Wednesday, December 18, 2019

شکاری کتے

ماموں شوکت علی عرف شوکی کے دونوں شکاری کتے بالکل سامنے نظریں گاڑھے بیٹھے ہوئے تھے. میں اور ماموں کِیکر کے نیچے بیٹھے کتوں کو دیکھ رہے تھے. اچانک دونوں کتوں کے کان کھڑے ہو گئے اور جسم تنی ہوئی کمان کی طرح.. میرے جسم میں ایک جھرجھری سی چلی اور پھر کچھ ہی لمحوں میں دونوں کتے سرپٹ بھاگ رہے تھے، ایسی رفتار کہ دھول کا سانس بھی پھول جائے. کہیں کسی خرگوش نے سر اٹھایا تھا

ہم پانچوں دوست نمبردار رفیق کے ٹیوب ویل پہ بیٹھے تھے، رنگ کی بازی چل رہی تھی، ادھر ادھر کی ہانک رہے تھے کہ ولیا کانا ادھر آ پہنچا. نام تو اس کا ولی شیر تھا اور مجید مراثی کا بیٹا تھا، مگر سب کے نام الٹ پلٹ کرنے کی قدیم روایت پہ چلتے ہوئے وہ ولی شیر سے سے پہلے وَلیا ہوا اور پھر بھینگا ہونے کے کارن کانا بھی کہلانے لگا. ہمارے اس سوال پہ کہ "کدھر جا رہے ہو" اس نے بتایا کہ آگے زمینوں پہ اس کی ماں چوہدری نذیر کی فصل کاٹ رہی ہے، اسی کی مدد کو جا رہا تھا. میرے چچا زاد طارق نے پہلے چوہدری نذیر کی فصل میں گالیوں سے کیڑے ڈالے، پھر وَلیـے کانے کے بھینگے پن پہ دو چار جگتیں ماریں اور پھر اسے پکوڑے اور چٹنی لانے واپس گاؤں کی طرف بھیج دیا. وہ 'جی چوہدری جی' کہہ کے واپس مڑ گیا

تین بھائیوں ، جن میں سے بڑا فوج میں اور دوسرے دو پولیس میں افسر تھے، کی اکلوتی اور سب سے چھوٹی بہن تھی وہ، جانے اب اس لاڈ پیار کا نتیجہ تھا یا خدا کی فراغت کا شاخسانہ کہ "آسیہ" بلا کی حسین نکلی تھی. گھنگھریالے بال ، آنکھوں پہ کھینچے ہوئے دو کمان، آنکھوں میں کاجل کھینچ لے تو سارا گاؤں ان دو آنکھوں میں سمو لے. کھڑی ناک، گردن جیسے اعتماد کا مینار کھڑا ہو . نئی نئی جوانی کے صحیفے اس پہ اترے تھے. حُسن اپنی جگہ ہے اور اترتی جوانی اپنی جگہ، مگر ان دونوں کا امتزاج تھی آسیہ. گویا قیامت پہ قیامت ڈھا دی گئی تھی اور اس گاؤں کا کوئی لڑکا ہی ہو گا جو اس قیامت سے نظریں ہٹا اور اس کا خیال جھٹلا سکتا ہو. جہاں سے وہ گزرتی وہاں ٹھنڈی آہوں کی آندھیاں چلا کرتی تھیں. بڑے بھائیوں کا خوف اور اس پہ آسیہ کا اپنا اعتماد، سب لونڈوں کے گرم جذبات اپنی ہی ٹھنڈی آہوں کے ہاتھوں سکون پاتے تھے. سب کان کھڑے آنکھیں گاڑھے تنے ہوئے ارمان اور جذبات لیے پھرتے تھے کہ کہیں وہ خرگوش سر اٹھائے

باجرے کی فصل قریب قریب تیار تھی، گاؤں کے باھر چھے فٹ سے اوپر کے باجرے کے کھیت کھڑے تھے. ہم آٹھ لڑکے اپنے دوست بلال کے ڈیرے پہ ٹائیٹینک دیکھ رہے تھے اور پینٹنگ بنانے والا سین بار بار پیچھے کر کے دیکھے جا رہے تھے کہ مانی دوڑتا ہوا آیا اور ہم سب کو ماں بہنوں کی گالیاں دینے لگا. اس کے منہ سے گالیاں اور تھوک ایک ساتھ نکل رہے تھے. میں نے مانی کو کھینچ کے نیچے بٹھایا اور بار بار پوچھا کہ ہوا کیا ہے

          "تم لوگ یہاں پینٹنگ گیلی کرتے رہو کُتو.. وہاں وَلیا کانا کاروائی ڈال گیا ہے، آسیہ اور وَلیا کانا دونوں باجرے کے کھیت میں....." 

