Tuesday, November 09, 2021

آخری رقعہ

کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آپ کے اندر جیسے دھواں سا بھر جاتا ہے، سانس لینا پھیپھڑوں سے جنگ لگتا ہے، آپ سانس کو جیسے کسی اندھے کنوئیں سے کھینچ کے لاتے ہیں جو اوپر آتے آتے ادھ موئی ہو جاتی ہے اور آپ اس دنگل میں ڈھے جاتے ہیں
اس کی طرف سے خط وصول ہوا تھا، خط کیا تھا، ایک رقعہ تھا جسے بـے ڈھنگے طریقے سے کتاب سے پھاڑا گیا تھا. نیلی پنسل سے سب سے اوپر لکھا تھا "آخری رقعہ"..ان دو الفاظ نے جیسے آنکھوں کے پاؤں جکڑ لیے تھے، ان دو الفاظ کو کتنی دیر حروف میں توڑتا اور جوڑتا رہا، بار بار یہ عمل دوہرانے سے جیسے معانی بدل جائیں گے

آگے لکھا تھا "سعد نہ میں بدلی ہوں نہ میری محبت، بس میری قسمت بدلی ہے اور مجھے کسی کالے اندھے کنوئیں میں لے آئی ہے، جہاں آپ کو میں کہیں بھی نہیں دیکھتی، جہاں میں خود کو بھی نہیں دیکھ پا رہی. اور جہاں میں نہیں، وہاں آپ کیسے ہوں گے، سو ہم دونوں اس زندگی کے کنوئیں میں کہیں بھی اکٹھے نہیں ہوں گے" بس آگے کچھ بھی نہیں تھا.. اس سے آگے اور ہو بھی کیا سکتا تھا

سعدیہ، میری چھوٹی بہن ارم کی دوست تھی اور کلاس فیلو بھی.. ارم کے ساتھ پہلی بار گھر آئی تھی تو لگا جیسے طویل لوڈشیڈنگ کے بعد سارا گھر برقی قمقموں سے جاگ اٹھا ہو. ہلکے پیلے رنگ کی شلوار قمیض میں ، جس پہ مختلف رنگوں کے پھول کڑھے تھے، وہ چمک رہی تھی. پھر دوسری بار آنے پہ میری آنکھوں کی چغلیاں اس نے سن لی تھیں اور اس کے چہرے پہ اترتے رنگوں کے پرندے میں نے پکڑ لیـے تھے

تیسری بار آنے پہ باقاعدہ ملاقات ہوئی اور اس ملاقات پہ دل کی باتیں منہ سے نکلیں، کانوں میں گھلیں اور دلوں میں اتر گئیں. پانچ سات منٹ کی ملاقات جتنی مختصر اور تشنہ تھی، یاد آنے پہ اتنی ہی جامع تھی. اس کے بالوں کا ماتھے پہ جھومنا، پلکوں پہ شرم کا بھار، آنکھیں اٹھتے اٹھتے جھکتی ہوئیں، گالوں پہ شفق اترتے ہوئے، ہونٹ جیسے..... کھِلتے کھُلتے گلاب کی پتیاں، دل جیسے اپنی دھڑکنیں قمیض کے باھر چھوڑ کے جاتا ہوا، ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں گتھم گتھا

ارم گواہ بھی تھی، مددگار اور قاصد بھی. ہمارے خطوط بھی آتے جاتے رہے اور ہم چوتھی سے ساتویں ملاقات تک بھی پہنچے. ساتویں ملاقات آخری ملاقات تھی.بال کھینچ کے بندھے ہوئے تھے، اس کی پلکوں پہ جیسے شبنم دھری تھی، آنکھیں کھنچی ہوئی تھیں اور خالی خالی سی تھیں، گالوں کا رنگ اڑا ہوا تھا اور ہونٹ... یوں ہِل رہے تھے جیسے تیز آندھی میں کھڑکی کے پٹ.. دل کہیں قمیض کے پیچھے دور کہیں جیسے ڈوب رہا تھا، ہاتھوں کی انگلیاں میری ہتھیلی پہ دھڑک رہی تھیں
ملاقات کیا تھی، ماتم ہی تھا. ایک دوسرے کی زندہ محبت کی لاش پہ ماتم،لاش جو محبتوں کے ہاتھوں گری تھی، سعدیہ کے والدین کٹر شیعہ تھے اور سید گھرانے سے تھے، میں دیوبندی گھرانے میں پیدا ہونے کا گناہگار تھا اور ہم موچی کہلاتے تھے. لوگ سیدوں کے جوتے چومتے تھے اور ہم جوتوں کی مرمت سے پیٹ بھرتے تھے. جوتوں کا جوڑ سر سے فقط ایک صورت ممکن ہے کہ جب آپ دیوانے ہوں اور دیوانے ہمیشہ اپنی اوقات سے باھر اچھلتے ہیں. "میں سب کو چھوڑ کے  اس گاؤں سے بھی کہیں دُور جانے کو تیار ہوں سعدیہ، تم چلو گی؟ چلو گی ناں" اس کی آنکھیں میری آنکھوں میں گڑی تھیں اور وہ آنکھیں اس قدر خالی تھیں کہ ان میں میرے سوال کا جواب تک نہیں تھا. سعدیہ کے گھر والے جان چکے تھے اور اس پہ وہ خوب گالیاں، بددعائیں، نفرت اور رونا سمیٹ چکی تھی. اس کا بڑا بھائی پستول نکال لایا تھا اور ماں نے درمیان میں آ کے پستول کو ٹھنڈا کیا تھا. اتنا ٹھنڈا کہ گولی نہیں چل سکی تھی. سعدیہ کو مجھے اور میرے تمام گھر والوں کو قتل کرنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں،ایک محبت کو مارنے پہ کتنی محبتوں کا خون بہاتے.. چھوٹے ماموں کے بڑے بیٹے سے فوری نکاح اور شادی کی راہ نکالی تھی سعدیہ کے گھر والوں نے. اس کا رونا پیٹنا اتنا ہی رائیگاں گیا جتنی رائیگانی ہماری دعاؤں کی جھولی میں تھی

اس نے ٹھنڈے پڑتے ہاتھ میری ہاتھ سے نکالے اور چلی گئی، مڑ کے دیکھا بھی نہیں، دیکھ لیتی تو شاید... تو کیا ہو جاتا.. میں اچانک جوتے سے سر کا روپ دھار لیتا یا وہ اچانک ایک موچی کے گھر میں پیدا ہو جاتی.. کیا ہوتا ،وہی ہوتا جو ہو گیا تھا. وہ جا چکی تھی اور میں رونے تک سے محروم ہو چکا تھا

اور پھر یہ رقعہ پہنچا اور ساتھ ارم کی طرف سے یہ اطلاع بھی کہ سعدیہ گھر والوں کے ہمراہ ماموں کے گاؤں جا چکی ہے جہاں اسے بقول اس کے کالے اندھے کنوئیں میں دھکیلا جانا تھا

میں کیا کرتا، سوائے جاگتی آنکھوں سے خواب بھگتنے کے،میں کیا کر سکتا تھا. پھر جانے کیا سوچ کے دو دن بعد میں گھر سے خالی ہاتھ نکلا اور اس کے ماموں کے گاؤں جانے کے لئے دو بسیں اور ایک ریل گاڑی کا سفر طے کر لیا

