Wednesday, January 22, 2020

لاڈلا

مولوی احتشام الحق کی اذان اور تقریر سارے میں مشہور تھی. جتنے اونچے مسجد کے مینار تھے اتنی ہی اونچی مولوی احتشام کی آواز تھی. اونچے سُروں میں جب گلے سے "حیی علی الفلاح" نکلتا تو قدم مسجد کی طرف چل نکلتے. ارد گرد کے قریباً سبھی گاؤں عید میلاد النبی، سب برات، شب معراج، بڑی گیارہویں، محرم، عاشورہ وغیرہ کے لیے مولوی احتشام کو ہی تقریر کے لیے بلایا کرتے تھے. ایسی جوشیلی تقریر کہ سننے والے جھوم جھوم اٹھتے. ایسی پُر اثر تقریر کہ ابھی پچھلے دس محرم کے دن ان کی تقریر کے دوران بلک بلک کے روتے لوگوں میں چاچا رحمت اتنا روئے تڑپـے کہ مسجد میں ہی دل کا دورہ پڑا اور چل بسے. ختم سے لے کر تعویز تک، سب مولوی صاحب کے پاس ہی جایا کرتے تھے

مولوی صاحب فجر سے عشا تک سبھی اذانیں خود دیا کرتے تھے اور سبھی جماعتیں خود کروایا کرتے، کبھی کوئی ختم ، دعوتِ خطاب، سفر یا مسئلہ درپیش ہو تو الگ بات ہے. عصر سے پہلے کبھی مسجد میں اور کبھی اپنے حجرے میں بچوں کو قرآن پڑھایا کرتے تھے. حجرہ کیا تھا، مسجد کے پچھواڑے میں تین کمروں کا پکا مکان تھا جہاں مولوی احتشام اکیلے رہا کرتے تھے. ان کے بیوی بچے آبائی گاؤں خیر نگر میں رہتے تھے

بچوں کی خاصی تعداد قرآن پڑھنے آیا کرتی تھی اور سبھی اس بات پہ متفق تھے کہ وقار علی، مولوی صاحب کا بھی لاڈلا ہے. وقار علی چھے بہنوں کا اکلوتا اور سب سے چھوٹا بھائی تھا، سو گھر والوں سے لاڈ ایسا اور اتنا ملتا تھا کہ گاؤں بھر میں وہ "لاڈلے" کے نام سے پکارا جاتا تھا. کچھ لوگ تو اسے دِھیاں ورگا پُتر (بیٹیوں جیسا بیٹا) بھی کہا کرتے تھے. لاڈلے کو اس لاڈ نے بہت نقصان پہنچایا تھا، وہ سب کے سامنے بالکل خاموش اور سر جھکائے رہتا. اسے لاڈلا گالی لگتا تھا. پانچویں سے چھٹی جماعت میں آ گیا تھا مگر اعتماد نام کی شے کہیں بھی نہیں تھی. پڑھائی میں اچھا ہونے کے باوجود ہم جماعت لڑکوں کی باتوں پہ جھکا ہوا سر اور جھکا لیتا اور لال گال لیے چپ سادھ لیتا. ایک بار اس کی طبیعت کچھ خراب تھی تو باجی نائیلہ اس کا بستہ اٹھائے اسے سکول چھوڑنے آئیں تھیں، تب بچوں نے اسے بہت تنگ کیا کہ "باجی، اپنی چھوٹی بہن کو سکول چھوڑنے آئی ہیں" وہ سرخ کان لیے کتاب میں گھس گیا

مولوی صاحب بچوں کو پڑھانے میں سخت طبیعت رکھتے تھے. بچے مار کے ڈر سے سبق خوب رٹ کے آیا کرتے تھے. والدین کو مار پہ اعتراض نہیں تھا، بچے قرآن مکمل پڑھ لیں بس. اپنے بیٹے کو پہلی بار پڑھنے کے لئے چھوڑنے آئے امتیاز بٹ کا کہنا تھا کہ مولوی صاحب، اس کی چمڑی آپ کی ہے، بس ہڈیاں میری ہیں انھیں کوئی نقصان نہ ہو.. مگر وقار لاڈلے کو مار اور سختی سے استثنا تھا. لاڈلے کو مولوی صاحب ہمیشہ اپنے پاس بٹھاتے، اس کے گال سہلاتے کبھی کمر پہ اور ران پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے سبق پڑھایا کرتے.