     
کتوں کے کھڑے کان گر گئے تھے اور وہ اپنی ہی اڑائی دھول چاٹ رہے تھے 

Tuesday, November 19, 2019

کوئی نہیں ہے نظم

کوئی نہیں ہے 
یہاں پہ ایسا کوئی نہیں ہے
جو میری آنکھوں کے پار اترے
اور جا کے دیکھے

اندھی راتوں میں لمحہ لمحہ
میری آنکھوں کے غار میں جو
بہ صورتِ جبریل اترے
وہ خواب سارے
دن کے تپتے چوک میں
مجھے صلیب پہ ٹانگتے ہیں
پتھروں سے میرے لہو کے چھینٹے اڑاتے
عقیدتوں سے سمیٹتے ہیں
ثواب سارے

کوئی نہیں ہے جو دیکھ پائے
عذاب ہیں میرے خواب سارے

Sunday, November 17, 2019

کہ تماشا کہیں جسے

یہ شخص، یہ میرے سامنے تَن کے کھڑا یہ شخص، اس چھے فٹ کے 'بونے' شخص نے میری زندگی عذاب بنا کے رکھ دی ہے.
نہیں تھا میں ایسا، جیسا مجھے بنا دیا ہے اس نے. ایک عام سے ، اَدھ پڑھے والدین کے گھر میں، درمیانے کسی نمبر پہ پیدا ہوئے کو کچھ بھی خاص نہیں ملا تھا ،کسی انقلابی کی اذاں نہ کسی باغی کی گھٹی. نہ گھر میں علم و ادب کے حوالے شیلف سے باھر ابل رہے تھے نہ گھر کی محفلوں میں علم و فضل کے نئے جہان تراشے جاتے تھے. کچھ بھی ایسا نہیں تھا کہ مجھے اس عذاب تک لے آتا جہاں یہ شخص مجھے لے آیا ہے.
مجھے نہیں یاد کب اس چھے فٹ کے بونے شخص سے پہلی بار سامنا ہوا تھا یا کب یہ خبیث مری زندگی کے دائرے میں گھسا تھا اور ایسا گھسا کہ سارا چکر ہی الٹا دیا. 
جانے کیسا خناس بھرا ہے اس کے دماغ میں، جانے کس سانپ کا ڈسا ہے کہ ایسے ایسے زہریلے خیالات و سوالات سے کاٹتا ہے کہ سامنے والا پانی بھی نہ مانگ سکے.
اس نے میرا قتل کیا ہے، ہاں اس شخص کے لمبے ہاتھوں پہ میرا خون ابھی تک تازہ ہے. 
اس نے میرے ایمان کا قتل کیا ہے. اس باتوں کے سوداگر نے پہلے میری چھوٹی سی کائنات کو لامحدود کر دیا اور پھر بـے انتہا خدا کو بـے بس کر کے میرے سامنے لا کھڑا کیا. میرے پرخچے اڑا دئیـے اس شخص نے. کیسا اونچا سفید بـے داغ مینار تھا میرے اندر، اب اس کے ملبـے پہ بیٹھا سگریٹ پھونکتا ہے یہ شخص.
جی میں آتا ہے کہ اس شخص کا منہ نوچ لوں میں، یہ چیختا ہے، چلاتا ہے. ان دیواروں کے، جن کے کان ہوتے ہیں، کانوں کے پردے پھاڑتا ہے یہ شخص. یہ خون تھوکتا شخص، یہ چیختا شخص، کاش اس کی زبان کھینچ لے کوئی.
میں جو رشتوں کے گجرے بنا کے رکھتا تھا، اس شخص نے ان پھولوں میں کانٹے پرو دئیـے ہیں. میں جو شعروں اور گیتوں میں محبتوں کے سمندر کھوجتا رہتا تھا، اس شخص نے اس سمندر کو گلاس میں بھرا اور گھٹ گھٹ پی کے مسکراتے ہوئے خالی گلاس میرے منہ پہ مار گیا ہے. دل تو چاہتا ہے کہ اس خالی گلاس کی کرچیاں لوں اور اس شخص کے گلا کاٹ دوں.
میں جو اپنے بِھیتر یادوں کے، گزشتہ تعلق کے، محبت کے قبرستان آباد کیے بیٹھا تھا، جہاں پہ اگتے سبزے کو ہر روز برابر کاٹتا تھا، ہر روز نئی کھلتی کونپلوں کو چھوتا تھا، پرانے ہوتے پھولوں کو دفنا دیتا تھا، جہاں میرے لفظوں سے سجے کتبـے سر اٹھائے مان سے کھڑے رہتے تھے، اس کمینے شخص نے اس قبروں پہ ننگا ناچ کیا ہے. اس نے پھولوں کے رنگ کالے کر دئیـے ہیں. اس نے سر اٹھائے ان کتبوں پہ مُوتا ہے.
یہ شخص، اس کو خوشبو لگا کے کیچڑ میں گھستے اور پھر اسی کیچڑ سے باھر آ کے دھمالیں ڈالتے میں نے خود دیکھا ہے. 
یہ شخص، یہ میرے سامنے کھڑا یہ شخص، یہ دوغلا یہ 'سائیکو' شخص.......... 
کہاں ہے چھری، یہ.. یہ...  
یہ اس چھے فٹ کے شخص کی ٹانگ پہ چھے فٹ لمبا اور ایک انچ گہرا گھاؤ دیا ہے. اسے تڑپا تڑپا کے ماروں گا میں. 