ریل کی پٹڑیاں گاؤں کے باھر باھر سے نکلتی تھیں، اترا اور سٹیشن سے گاؤں کی طرف چل پڑا. اس سوال کو سر میں گھسنے ہی نہیں دے رہا تھا کہ میں کیوں آیا ہوں یہاں،شاید اس لیے بھی کہ سر جواب سے خالی تھا. کھلی زمینوں میں بھینسیں دنیا و مافیہا سے بـے خبر چَر رہی تھیں.دھوپ ڈھل رہی تھی اور سورج آخری سانسیں لے رہا تھا. میں چلا جا رہا تھا کہ ایک جگہ پہ لوگوں کا ایک ہجوم سا اکٹھا ہوا ہوا تھا.. میں سب سے پیچھے کھڑا جاننے اور دیکھنے کی کوشش میں تھا. سامنے سے کچھ لوگ ذرا ہلے تو پتا چلا کہ کوئی کنواں ہے، اور کنوئیں میں سے کسی کو نکالنے کی کوشش کی جا رہی تھی. چار لوگ کھینچ کے جب لاش کو اوپر لائے تو.... میں دیکھ کے ادھ موا ہو گیا اور وہیں ڈھے گیا 

Sunday, September 12, 2021

چین ‏سموکر ‏

سجّے ہتھ دی دو انگلاں اچ
دبیا ہویا سِغٹ
بلدے بجھدے تارے وانگوں
پھڑک رہیا اے 

کدرے اندروں
کدرے کلبوت دی پِشلی کوٹھڑی اندروں 
کھِچ تُرو کے لیاندا ساہ
گلے تکر آندا مر جاندا اے

 اوس مرے ہوئے ساہ دی چِتا نوں
ساڑ دینا واں

تے فیر اوس تُوویں دے ساہ لینا واں


Thursday, July 01, 2021

حقیت ‏کی ‏تعبیر

غسل خانے کی دیوار پہ ایک ہی آئینہ ٹنگا تھا جس کے نیچے والے دونوں کونے سیاہ پڑ چکے تھے اور ان کی سیاہی اوپر کی طرف ایسے بڑھ رہی تھی جیسے کوئی بیل دیوار چڑھتی ہے. تازہ شیو کے بعد میرے گالوں سے جیسے دھواں نکل رہا تھا. کنگے سے سر کے داہنی طرف مانگ نکالتے ہوئے مجھے گاؤں کے بیچوں بیچ گزرتی سڑک یاد آ گئی، جو ہوبہو ایسے لگتی تھی جیسے کسی نے سر کے عین درمیان میں کَس کے مانگ نکالی ہو. وہی سڑک مجھے اس شہر میں لائی تھی جہاں ایک رہائشی عمارت میں ایک کمرے کا گھر تھا، جہاں اب ہم تین لوگ ایک کچن اور غسل خانہ شئیر کرتے تھے، اور اسی غسل خانے میں سیاہ پڑتے آئینے کے سامنے میں تیار ہو کے جاب انٹرویو کے لیے نکلنے والا تھا

شہر نیا تھا، راستے نئے تھے، زندگی کی کروٹ نئی تھی اور نئی پینٹ اور بش شرٹ میں، میں بھی نیا نیا ہی لگ رہا تھا. ٹائی باندھنا میں پہلے ہی یوٹیوب سے سیکھ چکا تھا. تیار ہو کے گلی میں نکلا، سامنے ارشاد جنرل سٹور سے چیونگم کا پیکٹ لیا اور جیب میں رکھ کے رکشے کا انتظار کرنے لگا. کچھ ہی لمحوں میں رکشے کی آواز کانوں میں پھڑ پھڑ کرنے لگی، مڑ کے دیکھا اور دور سے آتے رکشے کو ہاتھ دیا. رکشہ ڈرائیور بڑھتی عمر کا تھا اور اس کی کالی داڑھی اپنا رنگ دھول مٹی کے نام کر چکی تھی. میں اچک کے بیٹھا اور آفس کا پتا اسے بتا دیا. اس نے 'اوہ اچھا.. جی اچھا" کہا اور رکشہ آگے بڑھا دیا

