے جھنگ ہی جانا تھا. وہ "طلوعِ اشک" پڑھ رھا تھا جب دو لڑکیاں پچھلی سیٹ پر آ کے بیٹھی تھیں. اس نے مڑ کے نہیں دیکھا. جب تک اس نے مڑ کے نہیں دیکھا تھا، تب تک وہ جھنگ کا مسافر تھا. ٹرین چل پڑی،وہ طلوعِ اشک میں گم تھا کہ پچھلی سیٹ سے کہنی اس کے سر پہ آن لگی، اچھا خاصا جھٹکا تھا.  ساتھ ہی "اوہ سوری" کی جلترنگ سنائی دی مگر سَر جھٹک کے بنا کچھ کہے وہ کتاب پڑھنے لگا. یہ کہنی مارنے والی کی سرگوشی تھی، "بولے نہیں صاحب، لگتا ھے کچھ ٹھیک سے جمی نہیں" دونوں ہنسنے لگیں. عیمی کے بھی ہونٹ مسکرا دئیـے "آہستہ بولو نُور، وہ سن رھا ھو گا" دوسری سرگوشی تھی. عیمی سائیں نے مُڑے بنا کہا،
"نُور، آپ کے خیال میں اگر ٹھیک سے جمی نہیں تو ھمارا سَر پھر سے حاضر ھے، اپنے شوق کی بھرپور تسکین فرما لیں"
دونوں کھلکھلا کے ہنسی تھیں... "اچھا.. بصدِ شوق، لیجیے".. اور ٹھاہ کر کے کہنی عیمی سائیں کے سر پہ بجی. عیمی کے منہ سے" اوئی"نکل گئی.
"صاحب اگر سہہ نہیں سکتے تو کہنے کی کیا تُک تھی".. نور کی آواز ہنسی دبا رہی تھی.
"سہنے کی بات نہیں، ھم نے تو قاتل کی خوشی کے لئے اوئی کی تھی ورنہ
پوچھ تیغِ قاتل سے، مقتلوں کے میلے میں
ھم نے کس کو ڈھونڈا ھے، کس کی آرزو کی ھے"
"مقتل کی رِیت یہ بھی ھے صاحب کہ قاتل سَر مانگے تو کٹے سر بھی لبیک لبیک کہتے آٹھ آتے ہیں کٹنے کو، اوئی تک نہیں کرتے "ساتھ ایک قہقہہ بھی تھا.
" خوب کہا، تبھی ھم ہنس کے قاتل کو سَر پیش کیا تھا کہ دوبارہ شوق آزما ھو"
"اچھا، ایک بار اور کیا.. " دونوں ہنسنے لگی تھیں.. عیمی سائیں نے بڑی لَے سے کہا،
یہ کس نے ھم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کر کے
نور گویا ھوئی" ویسے صاحب لگتا ھے آپ کو محسن نقوی بہت پسند ھے"
عیمی نے بازو سیٹ کی پشت پہ ٹکایا، پیچھے مُڑا اور بولا،
"عشق ھے"
بس یہ پیچھے مڑ کر دیکھنے اور بولنے کا لمحہ تھا کہ جھنگ کا مسافر راستہ کھو بیٹھا، دونوں کی نگاہیں ملی تھیں کہ جھنگ کا مسافر بھٹک گیا. بات کیا کر رھا تھا، کہاں تھا، سب بھول گیا. اگر نور بات نہ کرتی تو عیمی سائیں سنگی مجسمہ بنتا جا رھا تھا. نور نے پتھر کو جان دی تھی. "ھمیں بھی، بہت اچھوتی شاعری ھے، مَن کو چھُوتی"
عیمی نے آنکھیں بند کیں، کھولیں، گود سے طلوعِ اشک اٹھائی اور نور کو تھما دی، نور نے کتاب تو تھام لی مگر بولی" آپ رکھ لیں نا، میں تو بس اترنے لگی ھوں، آپ نے شاید آگے جانا ھو گا، کیا کریں گے" عیمی نور کو دیکھتے ہوئے بولا "رکھ لیں، میرے پاس اب ایک اور چیز ھے پڑھنے کو" نور نے کتاب گود میں رکھی اور ورق گردانی کرنے لگی. عیمی کے پاس پڑھنے کو اور کوئی کتاب نہیں تھی. ٹرین کی رفتار کم ھونے لگی، کوئی اسٹیشن آ رھا تھا، عیمی کے دل کی رفتار کم ھونے لگی. کوئی اتر ہی نہ جائے..
