Saturday, December 23, 2017

اَن سُنا سوال

"موسیقی اگر روح کا کھانا ہے تو شاعری اس کھانے کا نمک ہے"... یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے کندھے پہ جھولتے بیگ سے فیض کی 'نسخہ ہائے وفا' تھما دی .. "تمہاری آواز اچھی ہے مگر گانا سیکھے بنا کچھ نہیں ہو گا، اور تمہارے گھر والے اپنے چوہدری پُتر کو میراثی تو نہ بننے دیں گے، سو شاعری پڑھا کرو"...
اب نسخہ ہائے وفا چارپائی کے سرہانے دھری تھی اور میں اس منظر کے نشے میں گم جب کتاب نکال کے دیتے سمے اس کے بال منہ پہ جھک آئے تھے جیسے رات بڑھ کے چاند چُوم لے..
ہمارا خاندان گاؤں کا باعزت، بارسوخ خاندان تھا... اب فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ باعزت ہونے کی وجہ سے با رسوخ تھا کہ بارسوخ ہونے کے کارن عزت دار.... ابا جی خاندان کے بڑے تھے سو ان کا حکم قریب قریب حکمِ خداوندی تھا.. ایسے بارعب شخص کا بیٹا گانے گاتا پکڑا جائے تو 'واجب القتل' ہی گردانا جائے گا.. یہ بات مجھ سے بہتر "شائستہ" نے جان لی تھی.. شائستہ وہی جس کے رات جیسے بال اس کے چاند جیسے چہرے کو چومتے پائے گئے تھے..
شائستہ ساتھ والے گاؤں سے تھی.. وہ کشمیری خاندان سے تھی اور اس کی خوبصورتی اور اعتماد اس کے کشمیری ہونے کی دلیل تھی ... شائستہ اور میرا کالج ایک ہی تھا.. ہم ایک ہی ویگن پہ کالج جایا آیا کرتے تھے.. کالج ایک ہی تھا گو کہ ایک دیوار بیچ میں تھی مگر فنکشنز وغیرہ اکٹھے ہوتے تھے اور یہی دن لڑکوں کی چاندی کے ہوتے تھے...
مجھے شائستہ سے محبت تھی.. بہت تھی.. اور وہ یہ جانتی بھی تھی مگر کبھی یہ اعترافِ جرم اس نے نہیں کیا تھا... مجھ سے جب بھی ملتی، بات کرتی، مگر میری محبت کا سوال ہمیشہ ان سنا کر دیتی...
وقت گزرا، بی اے کے  امتحانات سے قبل ہی میں اہم پی اے بن گیا اور میری مصروفیات میرے شوق اور میری محبت کے آڑے آنے لگیں..
پھر صوبائی اسمبلی کی وزارت ہاتھ لگ گئی اور میں لاہور منتقل ہو گیا.. سیاست، جوڑ توڑ، فنڈز، مخالف پارٹی سے بیر اور الیکشنز،بس یہی میری کل کائنات تھی... چھوٹا بھائی جب کچھ بڑا ہوا تو میں ایم این اے کی سیٹ پہ جا براجمان ہوا اور چھوٹا میری سیٹ پہ... ایک بہت بڑے سیاسی خاندان کے گھر شادی بھی ہو گئی.. تین بچے بھی ہوگئے... کبھی کبھار گاؤں کا چکر لگتا تو وقت ملنے جلنے میں ہی کٹ جاتا...
کبھی حکومت اور کبھی اپوزیشن کرتے وقت ایسا بھاگا کہ بالوں میں سفیدی بھر گیا... بچے جوان ہو گئے.. بڑا بیٹا سیاست میں، منجھلا کاروبار میں جا لگا... سب سے چھوٹی بیٹی کالج جانے کو تھی..
پھر سیاست سے ریٹائرمنٹ کا وقت بھی آیا اور عمر ارباب خان میرا بڑا بیٹا میری جگہ لے چکا تھا.. اور میں مہر ارباب خان اپنے گھر کا ہو رہا.. گھر کی لائیبریری میں جا گھستا اور کتب بینی کرنے لگتا..
اس دن رابعہ میری بیٹی میری جان چکن سُوپ لیے ڈرائنگ روم میں آئی جب میں سٹڈی روم میں جانے کے لیے کھڑا ہی ہوا تھا..
"بابا یہ لیں چکن سوپ اور میری ایک بات ہے جس پہ آپ کوئی اعتراض نہیں کریں گے" اس کے اس لاڈ بھرے انداز گفتگو کا میں دیوانہ تھا ..
"حکم کریں مہاراج"... ہم چلتے چلتے سٹڈی روم میں آ چکے تھے اور میں اتنی کتابوں میں کسے پڑھوں یہ سوچ رہا تھا.. رابعہ نے چکن سوپ میز پہ رکھا اور میرے ساتھ کتابوں کی ونڈو شاپنگ کرنے لگی..." بابا میں میوزک کرنا چاہتی ہوں اور پلیز نو اعتراض بابا"... یہ کہتے ہوئے  شیلف کے نچلے حصے سے کتاب اٹھاتے ہوئے اس نے سَر جھکایا تو اس کے بال منہ پہ جھک آئے جیسے رات بڑھ کے چاند چوم لے اور پھر 'نسخہ ہائے وفا' میرے سامنے رکھتے ہوئے وہ ایک سوال بنی مجھے دیکھنے لگی... 

