Tuesday, November 09, 2021

آخری رقعہ

کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آپ کے اندر جیسے دھواں سا بھر جاتا ہے، سانس لینا پھیپھڑوں سے جنگ لگتا ہے، آپ سانس کو جیسے کسی اندھے کنوئیں سے کھینچ کے لاتے ہیں جو اوپر آتے آتے ادھ موئی ہو جاتی ہے اور آپ اس دنگل میں ڈھے جاتے ہیں
اس کی طرف سے خط وصول ہوا تھا، خط کیا تھا، ایک رقعہ تھا جسے بـے ڈھنگے طریقے سے کتاب سے پھاڑا گیا تھا. نیلی پنسل سے سب سے اوپر لکھا تھا "آخری رقعہ"..ان دو الفاظ نے جیسے آنکھوں کے پاؤں جکڑ لیے تھے، ان دو الفاظ کو کتنی دیر حروف میں توڑتا اور جوڑتا رہا، بار بار یہ عمل دوہرانے سے جیسے معانی بدل جائیں گے

آگے لکھا تھا "سعد نہ میں بدلی ہوں نہ میری محبت، بس میری قسمت بدلی ہے اور مجھے کسی کالے اندھے کنوئیں میں لے آئی ہے، جہاں آپ کو میں کہیں بھی نہیں دیکھتی، جہاں میں خود کو بھی نہیں دیکھ پا رہی. اور جہاں میں نہیں، وہاں آپ کیسے ہوں گے، سو ہم دونوں اس زندگی کے کنوئیں میں کہیں بھی اکٹھے نہیں ہوں گے" بس آگے کچھ بھی نہیں تھا.. اس سے آگے اور ہو بھی کیا سکتا تھا

سعدیہ، میری چھوٹی بہن ارم کی دوست تھی اور کلاس فیلو بھی.. ارم کے ساتھ پہلی بار گھر آئی تھی تو لگا جیسے طویل لوڈشیڈنگ کے بعد سارا گھر برقی قمقموں سے جاگ اٹھا ہو. ہلکے پیلے رنگ کی شلوار قمیض میں ، جس پہ مختلف رنگوں کے پھول کڑھے تھے، وہ چمک رہی تھی. پھر دوسری بار آنے پہ میری آنکھوں کی چغلیاں اس نے سن لی تھیں اور اس کے چہرے پہ اترتے رنگوں کے پرندے میں نے پکڑ لیـے تھے

تیسری بار آنے پہ باقاعدہ ملاقات ہوئی اور اس ملاقات پہ دل کی باتیں منہ سے نکلیں، کانوں میں گھلیں اور دلوں میں اتر گئیں. پانچ سات منٹ کی ملاقات جتنی مختصر اور تشنہ تھی، یاد آنے پہ اتنی ہی جامع تھی. اس کے بالوں کا ماتھے پہ جھومنا، پلکوں پہ شرم کا بھار، آنکھیں اٹھتے اٹھتے جھکتی ہوئیں، گالوں پہ شفق اترتے ہوئے، ہونٹ جیسے..... کھِلتے کھُلتے گلاب کی پتیاں، دل جیسے اپنی دھڑکنیں قمیض کے باھر چھوڑ کے جاتا ہوا، ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں گتھم گتھا