رکشے میں جا بجا قرآنی آیات اور دعاؤں کے سٹکر سے چپکے ہوئے تھے. جب میں وہ سب باری باری پڑھ چکا تو بات بڑھانے کو میں اسے بتانے لگ پڑا کہ میں کہاں سے آیا ہوں اور کیوں آیا ہوں اور اب جہاں وہ مجھے لے جا رہا ہے، وہاں کیوں جا رہا ہوں.. اس نے بالکل خاموشی سے میری تفصیل سنی اور "ہممم" کہہ کے چپ ہو رہا. مجھے بہت عجیب لگا.. کچھ دیر کے لیے میں سر گھما کے باھر دیکھنے لگا. باھر سڑک پہ گاڑیاں دوڑ رہی تھیں، عمارتیں چھوٹ رہی تھیں.. میں نے جیب سے چیونگم نکالی، ایک منہ میں ڈالی اور رکشے والے کہا "بھائی، چیونگم لو گے؟ " اس نے سر اٹھا کے شیشے میں سے مجھے دیکھا اور مسکرا کے ایک ہاتھ آگے بڑھا دیا. میں نے چیونگم اس کی ہتھیلی پہ دھری، اس نے شکریہ کہہ کے چیونگم چبانے لگا. "چیونگم ،بندے کی عزت رکھنے کو بنائی گئی ہے" اس نے سفر کا پہلا جملہ مکمل کیا. مجھے اس کی بات پہ بـے اختیار ہنسی آ گئی. "میں نے بھی انٹرویو میں عزت برقرار رکھنے کو ابھی خریدی تھی".. وہ ہلکا سا مسکرایا اور بولا "سر، آپ کو جلدی نہیں ہے پہنچنے کی؟ " مجھے بات سمجھ نہیں آئی.. اس نے دوبارہ پوچھا" سر میرا مطلب ہے آپ پہلے آدمی ہیں ، صبح کے اس وقت کے، جنہوں نے بیٹھتے ہی یہ نہیں کہا کہ جلدی چلو، میرے پاس وقت نہیں ہے".. میں نے" آھا "کہہ کے کلائی پہ بندھی گھڑی میں وقت دیکھا تو وقت بہت تھا.. " نہ، مجھے پہنچنا ضرور ہے وہاں مگر کوئی جلدی نہیں ہے، میں اچھے خاصے وقت کا مارجن رکھ کے نکلا ہوں" اس نے فوراً پوچھا" پہلی بار ہے سر؟ "...... " جی پہلی بار ہے اور یہ سر تو مت کہیں مجھے، میرا نام عادل ہے".. اس نے جیب سے رومال نکال کے پورے منہ کو رگڑا اور رومال واپس رکھ دیا
"آپ نئے نئے شہر آئے ہیں، یہاں یہ سر وغیرہ ایک روٹین ہے بس، اسے سیریس نہ لیں سر "... میرا قہقہہ بیساختہ بھی تھا اور لاؤڈ بھی.." یہ اچھا کہا آپ نے "....اس نے اشارے پہ رکشہ روکا اور شیشے میں سے مجھے دیکھتے ہوئے بولا "تو سر یہ جاب آپ کے کتنی اور کیوں ضروری ہے؟ ".. ساتھ رکی گاڑیوں کو دیکھتے ہوئے میں نے کہا" بھائی، جاب ضروری اس لیے ہے کہ پیسے کمانے ہیں، گھر چلانا ہے، یہ جاب یا وہ جاب فرق نہیں ہے، فرق ہے تو صرف یہ کہ تنخواہ کتنی ہو گی.. گاؤں میں اب  زمینیں جیسے بانجھ پڑتی جا رہی ہیں، سب نکل رہے ہیں نوکری کی تلاش میں، میں بھی نکل آیا".... اس نے میری بات مکمل ہوتے ہی کہا" تو اہم یہ جاب نہیں، اہم کوئی بھی نوکری ہے"......" ہاں کوئی بھی، کہیں بھی جاب، کوئی خواب تھوڑی ہے "......" آپ خواب نہیں دیکھتے؟ "... اس کی بات پہ میں مسکرا کے رہ گیا" دیکھتا ہوں، پالتا نہیں ہوں.. خواب پالنے اور پھر انہیں بڑا کرنے، ان. کی جوانی دیکھنے کے لیے بہت محنت لگتی ہے، میں خوابوں سے نکل کے، منہ پھاڑے کھڑی زندگی کو سنبھالنے کی کوشش میں ہوں".... اس نے گول چکر سے رکشہ گزارا اور دوسری سڑک پہ مڑ گیا... "تو آپ حقیقت پسند ہیں.. اچھی بات ہے... لیکن کیا حقیقت پسند ہونا اس جاب کے لیے یا کسی بھی جاب کے لیے زیادہ اہم ہے؟ " میں نے کچھ دیر سوچا.." میرے خیال میں ہاں.. حقیقت پسندی ہی اصل کُنجی ہے.. آپ زمان و مکان کے درمیان خیالوں اور خوابوں سے وقت گزار سکتے ہیں، زندگی نہیں.. زندگی کی تمام تر خوبصورتی یا بدصورتی اس کا "حقیقت" ہونا ہے.. اسی طرح اس زندگی کے لیے اٹھائے گئے ہر قدم پہ حقیقت پسندی کی راہ ہی بہتر ہے ".. اس نے ہمممم کو لمبا کھینچا..اور سڑک کے کنارے رکشہ روک دیا" لیں سر، یہ آ گیا آپ کا مطلوبہ آفس ".. میں نے رکشے سے سر باھر نکال کے سامنے آسمان کو چھوتی عمارت کو دیکھا اور رکشے والے کو پیسے دئیے، وہ نوکری ملنے کی دعائیں دیتا رخصت ہو گیا.. عمارت تھی کہ کسی فرعون کا کوئی شیشے کا ہرم (pyramid) تھا. ٹائی درست کی، جیب سے چیونگم نکال کے کچھ دیر چبائی اور پھر پھینک کے عمارت کی طرف چل پڑا. سیکیورٹی والوں سے کلئیر ہونے کے بعد ریسیپشن پہ بیٹھی خاتون کو انٹرویو کا بتایا اور وقت میسر ہونے کے کارن پہلی منزل پہ ہی گھومنے لگا. رکشے میں بیٹھ بیٹھ کے ٹانگیں جڑ گئی تھیں.. ٹہلتے ٹہلتے ایک دیوار کے سامنے جا کھڑا ہوا جہاں اس کمپنی کے مالک کی زندگی کی کہانی لکھی تھی. وہ ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوا مگر آج وہ اتنی بڑی کمپنی اور اس عمارت سمیت کئی جگہوں کا مالک تھا. دیوار کے بیچوں بیچ اس کی بڑی سی تصویر ٹنگی تھی اور تصویر کے نیچے لکھا تھا

میری راہیں مشکل اور میری منزل نامعلوم تھی، مگر میرا خواب.. میرا ہم سفر تھا

Monday, June 21, 2021

تیرھواں ‏پارہ ‏

عصر کا وقت سر پہ تھا اور مسجد میں مولوی عبدالحق کا سایہ تک نہ تھا. جون کی تپتی دوپہر تھی، ماسٹر انعام اللہ کے علاوہ اکا دکا نمازی ہی تھے جو دیواروں سے لگے سستا رہے تھے. ماسٹر جی نے دیوار کا سہارا لے کے اپنا فربہی جسم اٹھایا اور پھر گھٹنوں پہ ہاتھ رکھ کے آہستہ آہستہ کھڑے ہوئے. گھڑی کی سوئیاں ٹک ٹک چکر لگا رہی تھیں. ماسٹر جی نے ادھر ادھر دیکھا اور گھڑی کو گھورتے ہوئے سپیکر کی طرف بڑھے. سپیکر آن کیا اور اپنی منحنی آواز میں اللہ اکبر اللہ اکبر کی آواز لگانی شروع کر دیں . ماسٹر جی حتی الامکان کوشش کرتے تھے کہ وہ اذان نہ ہی دیں کیونکہ ان کی آواز ان کے جثے کے بالکل برعکس تھی. خیر اذان تھی، چار رکعت سنت پڑھی، سلام پھیر کے دیکھا تو مولوی عبدالحق ابھی تک مسجد نہیں پہنچے تھے. مولوی عبدالحق مسجد کی پچھلی گلی میں ہی رہتے تھے، مسجد کی طرف سے رہائش ملی تھی وہ خود نواں والی سے تھے. ماسٹر جی نے وقار مچھی کو بھیجا کہ جاؤ مولوی صاحب کو بلا کے لاؤ، شاید سو گئے ہوں گے. جماعت کے وقت میں پانچ منٹ باقی تھے کہ وقار مچھی دوڑتا ہانپتا آیا اور بتایا کہ دروازے کو باھر سے تالا لگا ہوا ہے.. پہلے سب حیران ہوئے اور پھر پریشان ہو گئے کہ رب جانے کیا مصیبت آن پڑی کہ انہیں یوں اچانک جانا پڑا. اسی پریشانی میں ماسٹر انعام نے جماعت کروائی اور پھر سب نمازی سوچ میں گم گھروں کو چل دئیے

رشیداں اس گرمی میں بھی اپنے گھر کی چھت سے پڑوسیوں کی چھت پہ اتری اور پھر سیڑھیاں نیچے اتر گئی. اس کا سانس پھولا ہوا تھا، عارفہ نے اسے صحن میں دیکھا تو اندر کمرے میں بلا لیا، رشیداں نے عارفہ سے کرن کے سپارہ پڑھ کے گھر آنے کے متعلق پوچھا تو اتنے میں کرن دوسرے کمرے سے آ گئی.. "بیٹا وہ فوزیہ گھر نہیں آئی ابھی تک، ساتھ نہیں آئی تم اس کے" کرن اپنی ماں کے ساتھ ہی بیٹھ گئی تھی "نہیں خالہ آج ہم جیسے ہی پہنچے، مولوی صاحب نے چھٹی دے دی تھی کہ آج وہ نہیں پڑھائیں گے تو پھر  ہم سب گھر آ گئے".. رشیداں کی سانس نہیں مل رہی تھی "تو فوزیہ ابھی تک گھر نہیں پہنچی ".. کرن نے فوراً کہا" خالہ وہ فوزیہ کو مولوی صاحب نے سبق پڑھانا تھا، اسے مولوی صاحب نے روک لیا تھا، وہ وہیں تھی".. رشیداں منہ کھولے سن رہی تھی، کچھ دیر چپ کھڑی رہی اور پھر جیسے اس نے کوئی بھوت دیکھ لیا ، پھٹی آنکھوں سے سرپٹ دوڑتی وہ گلیوں میں دوڑتی کوئی پاگل لگ رہی تھی، دوپٹہ سر سے گردن اور گردن سے کندھے پہ لٹک رہا تھا، رشیداں کی دوڑ مولوی عبدالحق کے گھر پہ پڑے تالے پہ ختم ہوئی. رشیداں مسجد بھی گئی مگر وہاں مولوی صاحب نہیں تھے. اس نے اردگرد کے گھروں کے دروازے کھٹکھٹانے شروع کر دئیے اور پھر جا کے مولوی صاحب کا باھر سے بند دروازہ پیٹنے لگی. لوگ گھروں سے باھر نکلے تو رشیداں نے چیخ چیخ کے دروازہ توڑنے کے ترلے ڈالنے شروع کر دئیے. پہلے تو کسی کو سمجھ نہ لگی کہ ہو کیا رہا ہے، رشیداں نے روتے پیٹتے فوزیہ کے گھر نہ آنے اور مولوی کے تالا لگا کے کہیں جانے کی بات کی تو عورتیں منہ پہ ہاتھ رکھ کے اجتماعی 'ھاھائےےےے" کرنے لگیں