Sunday, November 05, 2017

حیّی علی الفلاح

"چل آ فیصل تجھے استاد کے پاس لے جاتا ہوں" شاکر اس کا ہاتھ تھامے گلی کی نکڑ پہ کھڑا تھا..
"نہیں شاکر، یہ گناہ ہے یار" شاکر نے مسکرا کے اس کے کندھے پہ ہاتھ دھرا "تُو رب دی قسم سچ کہتا ہے مگر جب اپنوں کے جسم بھوک سے پنجر بننے لگتے ہیں تو.... ٹُو کوشش کر لے، کوئی کام مل جائے، تُو صاف دل ہے، تیری رب ضرور سنے گا"... شاکر سلام لے کے چل دیا اور وہ گھر لوٹ آیا.. ٹوٹے دروازے کا پٹ کھول کے اندر آیا، دروازہ چیخ چیخ کے "جی آیاں نوں " کہہ رہا تھا.. پٹ یوں ہلے جا رہا تھا جیسے سلامیاں دے رہا ہو.. ماں چھوٹے سے صحن کے ایک کونے میں اینٹ پہ بیٹھی، چولہے میں گیلی لکڑیوں کو پھونکنی سے سلگانے کی کوشش کر رہی تھی.. سارے میں دھواں بھرا تھا.. گیلی لکڑی دل کی طرح، نہ جلے ہے نہ بجھے ہے، بس دھواں ہی دھواں.. ماں کھانستے جا رہی تھی، پانی آنکھوں سے بہے جا رہا تھا.. جیسے گاؤں کے باھر کا بڑا نالہ ساون میں بہے ہی جاتا ہے، جس میں کبھی کبھی قیمتی چیزیں بھی مل جاتی تھیں مگر یہ ماں کی آنکھ کا نالہ تھا، یہاں دکھ ہی دکھ ملتے تھے... بہت قیمتی دکھ.. سینے سے لگا کے رکھنے والے دکھ.. شوھر کے مر جانے کا دکھ.. چودہ سالہ فیصل، نو سالہ سعدیہ کا دکھ.. بھوک اور مستقبل کا دکھ.. آنے والے کل کا دکھ.. جاتے ہوئے پل کا دکھ..
دو آلو، پانی میں ڈالے، ہنڈیا چولہے پہ رکھے، وہ رو رہی تھی کہ آگ جلا رہی تھی.. اندر کی آگ تھی کہ چولہے کی، دھواں دھواں کر رہی تھی..
فیصل کھانسنے لگا تو ماں نے مڑ کے دیکھا "آ گیا پتر، کوئی کام ملا؟"... یہ سوال سب سلام دعا سے پہلے آتا ہے.. "وہ اچھّو ویلڈنگ والے کے پاس گیا تھا اور عاطی سائیکلوں والے پاس بھی.. کہتے ہیں پہلے ہی اتنے بندے ہیں، تیرا کیا کریں گے ہم.. ناجُو نائی کے پاس بھی گیا تھا.. کہتا ہے چھوٹی سی دکان ہے، دو کرسیاں ہیں، دونوں بھائی کام. کرتے ہیں، تیرے لئے تیسری کرسی کہاں رکھوں اور کہاں سے رکھوں "... ماں کھانسنے لگی اور فیصل آنکھیں پونچھتا اندر گھس گیا.. سعدیہ سو رہی تھی، اس نے بہن کا ماتھا چوما تو ٹھٹک گیا، ماتھا تھا کہ توا.. تپ رہا تھا.. ہونٹ جل اٹھے تھے..." ماں سعدیہ کو بخار ہے"وہ ماں کے کندھے کھڑا تھا.." ہاں ہے تو.. ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھ ماتھے پہ، ٹھیک ہو جائے گی".. ماں کھانسنے لگی.. وہ ٹھنڈے پانی میں پٹیاں بھگو بھگو رکھتا رہا.. اس نے سعدیہ کو ہلایا جلایا مگر وہ بہت گہری نیند میں تھی شاید.. ہلی تک نہیں... فیصل ڈر گیا.. وہ چیخا "ماں، سعدیہ بے ہوش ہے، اٹھتی ہی نہیں "... ماں کے ہاتھ سے پھونکنی گر پڑی اور دوڑی اندر گئی، سعدیہ کو آوازیں دیں، ہلایا جلایا مگر........
وہ دونوں اسے اٹھا کے ڈاکٹر اکرم کی بیٹھک میں لے آئے، ڈاکٹر اکرم نے نبض چیک کی، یوں چل رہی تھی جیسے کوئی ٹرین سٹیشن پہ رکنے لگی ہو... ڈاکٹر نے اپنی سی کی مگر بـے سود.. ٹرین سٹیشن پہ رک گئی تھی.. سٹیشن آ گیا تھا، آخری سٹیشن.. بس  دو چیخیں تھیں ، باقی خاموشی ہی خاموشی تھی.. سٹیشن ویران پڑا تھا... دفنا دیا.. اتنی سی جان کو.. ماں کی طرح قبر بانہیں پھیلائے کھڑی تھی.. ماں بیٹی کا ملن تھا .. ہو گیا
دو چار دن.. دو ہفتے.. ایک ماہ.. دو ماہ گزر گئے.. وہی صحن تھا.. وہی ماں تھی، وہی گیلی لکڑیاں سلگاتی، کھانستی، روتی.. وہی فیصل ہر جگہ کام کی بھیک مانگ آیا مگر عجب قحط پڑا تھا اب کے..
ماں کمرے میں منہ لپیٹے جانے کس کس کا ماتم کر رہی تھی.. فیصل اٹھا اور دروازہ کھول کے باھر نکل گیا.. دروازے کا "خدا حافظ" دور تک سنائی دیتا رہا... وہ شاکر کے پاس گیا تھا...
شاکر ایک جیب کترا تھا.. فیصل ہی کی عمر کا تھا... باپ فالج نے چارپائی پہ ڈال دیا تھا، ماں گونگی تھی اور کسی کے گھر برتن دھوتی، صفائی کرتی تھی.. دو چھوٹی بہنیں گھر کے آنگن میں دوڑتیں تو تین سیکنڈ میں سارا صحن ناپ لیتیں.. پیٹ خالی رہیں تو بددعائیں ہیں.. یہ دوزخ بھرنے ہی ہوتے ہیں سو شاکر یہ دوزخ چوری کی لکڑیوں سے بھر رہا تھا..
پھر وقت نے "Note It" کا سائن بورڈ لگایا، اسی جیب کترے شاکر کے ساتھ فیصل، استاد کے سامنے دو زانو بیٹھا اسرار و رموز سیکھ ریاتھا.. ایک ہنر منتقل ہو رہا تھا.. دو انگلیاں، نئی دو انگلیوں کو ہنر بخش رہی تھیں، ہنر کیا، رزق بخش رہی تھیں.. ہفتے، دو ہفتے میں فیصل ٹھیک ٹھاک ہاتھ دکھانے لگا.. ماں کو اس نے یہی بتایا کہ گاڑیوں کی ورکشاپ پہ کام کرتا ہوں.. دو وقت کی روٹی چلنے لگی.. وقت گزرتا جاتا ہے یہ دیکھے بنا کہ کون جی رہا ہے، یا کیسے جی رہا ہے.. وقت ہاتھی ہے، روندتا نکل جاتا ہے.. سال ہو چلا تھا، فیصل محنت کی کما رہا تھا، کھا رہا تھا، کھِلا رہا تھا..
