Monday, January 25, 2016

پیشاب کا مٹکا

میری عمر کے کیکر پہ ابھی جوانی کے پیلے پھول اُگنا شروع ھوئے تھے جب انور بٹ اسے بیاہ کے ھمارے محلے لایا تھا.. وہ واقعی کشمیر کا سیب تھی، پنجاب کی "جٹّی" تھی اور میرے لئے وہ "الہڑ مٹیار" کا چلتا پھرتا ترجمہ تھی.. 
اس کا شوہر دوبئی چلا گیا تھا اور وہ اکیلی رہتی تھی یا کبھی کبھار اس کا دیور جو گوجرانوالہ کپڑے کی مِل میں کام کرتا تھا، آجاتا تو وھیں رھتا تھا..
جب سے وہ آئی تھی، محلے کی عورتیں اس میں کیڑے نکالتی آ رھی تھیں.. کسی کو اس کا ننگے سَر پھرنا بـے حیائی لگتا تھا، کسی کو اس کی بـے باکی
کھلتی تھی تو کسی کو اس کی ملنساری "بندے پھانسنا" لگتا تھا.. اور مائی صغراں کو تو اس کے کھُل کے ہنسنا، شیطانی قہقہہ لگتا تھا.. کچھ عورتوں کا دعوٰی تھا کہ آدھی آدھی رات تک اس کے دروازے کھٹکتے رھتے ھیں، مختصر یہ کہ عورتوں کی نظر میں وہ ایک خراب عورت تھی جسے وہ باقاعدہ "گَشتی" بھی کہتی تھیں.. 
یہ باتیں میرے کانوں میں مکھی کی طرح بھیں بھیں کرتی رہتی تھیں اور میرے خیال میں بھی اس کی تصویر کچھ ایسی ھی بن چکی تھی..
وہ کچھ ایسی ہی تھی، سب عورتوں سے ھنس کے ملتی تھی یہ جانتے ھوئے بھی کہ وہ انھیں ایک آنکھ بھی نہیں بھاتی، خوداعتمادی کا بُت تھی اور بـے باک بلا کی.. مگر مردوں سے ہمیشہ فاصلہ رکھتی تھی.. 
مگر جانے کیا بات تھی کہ وہ مجھے بہت عزیز رکھتی تھی، راستے میں ملتی تو حال احوال، اسکول کی باتیں.. ویگن میں ملتی تو میرا کرایہ بھی دے دیتی، منع کرتا تو کہتی کہ تم میرے اپنے ھو..  کبھی کچھ چاہیے تو مجھے کہہ دیتی اور میں پھولا نہ سماتا کہ جیسے جنت ھاتھ لگ گئی ھو..
وہ اپنے ھندوؤں کے پرانی طرز کے گھر کی چھت پہ کبھی سبزی کاٹنے بیٹھتی تو اس کا دیور بھی اسی چارپائی پہ لیٹ رھتا اور پھر اس دن محلے کی عورتوں کے پاؤں سے جلنی شروع ھوتی تو سَر پہ جا بجھتی.. وہ سردیوں میں ظہر و عصر کی نماز بھی دھوپ میں اپنی چھت پہ پڑھتی تو بھی اس کا یہ عمل "نیک بی بی" بننے کا ایک اشتہار تھا..
وہ ایک ایسا کردار بن چکی تھی کہ میرے لئے صرف وہ ایک کشمیری سیب تھی جسے میں بھی کھانا چاہتا تھا، میں بھی اس بہتی گنگا میں اپنے "صاف ھاتھ" دھونا چاہتا تھا جہاں جانے کتنے گندے اور پرانے ھاتھ دھلتے تھے.. میں بھی اس شہر کو فتح کرنا چاہتا تھا جہاں جانے کتنے طالع آزما فاتح ٹھہرے تھے.. ایسے خیالات میرے اندر آگ لگاتے رھتے اور وہ مجھے ویسے ھی پیار سے ملتی رھی، باتیں کرتی رھی..
وہ ایک جگراتے کی رات تھی اور مسجد میں کچھ لڑکے عبادت کی غرض سے جاگ رھے تھے، ان میں ایک میں بھی تھا.. اس کا گھر مسجد کے پاس تھا.. وہ ظالم، خدا کی پڑوسی تھی.. اور رات کے ڈیڑھ بجے میں خدا کے گھر سے نکلا اور خدا کے پڑوسی کی کھڑکی بجانی شروع کر دی مگر اس نے کھڑکی نہ کھولی، میں اپنی وحشت میں اور زور زور سے مُکے برسانے لگا تو اس کے پڑوس کے گھر کی لائٹس آن ھوئی تو میں بھاگا اور مسجد جا گھُسا.. فجر کی جماعت کے بعد گھر گیا اور سو رھا.. اٹھا تو اماں نے کہا کہ کہ آج تیری خیر نہیں، "وہ" آئی تھی تیرے ابا کے پاس تیری شکایت لے کر کہ تُو رات کو اس کی کھڑکیاں توڑتا رھا ھے.. "سب بکواس ھے اماں، جھوٹی ھے وہ حرام زادی" یہ کہہ کے نہانے کو غسل خانے میں گھُس