اس دن گو کہ سبق سے چھٹی تھی مگر ظہر کی نماز پڑھتے وقار لاڈلے کو مولوی صاحب نے پڑھنے کے لئے اپنے حجرے میں آنے کو کہا. لاڈلا نماز کے بعد گھر چلا گیا اور پھر گھر سے کافی دیر سے آنے کے بعد مولوی صاحب کے پاس بیٹھا لہک لہک کے سورۃ الرحمٰن کی آیات پڑھ رہا تھا.
مولوی احتشام سفید بنیان اور دھوتی میں تکیے سے ٹیک لگائے آدھے بیٹھے آدھے لیٹے ہوئے تھے. دایاں ہاتھ لاڈلے کی کمر سہلا رہا تھا اور بایاں ہاتھ دھوتی کے اندر مسلسل ہل رہا تھا. زیر زبر کی غلطی پہ لاڈلے کے گال پہ چٹکی بھرتے اور ہنسنے لگتے. کمرے کا دروازہ بھی بند تھا اور اندر کچھ حبس سے اور کچھ ہوس سے پسینہ بہہ رہا تھا. پڑھتے پڑھتے مولوی صاحب نے وقار علی کو پکارا

لاڈلے ادھر آؤ یہاں بیٹھو

اور پھر اس کی ہچکچاہٹ پہ اسے پکڑ کے اپنی جھولی میں بٹھا لیا اور اسے پڑھنے کا کہتے ہوئے کھی کھی کرنے لگے. وقار لاڈلا مولوی احتشام کی جھولی میں تھا اور لاڈلے کی جھولی میں سورۃ الرحمٰن، وہ پھر مخصوص انداز میں آگے پیچھے ہلتے ہوئے لہک لہک کے "فبای الا ربکما تکذبان" پڑھ رہا تھا اور مولوی احتشام کی ہنسی اور جھولی میں طوفان آیا پڑا تھا

بہت گرمی ہے بھئی لاڈلے، آف آج تو بہت گرمی ہے

کہتے ہوئے مولوی صاحب نے دونوں اطراف سے دھوتی کے پلو کھینچ لیے اور لاڈلا ننگی ٹانگوں پہ آ رہا. مولوی صاحب نے سورہ اس کے ہاتھ سے لے کے چارپائی پہ رکھی اور بیٹھے بیٹھے اس کی شلوار نیچے کھینچ دی. لاڈلا سرخ پڑ گیا اور مولوی احتشام کی کھی کھی کھی جاری رہی. وقار کی چیخ پہ فوراً اس کے منہ پہ ہاتھ دھرتے ہوئے مولوی احتشام کھی کھی کھی کے ساتھ "کچھ نہیں ہوتا لاڈلے، بس تھوڑا سا اور، کوئی بات نہیں، یہ ہو گیا بس بس" کہتے رہے، لاڈلا پہلے تڑپا اور کسمساتا رہا اور پھر بالکل ڈھیلا پڑ گیا. مولوی احتشام کی گود میں لاڈلا یوں بـے جان سا پڑا تھا جیسے چارپائی کی دوسری طرف قرآن چپ پڑا تھا

باھر دروازہ بجا "مولوی صاحب، عصر کی اذان کا وقت ہو گیا ہے" مولوی احتشام نے فوراً لاڈلے کو چارپائی پہ لٹایا اور "میں آیا بس" کہہ کے فوراً شلوار قمیض پہنی اور اسی حالت میں جا کے لاؤڈ اسپیکر پہ مسجد کے میناروں سے بھی اونچی آواز میں "حیی علی الفلاح" کی آوازیں لگانے لگے 

Saturday, January 11, 2020

شہنائی

ڈھول کی تھاپ پہ میرے کندھے نہ چاہتے ہوئے بھی تھرکنے لگتے ہیں مگر آج سامنے والی گلی میں ڈھول بج رہا ہے اور اپنی بیٹھک میں، میں کندھے جھکائے بیٹھا ہوں