ایک دن اس نے استاد کو جا لیا "استاد یہ کام گناہ ہے، تو پھر بھی یہ کرتا ہے.. کیوں"... یہ بات اسے بہت کھٹکتی تھی.. کئی بار تو جیب کاٹتے اس کے ھاتھ باقاعدہ کانپ جاتے تھے.. شاکر اسے کہتا تھا کہ جب تو جیب مار کے آتا ہے تو رس گلے سے شِیرے کی طرح، تیرے منہ سے شرمندگی ٹپک رہی ہوتی ہے، صاف لگتا ہے تُو جیب مار کے آیا ہے.. اسی بات کو لے کے فیصل کئی راتیں آنکھوں میں کاٹ چکا تھا.. آج استاد کو پوچھ ہی لیا.. "تُو کل آنا شاکر کے ساتھ، تجھے تیرا جواب دِکھا دوں گا"...
اگلی سہ پہر استاد اپنی ٹانگ لنگڑاتا آگے آگے تھا اور دونوں شاگرد باادب پیچھے پیچھے.. استاد کی دائیں ٹانگ بچپن سے خراب تھی اور وہ وزن بھی نہیں اٹھا سکتا تھا.. بہت دور چلنے کے بعد "محلہ نون پورہ" آیا.. جھُگیوں کا دیش...
جھگیاں یوں سَر جوڑے کھڑی تھیں جیسے مائی نیامت، کسی عورت کے کان میں کسی کے فحش راز کھول رہی ہو.. استاد جیسے ہی محلے میں داخل ہوا، بارہ چودہ بچے "لالا آیا.. لالا آ.. یا..." کے نعرے لگاتے اس کی جانب لپکے.. استاد بچوں کو ٹافیاں دیتا جا ریا تھا.. استاد ایک بڑی والی جھُگی میں گھس گیا.. فیصل اور شاکر اندر گئے تو حیران رہ گئے.. نیچے ٹاٹ پڑے تھے، اوپر بستے اور قاعدے پڑے تھے.. سکول کی کتابیں.. فیصل منہ کھولے استاد کا منہ دیکھنے لگا..
"یہ میرا محلہ ہے، محلہ نون پورہ.. ایسے ہی کسی محلے میں میں ننگ دھڑنگ بچپن کاٹا ہے.. ایسے ہی مجھے کسی نے پالا تھا.. اب میں انھیں پال رہا ہوں.. ان سے میرا کوئی رشتہ نہیں، یہ میرا خاندان ہیں.. میں چھے جماعتیں پڑھا ہوں، سو شام کو انھیں پڑھاتا ہوں.. انھیں سکھاتا ہوں کہ جھوٹ نہ بولو، بھیک نہ مانگو، چوری نہ کرو، چوری کرنا گناہ ہے "یہ کہتے ہوئے استاد رو دیا.. اس کی دونوں آنکھیں یوں ٹپکنے لگیں جیسے بارش میں نون پورہ کی جھگیاں ٹپکتی ہیں..." اب میں کیا کروں، مجھے کوئی کام نہیں آتا، وزن اٹھا نہیں سکتا، چل پھر نہیں سکتا.. اب کیا کروں، یہ میری ذمہ داری ہیں.. میں استادی نہ کروں تو یہ چوری کرنے لگیں.. بھوکے مریں.. بھیک مانگنے نکل پڑیں، پھر کوئی استاد جنم لے، پھر نئے فیصل اور شاکر ھر وقت کے چکر میں شامل ہوتے رہیں.. یہ سلسلہ چل پڑے گا، مگر نہیں نہیں.. یہ جو سلسلہ میں نے شروع کیا ہے، اب یہ چلے گا.. یہ پڑھیں گے، کام کریں گے.. بھیک نہیں مانگیں گے، چوریاں نہیں کریں گے.. اب یہ سلسلہ چل نکلے گا.. پھر کوئی استاد، کوئی فیصل، کوئی شاکر اس دھرتی پہ بوجھ نہیں ہو گا.. "... استاد کا چہرہ جذبات سے لَش پَش تھا..
فیصل نے سر اٹھایا" استاد میں بھی سکول جاتا رہا ہوں، میں شام کو پڑھا دوں انھیں؟"... استاد نے کھینچ کے اسے گلے لگا لیا.." بڑا احسان ہو گا فیصلے تیرا... ".. فیصل کان کھجاتا ہوا بولا" احسان کیسا استاد، یہ میرے اپنے ہیں، میں بھی انھیں کی نسل کا ہوں ، میری ذات بھی غریب ہے، میرا سلسلہ نسب بھی بھوک سے جا ملتا ہے "...
پھر وہ ہر شام نون پورہ جانے لگا.. بچے پڑھ رہے تھے.. ایک جیب کترا علم. کی روشنی ذہنوں میں بھر رہا تھا.. ایک اندھا، راستہ دکھا رہا تھا.. ایک چور، ایک نسل بچا رہا تھا..
گھر آتا تو ماں سے ادھر ادھر کی باتیں سنتا اور سناتا، جی بہلاتا.. ماں سو جاتی تو خود سے باتیں کرنے لگتا.. بِیتے دن یاد آتے.. گزرتا دن بھولنے کی کوشش کرتا.. اب ایک خواب اس کی آنکھوں کی گلی کے چکر کاٹتا تھا.. وہ ایک دنیا بنانے چلا ہے، جہاں سب برابر ہوں گے.. جہاں سب ہاتھ تھامے، کندھا ملائے، ساتھ چلیں گے.. بس ایک ہی رشتہ ہو گا مسکراہٹ کا رشتہ..
غریب کے خواب بھی کتنے عجیب و غریب تھے..
پھر ایک دن استاد کو پولیس نے پکڑ لیا اور سال بھر کے لیے جیل میں ڈال دیا.. بڑی منت سماجت کی، کچھ مال بھی دینا چاہا مگر غریب کا واسطہ ایماندار افسر سے پڑ گیا تھا.. اب استاد کے بعد، ان بچوں کی مکمل ذمے داری فیصل پہ تھی.. وہ اپنا فرض ادا کرنے لگا..
دن گزر رہے تھے.. نون پورہ کے بچے شوق سے پڑھ رہے تھے.. جیبیں کٹ رہی تھیں، پیٹ بھر رہے تھے.. خدا کا بڑا کرم تھا..
