Sunday, April 26, 2020

رائیگانی ‏

لفظ گرتے ہیں زباں کی شاخ سے

کچھ آتے ہیں ہوا کے ہاتھ
کچھ تیرے پاؤں کے نیچے

‎#مقصود_عاصی

Thursday, April 16, 2020

پہلا ‏ظالم ‏

جب اس دھرتی پہ
پہلا ظلم ہوا تھا

جب پہلے معصوم کی گردن
پہ تلوار چلی تھی
مرتی آنکھوں سے اس نے
آسمان کی اَور تھا دیکھا

تب ان آنکھوں میں
پہلی بار
خدا قتل ہوا تھا

Wednesday, April 08, 2020

لڑائی

محلے میں شائستہ کی چیخیں اور اس کے چار چھوٹے بچوں کے رونے کی آوازیں تھیں اور آدھا محلہ چھت کی منڈیر پہ اور باقی آدھا اپنے گھروں کے دروازے کے باھر کھڑا تبصرہ کر رہا تھا کہ یہ تو روز کا معمول ہے، جیدے (جاوید) کا دماغ ہر وقت تپتی کڑاہی میں رہتا ہے، شیستا (شائستہ) بیچاری کی تو ہاری گئی

جاوید اور شائستہ کی شادی کو چار سال سے اوپر ہو گئے تھے. جب شائستہ پہلی بار دلہن بنی گھر پہنچی تو محلے کی کتنی ہی خواتین جل بھن گئی تھیں. ایک تو شائستہ کا سرخ لہنگا بہت خوبصورت تھا، اس پہ شائستہ کے چست بدن پہ سج بھی بہت رہا تھا. دوسری وجہ شائستہ کی صاف رنگت اور اونچا قد تھا. جاوید کی لاٹری نکل آنے پہ خوش جاوید کے سوا اور کون ہو سکتا تھا

پہلی لڑائی کب ہوئی ہو گی، معلوم نہیں.. مگر پہلی لڑائی جو سارے محلے میں سنی گئی، وہ شادی کے تیسرے چوتھے ہی ہفتے میں ہوئی تھی. بات گالیوں سے نکل کے مار پیٹ تک پہنچ گئی تھی جب محلے والے چھڑانے پہنچے
جاوید اپنی بجلی کے ساز و سامان کی دوکان سے لوٹا تھا اور شائستہ نے ابھی تک توا چولہے پہ نہیں دھرا تھا. سو جاوید کا دماغ چولہے پہ چڑھ گیا اور لڑائی مارپیٹ سے 'طلاق' تک پہنچ گئی. کوئی پانچ سات بار طلاق طلاق کہنے کے بعد اور محلے والوں کے بیچ بچاؤ کے بعد جاوید چھت پہ سگریٹ پھونکتا ٹہلنے لگا اور شائستہ آنسو پونچھتی، پسلیاں سہلاتی چولہے میں پھر سے آگ جلانے لگ گئی جو لڑائی کے دوران بجھ گئی تھی

پھر دوسری تیسری لڑائی اور لڑائیوں کا ایک سلسلہ ، پھر وہی روٹین کی مار گالیاں، وہی ہر بار کی طرح طلاقوں پہ طلاقیں اور ہر سال نیا بچہ پیدا کرتے جانا

محلے والوں کو اس بات سے اتنا مسئلہ نہیں تھا کہ جاوید باؤلا ہو جاتا ہے، جب دل کرتا ہے اور جس شے سے دل کرتا ہے، شائستہ کو پیٹ کے رکھ دیتا ہے، محلے والوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اتنی طلاقوں کے بعد وہ چار سال سے اکٹھے ہیں اور چار بچے جن چکے ہیں
یہ بات قابلِ قبول نہیں تھی اور اب کے لڑائی پہ محلے والوں نے گاؤں کے نمبردار کے ہاں ایک میٹنگ رکھی اور پھر وہاں جاوید اور اس کے گھر والوں کے ہمراہ شائستہ اور اس کے والدین کو بھی بلا بھیجا

سب لڑائیوں کی وجوہات اتنی چھوٹی تھیں کہ سننے والا بھی خود کو چھوٹا محسوس کرتا مگر وہاں سب بڑے لوگ بیٹھے تھے، جنہیں نہ لڑائی سے کوئی مسئلہ تھا نہ لڑائی کی وجوہات بارے کوئی فکر تھی، انھیں فکر تھی کہ اتنی طلاقوں کے بعد اکٹھے رہنا، گاؤں کو گناہوں کے بوجھ تلے دبا دے گا. گاؤں میں کسی کی بھینس چوری ہو یا دوسرے کی فصل میں کسی کی بکری کے چرنے کی وجہ پہ ہوئی لڑائی، سب شائستہ اور جاوید کے اکٹھے رہنے اور بچے جننے کے کارن تھے

گاؤں کے مولوی صاحب بھی وہاں موجود تھے. اونچی لمبی سرو قد شائستہ سر جھکائے اور کبھی کے خوبصورت چہرے کو دوپٹے میں چھپائے کرسی پہ بیٹھی تھی، جاوید کی انگلیوں میں ہمیشہ کی طرح سگریٹ دبی تھی اور دھواں اوپر چھت کو چھونے کی ناکام کوشش میں لگا تھا