عارفہ نے چھوٹے بیٹے اکبر کو رشیداں کے گھر بھیجا کہ جاؤ چاچا اسلم سے کہو کہ جلدی کرے خالہ رشیداں مولوی صاحب کے گھر کی طرف دوڑتی ہوئی گئی ہے.. اسلم لوہار نے یہ بات سنی تو فٹافٹ کُرتا پہنا اور مسجد کی طرف دوڑ لگا دی

سارا محلہ رشیداں پہ تف تف کر رہا تھا کہ کیسے اس بیوقوف عورت نے مولوی صاحب جیسے بندے پہ الزام ہی لگا دیا ہے،سب رشیداں کو کوس رہے تھے کہ مولوی عبدالحق، فوزیہ کے باپ کی عمر کے ہیں، کیا ہم لوگ انہیں جانتے نہیں کہ وہ پچھلے تین سال سے اسی گاؤں میں رہ رہے ہیں، کبھی کوئی شکایت نہ سنی. کسی بچے کو کبھی ہاتھ تک نہیں لگایا، یہاں تک کہ کبھی ڈانٹتے بھی نہیں تھے اور تم بـے ایمان عورت نے مولوی صاحب پہ شک کر کے اپنا ایمان خراب کیا، اپنا اگلا جہان برباد کر دیا

اتنے میں اسلم بھی وہاں پہنچ چکا تھا اس نے قہر بھری نظر رشیداں پہ ڈالی اور اسے چپ کرنے کو کہا مگر رشیداں رو رہی تھی اور مسلسل دروازہ کھولنے کی منتیں کر رہی تھی. اسلم نے کھینچ کے اسے تھپڑ لگایا اور رشیداں جیسے تھپڑ کے درد سے کم اور صرف تھپڑ لگنے کے صدمے سے منہ بھینچ کے دیوار کا سہارا لے کے بیٹھ گئی اس نے گھٹنوں میں سر دیا اور رونے لگی

سب اسے برا بھلا کہہ رہے تھے اور پھر ماسی نذیراں نے فوزیہ پہ بھی الزام لگانے شروع کر دئیے "نہیں تُو پہلے اپنی جوان کُڑی تو سنبھال لے، کتنی بار اس کلموہی کو کہا کہ اب تیرے اچھلنے کودنے کے دن نہیں رہے مگر جب دیکھو کبھی اس گلی کبھی اُس گلی دوڑتی پھرتی ہے اوپر سے کم بخت پہ کچھ زیادہ ہی جوانی کی بہار آئی ہے، لڑکوں کے ساتھ کرکٹ بھی کھیلتی ہے وہ، پتا ہے تجھے، ہیں بول اب تجھے اس کے کرتوت نہیں پتا، اب منہ چھپا کے بیٹھی ہے، بول اسلمے تُو بھی بـے غیرت ہی ہو گیا ہے" اسلم کی ٹھوڑی چھاتی سے جا لگی.." رشیداں اب منہ چھپا کے بیٹھی رہ، روتی رہ اپنی دھی کو، پتا نہیں کہاں منہ کالا کر رہی ہو گی "...رشیداں کی برداشت بھر چکی تھی وہ ایک جھٹکے سے اٹھی اور چیخی" وہ صرف تیرہ سال کی ہے، تیرہ سال کی بچی ہے وہ.. تیرہ سال کی بچی " رشیداں تیرہ سال تیرہ سال چیختی بند دروازہ پیٹنے لگی

رفیق مستری اندر سے چھینی ہتھوڑا لے آیا اور اس نے ارد گرد کھڑے سب لوگوں کی طرف دیکھا اور چھینی تالے پہ رکھ کے زور سے ہتھوڑے کے وار کرنے لگا. تیسرے وار پہ تالا زمین پہ پڑا تھا. اس نے کنڈی کھولی ہی تھی کہ رشیداں دوڑ کے اندر گھس گئی. چھوٹے سے صحن کے سامنے برآمدہ تھااور سامنے والے کمرے کو بھی کنڈی لگی تھی. سارا محلہ صحن میں تھا کہ اس نے کنڈی کھولی اور سامنے فرش پہ فوزیہ دیوار سے سر ٹکائے چھت پہ مسلسل چلتے پنکھے کو گھورے جا رہی تھی. فرش پہ اس کی شلوار پڑی تھی، اس کی ننگی ٹانگوں پہ خون کی لکیریں کھنچ گئی تھیں. رشیداں نے اسے اپنا دوپٹہ اوڑھایا اور اسےگلے سے لگا کے اسے چومنے لگی. مگر فوزیہ جیسے پتھر ہو چکی تھی، اس کی آنکھیں مسلسل پنکھے کو گھور رہی تھیں، ساتھ پڑی چارپائی پہ  تیرھواں پارہ "وَمَآ أُبَرِّئُ "  پڑا تھا جس کے قریباً سارے ورق چرمرائے ہوئے تھے اور سامنے والا صفحہ خون سے لتھڑا ہوا تھا