Monday, November 04, 2019

پتھروں کی ذات

باھر جون کے آخری دنوں کا سورج قیامت اٹھائے کھڑا تھا اور اندر وہ اپنی تمام حشر سامانیاں لیے میرے سامنے بیٹھی تھی. بالوں کا جوڑا سر کے پیچھے گردن اٹھائے ہوئے تھا. بجلی بند تھی سو پنکھا بھی بند تھا. پسینہ ماتھے پہ موتیوں کی طرح بکھرا پڑا تھا. کان کے پیچھے سے پسینہ لمبی صراحی جیسی گردن پہ نئے راستے کھوجتا سینے کی طرف گامزن تھا. گرمی کی مہربانی سے دوپٹہ میز پہ دھرا تھا اور وہ لان کی پتلی قمیض سے مجھ پہ دو نالی بندوق تانے بیٹھی تھی.

"کب تک راشی کب تک، ایسے سب کے سونے کے بعد دوپہر کالی کرنے آتی رہوں گی، چاچا کمال رشتے کی بات کر چکے ہیں ابا سے، سب راضی ہیں، میں کیا کروں، تم کیا کرو گے" 

اس کی بھوری آنکھوں میں التجائیں تیر رہی تھیں

"مجھے دے گا رشتہ تمہارا ابا؟ کیا ہے میرے پاس، یہ اماں ابا کا چھوڑا ہوا گھر، یہ ایک سکول ویگن اور بس؟ میں موچی کا پتر ہوں آسیہ ،تُو سیدانی ہے، تیرے ابا کے مریدوں کے جوتوں کی عزت مجھ سے زیادہ "

بات مکمل بھی نہ ہونے دی اس نے اور میرے ہونٹوں پہ اپنے رس بھرے ہونٹوں کی مہر لگا دی. وہ آدھی چارپائی اور آدھی میری داہنی ٹانگ پہ بیٹھی بار بار مہریں لگا رہی تھی... جب میرے منہ میں نمک گھلا تو پتا چلا وہ رو رہی تھی... میں نے اس کی آنکھوں سے نمک چوس لیا....