ڈھول ایک ردھم میں بجتا ہے، پھر زور کی تھاپ شروع ہوتی ہے اور آخر میں ردھم وہی رہتا ہے مگر ڈھول پہ تھاپ کی رفتار تیز تر ہوتی جاتی ہے اور سننے والوں کے پیروں میں جیسے کرنٹ چھوڑ دیا جاتا ہے. ڈھول بج رہا ہو اور بھنگڑا ڈالنے کا من نہ کرنا، دل پہ کالی مہر لگے ہونے کی نشانی ہے
ڈھولی ڈھول بجا رہا ہے اور شہنائی جانے کس کا ماتم کر رہی ہے . مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ شہنائی کا شادی پہ کیا مطلب، شہنائی تو چیخ ہے، دل چیرنے دینے والی چیخ

اس وقت بیٹھک کے ایک کونے میں میں دبکا بیٹھا ہوں اور ایک چیخ میرے اندر دبکی بیٹھی ہے، بیٹھک میں باھر سے آتے شور کا طوفان ہے اور اندر کہیں گھپ اندھیری چُپ کا آسیب

ایک خط سامنے دھرا ہے، خط کیا ہے رقعہ ہے. کاپی کا جلدی میں بے ترتیبی سے پھاڑا ہوا آدھا کاغذ.. آدھی تقدیر کا ٹکڑا... کاغذ پہ نیلی سیاہی میں لکھے کچھ جملے ہیں ، اس پہ چار چھے جگہوں پہ سیاہی پھیلی ہوئی ہے، کچھ لفظوں کے اندر سے طوفان شاید باھر امڈ آیا ہو گا

باھر ڈھول خاموش ہو گیا ہے اور ڈیک پہ "دل کی حالت کس کو بتائیں، ہم بھی پاگل تم بھی پاگل" چل رہا ہے

کوئی ڈیڑھ سال پہلے گھر کی چھت پہ گرمیوں کی شام اتری تھی کہ چھوٹی بہن رابعہ سلیقے سے تہہ کیا ہوا ایک کاغذ مجھے تھما کے بولی
باجی تانیہ نے یہ دیا ہے، کہہ رہی تھی اپنے بھائی شاہد کو تب دینا، جب کوئی پاس نہ ہو
میں نے جلدی سے کاغذ اس کے ہاتھ سے لے لیا اور اسے چِلی مِلی کا لالچ دے کے کسی کو بھی بتانے سے منع کر دیا

تانیہ جتنی خوبصورت تھی، اتنی ہی لکھائی بھی خوبصورت تھی. ایسے لکھتی تھی جیسے 'جمال خوشخط پینٹر' سے ابا ہر سال عید میلاد النبی کا اشتہار لکھوایا کرتے تھے. میں تانیہ کو چھپ چھپ کے دیکھا کرتا تھا اور اتنا چھپ کے کہ اسے خبر ہو جاتی تھی. وہ نِمّا سا مسکراتی تو دل چھاتی سے باھر دھڑکنے لگتا

ہم خطوط کے ذریعے ایک دوسرے کے قریب ہوتے گئے. پھر کبھی موقع ملتا تو روبرو ملاقات بھی نصیب ہو جاتی. دل نے فیصلہ کر لیا تھا کہ زندگی تو تانیہ کی تان پہ گزارنی ہے بس... اسی سُر تان میں وقت گزرتا گیا اور پتا تب چلا جب تانیہ کے گھر 'بیری پہ پہلا پتھر' آیا.. پتھر بہت بڑا تھا، کوئی شہابِ ثاقب تھا.. تانیہ کی پھوپھی اپنے بیٹے کا رشتہ لے کے آئی تھیں اور تانیہ کے ابا اس رشتے کو انکار گویا کفر قرار دے چکے تھے.