گیا مگر ابا کے ڈر سے ٹانگیں بـے جان ھو رھی تھیں اور لگتا تھا کہ الٹی آنے والی ھے، جی متلا رھا تھا.. اتنے میں ابا آگئے اور میں ان کے سامنے پیش ھو گیا تو ابا نے اپنی انگارہ آنکھوں سے مجھے دیکھا اور اماں والا سوال دہرایا تو میں کہا "ابا، وہ جھوٹ بول رھی ھے، وہ دو نمبری ھے ابا.. کسی سے بھی پوچھ لیں محلے میں، سب جانتے ھیں کہ آدھی آدھی رات تک آدمی اس کے گھر آتے جاتے ھیں، اس نے مجھ پہ الزام لگایا ھے، جھوٹا الزام".. ابا نے چھوٹے بھائی کو بھیجا کی جا اسے بُلا کے لا، منہ پہ بات ھو گی.. میری تو جان جیسے آخری سانسوں پہ جا اٹکی.. مَن کا چور، جان نچوڑ رھا تھا.. جان میں جان تب آئی جب بھائی نے آ کے بتایا کہ وہ گھر نہیں ھے.. پھوپھی بھی وھیں بیٹھی تھی اس نے بھی ابا کو بتایا کہ وہ عورت خراب ھے، گشتی ھے.. کچھ ویسے بھی ابا نے بھی اس کے بارے سن رکھا تھا سو میری جان بخشی ھو گئی اور اس کے ماتھے پہ ایک اور کالا داغ لگ گیا..
اسی شام کو وہ گلی میں سامنے آ گئی تو بولی تو صرف اتنا "تم تو ایسا مت کرتے"  وہ غصے میں روہانسی ھو رھی تھی اور میں وھاں سے دوڑ گیا..
میری طلب کو پَر لگ گئے تھے مگر اب تو وہ بات تو دُور، دیکھتی تک نہ تھی.. وقت گزرتا ھے، ھر ھنگام سے بـے پرواہ وقت گزرتا جاتا ھے.. مگر میں وھیں کھڑا تھا، میں نے اسے اتنے قریب سے دیکھا تھا کہ اب وہ قربت میسر نہ تھی اور میں جَل بھن رھا تھا.. میرے اندر دھڑا دھڑ لکڑیاں جل رھی تھیں اور  میں بے بسی کا دھواں پھونک رھا تھا..
پھر ایک رات مجھے موقع مل گیا، اسے پانے کا نہیں مگر بدلہ لینے کا.. میرے ایک دوست مانی نے بتایا کہ اس عورت کے گھر ایک آدمی آیا ھے اور رات کے دس بجے آیا تھا اور ابھی بارہ بجے بھی اندر ھی ھے.. میں نے اپنے ابا کے ڈرائیور کو بھی ساتھ ملایا اور "کشمیری سیب" کے گھر کے دروازے کو باھر سے تالا لگا دیا کہ اندر سے کوئی باھر نہ آسکے.. صبح روشنی اگتے ھی گاؤں کے کونسلر اور چوھدری کو سب بتایا اور پھر آدھا گاؤں اس الہڑ مٹیار، کشمیری سیب کے گھر کے باھر کھڑا تھا جو مجھے کہتی تھی کہ "تم میرے اپنے ھو" ..  چوھدری نے دروازہ کھولا اور ان دونوں کو باھر نکالا.. آدمی کو خوب پھینٹی چڑھی اور "اسے" گالیاں.. پھر پنچایت بیٹھی جہاں وہ خوداعتمادی کا بُت، وہ بـے باک سَر جھکائے خاموش مجرم بنی کھڑی تھی اور پنچایت میں بیٹھے بوڑھوں کی نظریں اس کے جسم کو چیر رھی تھیں.. اور پھر اسے "دیس نکالا"  دے دیا گیا، اسے گاؤں سے نکل جانے کا حکم سنایا گیا وہ تب بھی کچھ نہ بولی.. گھر آئی اور سامان باندھنے لگی..
لاری اڈے پہ میں کچھ دوستوں کے ساتھ بیٹھا چائے پی رھا تھا کہ میری نظر اس گاڑی پہ پڑی جس میں وہ بیٹھی جا رھی تھی.. رونے سے اس کا ناک گلابی ھو گیا اور گال اور بھی لال.. اس کی نظر مجھ پہ پڑی اور ایک آنسو گرا.. وہ ایسے دیکھ رھی تھی کہ جیسے کہہ رھی ھو "تم تو ایسا مت کرتے".. وہ چلی گئی اور اس کی آنکھیں میرے اندر کہیں دھنس گئیں اور میں دیوانہ وار وھاں سے بھاگ نکلا، دوست آوازیں دے رھے تھے، میں راہ چلتے لوگوں سے ٹکراتا جا رھا اور آنکھوں کے آگے آنسوؤں کی دھند تھی اور لاری اڈے پہ گاڑیوں کے ھارن چیخ رھے تھے" تم تو ایسا مت کرتے "...

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...