پھر ایک دن بھرے بازار میں دو متحارب گروہوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ خیالات ہوا.. دونوں اطراف کے کچھ لوگ زخمی ہوئے مگر پانچ راہ گیر مارے گئے.. ان میں سے ایک فیصل کی ماں بھی تھی جو سبزی لینے نکلی تھی.. فیصل کو خبر ملی تو اسے لگا کہ جیسے سَر سے آسمان ہی ہٹ گیا ہو.. تیز دھوپ میں کھڑا ہے.. سورج عین سَر کے اوپر برس رہا ہے.. وہ بہت رویا.. بہت ٹوٹ کے رویا.. مگر جانے والے واپسی کے مسافر نہیں ہوتے، ان کی ریٹرن ٹکٹ نہیں ہوتی.. ماں کو سعدیہ کے ساتھ دفنا آیا.. ہزاروں قبروں میں ایک اور قبر.. شہروں سے زیادہ تو قبرستان آباد تھے..
سعدیہ بھی گئی، اب ماں بھی.. وہ بالکل اکیلا ہو گیا.. اکیلے گھر میں کبھی چولہے کے پاس رکھی اینٹ پہ بیٹھا روتا، کبھی کمرے میں چارپائی پہ لیٹ کے روتا رہتا.. گھر تھا کہ تنہائی کا قبرستان..آباد کھنڈر جیسے.. پانچ دن سے نہ وہ گھر کے باھر نکلا نہ کام پہ گیا.. ہاں ہر شام کو شاکر آتا، رات ڈھلے تک بیٹھتے.. نون پورہ کی خبر لے آتا..
اس رات لیٹا تو سوچ نے راہ نکالی کہ اب تو نہ ماں ہے کہ سعدیہ.. اکیلا ہوں.. جیب کتری ترک کر دوں یہی بہتر ہے.. کچھ اور کرتا ہوں.. اب جینا مرنا ایک سا ہے.. بھوکا مروں یا پیٹ بھر کے جیوں.. وہ روتے روتے سو گیا.. نیند نے آنکھیں پونچھ لیں..
صبح بہت دیر سے اٹھا، نہایا چائے بنائی، رس بھگو بھگو کے کھائے.. جمعہ کا دن تھا.. کمرے میں بیٹھ ریا.. صحن گندا تھا، برتن دھونے جوگے تھے.. مگر وہ کمرے میں بیٹھا رہا.. اس کی حالت ایسی ہی تھی.. جہاں بیٹھا ،پھر بیٹھا رہتا.. خیالوں میں جنگ چلتی رہی.. مسجد کا لاؤڈ سپیکر کھلا.. اذان ہوئی، وہ بیٹھا رہا.. نعتیں سنتا رہا.. پھر مولوی صاحب وہی رٹی رٹائی تقریر دوہرانے لگے.. یوں کرو گے تو یوں ہو گا، ووں کرو گے تو ووں ہو گا.. نمازیں پڑھو یا روزے رکھو، بس جنت کے لیے کرو.. مسجدیں بناؤ، کسی کا گھر ہو نہ ہو مسجدیں بناؤ.. کوئی رات بجری پہ لیٹے، فٹ پاتھ پہ کاٹے مگر مسجدیں بناؤ.. پھر خود مسجد سنبھال لو.. چندہ اکٹھا کرو.. کھاؤ، عیاشی کرو.. خدا کا مال ہے، خدا بھی تو اپنا ہے، اس کا مال بھی پھر اپنا ہی ہوا ناں.. پھر خدا کا کون سا پیٹ ہے، جو بھرنا ہے.. ہمارا تو ہے ناں.. سو اس کا جو کچھ ہے، اپنا ہے.. کھاؤ پیو.. ڈکار مارو.. الحمدللہ.. وہ سوچتے سوچتے غنودگی میں چلا گیا.. عصر کے بعد اٹھا منہ ہاتھ دھو، پھر چائے بنا کے پی کے مسجد کو نکل پڑا.. مولوی صاحب اکیلے ہی تھے، وہ کہنے لگا "مولوی صاحب آپ خدا کے بہت قریب ہو.. پانچ وقت اس کے پاؤں پہ ماتھا ٹکاتے ہو.. اگر کوئی سب سوچ سمجھ کے کیے گئے بڑے سے بڑے گناہ کی معافی مانگے تو مل جاتی ہے؟"....
مولوی صاحب پگڑی درست کرتے ہوئے بولے "ہاں بیٹا، وہ بڑا رحیم کریم ہے، توبہ کے دروازے  ھر وقت، وقت بـے وقت سب کے لیے کھول رکھے ہیں اس نے "...
" مولوی صاحب میں جیب کترا ہوں"... مولوی صاحب نے فوراً جیب پہ ہاتھ رکھا.." اب نہیں کاٹتا، نہیں کاٹنا چاہتا.. مگر کوئی بھی کام ہے کہ مل کے نہیں دے رہا"...
" نہ بیٹا، توبہ کرو.. وہ رحیم بھی ہے.. وہ رازق بھی ہے، وہ کیڑے کو پتھر کے اندر رزق دیتا ہے، تجھے بھی دے گا.. یہ گناہ چھوڑو، کام تلاشو".. 
وہ سر جھکائے سن رہا تھا.. "مولوی صاحب، ہر جگہ ڈھونڈا مگر... چلیں میں تو جی لوں گا جیسے تیسے مگر ایک جھگیوں کا محلہ ہے، اتنے اتنے سے بچے رہتے ہیں وہاں.. ان کا خرچہ.. ان کی بھوک.. کیسے ہو گا "..
مولوی صاحب جلال میں آتے جا رہے تھے" تُو خود تو حرام کھا رہا ہے، اور کتنے پیٹوں کو بھی اس حرام کی آگ میں دھکیل رہا ہے.. ان سب کا گناہ تیرے سر ہو گا.. "...
" مگر وہ بچے انھیں پیسوں سے پڑھ رہے ہیں، بھوکے نہیں سوتے.. ان کو ایسے چھوڑ دوں گا تو یہ گناہ کس کے سَر جائے گا مولوی صاحب".... مولوی صاحب نے داڑھی کھجائی" حرام کا ایک ذرہ بھی پیٹ میں ہو تو عبادت تک نہیں ہوتی "...
" مولوی صاحب، مگر عبادت بھی تو بھوکے پیٹ نہیں ہوتی ".... مولوی صاحب جھلا اٹھے" تُو بحث کرنے آیا ہے توبہ... خود تو ڈوبے گا ساتھ نسلیں ڈبوئے گا... تُو پڑھائے گا بچوں کو.. کیا پڑھائے گا، جیب کترا ایک چور کیا پڑھائے گا.. جیب کاٹنا ہی سکھائے گا.. توبہ توبہ اتنی سی عمر میں ہی حرام کھانا کمانا شروع کر دیا ہے... قیامت کی نشانیاں ہیں.. اور اوپر سے وکالت کر رہا ہے حرام کمائی کی".... فیصل اٹھا اور گھر کو چل دیا...