"کیا کروں آسیہ؟ بھاگ چلیں؟ میں یہ گھر بیچ دیتا ہوں اور ویگن لے کے کسی اور گاؤں یا شہر چلتے ہیں، نئی دنیا بنائیں گے. میں تم، جہاں تم شاہنی ہو گی نہ میں موچی. بس ہم ہوں گے، بس ہم" 

دو نالی بندوق میرے سینے پہ لگی تھی ، میری چھاتی کے دائیں طرف مسلسل مُکے چل رہے تھے...

" کیسے رہ لیں گے ہم خوش راشی، تمہارے لیے آسان ہو گا، میری ماں جس سے سارے گاؤں کی بچیاں سبق پڑھنے آتی ہیں، لوگ بھیجیں گے اپنی بچیاں اس کے پاس؟ میرا باپ، آس پاس کے دس گاؤں جسے جھک کے ملتے ہیں، ہاتھ چومنا سعادت سمجھتے ہیں، وہ جھک نہیں جائے گا سب کے سامنے؟ میری دو چھوٹی بہنیں ہیں ان کے سر ننگے ہو جائیں گے راشی، میرے بھائیوں کے چوڑے سینے تڑخ جائیں گے"

جذبات سے اس کا چہرہ انار ہو گیا تھا... وہ شاہوں والی اکڑ گردن میں آ چکی تھی

" تو میں کیا کروں، بولو. چھپ کے دوپہریں کالی کریں اور رات کو اپنے اپنے گھر چارپائی پہ تارے گنتے ہوئے روتے رہیں؟ کیا کریں ، اپنا مان رکھ لو یا اپنا مَن.. رہ لو گی میرے بغیر؟ ہو جاؤں گی چاچے کے پتر کو پیاری؟" 

اس کے زور زور سے چومنے سے میں جیسے چارپائی پہ ڈھے سا گیا. وہ مجھ پہ لیٹی ہوئی تھی. گرمی کی شدت اور جسموں کی حدت اور پسینے سے جسم چپک رہے تھے..

" جاؤ یار جاؤ. راہ پڑے پتھروں کے بت نہیں بنائے جاتے آسیہ "

یہ آخری بات تھی ہماری
راستے کا پتھر اور انگوٹھی میں جڑا نگینہ ایک ہی چارپائی پہ یک جسم تھے.
وہ زور سے مجھ سے لپٹ گئی. لپٹی رہی. لپٹی رہی یہاں تک کہ طیفے موچی اور سید جمال حسین شاہ کے خون میں فرق ختم ہو گیا. 

Tuesday, October 29, 2019

وقت کی قید

ڈرائیور نے ویگن ہلکی سی آگے بڑھائی، سامنے میں کھڑا تھا میں نے زور اور غصے سے ڈرائیور کی بائیں طرف سکرین پہ زور سے ہاتھ مارا
" رُک "
سب کچھ رک گیا تھا اس لمحے میں، وہ لمحہ ہی رک گیا تھا

آتے جاڑے کے دن تھے جن دنوں دھوپ مدہوش جوانی سی اترتی ہے، ہم سب ہر روز کی طرح صبح صبح گورنمنٹ ڈگری کالج کے وسیع گراؤنڈ میں دھوپ سینک رہے تھے جب سالک منہ لٹکائے ہمارے پاس آن کھڑا ہوا
"کیوں سالے، اتنی صبح تیرے بارہ کس نے بجا دئیے؟"
عارف کی بات پہ سب ہنس دئیے مگر سالک کے منہ پہ بارہ بج کے ایک منٹ ہو گئے
"وہ اے جے کے تینتیس تیرہ نے مجھ سے کرایہ لیا ہے، وہ بھی پورا.."

اس بات پہ سب سنجیدہ ہو گئے،
"تو نے بتایا نہیں کہ تو سٹوڈنٹ ہے؟ “
بارہ بج کے دو منٹ ہو گئے
" بتایا تھا، آگے سے کنڈیکٹر کہتا ہے یہ بدمعاشی میرے ساتھ نہیں چلے گی، کرایہ دے ورنہ یہیں راستے میں اتار دوں گا ٹھڈے مار کے، میں نے دے دیا"