Thursday, June 10, 2021

جانی جا ‏

اس وقت جویریہ شاہ کی ساری دنیا، سفید کپڑے کے ایک ٹکڑے پہ اٹکی ہوئی تھی جسے رومال کہتے ہیں. اسے اس رومال پہ کچھ لکھنا تھا، وہ جویریہ شاہ جس کے چپل بھی کام والیاں سیدھے کر کے رکھتی تھیں، اسے اپنے ہاتھوں سے اس رومال پہ نام کاڑھنا تھا. ماسی نذراں سے اس نے ایک عدد سوئی اور دو دھاگے کی نلکیاں منگوا لی تھیں جو سامنے پڑی تھیں. اس نے پہلے سرخ رنگ کی نلکی اٹھائی، دھاگہ سوئی میں ڈالنا بھی ایک لمبی جدوجہد کے بعد ممکن ہوا تھا. سرخ رنگ سے رومال کے چاروں طرف ایک لائن بنانے کی اس کی کوشش کامیاب تو ہو گئی مگر لائن سیدھی کہیں سے بھی نہیں تھی. اس نے سر جھٹکا اور پھر سے دوسری نلکی، جو کہ گہرے سبز رنگ کی تھی، کا دھاگہ سوئی میں ڈالنے کی کوشش میں جت گئی. اس کے بالوں کی لٹیں دائیں بائیں سے اس کے چہرے پہ جھول رہی تھیں، ماتھے اور ہتھیلیوں پہ پسینے کی نمی تھی اور وہ اپنے تئیں دوسری لائن سیدھی بنانے میں مگن تھی. وہ لائن ختم ہوئی اور اس نے دھاگہ دانتوں میں لے کے کاٹ دیا. "ہمممم... سیدھی نہیں ہیں مگر بری بھی نہیں لگ رہیں" تسلی نما سرگوشی کرنے کے بعد اس نے سرخ رنگ کی نلکی دوبارہ اٹھائی اور رومال کے بالکل درمیان "جانی" کاڑھنے لگی. اس کی سانسیں دوڑ رہی تھیں اور نام لکھتے ہوئے اس کے گال سرخ دھاگے کی نلکی جیسے ہو رہے تھے. "جانی" لکھنے کے بعد اس نے اپنے نام جویریہ کا" JA"بھی لکھا اور رومال کو بھری آنکھوں سے دیکھنے لگی. اس نے رومال کو جہاں نام لکھا تھا وہاں سے چوما اور قمیض سے دھڑا دھڑ سر پٹختی چھاتی سے لگا کے آنکھیں موند کے لیٹ گئی

رضوان اشرف المعروف "جانی" گورنمنٹ کالج فرید پور میں پڑھتا تھا، بوائز کالج کے بالکل سامنے گرلز کالج کی عمارت تھی. وہیں کہیں آتے جاتے جویریہ شاہ نے جانی کو دیکھا اور پوری جان سے دل ہار بیٹھی
جانی بالکل ویسا ہی تھا جیسے کالج جاتا ہر لڑکا بننا چاہتا ہے، لڑاکا تھا، ڈر نامی بلا سے ناواقف تھا، دوستوں کے ساتھ مل کے چھوٹی موٹی چوریاں بھی کر لیتا تھا. غیر نصابی سرگرمیوں کی جان تھا جانی.. بسوں ویگنوں والوں کو مارنا پیٹنا، سڑکوں پہ اور کالج میں ہڑتالیں کرنا، سٹوڈنٹس کے ہر مسئلے کے لیے حاضر ہوتا تھا. اس کا رعب کالج کے پروفیسرز اور پرنسپل تک تھا
جانی جیسے جلتی آگ میں بـے ڈر کودنے کو تیار رہتا تھا. اس کے ماں باپ ٹرین حادثے میں اس کے بچپن میں ہی چل بسے تھے، باپ کی طرف سے کوئی بھی قریبی نہ تھا اور ماں کی طرف سے صرف بوڑھے نانی نانا. ایک ماموں تھے بڑے مگر وہ اپنے بیوی بچوں سمیت مدتوں پہلے فرانس جا چکے تھے. بوڑھے نانی نانا نے پالا اور بوڑھوں ہڈیوں کے سہارے نے اسے اپنے خوف سر کرنا  بچپن سے ہی سکھا دیا تھا

جویریہ نے اپنی سہیلیوں کے ہاتھوں جانی کو کئی منہ زبانی اور لکھے ہوئے بھی پیغامات بھیجے، محبت کے اقرار نامے لکھے، اس کی طرف سے جواب کے انتظار نامے بھی بھیجے مگر جانی کا جواب ہر بار ایک ہی رہا "آپ بہت اچھی ہیں، میرے دل میں آپ کے لیے بہت عزت ہے" بس یہ دو جملے تمام تر پیغامات اور خطوط کا جواب ہوا کرتے تھے. رومال کو دیکھ کے جانی کے چہرے پہ کئی رنگ اترے مگر اس نے رومال بہت سلیقے سے تہہ کر کے اپنی جیب میں رکھ دیا اور "بہت خوبصورت ہے، بہت شکریہ" کا جواب دے کے چل پڑا تھا. ہر بار ایک سا جواب سن کے بھی جویریہ کے اندر محبت کے دریا پہ کوئی بند نہ بندھ سکا، بلکہ دریا کی لہروں میں اور مدوجزر اٹھنے لگتے

جویریہ شاہ، کالج کے چوتھےسال میں تھی جب اس کی اچانک شادی کا شور اٹھنے لگا. اس کا رشتہ اس کے پیدا ہوتے ہی پھوپھی زاد سید امداد عالم شاہ سے طے ہو چکا تھا، اس کی پھوپھی کی بیماری مزید بگڑنے پہ جلد از جلد جویریہ کی رخصتی کا اعلان ہو گیا. جویریہ بہت روئی، مزید پڑھنے کے لئے گڑگڑائی، کتنے دن کھانا پینا چھوڑے رکھا، ہمت کر کے کسی اور کو پسند کرنے کی بات بھی کہہ ڈالی اور اس پہ ابا سے زندگی میں پہلا تھپڑ بھی کھایا، سگے بھائی نے پستول تان لی تھی، اماں نے کمرے میں اکیلے کتنے ہی تھپڑ مارے مگر..... سادات خاندان زبان سے کہاں پھرتا ہے! سو اس کا کالج فوراً ختم کروا کے گھر بٹھا دیا اور دو ہفتے بعد جمعہ کے دن اس کی رخصتی طے ہو گئی

وقت کی دم پہ کسی نے تیلی سی لگا رکھی ہے، وقت دوڑتا ہے اور سر پٹ دوڑتا ہے.. کل جویریہ کی مہندی کی رات آنے والی تھی، اس نے اپنی سہیلی عاصمہ کے ہاتھ ایک آدھے پھٹے کاغذ پہ ایک پیغام جانی کو بھیجا "جانی، صرف ایک بار تو مل لیتے"
جانی کی آنکھیں رقعے پہ اٹکی ہوئی تھیں، ایک ہی جملہ جانے کتنی بار پڑھنے کے بعد اس کے سر اٹھایا اور عاصمہ کو کہا "اسے کہنا، کل رات جب مہندی ہو رہی ہو گی، میں آؤں گا" عاصمہ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں. دوست یار اسے سارا دن سمجھاتے رہے کہ مت جا، مارا جائے گا، وہ سید ابرار الحق حسینی کی بیٹی ہے، سارا علاقہ ان کے نام کے آگے سجدے کرتا ہے، سارا خاندان وہاں ہو گا، اسلحہ ہو گا.. مارا جائے گا... مگر جانی کا ہر بار ایک ہی جواب رہا "اس پاگل لڑکی نے تو محبت کی ہے،کم از کم اس کی محبت کا مان تو رکھ سکتا ہوں، میں جاؤں گا" اور پھر مہندی کی شام آ گئی