ارم گواہ بھی تھی، مددگار اور قاصد بھی. ہمارے خطوط بھی آتے جاتے رہے اور ہم چوتھی سے ساتویں ملاقات تک بھی پہنچے. ساتویں ملاقات آخری ملاقات تھی.بال کھینچ کے بندھے ہوئے تھے، اس کی پلکوں پہ جیسے شبنم دھری تھی، آنکھیں کھنچی ہوئی تھیں اور خالی خالی سی تھیں، گالوں کا رنگ اڑا ہوا تھا اور ہونٹ... یوں ہِل رہے تھے جیسے تیز آندھی میں کھڑکی کے پٹ.. دل کہیں قمیض کے پیچھے دور کہیں جیسے ڈوب رہا تھا، ہاتھوں کی انگلیاں میری ہتھیلی پہ دھڑک رہی تھیں
ملاقات کیا تھی، ماتم ہی تھا. ایک دوسرے کی زندہ محبت کی لاش پہ ماتم،لاش جو محبتوں کے ہاتھوں گری تھی، سعدیہ کے والدین کٹر شیعہ تھے اور سید گھرانے سے تھے، میں دیوبندی گھرانے میں پیدا ہونے کا گناہگار تھا اور ہم موچی کہلاتے تھے. لوگ سیدوں کے جوتے چومتے تھے اور ہم جوتوں کی مرمت سے پیٹ بھرتے تھے. جوتوں کا جوڑ سر سے فقط ایک صورت ممکن ہے کہ جب آپ دیوانے ہوں اور دیوانے ہمیشہ اپنی اوقات سے باھر اچھلتے ہیں. "میں سب کو چھوڑ کے  اس گاؤں سے بھی کہیں دُور جانے کو تیار ہوں سعدیہ، تم چلو گی؟ چلو گی ناں" اس کی آنکھیں میری آنکھوں میں گڑی تھیں اور وہ آنکھیں اس قدر خالی تھیں کہ ان میں میرے سوال کا جواب تک نہیں تھا. سعدیہ کے گھر والے جان چکے تھے اور اس پہ وہ خوب گالیاں، بددعائیں، نفرت اور رونا سمیٹ چکی تھی. اس کا بڑا بھائی پستول نکال لایا تھا اور ماں نے درمیان میں آ کے پستول کو ٹھنڈا کیا تھا. اتنا ٹھنڈا کہ گولی نہیں چل سکی تھی. سعدیہ کو مجھے اور میرے تمام گھر والوں کو قتل کرنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں،ایک محبت کو مارنے پہ کتنی محبتوں کا خون بہاتے.. چھوٹے ماموں کے بڑے بیٹے سے فوری نکاح اور شادی کی راہ نکالی تھی سعدیہ کے گھر والوں نے. اس کا رونا پیٹنا اتنا ہی رائیگاں گیا جتنی رائیگانی ہماری دعاؤں کی جھولی میں تھی

اس نے ٹھنڈے پڑتے ہاتھ میری ہاتھ سے نکالے اور چلی گئی، مڑ کے دیکھا بھی نہیں، دیکھ لیتی تو شاید... تو کیا ہو جاتا.. میں اچانک جوتے سے سر کا روپ دھار لیتا یا وہ اچانک ایک موچی کے گھر میں پیدا ہو جاتی.. کیا ہوتا ،وہی ہوتا جو ہو گیا تھا. وہ جا چکی تھی اور میں رونے تک سے محروم ہو چکا تھا

اور پھر یہ رقعہ پہنچا اور ساتھ ارم کی طرف سے یہ اطلاع بھی کہ سعدیہ گھر والوں کے ہمراہ ماموں کے گاؤں جا چکی ہے جہاں اسے بقول اس کے کالے اندھے کنوئیں میں دھکیلا جانا تھا

میں کیا کرتا، سوائے جاگتی آنکھوں سے خواب بھگتنے کے،میں کیا کر سکتا تھا. پھر جانے کیا سوچ کے دو دن بعد میں گھر سے خالی ہاتھ نکلا اور اس کے ماموں کے گاؤں جانے کے لئے دو بسیں اور ایک ریل گاڑی کا سفر طے کر لیا

ریل کی پٹڑیاں گاؤں کے باھر باھر سے نکلتی تھیں، اترا اور سٹیشن سے گاؤں کی طرف چل پڑا. اس سوال کو سر میں گھسنے ہی نہیں دے رہا تھا کہ میں کیوں آیا ہوں یہاں،شاید اس لیے بھی کہ سر جواب سے خالی تھا. کھلی زمینوں میں بھینسیں دنیا و مافیہا سے بـے خبر چَر رہی تھیں.دھوپ ڈھل رہی تھی اور سورج آخری سانسیں لے رہا تھا. میں چلا جا رہا تھا کہ ایک جگہ پہ لوگوں کا ایک ہجوم سا اکٹھا ہوا ہوا تھا.. میں سب سے پیچھے کھڑا جاننے اور دیکھنے کی کوشش میں تھا. سامنے سے کچھ لوگ ذرا ہلے تو پتا چلا کہ کوئی کنواں ہے، اور کنوئیں میں سے کسی کو نکالنے کی کوشش کی جا رہی تھی. چار لوگ کھینچ کے جب لاش کو اوپر لائے تو.... میں دیکھ کے ادھ موا ہو گیا اور وہیں ڈھے گیا 

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...