"ماموں آئے ھوں گے سعدیہ، سامان اکٹھا کرو جلدی"نور کی آواز نے عیمی کے سارے خدشے پورے کر دیئے تھے. کوئی اترنے لگا ھے. بس اتنا سا ساتھ....
"آپ نے صاحب کہاں جانا ھے"؟ نور تھرماس بیگ میں رکھ رھی تھی.
"میں تو جھنگ کا مسافر ھوں"
"او، ہو سرائیکی لوگ، میٹھے لوگ، میڈھا عشق وی تُو، میڈھا یار وی تُو" نور ہنسنے لگی. ٹرین رک رہی تھی، جمال پور کا اسٹیشن آ چکا تھا. نور کتاب پرس میں رکھ رہی تھی، "اس کتاب کا بہت شکریہ صاحب، خوش رھیں، خدا حافظ" وہ نام تک نہ پوچھا اور 'میڈھا عشق وی تُو' گنگناتے ھوئے اتر گئی. وہ ماموں سے مل رہی تھی، عیمی دیکھ رھا تھا، ٹرین ایک جھٹکے سے رینگنے لگی. نور نے کھڑکی کی طرف دیکھا اور آنکھیں بند کر کے ہلکا سا مسکرائی، عیمی سائیں نے مسکرا کے آنکھیں بند کر لیں. تب کھولیں جب ٹرین رفتار پکڑ چکی تھی. اس کی آنکھیں سرخ انگارہ ہو رہی تھیں. جھنگ کے مسافر کے پاس پڑھنے کو کتاب تو نہیں تھی، لے دے کے ایک چہرہ تھا جو حفظ ھو چکا تھا. ٹرین دوڑ رھی تھی. جھنگ آخری سٹاپ تھا مگر جھنگ کا مسافر کہیں دُور اسٹیشن پہ ہی رک گیا تھا...

گھر آنے کے دو ہفتے بعد اس بـے نام قبر کے مجاور بابا سے عیمی کی ملاقات ھوئی تھی، ایسا لگا کہ ساتھی مل گیا ھو، سب کھول کے سامنے رکھ دیا.

عیمی کی گھر واپسی پہ سب بہت خوش تھے ، سب کو پیارا ہی بہت تھا. بہت خوش رھا وہ سب سے مل کے مگر  اندر کہیں ایک درد ساتھ ساتھ رھتا تھا. کھِلتا تھا، سلگتا تھا، جلتا تھا جلاتا تھا.
عصر کی نماز کے بعد وہ پھر بابا کے سامنے بیٹھا، وھی باتیں دہرائے جا رھا تھا.
"بابا میں اسے بھول ہی نہیں پا رھا" عیمی کی آنکھیں بہنے لگیں
"نہیں بھول سکتا بندہ پُت، بندے کے بس میں موت اور عشق نہیں ھوتے، یہ روحوں کے میل ھیں، روحیں کب کسی کے بس کی ھوتی ھیں.. چل جا پُت شام گہری ھو چلی، چل جا گھر جا".. عیمی اٹھا اور گھر کو چل دیا. شام ھو رہی تھی. عشق کی شام، جو کبھی نہ ڈھلی، جس کے بعد سحر کی بات کبھی نہ چلی، عشق میں بس شام ہی شام ھوتی ھے، اچھوتی شام...
...
"عیمی بیٹا کیا بات ھے؟ دو ہفتے سے تک رہے ہیں بجھے بجھے ھو، شاہ جی بھی پوچھ رھے تھے، کوئی پریشانی ھے تو کہو بیٹا ".. ماں جی نے رات اسے کمرے میں جا ہی لیا. ایک نہ ایک دن یہ سوال پوچھا ہی جانا تھا صد شکر کہ ماں جی نے پوچھا تھا.. بُو دبائی نہیں جاسکتی، عشق زدگی ظاہر ھو کے رہتی ھے. عیمی سائیں نے ماں جی کی گود میں سَر رکھا تو پھر بولتا ہی چلا گیا. ماں جی چپ سنتی رہیں بولیں تو بس اتنا "یہ کیا روگ لگا لیا ھے بیٹا"
"ماں جی.. کوئی دعا... کوئی دوا... کوئی تعویذ ماں جی".. عیمی روئے جا رھا تھا. ماں جی کی پلکیں بھیگنے لگیں.. "بیٹا نہ میں حکیم نہ مُلّا، میں تو ماں ھوں بس اور ماؤں کے پاس ایک ہی تعویذ ھوتا ھے، یہ لے لے" اور عیمی کا چہرہ ہاتھوں میں اٹھایا اور ماتھا چُوما تو ہونٹ ہٹانے بھول گئیں. ماں جی کے آنسوؤں عیمی سائیں نے وضو کر لیا...