گھر کے مرد صحن میں بیٹھے تھے اور خواتین دوسری منزل پہ تھیں.. نیچے سید امداد اپنے گھر والوں کے ہمراہ پہنچا تو گھر کی خواتین سب نیچے چلی گئیں
جویریہ پیلے جوڑے میں، کلائیوں، گلے، کانوں اور ماتھے پہ تازہ سرخ گلابوں کے زیور پہنے بیٹھی تھی. اچانک عاصمہ نے اس کے کان میں دھماکا کیا "وہ.. وہ اوپر آ رہا ہے، گھر کے پچھواڑے پائپ پہ چڑھ کے اوپر آ رہا ہے" جویریہ دوڑتی چھت کے مغربی کونے کی طرف لپکی.. جانی پائپ پہ چڑھنا چھت کی منڈیر تک پہنچ چکا تھا. جویریہ نے ہاتھ بڑھا کے اوپر کھینچا اور اوپر آتے ہی وہ اس سے لپٹ گئی "تم کیوں آئے ہو، مجھے پتا تھا تم آؤ گے، تم پاگل ہو تم کیوں آئے ہو "... وہ کمرے کی طرف بڑھے ہی تھے کہ کچھ لڑکیاں دوڑ کے سیڑھیاں اتر گئیں.. عاصمہ نے ان کے جاتے ہی سیڑھیوں کا دروازہ اوپر سے بند کر دیا.."تم جاؤ، تم جاؤ پلیز اب سب کو پتا چل جانا ہے تم جاؤ" جویریہ کمرے میں کھڑی تھی اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے، گلے میں لٹکتے گلاب کا ہار مسلسل دھڑک رہا تھا، جانی مسکراتا ہوا کرسی پہ بیٹھ گیا..جویریہ اسے بس دیکھے جا رہی تھی اور وہ سر جھکائے بیٹھا تھا. اچانک نیچے سے ایک شور کا طوفان اٹھا اور چیختے چلاتے سیڑھیوں کے دروازہ توڑا جانے لگا.. جویریہ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے کھینچنے لگی "جانی اللہ کا واسطہ ہے جاؤ جاؤ جاؤ" جانی آرام سے اٹھا جیسے کسی باغ میں لگے بینچ میں دھوپ سینک کے اٹھ رہا ہو "تم نے بلایا تھا تو میں آ گیا، اب تم مطمئن ہو تو میں جاؤں گا"... جویریہ نے تین بار اپنا سر اس کی چھاتی پہ مارا اور بولی "جانی، میں کہہ رہی ہوں جاؤ اب "... جانی نے اس کے ماتھے پہ لٹکتے گلاب کے پھول کو انگلی سے ہلایا اور "بہت خوش رہنا، خدا حافظ" کہہ کمرے سے نکلا. جویریہ کا 'خدا' ابھی 'حافظ' تک نہیں پہنچا تھا کہ سیڑھیوں کا دروازہ توڑ کے اس کا بھائی اور باقی کزن چھت پہ اسلحہ لیے پہنچ گئے. جویریہ چیخنے لگی "جانی، جلدی کرو" اس کے بھائی نے پستول اس کے سر پہ مارا، اور وہ نیچے گر گئی، پیلا جوڑا سرخ ہونے لگا
جانی نے درمیان میں پائپ چھوڑا اور چھلانگ لگا دی مگر اس سے پہلے کہ اس کے قدم زمین چومتے، اوپر سے گولیوں کی بارش نے اسے زمین پہ پٹخ دیا

تھانیدار ارشد چیمہ جائے وقوع پہ پہنچ چکا تھا، شادی والے گھر می چوری کی کوشش کا پرچہ جانی کے نام کٹ چکا تھا اور اس کی لاش گھر کے پچھواڑے پڑی تھی. تھانیدار چیمہ نے لاش کو دیکھا، اس نے لاش کی جیبوں کی تلاشی لی. قمیض کی نچلی داہنی جیب سے صرف ایک رومال ملا. اس نے، سلیقے سے تہہ، رومال کو کھولا اور لاش کے چہرے پہ ڈال دیا. رومال کے درمیان میں "جانی JA" لکھا ہوا تھا 

Friday, May 14, 2021

کارڈیالوجی ‏وارڈ

کمرے میں اتنی خاموشی تھی کہ وہ اپنی سانسوں کی آواز سے باتیں بنا سکتا تھا. باتیں جنہیں بنانے میں وہ بچپن سے ہی نا آشنا تھا. بچپن کیا، اس کا لڑکپن، جوانی اور پھر جاتی جوانی میں اس کمرے کی خاموشی تک، اس کی عمر صرف باتیں سننے میں ہی صَرف ہو گئی تھی

گھر میں اپنے بہن بھائیوں سے بھی اس کی باتیں کم ہی ہوا کرتی تھیں. بڑے بہن بھائیوں کا ایک رعب تھا جو اتنا ہی فرض تھا جتنا ماں باپ کا احترام. باپ نے جو کہا حکمِ خداوندی سمجھا، باپ کی مار اور ڈانٹ کو بھی خدا کا قہر اور اپنی ہی خطا سمجھا. ماں نے کبھی غصے سے اور زیادہ تر پیار سے جو کام کہا، کر دیا. بڑے بہن بھائیوں کی باتیں بھی ناک بھوں چڑھا کے سہی، مانیں ضرور، آگے سے باتیں نہیں کیں

پہلے مسجد میں ناظرہ قرآن پڑھا، سبق یاد نہ ہوا تو مار بھی کھائی مگر آگے سے بولا بھی نہیں، کبھی گھر آ کے شکایت بھی نہیں کی. سکول میں اساتذہ مختلف جماعتوں میں جو پڑھاتے رہے، سکھاتے رہے، کچھ ذہن نشین کیا باقی کا رٹا لگا کے پرائمری سے ہائی سکول بھی پاس کر لیا. کلاس کیا ہر سکول میں، جہاں بھی وہ گیا، اپنی کم گوئی کی نشانیاں چھوڑتا آیا

وہ گونگا نہیں تھا مگر کہیں بھی بیٹھا وہ گونگا ہی لگتا تھا. اسے "چُپو" اور پھر "چُپ شاہ" کے القاب بھی ملے تھے. یہ بھی نہیں ہے وہ ایک پتھر کا کردار تھا، وہ خاموش شرارتوں کا پلندہ تھا. جب باتیں ہو رہی ہوتیں تو وہ اپنے اندر ان باتوں کے مزیدار چٹ پٹے جواب بنا رہا ہوتا تھا، وہ بولنے والوں کے لہجوں سے کردار بناتا اور پھر ان کے جواب اپنے چٹ پٹے کرداروں کے منہ سے دیتا، سب سمجھتے تھے کہ وہ ہماری باتوں کی گہرائیوں میں گم ہے جبکہ وہ اپنی ہی تخلیق کردہ ہواؤں میں پر جھٹک جھٹک کے اڑتا پھرتا

کمرے کی سفید دیواریں چپ تھیں اور اسی چپ میں اس کی سانسوں کی باتیں تھیں. سانس کھینچتے کھینچتے باتوں کا غوطہ لگا اور اس کا شدید گندمی رنگ کالا پڑنے لگا. کھانسی اتنے زور سے اور مسلسل تھی کہ اس کی ساری باتیں بکھرنے لگیں. بائیں ہاتھ پڑی مشینیں اپنی آواز میں چیخ چیخ کے باتیں کرنے لگیں. کمرے کی سفید دیواریں کالی پڑتی جا رہی تھیں. دوڑتے قدموں کی آوازیں قریب آتی جا رہی تھیں مگر سانسیں ٹکڑوں میں بٹنے لگیں، اور پھر ٹکڑوں میں بٹتی باتیں ادھوری رہ گئیں 

Tuesday, April 27, 2021

خراب ‏کیسٹ ‏

گرمی تھی یا ہمارا گاؤں ہی تندور میں تھا. گلیاں سونی پڑی تھیں،کتے بھونکنا بھول گئے تھے، زبان نکالے کہیں کوئی دیوار کے سائے یا کوئی تھڑے کے نیچے لیٹا ہوا تھے. بستے سے صافہ نکال کے گردن اور سر پہ ڈالے میں سکول سے گھر جا رہا تھا