اور پھر فیصلہ سنا دیا گیا. چونکہ ایک نہیں، سینکڑوں طلاقیں ہو چکی ہیں، اس لیے شائستہ اور جاوید آج کے بعد ایک ساتھ نہیں رہ سکتے اور شائستہ اپنے والدین کے گھر عدت کی مدت پوری کرے گی

ایک خاموشی سی تھی. سگریٹ کا دھواں مر چکا تھا اور شائستہ کرسی پہ اور کُبّی ہو گئی تھی. جب بات بچوں پہ پہنچی اور مولانا نے چاروں بچوں کو "حرام اولاد" قرار دیا تو بے ساختہ شائستہ کا ہاتھ اپنے ابھرے ہوئے پیٹ پہ جا ٹکا 

قیدِ قرنطینہ

صاحبو وقت بڑا کمینہ ساتھی ہے
آپ کے دوستوں میں ایک دوست ایسا بھی ہوتا ہے جو، سب باتیں جو آپ سب ایک دوسرے کے بارے مذاق میں کرتے ہیں، انہیں صرف سنتا ہے مسکراتا ہے مگر اس میں اپنا حصہ مسکراہٹ کے علاوہ کچھ نہیں ڈالتا. لیکن جب کبھی موڈ میں آتا ہے تو وہی دوست سبھی پرانی جگتیں ایسی بھگو بھگو کے اور ایسے سب کے سامنے آپ کے منہ پہ مارتا ہے کہ دھواں ہر معلوم و نامعلوم سوراخ سے نکلنے لگتا ہے
یہ وقت بھی ویسا ہی کمینہ دوست ہوتا ہے

ہمیں کوئی لکھاری ہونے کا زعم ہے نہ دعویٰ، اور "دوستوں" کا دانشور (چاہے چائینہ کا سہی) کہنا ہم خالصتاً طنز شمار کرتے ہیں

مگر یہ زعم ہمیں بہرحال تھا کہ ہم لوگوں میں گھلنے ملنے کے نہیں ہیں، ہم اپنے گھر میں بھلے ہیں. اس کے علاوہ گھر میں رہنے، نیٹ فلکس پہ چھلانگیں مارنے، کسی پرانی کتاب کو پھر سے پڑھنے کی کوشش کرنے اور ٹویٹر پہ بار بار، جب بھی ہاتھ کو موبائل سجھائی دے، راؤنڈ لگاتے رہنے کو افضل سمجھتے ہیں
مگر پھر یہ موا کورونا وائرس آ دھمکا
پہلے پہل تو یہ کرنٹین کی اردو "قرنطینہ" کسی وسطی یورپ کی حسینہ معلوم پڑتی تھی. (ظالموں نے قید کو قرنطینہ جیسا سیکسی نام دے رکھا ہے)
مگر جب سر پہ پڑی تو گھر سے باھر جانے کا دروازہ سیدھا جنت میں کھلتا دکھائی دینے لگا ہے

نیٹ فلکس کیا خاک دیکھتے، پچھلے ماہ کے پیسے نہ دئیے تو اب نیٹ فلکس بھی کوئی Ex کی طرح ہو گیا ہے. کتابیں ہم پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تو نیند آنے لگتی ہے. رہ گیا ٹویٹر تو اول تو اس سے آج کل گھر کی فضا مکدر ہو جاتی ہے اور دوئم ٹویٹر شدید قسم کا سیاسی میدانِ جنگ بنا رہتا ہے

پھر ایک حل نکالنے کو کچن میں کھانا بنانے کی ابتدا کی. پہلے دن ہی بٹر چکن کو ہاتھ ڈالا کہ آسان ریسیپی ہے، بن بھی جائے گا اور بیگم کے سامنے ہم ذرا چھاتی پھلا کے 'شیف' کہلوائیں گے مگر یہاں بھی ہماری قسمت ہم سے بھی کالی نکلی. پتا نہیں اب چکن فلے میں نمک تھا کہ نیشنل کے مصالحے میں، پہلا لقمہ ہی گلے کو ادھیڑ گیا. اب بیگم کی نمی نمی طنزیہ ہنسی اور ہم چھاتی پہ مکے مار مار کے کھانسی روکنے کی ناکام کوشش کرتے رہے
لیکن ہار ماننا تو ہم نے سیکھا ہی نہیں کیونکہ یہ ہماری فطرت میں ہے. سو ہم پھر سے صوفے سے ٹائلٹ، ٹائلٹ سے صوفے، پھر صوفے سے ٹائلٹ اور ٹائلٹ سے بیڈ کے سفر میں جت گئے ہیں

صاحبو، وقت بڑا کمینہ ساتھی ہے.. ہمارا یہ زعم کہ ہم گھر میں رہنے کے ہیں ایسا ٹوٹا ہے کھڑکی سے باھر جھانکتے ہیں تو اس قیدِ قرنطینہ سے جیل توڑ کے باھر نکلنے کے ایسے ایسے پلان بنتے ہیں کہ سوچ رہے ہیں کوئی ایک سکرپٹ لکھ کے Sylvester Stallone کو بھیجیں کہ بھیا بنا لو Escape Plan 3

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...