میں نے گود پہ دھری چادر کمر کے پیچھے سے لا کے سامنے سے دونوں کندھوں ڈالی اور قمیض جھٹک کے کھڑا ہو گیا
"تینتیس تیرہ ابھی گیا ہے یہاں سے، دس منٹ میں واپسی ہے اس کی. چلو آ جاؤ سڑک پہ.."
سب اٹھ کھڑے ہوئے
" کنڈیکٹر کی طبیعت ایسے صاف کرنی ہے جیسے ایریل کپڑوں کی صفائی کرتا ہے، طبیعت سے"

ہم سب سڑک کے دونوں طرف کھڑے ہوگئے... تبھی سالک چیخا
"وہ... وہ تینتیس تیرہ ہے، یہی ہے"
سب الرٹ ہو گئے.... میں نے شمشیر کو ساتھ لیا اور بیچ سڑک میں گاڑی رکوا تھی... لڑکے کنڈیکٹر والا مسافر دروازہ کھول کے کنڈیکٹر پہ پل پڑے

ڈرائیور نے ویگن ہلکی سی آگے بڑھائی، سامنے میں کھڑا تھا... میں نے زور اور غصے سے ڈرائیور کی بائیں طرف سکرین پہ زور سے ہاتھ مارا
" رُک "
سب کچھ رک گیا تھا اس لمحے میں، وہ لمحہ ہی رک گیا تھا..زمان و مکاں ساکت، سارا جہاں ساکت ہو گیا تھا... جب میں نے سکرین پہ زور سے ہاتھ مارا تو "پیسنجر سیٹ" پہ اپنی ماں کے ساتھ بیٹھی وہ دبک گئی تھی... سفید برق لباس میں اس خوفزدہ ہرنی کی آنکھوں والی کے چہرے کو جیسے نور کے ہالے نے لپیٹ رکھا تھا.. سفید دوپٹے سے کالی سیاہ رات جیسے بالوں کی ایک لٹ، الجھی الجھی سی دائیں آنکھ کے پاس انگور کی بیل کی طرح لٹک رہی تھی... میرا ہاتھ سکرین پہ دھرا تھا اور گاڑی روکتے روکتے میں انجانے میں وقت روک بیٹھا تھا... اس کی آنکھوں میں خوف دھیرے دھیرے دھندلانے لگا تھا، کیا تھا اس کی آنکھوں میں، کیا نہیں تھا ان آنکھوں میں... جیسے وہ آنکھیں مجھے کہہ رہی ہوں،
"چل چھوڑ دے وقت کی کلائی سُودے ، جانے دے ناں"

اور میں نے ہاتھ سکرین سے اٹھایا اور چیخا
"چھوڑ دو جانے دو.... بس.... بس بس... جانے دو"

جانے کیا تھا اس وقت میرے چہرے پہ، سب ٹھٹھک کے رک گئے..
شمشیر نے مجھے ہلا کے سڑک سے ہٹایا
"سُودے، تُو ٹھیک ہے ناں، تیرا تو چہرہ ہی بدل گیا ہے"

میں سڑک کنارے کھڑا ایک ہاتھ سے "جانے دو، جانے دو" کے اشارے کر رہا تھا اور ویگن ہلکی ہلکی آگے بڑھنے لگی، اس نے پاس سے گزرتے گردن بائیں طرف موڑی، میری طرف دیکھا، ویگن آگے بڑھ گئی..
اس کی آنکھیں، میرے لوحِ دل پہ نقش ہو گئیں، میں کوئی شاعر نہیں کہ ان آنکھوں کے کہے چند حروف کو قصیدوں میں پرو سکوں نہ ہی کوئی ادیب کہ لفظوں کے پیچ و خم سے بتا سکتا کہ وہ آنکھیں آخری بار جاتے جاتے کیا کہہ گئی تھیں.. وہ آنکھیں جیسے آسمانی صحیفہ تھیں جن پہ گِن کے چودہ الفاظ درج تھے ،

"مجھے جانے دیا تو نے سُودے، اب یہ وقت کہاں کہیں جا سکے گا"

Sunday, October 20, 2019

جھوٹی امید... پنجابی

‏"جھوٹی امید" 

اک سُفنے دی قبر اتے
جدے مَتھے لخیا ناں وی
وریاں بارشاں دے گل لگ کے
اپنے سارے اَکھر رو بیٹھا اے
جدی مٹی اپنے اندر
ساریاں دُھپاں دی اَگ لے کے
اپنی کوکھ ساڑ بیٹھی سی

آج اس سُفنے دی قبر اتے
اک بے ناواں پھُل اُگیا اے
..... 