شام ہونے لگی تھی.. وہ سوچ میں پڑا تھا.. سمندر جتنی گہری سوچ.. توبہ کا دروازہ کھلا ہے مگر پھر نون پورہ کے بچوں پہ علم کا، مستقبل کا دروازہ بند ہو جائے گا.. دروازے کو کُنڈی لگ جائے گی.. وہ کیا کرے، کیا نہ کرے.. منہ دھونے اٹھا اور وضو کرنے لگا... عجیب کشمکش میں بھی جان.. جیسے جان کنی کا عالم ہو.. اللہ اکبر.. اللہ اکبر.. اذان ہونے لگی تھی.. گھر سے نکل پڑا...
حیّی علی الفلاح.. آؤ فلاح کی طرف.. وہ مسجد کے دوراہے پہ کھڑا تھا... ایک طرف مسجد تھی.. لوگ سَر پہ ٹوپیاں رکھے، مسجد کو لپک رہے تھے.. ایک طرف نون پورہ کو جاتا  تھکا دینے والا راستہ تھا.. وہ دوراہے پہ دوراہا بنا سر جھکائے کھڑا تھا.. سَر اٹھایا آسمان کو دیکھا.. آنسو گال پہ لڑھک آئے.... فیصل کے پاؤں محلہ نون پورہ کی طرف اٹھ گئے.. کانوں میں ایک آواز یوں گونج رہی تھی جیسے مولوی صاحب کی آواز مسجد کے گنبد میں گونجتی ہے..
حیّی علی الفلاح.. حیّی علی الفلاح... آؤ فلاح کی طرف.. آؤ فلاح کی طرف....