سب گھر کو خبر ھو گئی.. کئی سمجھانے کو آئے، بڑے شاہ جی بس دیکھے جار ھے تھے مگر بظاہر لگتا تھا کہ اس معاملے سے انجان ھیں.. کبھی ماں جی کے کمرے اور کبھی حارث لالا سے جا لپٹتا.. حارث لالا کی تو جان تھا عیمی سائیں.. اس دن بھی حارث لالا کو کئی دفعہ سنائی داستان سناتا رھا. پھر اٹھا اور باھر بابا کی اَور چل پڑا.
"بابا یہ کوئی سزا ھے"؟
"نہیں پُت، سزا کیسی اور جزا کیسی، یہ تو عطا ھے، یہ تو رم جھم ھے پُت،صدیاں پیاس مٹی پھانکتی زمینوں پہ نصیب سے ہی رم جھم ھوتی ھے، تیری زمیں پہ تو ترسے بنا برس گئی" دونوں کیکر کے نیچے بیٹھے تھے، "مینہ برسا ھے تو یہ خزانہ تو اُگنا ہی تھا نا، سو اُگ گیا"
یہ باتیں ھو رہی تھیں کہ بارش ھونے لگی.. دونوں بھیگتے رھے اور گاتے رھے؛
میڈھا عشق وی تُو، میڈھا یار وی تُو 
بارش رقص کرنے لگی، شام ہو رہی تھی، عشق کی شام...
...
"عیمی سائیں بارش میں بھیگنے کی یہی جزا ھے کہ بخار لے لو اور لگ جاؤ بستر سے، دو دن سے تمہارا بدن انگارہ تپ رھا تھا، آج کچھ حالت بہتر ھے، تم تو ہوش میں ہی کب تھے" حارث شاہ پائینتی بیٹھے تھے اور ماں جی سرہانے، کچھ پڑھ پڑھ پھونک رہی تھیں.. شاہ جی بھی آئے، دعائیں دیں، کچھ پڑھ کے پھونکا اور پھر کتنی ہی دیر چاروں بیٹھے ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے.. پھر شام نے کالی چادر پھیلانی شروع کی تو حارث لالا کمبل ٹھیک کر کے سونے کا کہہ کے چل دیئے.. جھنگ کا مسافر اکیلا لیٹا ایک چہرے کی ورق گردانی کرنے لگا. جانے کب تلاوت ختم ھوئی اور کب آنکھ لگی..
..
"بابا کیا ھوا"؟  وہ چار دن بعد بابا کے پاس آیا، تو بابا مزار کے اندر لیٹا تھا، قبر کے پاس جیسے مُردہ نکل کے لیٹا ھو.. کمزور نحیف.. "کیا ھو گیا بابا".. بابا مسکرائے جا رہا تھا..
" کچھ نہیں پُت، بارش میں بھیگنے کی جزا ھے ساری، دونوں بھیگے تھے پُت، آدھا آدھا حصہ دونوں کا بنتا تھا" بابا بہت ٹھہر ٹھہر کے بول رھا تھا.. "ھم کو معاف کرنا، ھم نے سارا حصہ ہی مانگ لیا" عیمی روہانسا ھو گیا.. "بابا یہ زیادتی ھے" عیمی نے ھاتھ پکڑا تو گویا گرم کوئلہ چھو لیا ھو
"بابا میں آیا... ایک منٹ میں آیا... میں ڈاکٹر کو... "وہ جتنی تیزی سے اٹھا، اتنی ہی تیزی سے بابا نے کھینچ کے بٹھا دیا
" چھوڑ نہ پُت، یہ گئی کہ گئی... تُو تو پاس بیٹھ.. " عیمی چیخا " نہیں میں آیا" اور ڈاکٹر انیس کے گھر کی طرف دوڑا.. دوڑے جا رھا تھا اور دعائیں کیے جا رھا تھا. بھلا موت دعا سے ٹلتی ہے ، جب تک ڈاکٹر انیس مزار تک پہنچا، پنچھی اڑ چکا تھا.. خالی پنجرہ پڑا تھا.. عیمی چیخ رھا تھا "یہ زندوں کی بستی ھے بابا... یہ روحوں کا ڈیرا ھے" وہ روئے جا رھا اور یہی الفاظ دہرائے جا رھا تھا.. اتنا رویا بابا سے لپٹ کے کہ بـے ہوش ھو گیا.. شام ہو چکی تھی، عشق کی شام...
.....