جیسے ہی میں گھر میں داخل ہوا تو باجی نسرین، چاچو کے کمرے سے نکل رہی تھی ، ایک نظر اس نے مجھے دیکھا اور لپک کے اپنے کمرے میں گھس گئی. اس کا چہرہ تھا کہ کوئی دہکتا انگارہ، لال سرخ جیسے اماں بجھتے چولہے میں جب پھونکنی مارتی تھی تو انگارے جیسے جل اٹھتے تھے، بالکل ویسے ہی سرخ

میں نے بستہ برآمدے کے کونے میں پھینکا اور اماں کے کمرے میں گیا جہاں اماں اور ابا دونوں اونگھ رہے تھے، فرج انہیں کے کمرے میں تھی سو پانی کا جگ نکالا اور لے کے باجی نسرین کے کمرے میں آ گیا

باجی اپنی چارپائی پہ سمٹ کے لیٹی ہوئی تھی اور کانپ رہی تھی، جیسے سردیوں میں ٹھنڈے پانی سے نہا کے نکلی ہو.. میں نے جگ میز پہ دھرا اور انہیں ہلانے کے لیے ہاتھ ہی لگایا تھا کہ جیسے وہ تڑپ کے دیوار سے جا لگی.. "باجی میں ہوں، عاصم، ابھی سکول.." میری بات میرے منہ میں ہی دم توڑ گئی، باجی کی آنکھیں جیسے خون سے بھری ہوئی تھیں اور وہ رو رہی تھی.. میں اسے روتا دیکھ کے اس سے لپٹ کے رونے لگا
ہم دونوں بہن بھائی جانے کتنی دیر ایک دوسرے سے لگے چپ چاپ روتے رہے.. باجی نسرین کے جسم کی کپکپاہٹ ختم ہو چکی تھی، اس نے مجھے پرے ہٹایا، اٹھی اور میز پہ رکھے جگ کو منہ لگا لیا.. باجی بہت پیاسی تھی، پانی منہ سے نیچے گردن اور چھاتی پہ گر رہا تھا مگر وہ ایک ہی سانس میں جگ خالی کر گئی تھی

جگ میز پہ رکھنے کے بعد وہ میری طرف مڑی اور میرا ماتھا چوم کے کھانے پینے کا پوچھا، میری بھوک مر چکی تھی میں نے کبھی باجی کو اس تکلیف دہ حالت میں کیا، کبھی روتے نہیں دیکھا تھا. میرے منع کرنے پہ وہ چارپائی پہ بیٹھ گئی، "باجی، چاچو نعیم نے کچھ کہا آپ کو؟" باجی نسرین کی گردن مزید نیچے جھک گئی، پھر جھکی گردن سے بولی "تم نے کچھ نہیں دیکھا، سمجھے عاصم کچھ بھی نہیں" مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اصل میں ہوا کیا ہے، مگر جب بھی اماں، ابا سے چھپ کے پان کھاتی تھی تو ہم سے یہی کہتی تھی کہ تم لوگوں نے کچھ نہیں دیکھا، سمجھے تم دونوں، تم دونوں کو کچھ نہیں پتا، جیسے سلیٹ پہ سلیٹی سے لکھا مٹاتے ہیں ایسے ہی یہ بات اپنے دماغ کی سلیٹ سے صاف کر دو
آج باجی بھی یہی کہہ رہی تھی... "چاچو نے آپ کو مارا ہے؟ آپ نے ان کی گانوں کی کیسٹ خراب کر دی ہو گی".. باجی نے سر اٹھا کے مجھے دیکھا، اس کی آنکھوں میں کہیں کہیں سرخ دھبـے سے باقی تھے.. کچھ لمحے مجھے دیکھتی رہی.. "مجھ سے ہر روز ہی ان کی کوئی نہ کوئی کیسٹ خراب ہو جاتی ہے" اور وہ خالی جگ اٹھا کے کمرے سے نکل گئی 

Monday, April 26, 2021

آدھی ‏ملاقات ‏


14 فروری 1998

سلام دعا
میڈم نازی

میں آپ کا بہت بڑا فین ہوں
یہ ایک جملہ میرے احساسات کے ساتھ انصاف نہیں کرتا

ہم پانچ دوستوں نے مل کے پاکستانی فلم " بہاراں" دیکھنے کی ٹھانی. ہمارے گاؤں سے نزدیک ترین سینما ہال کوئی سوا دو سو کلومیٹر دور ہے، اس لیے قریبی فلم سٹور سے فلم بھی کرائے پہ لی اور وی سی آر بھی

آپ کو عجیب لگا ہو گا، ہے ناں مگر ہمارے ادھر ایسے ہی چلتا ہے

ثاقب کی بیٹھک میں ہم نے سینما کا ماحول بنا لیا کہ سب کھڑکیاں دروازے بند، گھپ اندھیرا اور فلم چل رہی ہے. فلم کے تیسرے منٹ اور بیالیسویں سیکنڈ پہ فلم کی ہیروئین کی انٹری ہوتی ہے. کریم کلر کی ساڑھی پہ جابجا خوبصورت رنگوں کے پھول کڑھے ہوئے، کھلے سرخی مائل بال سورج کی روشنی میں ہوا میں اڑتے ہوئے، جیسے ابھی آگ پکڑ لیں گے

آپ کے سکرین پہ آنے کے منٹ سیکنڈز بھی یاد ہیں مجھے، آپ تو پھر آپ ہیں. سو یہ جملہ کہ میں آپ کا بہت بڑا فین ہوں ،ناکافی ہے

جانے یہ اخبارِ نوجہاں والے واقعی یہ خط آپ تک پہنچائیں گے کہ نہیں.. لکھا تو یہی تھا کہ "اپنے محبوب فنکار کو خط لکھیں، آپ کا خط ہم پہنچائیں گے" اب جانے وہ کیسے پہنچائیں گے یہ خط آپ تک

بیٹھک کے گھپ اندھیرے کی انگلیاں ہوتیں تو وہ بھی آپ کو خط لکھتا. لکھتا کہ اس شام ساری بیٹھک میں آپ ہی تھیں. لکھتا کہ جب یہ گیت  "یہ نظر ان نظاروں سے ناراض ہے" چل رہا تھا تو سویٹزرلینڈ کے وہ برف پوش پہاڑ، وہ سبزے سے سجی وادی اور وادی کے بیچوں بیچ ناچتی ندی ، سب اس بیٹھک میں تھے

بیٹھک کے گھپ اندھیرے کا خط آپ تک کون ، کیسے پہنچائے گا

ورنہ وہ گھپ اندھیرا لکھتا کہ فلم میں جب جب آپ ہنسی ہیں،بیٹھک کے فرش پہ بیٹھے 'ندیم' کے ہونٹ مسکرائے ہیں. آپ کی آنکھوں کی نمی پہ، اس کی آنکھوں سے وہ سویٹزرلینڈ کی وادی کی ندی بہہ نکلی ہے

کیا آپ یہ خط پڑھ رہی ہیں؟ کیا واقعی اخبارِ نوجہاں والوں نے اپنے محبوب فنکار تک خط پہنچانے کا وعدہ پورا کیا ہے یا پھر یہ بھی غریب کی محبت کا مذاق ہے