وہی خط جو پہلے بہاروں میں کھلے پھولوں کے گلدستے لگتے تھے، سوکھے پتے اڑاتی خزاں کا مقدر ہو گئے. وہ جو مسکراتی تھی تو دل چھاتی کے باھر دھڑکتا تھا، اب آنکھوں میں آنسو لیے سامنے آتی تو دل سانس لینا بھول جاتا
سارے محلے کو پتا تھا کہ تانیہ کا رشتہ ہو گیا ہے، ایسے میں، میں ابا سے اس رشتے کی بات کیسے کرتا،بس خط میں اسے جھوٹی تسلیاں دیتا رہتا یا شاید خود کو.. ان دنوں میں صحراؤں میں رہتے بنی اسرائیل کے لوگوں جیسا ہو گیا کہ بس کچھ معجزہ ہو جائے، خدا اترے کسی چھت پہ، مجھے اور تانیہ کو آشیرباد دے کے کہے کہ جاؤ تم دونوں اب ایک ہو

کبھی سوچتا کہ اسے لے کے بھاگ جاؤں، یہاں سے دور کہ یہاں پہ معجزے بھی مر چکے ہیں. یہاں سے ہم نکلیں تو چار کوئی گھنٹے میں لاہور پہنچ جائیں گے، لاہور بہت بڑا ہے، وہاں کچھ نہ کچھ ہو جائے گا.. اپنی ادھوری پڑھائی اور مکمل بے ہُنری کے باوجود سوچ جھوٹے راہ دکھا رہی تھی. کبھی سوچتا کہ رات کے اندھیرے میں گھر سے نکلوں، چاچا عزیز کی رائفل، جو وہ ہر دوسرے ہفتے دیوار سے اتار کے صاف کر کے واپس ٹانگ دیتے تھے، چراؤں اور تانیہ کے پھوپھی کے بیٹے کو سوتے میں ہی گولی مار دوں. تانیہ کی ڈھولی اٹھانے والے کا جنازہ اٹھے. کبھی سوچتا کہ کوئی سیلاب آئے، سارا گاؤں بہا کے لے جائے بس میں اور تانیہ بچ جائیں

انھیں سوچوں میں گم، معجزوں کی لاشوں کو ڈھوتا پھر رہا تھا کہ اس شام مایوں بیٹھی تانیہ کا خط رابعہ نے میری قمیض کی جیب میں ڈال دیا. خط کیا تھا رقعہ تھا، کاپی کا جلدی میں بے ترتیبی سے پھاڑا ہوا آدھا کاغذ.. میں جو سوچوں میں خدا اپنی چھت پہ اتار چکا تھا، جو لاہور جا کے تانیہ کے ساتھ زندگی بسر بھی کر چکا تھا، اس رقعے کو پڑھنے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا. ساری رات ہاتھ اور جیب کی جنگ جاری رہی اور صبح اس جنگ کے خاتمے کا طبل تب بجا جب ڈھول کی پہلی تھاپ کانوں میں پڑی

کاغذ کا ٹکڑا ہے ، اس پہ چند جملے گھسیٹے ہوئے ہیں جیسے لاش گھسیٹی گئی ہو

"شَیدی! آج کی رات ہے، دعاؤں کے کبوتروں کے پر، آسمان تک پہنچنے سے پہلے ہی جل چکے ہیں، یا تو میں تمہارے ساتھ بھاگ جاؤں یا خود کو ایک ایسی کھونٹی سے باندھ دوں جس پہ میری ماں کب سے بندھی ہے اور محلے کی ہر دوسری عورت باندھی جاتی ہے.. شیدی بس ایک اشارہ کرو میں تم سے بھی دو قدم آگے چلوں گی، میری زندگی" اس سے آگے کچھ نہیں لکھا. جملہ پتا نہیں ادھورا ہے یا پورا

باھر شہنائی پھر چیخی ہے اور بے ترتیبی سے پھٹے رقعے پہ نیلی سیاہی اور پھیل چکی ہے 

Thursday, January 02, 2020

الٹی گنتی

جب یہ حکم مجھ پہ صادر ہوا تب میرے پاس انکار کی گنجائش تو کیا خاک ہوتی، سمجھنے کی عمر بھی نہیں تھی

"نبیل حافظِ قرآن بنے گا"

حفظ کراتے ہوئے الٹا قرآن حفظ کرانا شروع کراتے ہیں، سو حفظ کا پہلا سبق تیسواں پارہ تھا. پہلے دن کا سبق ہی ہوش اڑانے کو کافی تھی. زبان تھی کہ نہ کبھی بولی نہ سنی، سمجھنی تو بہت دُور کی بات ہے. اب ایک سطر ختم ہوتی تو دوسری شروع کرنے تک پچھلی بھول جاتی

