Friday, July 08, 2016

الوداع زندہ مسکراہٹ الوداع

ایدھی صاحب رخصت لے گئے ھیں... یہ خبر پڑھ کے حواس جانے منجمد ھو گئے تھے کہ پھُوہ کر کے بکھر گئے تھے مگر میں رویا نہیں...

گو کہ دکھ اور اشک جڑواں بھائی ھیں، ایک ساتھ کھِلتے اور کھُلتے ھیں.. اور یہ خبر میری اب تک کی زندگی کا سب سے بڑا دکھ ھے مگر میں رویا نہیں..

گو کہ آنے اور جانے کا ایک سلسلہ سا چلا ھوا ھے کہ جو آ جاتا ھے، جانے کو ھی آتا ھے اور ظلم سا ظلم کہ جو جاتا ھے، اسے واپس نہیں آنا.. اور ایسے میں کوئی آئے اور پھر چلا جائے تو کیسا پہاڑ سا دل پہ آ ٹکتا ھے اور وقت کیسا نوکیلا خنجر کہ چبھتا جاتا ھے.. یہ دُکھ کتنا دُکھتا ھے اور پھر دل پہ ٹکا پہاڑ کیسے آنسو بن بن آنکھ سے بہتا ھے اور یہ پہاڑ میرے دل پہ آ ٹکا ھے مگر میں رویا نہیں...

میں کیسے رو سکتا ھوں؟ میں اس دکھ کے پہاڑ کو کیسے آنسوؤں میں بہا سکتا ھوں؟ جو شخص کسی کی بھی آنکھ میں آئے آنسو ایک دھیمی سی زندہ مسکراہٹ سے پونچھتا ھو، میں اسے کیسے رو لوں؟

وہ زندہ مسکراہٹ بـے گھر انسانیت کا چھت ھے، بـے سہارا انسانیت کا آسرا ھے... کیسے کیسے مَرتے ھوئے لمحوں کو اس زندہ مسکراہٹ نے جیون دیا ھے.. کہاں کہاں سے اور کیسی کیسی ننھی کونپلیں اس ایک زندہ مسکراہٹ نے گلاب کی ھیں..
ایسی زندہ مسکراہٹ کو کوئی کیسے رو سکتا ھے..  مسکراہٹ مَرتی کب ھے.. اور وہ بھی ایسی زندہ مسکراہٹ ..

الوداع اے زندہ مسکراہٹ.. الوداع

  ایدھی صاحب رخصت لے گئے ھیں..  مگر میں رویا نہیں ھوں

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...