Thursday, August 31, 2017

ابّا کی روح سے....

"کیسے ہیں ابا"؟
"یہ تُو ہی ہے کھوتے دا پُتر، میری ساری اولاد مجھے ابو جی کہتی ہے، تیری زبان کیوں جلتی ہے ابو جی کہتے"؟

"ابا میں اپنائیت بہت ہے ناں.."
"بدتمیز".... اور دوسری طرف منہ موڑ لیا اور مجھے پورا یقین ہے کہ ابا مسکرائے ہوں گے مگر چھپ کے..

ابا سے یہ ملاقات کہاں ہوئی ہے، میں نہیں بتا سکتا کہ پتا مجھے بھی نہیں.. بہت سارے لوگ تھے وہاں، سب نے ایک سے سفید چٹے دُودھ چولے پہن رکھتے تھے.. کوئی باغ لگتا تھا.. سبزے سے لدی زمین.. ھزاروں طرح کے پھل تھے لاکھوں رنگوں کے پھول.. مختلف انواع کے کھانے تھے مگر سب سے حیران کن امر یہ تھا کہ شور ذرا سا بھی نہیں تھا.. ابا ایک پیالے میں سے کچھ پی رہے تھے، بھاپ اڑ رہی تھی..
"چائے پی رہے ہیں"؟؟
"او کتھے یار، کہاں تیری ماں کے ہاتھ ہی کڑک چائے اور کہاں یہ کھجور کا ابلتا پانی.. انھیں ہزار بار کہا کہ پیکٹ والی نہیں ملتی تو کھلی پتی ہی لے آؤ، اس میں بناؤ چائے مگر... چھوڑو ان سے بننی ہی کہاں ہے"
ابا نے پیالہ واپس دھرا اور ادھر ادھر دیکھنے لگے...

" ابا یہ چولا کہاں سے لے لیا، آپ تو شلوار قمیض اور بھی ایسی استری شدہ کہ ہلکی سی سلوٹ بھی ناگوار گزرتی تھی.. گھر سے باھر تو آپ شلوار قمیض پہنتے تھے.. "

" میں جوانی میں تہبند بھی باندھتا تھا مگر پھر مکمل چھوڑ دیا، شلوار قمیض دل کو لگ گئی تھی.. پَر کی دساں میں نے کہا بھی کہ مجھے شلوار قمیض دے دو، یہ چولا ہے کہ ڈی ایچ ایل کا پیک شدہ پارسل.. مگر یہ چولا دے گئے، ظلم تو یہ ہے پتر کہ دھوتی بھی نہیں دیتے، دھوتی بھی کیا ظالم ایجاد ہے یار، اتنا ایزی پُر سکون لباس "...

اتنے میں کوئی ویٹر جیسا بندہ آیا اور کھانا دے گیا.. باغ میں ویٹر!!

پلیٹ میں کچھ سبزی نما شے تھی.. میں سمجھ نہیں پایا کہ ہے کیا..
" ابا، یہ ساگ ہے کہ بھنڈی " بھنڈی میں ابا کی جان بستی تھی
" بھنڈی تے ایتھے؟ سواہ تے گھٹّا.. بھنڈی تو بنتی ہی پیاز سے ہے..  اور یہاں پیاز نامی شے سے سب دور بھاگتے ہیں، یہ خاک جانتے ہیں کہ کھانا ہوتا کیا اور کھانے میں بھنڈی.. ملکہ ہے سبزیوں کی.. اور تُو.. یاد کروا کے اداس کرا رہا ہے کھوتے دا پتر.."....

ابا نے کھانا کھایا اور اپنی عادت کے مطابق چالیس قدم کا ٹور لگانا شروع کر دیا..
ٹہلتے ٹہلتے دوسروں سے سلام دعا ہوتی رہی..
ابا چالیس قدم پورے کر کے بیٹھ رہے..

" ابا،جیو ٹی وی نہیں دیکھنا"..

" جب سے آیا ہوں یہاں.. نہ اپنے ملک کی کوئی خبر ہے نہ کوئی پتا.. نواز شریف کو ھٹا دیا.. ظالموں نے بڑا ظلم کمایا.. اب پتا نہیں کیا ہو رہا ہو گا پیچھے.. ہن کی بنو گا ملک دا.."

"کچھ نہیں ہوتا ملک کو نہ کچھ بننا ہے اس ملک کا"

ابا نے غصے سے مجھے دیکھا..
" کھوتے دا پتر.. تجھے کیا لگے اب پاکستان سے. تُو تو گورا بن گیا ہے ناں.. وڈا آیا گورا.. کالا شاہ گورا "..
میں ہنسی چھپانے کو سَر جھکا گیا...

" اچھا چھوڑیں، اور کیا کرتے ہیں سارا دن"

" کیا کرنا ہے.. کھاتا ہوں تو پتا نہیں کیا ہوتا ہے کھانے میں، پیتا ہوں تو کیا.. نہ یہاں ریسلنگ دیکھ سکتا ہوں، کہاں وہ ہُلک ہوگن.. وہ بھی چھوڑو یہاں تو نہ عزیز میاں کی قوالی ہے.. نہ عالم لوہار کے گیت.. عالم لوہار تجھے پتا ہے کہ ہمارے پڑوسی گاؤں کا تھا.. کیا اونچی آواز تھی.. اس کا وہ "بول مٹی دیا باویا"... بہت دل کر رہا ہے سننے کو... "

میں نے ہلکا سا گنگنایا..

" تُو رہن دے، یہ تو اس کا بیٹا عارف لوہار بھی ویسے نہیں گا سکتا.. بہت کوشش کرتا ہے ابـّے کی طرح گا سکے مگر نہیں.. اچھا بندہ ہے عارف لوہار.. میں نے دو ہی شخص دیکھے ہیں جو اپنے باپ کی ایسی عزت کرتے ہوں، ایک تو حاجی خالق ہے اور یہ عارف لوہار.. تبھی مولا نے رنگ بھی تو لگا رکھے ہیں "..