عیمی کو تین دن بعد ہوش آیا تو تب تک جسم مٹی میں سما چکا تھا، روح کھُلے آسمانوں میں چکرا رہی تھی، وہ روئے جا رہا تھا.. "مجھے وھاں لے چلو حارث لالا، مجھے بابا کے پاس جانا ھے" سبھی رو رھے تھے کہ پیارا رو رھا تھا.. "بابا کہتا تھا یہ زندوں کی بستی ہے یہاں موت کا کیا کام، یہ روحوں کا ڈیرا ہے، یہاں اجل کا گزر کیا"...
" عیمی میری جان کل چلے جانا، ابھی آرام کر لو، دیکھو وعدہ ھے کہ کل چلے جانا"... عیمی چپ چاپ لیٹ گیا، کھڑکیوں سے جاتی شام جھانک رہی تھی.. عشق کی شام...
...
وہ بابا کی قبر پہ تھا.. مزار اندر دو قبریں ھو گئی تھیں اب..
"بابا وہ نور تھی، جمال پور اسٹیشن پہ اتری تھی، ماموں لینے آئے تھے اسے....... "
وہ پرانا قصہ سبق کی طرح دہرا رہا تھا...
" بابا وہ تو نور تھی، ھاتھ کیسے آتی.. تُو تو اپنا تھا، پاس تھا، میرا ساتھ تھا... تُو بھی نہ رھا.. کیا ہاتھ آیا اس جھنگ کے مسافر کے.. کچھ بھی نہ، خالم خالی ہاتھ.. ایک نور تھی، ایک بابا تھا... دونوں کہاں ھیں اب؟ میں اکیلا تن تنہا... کلم کلا...  "وہ بولے جا رھا.." کسے پڑی ھے کہ ڈیرہ حسینی سے چلے جھنگ کے مسافر کو راہ دکھا دے.. نہ جمال پور کی نور... نہ میرا ساتھی بابا.. کلم کلا جھنگ کا مسافر.... "
جھنگ کا مسافر قبر کے پاس سے اٹھا، باھر نکلا.. بارش اور ہوا زوروں کی تھی.. شام آ گئی تھی، وہ مزار کے باھر کھڑا تھا، بارش میں بھیگتا جا رھا تھا اور بارش میں بھیگنے کی جزا اب جھنگ کے مسافر کو اکیلے بھگتنی تھی .. دُور کسی ٹریکٹر پر ٹیپ چل رہی تھی، پٹھانے خان کی آواز گونج رہی تھی؛
میڈھا عشق وی تُو میرا یار وی تُو
میڈھا دین وی تُو، ایمان وی تُو....
وہ بارش میں بھیگ رھا تھا دھمال ڈال رھا تھا... اندھیر گہرا ھو رھا تھا.. شام ھو چکی تھی.. مکمل عشق کی شام... اچھوتی شام...
....
سترہ سال میں بہت کچھ بدل گیا ھے... جمال پور بہت بڑا شہر ھے اب... جھنگ شہر بدل گیا ھے.. عمارتیں، سڑکیں، لوگ.. نسلیں... مگر ایک مزار ھے، بس وہی کا وہی.. ہلکا سبز رنگ کا... "نُور بابا" کا مزار... تین قبریں ھیں مزار کے اندر..  ایک بـے نام قبر... ساتھ میں لیٹا "نُور بابا" اور اس کے پہلو میں "عیمی سائیں"... سید عمیس شاہ... مزار کے اندر سفید دیواروں پہ سبز رنگ سے لکھا ھے
" یہ زندوں کی بستی ھے، یہ روحوں کا ڈیرا ھے".. 
ھر سال مزار پہ میلا لگتا ھے.. لوگ ڈھول بجاتے، گھڑے سر پہ دھرے دھمالیں ڈالتے، دعائیں مانگنے آتے ھیں.. مزار کو رونق لگا دی ھے عیمی سائیں نے.. ھر سال میلے میں شام کو ہلکی ہلکی بوندا باندی ضرور ھوتی ھے.. ھر سال ھوتی ھے..
آج بھی میلا ھے.. باھر شام ھے، بارش کی رم جھم ھے اور جھنگ کا مسافر اندر لیٹا سن رھا ھے کہ کوئی سوز بھری آواز میں گا رھا ھے؛
میڈھا عشق وی تو میڈھا یار وی تو
میڈھا دین وی تو ایمان وی تو
میڈھا جسم وی تو میڈھا روح وی تو
میڈھا قلب وی تو جند جان وی تو
میڈھا قبلہ، کعبہ، مسجد تے منبر
مصحف تے قرآن وی تو
میڈھا فرض فریضے، حج، زکاتاں
صوم صلوٰۃ، اذان وی تو...............

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...