کیا محبوب فنکار اپنے چاہنے والوں کے رقعوں کا جواب بھی دیتے ہیں؟ میں نے آج تک کسی کو خط نہیں لکھا، کبھی بھی نہیں. سکول میں چھٹی کی درخواست لکھوانا سکھایا تھا، مگر خط کیسے لکھتے ہیں، یہ کبھی نہیں سکھایا

پتا نہیں میں کیا کیا لکھ گیا ہوں، برا لگے تو پہلے خط کی پہلی غلطیاں سمجھ کے معاف کر دیجیے گا. رات بہت ہو چکی ہے. صبح جلدی اٹھوں گا کہ ڈاک خانے سب سے پہلے پہنچوں

اب آخر میں کیا لکھوں؟ آپ کا فین؟ آپ کا چاہنے والا؟ نہیں یہ شاید آپ کو اچھا نہیں لگے گا. آپ کا سب سے بڑا فین؟ کیا لکھوں، کچھ سمجھ نہیں آ رہا
ہاں اپنا پتا لکھ دیتا ہوں، مجھے امید تو  رہے گی

پہلی بار خط لکھنے والا

ندیم عالم

ڈاکخانہ بمقام سَدراں
براستہ سُفنا پور
ضلع و تحصیل منڈی تصور آباد




Sunday, March 07, 2021

گلابی دھبـّے

میری شادی اور کاظم سے، یہ بم نما خبر میرے سر پہ پھوڑی گئی تھی. اس دھماکے کے بعد کانوں میں مچھروں کی سی بھن بھن شروع ہو گئی تھی اور زبان پہ جیسے کسی نے کوئی وزنی پتھر رکھ دیا ہو. حلق تک وہ سوکھا پڑا تھا کہ سانس بھی رک رک کے نکل رہی تھی
یہ نہیں تھا کہ کاظم کوئی لوفر بدمعاش تھا، نہ ہی اسے کوئی موذی بیماری تھی، ہاتھ پیر بھی سلامت تھے، پچھلے ساڑھے تین سال سے وہ کریانے کی اپنی دوکان کھول کے اچھا خاصا کما بھی رہا تھا. یہ بھی نہیں تھا کہ مجھے کوئی اور پسند ہو
مسئلہ یہ تھا چھے سال پہلے باجی سعدیہ اور کاظم کی لو سٹوری شروع ہوئی تھی اور ان کے تمام تر خطوط، عید و سالگرہ کے کارڈز اور رقعہ جات کی قاصد میں رہی تھی. دونوں اطراف کے پیغامات میں خود پڑھتی رہی تھی. دونوں کی محبت تابڑ توڑ تھی. ایک ہی محلے میں رہنے کی وجہ ان کا آمنا سامنا ملنا ملانا ہوتا ہی رہتا تھا مگر پھر بھی پیغامات قریباً ہر دوسرے روز پہنچائے جاتے تھے. چاند راتوں پہ تحائف بھی میرے ذمے تھے کہ پہنچائے جائیں. بات خط و کتابت سے بڑھی اور خفیہ ملاقاتیں بھی ہوئیں جن میں، میں باجی سعدیہ کے ساتھ ہی جاتی تھی. اتنی نا سمجھ تو میں تھی نہیں کہ ملاقات کے بعد باجی سعدیہ کے لال گال، گردن اور چھاتی پہ گلابی دھبـے سمجھ نہ پاتی. وہ دونوں خوش تھے سو مجھے نہ کوئی اعتراض تھا نہ ہی کوئی مسئلہ
مسئلہ مگر تب ہوا جب دو سال پہلے پھوپھی شاہینہ نے اپنے بیٹے فرحان کے لیے باجی سعدیہ کا ہاتھ مانگا اور ابا اور اماں نے ایک لمحے میں ہاں کر دی. جھٹ منگنی پٹ بیاہ سن رکھا تھا مگر یہاں جھٹ پٹ بیاہ ہی ہو گیا تھا. فرحان کا سویڈن کا ویزہ لگا تھا اور اسے جلد جانا تھا اور جانے سے پہلے وہ شادی کر کے جانا چاہتا تھا. سب اتنی جلدی جلدی ہوا کہ باجی سعدیہ کے رونے دھونے کام آئے نہ ہی کاظم کچھ کر سکا
ان دونوں کی الوداعی ملاقات میں نے بار بار دھندلاتی آنکھوں سے دیکھی تھی. دونوں پہلے ایک دوسرے کو کوستے رہے، کچھ نہ کرنے کے طعنے مارتے رہے اور پھر اچانک گلے لگ کے روتے رہے. میں دروازے کی اوٹ میں تھی اور رو رہی تھی. نہ میں رونے کے علاوہ کچھ کر سکتی تھی اور نہ ہی وہ دونوں، سو سعدیہ باجی رخصت ہو گئیں اور وقت آگے بڑھنے لگا

اب باجی سعدیہ کے کاظم سے میری شادی ہو رہی تھی. کاظم کی اماں رشتہ لے کے آئی تھیں اور میرے گھر والوں کو اس پہ کوئی اعتراض نہ تھا. میرے آگے پڑھنے کے بہانے، اماں کو جذباتی کرنے کے سب ڈرامے رائیگاں ہی رھے. مجھ میں یہ ہمت نہیں تھی کہ گھر میں کسی کو بتا پاتی کہ میں کاظم اور باجی سعدیہ کی محبتوں، جذباتی خط و کتابت اور تمام حدود سے پرے کی ملاقاتوں کی چشم دید گواہ ہوں

کمرے میں تازہ پھولوں کی مہکار تھی، اتنے وزنی کپڑوں سے کندھے دُکھ رہے تھے اور بھاری زیور سے گردن جیسے لٹک رہی تھی. دروازے کو اندر سے چٹخنی لگا کے کاظم میرے سامنے بیٹھ چکا تھا. میرا دل گلابی عروسی جوڑے سے باھر نکل رہا تھا. اس نے میرے چہرے سے دوپٹہ ہٹایا اور منہ دکھائی کے کنگن میرے ہاتھ میں تھما دئیے. اس نے میری ٹھوڑی کو اٹھایا اور ماشا اللہ کہہ کے میرے چہرے کو چومنا چاہا. میں ایک دم پیچھے ہٹی، وہ پہلے ہکا بکا رہا پھر اس کے چہرے سے غصہ جھلکنے لگا. میں نے ڈرتے ڈرتے کانپتی آواز میں کہا "یہ سب کیسے، آپ اور باجی سعدیہ تو بہت محبت کرتے تھے، مجھ سے شادی کیوں" میری آواز بھرا گئی. اس نے پہلے غصے میں دوپٹہ کھینچ کے اتار پھینکا پھر میرے سامنے بیٹھ کے بولا " میں تم میں وہی سعدیہ دیکھتا ہوں، میرے لیے تم رابعہ نہیں، تم ہی سعدیہ ہو" اس کا  ہاتھ میرے کندھے سے اتر کے اس دل کی دھڑکنوں کو پکڑنے لگا جو کپڑوں سے باھر دھڑک رہی تھیں. "اور یقین مانو تم سعدیہ سے کہیں آگے کی شے نکلی ہو، تم بہت خوبصورت ہو" اس نے گلابی جوڑے کو اتار دیا اور میری گردن اور چھاتی کو گلابی دھبوں سے سجانے لگا 

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...