یہ پہلا دن تھا رمضان کے انتیس/تیس دنوں کے علاوہ کہ میں نے ابا کو بنا سگریٹ دیکھا ھو، ورنہ ایک بجھتا نہ تھا کہ دوجا جلا لیتے تھے.. میں پوچھتے پوچھتے رہ گیا کہ اور اداس نہ ہو جائیں..

ابا چادر تان کے سیدھے لیٹ گئے... چادر منہ پہ لے لی.. پھر منہ باھر نکالا اور اپنی خوبصورت آنکھوں (جن آنکھوں میں دیکھنا میرے لیے کیا، کبھی بھی کسی بھی شخص کے لیے ممکن نہ تھا، اتنی تیز اور چمکتی ) سے مجھے دیکھتے ہوئے بولے
"چل جا اب.. کل آ جانا... جیتے جی تو آیا نہیں، اب ھر روز سرہانے آ کھڑا ہوتا ہے کھوتے دا پتر"
اور چادر منہ پہ لے لی..
ابا چادر اندر مسکرائے ہوں گے چھپ کے؟؟

Thursday, August 10, 2017

جی ایچ کیو

گاؤں کی گلیاں جہاں جا کے گلے ملتی تھیں، وہاں سے آگے سڑک چلتی تھی.. اسی سڑک کے کنارے کنارے مختلف دوکانیں تھیں، جن میں راجو نائی کے نام نہاد 'راجہ جی ہئیر سیلون' سے لے کر کے ڈاکٹر شبیر کی 'ایم بی بی ایس بُک شاپ' تک سب کچھ تھا.. قریب قریب سبھی دوکانوں کے اندر اور باھر لکڑی کے 'پھَٹّـے' پڑے رہتے تھے جن پہ موسم کے اعتبار سے لوگ بیٹھتے اور سارے جہاں کے مسئلوں پہ تجزیے گھڑتے اور پھر 'لائک این ایکسپرٹ' سبھی کے حل بھی پیش کرتے تھے..

مگر انھیں قطار اندر قطار دوکانوں کے اخیر میں ایک دوکان تھی، بالکل الگ تھلگ، جس کے باھر پھَٹا تو پڑا تھا مگر اس کے اوپر کوئی بیٹھتا نہ تھا، ہاں البتہ اس کے نیچے کبھی کُتے منہ کھولے زباں لٹکائے بیٹھے ہوتے اور کبھی کبھی بلیّاں بھی اپنے محاورے والے خوابوں کی تعبیریں نوچتی دکھائی دیتی تھیں..

جی ہاں.. دوکان اندر ایک آنکھ سے سب کو برابر دیکھتا(کانا تھا تو ایک آنکھ پتھر کی ٹکا رکھی تھی) ٹوکا لیے مرغیوں کی گردنیں اڑاتا، ٹانگیں کاٹتا، ننگے اور گنجے سَر کے ساتھ، بِنا قمیص اپنی کالی چھاتی پہ سفید بالوں کا جنگل دکھاتا یہ شخص غلام حسین قصائی ہے، اور باھر دوکان کے ماتھے پہ بڑا بڑا لکھ رکھا ہے "جی ایچ کیو" غلام حسین قصائی...

غلام حسین پیدائشی قصائی نہیں تھا.. انتہائی نرم مزاج، سادہ دل بندہ تھا.. لائلپور کی کسی کپڑے کی مِل میں مزدوری کرتا تھا.. مالکوں کا وفادار اور اپنے کام میں کمال تھا.. جب ایک حادثے میں آنکھ جاتی رہی تو گھر آ بیٹھا.. صُغراں بی بی، غلام حسین کی گھر والی تھی.. شادی کو مدتیں گزر چکی تھیں مگر اولاد سے محرومی کے احساس کو دُور کرنے خاطر گھر میں دس بارہ مرغیاں پال رکھی تھیں.. صحن میں رونق لگی رہتی تھی.. صبح سحری مرغے کی اذان سے ہوتی اور پھر دن بھر کے کام اور اپنے بچوں (مرغیوں) کے پیچھے بھاگتے پھرنا..

صُغراں کی چھوٹی بہن عُظماں آخری ماہ کے پیٹ سے تھی تو اسے ڈیڑھ دو مہینے کے لیے بھیگا پور جانا پڑا اور مرغیوں کی مکمل دیکھ بھال غلام حسین کے سَر آن پڑی.. ہفتہ ڈیڑھ تو برداشت کر گیا مگر اسے مرغیوں کے پیچھے ایک آنکھ سے بھاگنا بہت اذیت ناک لگتا تھا، ایک دوپہر جب ایک مرغا بـے وقتی اذان میں جی جان سے اور مسلسل مصروف تھا، غلام حسین کے صبر کا گلاس نک و نک ھو چکا تھا، تو اذان دیتا مرغا غلام حسین کے ہاتھوں حلال ہو گیا.. دو دن وہ مرغا چلا اور غلام حسین کے منہ کو اذان دیتے مرغے اور صفیں توڑتی مرغیاں لگ چکی تھیں..

جب تک صُغراں بی بی گھر آتی، غلام حسین 'قصائی' بن چکا تھا..
وہ دن اور آج کا دن، صغراں بیچاری جِند جان سے گھر مُرغیاں اور چُوزے پالتی ہے، غلام حسین ھر دوجے دن کوئی نہ کوئی مُرغی اٹھا لیتا ہے اور اپنے "جی ایچ کیو" کی رونقیں بحال رکھتا ہے، وہی "جی ایچ کیو" جس کے باھر لگے پھَٹّے کے نیچے دنیا جہان کے مسائل کے تجزیے گھڑتے اور پھر "لائک این ایکسپرٹ" مسائل کے حل بتاتے، منہ کھولے زبانیں لٹکائے غلام حسین قصائی کے پھینکے ٹکڑوں کے منتظر پائے جاتے ہیں...