مولوی صاحب کے پاس جاتے کوئی چوتھا پانچواں دن تھا اور جو پچھلے دنوں رٹا لگایا تھا وہ سناتے ہوئے بار بار گڑبڑ ہو رہی تھی. دو تھپڑ بھی رٹا ہوا سبق یاد نہیں کرا سکے تھے کہ میں نے روتے ہوئے قمیض سے بہتی ناک صاف کرتے تقریباً منت کرتے ہوئے کہا کہ "مولوی صاحب، کوئی قرآن اردو میں نہیں ملتا کہیں سے؟ وہ آسانی سے رٹ لوں گا میں" مولوی صاحب کی داڑھی میں جیسے طوفان آ گیا، میرے سر کے بال پکڑے اور اپنے گوڈے کے نیچے میرا سر دے کے میری کمر پہ تھپڑوں کی موسلا دھار بارش کر دی "معاف کر دیں مولوی صاحب، معاف کر دیں، آئندہ نہیں کہوں گا"

شکایت ابا کو لگائی گئی تو مسجد اور گھر میں فرق ہی مٹ گیا. وہاں خدا کے گھر میں مار کھانے کے بعد اپنے گھر میں خدا نما سے سلیپر کھائے. ابا ایک ہی سانس میں ماں بہن کی گالیاں دے رہے تھے اور اسی سانس میں اللہ رسول سے محبت یاد دلوا رہے تھے اور میں مسلسل مار کھاتے، روتے ہوئے یہی سوچ رہا تھا کہ میں نے ایسا کیا کہہ دیا تھا کہ ایک نو سال کے بچے کو ایک بات کہنے پہ نہ اللہ اپنے ہی گھر میں بچا سکا ہے نہ میرے گھر میں

ابا قرآن تو کیا، اخبار بھی نہیں پڑھ سکتے تھے، سو ان کا دیرینہ خواب بھی تھا اور مسلسل نو بچے پیدا کرتے ہوئے جانے کب یہ وعدہ بھی خدا سے کر بیٹھے تھے کہ ایک بیٹے کو حافظِ قرآن ضرور بناؤں گا. ابا گھر آتے جاتے ہر بندے کو یہ بات ضرور کہتے تھے کہ میرے باقی بیٹے میرے بڑھاپے کا سہارا ہیں اور میرا بیٹا نبیل میری آخرت کا آسرا ہے کہ ایک حافظِ قرآن روزِ قیامت گیارہ نسلوں کی بخشش کرے گا. اسی لیے میں ابا کے حکم پہ اپنی اگلی پچھلی نسلیں بخشوانے کی مشقت میں پڑا ہوا تھا

ابا کے حکم کے آگے کسی کی نہیں چلتی تھی. کبھی کبھی تو لگتا کہ ابا کے حکم کے آگے تو خدا بھی نہیں چلتی. بہنیں گھر داری میں ابا کے حکم ناموں پہ چل رہی تھیں اور بھائی سب ابا کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کیے سکول کی کتابوں کے یونہی رٹے لگا رہے تھے جیسے میں قرآن کے

سو گاؤں کی جامع مسجد میں آگے پیچھے، مسلسل ایک ردھم میں، ہلتے ہوئے مولوی صاحب عبدالحق کی ٹاہلی کی چھمکیں کھاتے، روتے دھوتے، رٹے لگاتے، جیسے تیسے کر کے آدھا قرآن تین سال میں حفظ کیا ہی تھا کہ ابا کی ناگہانی موت نے جیسے وقت ہی روک دیا تھا. حکم آنے ایک دم بند ہو گئے. اماں ایک طرف ابا کی لاش کو دیکھتی تو ایک طرف باقی بہن بھائیوں کو. سب ایک طرف سر جھکائے بیٹھے تھے اور میں مسلسل ابا کے سرہانے بیٹھا ابا کے پیار اور مار کے بیچ لڑھکتا ہوا اپنی تین سالہ محنت دہرائے جا رہا تھا

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...