Tuesday, June 13, 2017

خالق اور تخلیق

اس کا رنگ، دانت اور ناک اس کے اندر اعتماد پیدا ہونے ہی نہ دیتے تھے.. گو کہ وہ بالکل کالا نہ تھا مگر گھر کے باقی افراد خوب سفید و صاف رنگت رکھتے تھے، اسے جانے کیا ہوا تھا کہ گدلا سا رنگ لے کے پیدا ہو گیا.. نہ ماں پہ رنگ تھا نہ باپ پہ... شاید وہ رنگ بھی برداشت کر لیتا مگر دانت باھر کو نکلے اور ناک پھول کے پکوڑے جیسا.. وہ سب کے سامنے ہنسنا تو دور، بات تک نہ کرتا کہ منہ کھولوں گا تو دانت دکھائی دیں گے.. عینک لگاتا تو لگتا کہ نقلی بڑا سا ناک رکھا ہو.. سو اپنے آپ گم رہتا، اپنی اندر کی کمیوں اور بد صورتیوں کی فہرستیں بناتا رہتا.. ھر روز ان فہرستوں میں کبھی کچھ نیا اندراج ہوتا اور کبھی کبھار کچھ مٹا بھی دیتا..

ساتویں آٹھویں جماعت تک داڑھی بھی پھوٹنے لگی اور وہ داڑھی اب ایک اور بداعتمادی کہ وجہ قرار پائی کہ کہیں کہیں سے بال نکلے تھے اور بال مڑتے جاتے تھے..

کمزور جسم اور لمبا قد.. سَرُو کے بوٹے کی طرح لگتا تھا.. ماسٹر رفیق کہا کرتے کہ لوگ ابھی جانتے نہیں اسے، شریف سمجھتے ہیں اسے.. جتنی داڑھی باھر ہے اس کی، اس سے دوگنی اندر ہے... جتنا لمبا دکھائی دیتا ہے اس سے دوگنا زمین میں ہے.. وہ سب سنتا اور ان سنا کر دیتا..

دوست یار بنانے میں بلا کا ناکام تھا کہ پہل کرتے موت پڑتی تھی اور کوئی اور ہاتھ بڑھاتا تو اس کی آنکھوں میں 'کمیوں اور بد صورتیوں' کی فہرست آ جاتی اور وہ بھاگ جاتا..

گھر میں باھر کے سارے کام اسی کے ذمے ہوا کرتے تھے اور وہ اپنی خوشی سے وہ سارے کام کرتا بھی تھا.. گھر  اسے سنٹرل جیل تھا گویا.. ابا جی انتہائی سخت گیر واقع ہوئے تھے، ھر کام، ھر شے وقت مقرر پہ اور انھیں کے بنائے گئے قواعد کے مطابق ہوتی تھی.. بچپن میں اسے لگتا تھا کہ قصے کہانیوں میں غلط کام کرنے پہ جو سزا دیتا ہے، وہ خدا دراصل اس کا باپ ہی ہے... اس کی طبیعت باغی تھی.. خدا اور شیطان ایک جگہ اکٹھے نہیں رہ سکتے.. گھر سے مار، گالیاں اور جھڑکیاں کھاتا تو گھر سے دور ہوتا جاتا...

یہی زندگی جیتے جیتے کالج داخلہ ہو گیا... کالج وہ ایسے جاتا جیسے کوئی عابد و زاہد عبادت کو جائے ہے.. صبح کا نکلتا، بسوں کی چھتوں اور ویگنوں کے پیچھے لٹک کے کالج جاتا اور واپس گھر آتے شام ڈھلنے کو ہوتی تھی.. وہ سارا دن آزاد رہا ہے، یہ خیال اس کے اندر کئی گلاب کھلا دیتا.. وہ کالج سے ایسے لوٹتا جیسے آگ لاتے لاتے موسی پیغمبری لے آئے ہوں اور گھر میں یوں رہتا کہ جیسے آدم جنت سے نکلنے کے بعد زمین پہ اداس پھرتے ہوں...

دوست تو تھے نہیں سو اپنی تنہائی میں خدا جیسا وہ، اپنی سوچوں میں نئی نئی دنیائیں بناتا.. ہوا نظر آتی، سانس کے بنا جیون ہوتا..چاند کبھی نیلا پڑتا پھر گلابی ہو جاتا.. سورج رک جاتا اور زمین اچھلنے لگتی.. پہاڑ سبزے سے سج جاتے، دریا پانی اچھالتے، سیپیاں پھینکتے.. جانور خوش گپیاں کرتے، پرندے زمین پہ گھر بناتے اور انسان ہوا میں آزاد اڑتے...

اپنی سوچوں میں مگن اور نئی خوبصورت دنیاؤں کی تخلیق میں گم، وہ سڑک پار کرتے گاڑی سے ٹکرا گیا.. سَر پھٹا، خون خوب نکلا، بازو ٹوٹی اور ٹانگ مڑ گئی.. اسپتال میں چار دن بعد زندہ بچا لیا گیا.. ماں اس کا بد رنگ چہرہ چومتی جاتی تھی اور روتی جاتی تھی.. چھوٹی بہن نم آنکھوں سے اس بھدا موٹا ناک دباتی اور وہ اپنے باھر کو نکلے دانت اور باھر نکالتا اور مسکراتا جاتا...

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...