‎#مقصود_عاصی

‎#MaqsoodAsi

Wednesday, October 16, 2019

تماشائی

سنتے آئے ہیں کہ زندگی امتحان ہے.. امتحان میں سوال نامہ کیا ہے، کہتے ہیں کہ وہ بھی معلوم ہے، بس جواب درست دینے کی مسلسل تگ و دو میں رہنا جینے کا مقصد ہے...

اب ہم ٹھہرے سدا کے نالائق، سامنے کی بات سمجھنے میں ہمیں کئی کئی دن 'ضائع' ہو جاتے ہیں، یہ تو پھر زندگی ہے، الجھی ہوئی ریشم جیسی.. ہمارے پلے کہاں سے پڑتی !!

سو آدھی عمر، زندگی کے گھمبیر سوال کی تلاش میں سر کے بال اڑانے اور داڑھی میں سفیدی اتارنے کے بعد ہم نے یہ سوال نامہ پھاڑ کے ہوا میں اچھال دیا ہے اور جواب پہ فاتحہ پڑھ لی ہے...

اب ہم کسی بھی شے یا وجود کے ہونے یا نہ ہونے کا جواز تراشتے ہیں نہ جواب تلاشتے ہیں...
جب تک ہم تلاش میں تھے، ہم تماشہ تھے... اب ہم تماشائی بن کے بیٹھتے ہیں کبھی ہونہہ کہہ کر سر ہلاتے ہیں اور کبھی دانت نکال کے تالیاں پیٹتے ہیں..
اگر ہم نالائق نہ ہوتے تو یہ بات سمجھنے میں عمر نہ گال دیتے... سامنے دھرے جواب پہ قہقہے لگاتے گلی میں بھاگ گئے ہوتے...

بات یوں ہے کہ مولوی فرید ہمارے گاؤں کا ایک کردار تھا... ہمیشہ صاف سفید تہہ بند اور کُرتے میں ،سفید پگڑی باندھے صبح صبح گاؤں سے نکلتی سڑک پہ سائیکل پہ 'پیڈل' مارتا گاؤں سے نکلتا اور عصر کے بعد سائیکل پہ کچھ تھیلے لٹکائے واپس آتا دکھائی دیتا تھا...لوگ کہتے تھے کہ وہ دور دراز علاقوں میں جا کے دَم درود کر کے دیتا ہے اور پیسہ، آٹا، گندم جو ملے، لے لیتا ہے.. مگر نہ ہم نے کبھی پوچھا نہ اس نے کبھی ایسا ظاہر ہونے دیا...
شادی اس نے کی نہیں تھی اور اپنے بھائی کے گھر ہی رہتا تھا... ہم سے مسجد یا باھر جہاں بھی ملتا ہمیں ہم عمر لگتا... ہماری ابھی کہیں کہیں سے داڑھی نے سر اٹھانا شروع کیا تھا اور اس کی آدھی سے زیادہ داڑھی سفید ہو چکی تھی...اسے عمر میں بڑا اور ہمیں چھوٹا ہونے کا کوئی مسئلہ نہیں تھا...

مسئلہ ہماری آنکھ کو ہوا..داہنی آنکھ سُوج گئی اور ہم بلا وجہ 'کانے کانے' سے لگنے لگے.. جانے کیا ہوا تھا، رات کو سوئے تو کوئی مسئلہ نہیں تھا، صبح اٹھے تو سب کو 'ایک آنکھ' سے دیکھنے لگے... اماں کے بقول رات کو کوئی کیڑا آنکھ سے گزرا ہے تو آنکھ سوج گئی ہے.. علاج بھی اماں نے یہ عنایت فرمایا کہ ساتھ والے گاؤں میں ایک 'بابا جی' کا مزار ہے، وہاں جھاڑو دیں تو آنکھ ٹھیک ہو جاتی ہے...

ہم نے جگری یار شاقی کو ساتھ لیا اور گپیں ہانکتے دربار پہنچے... دربار کی حالت واقعی 'جھاڑو مانگ' تھی.. دیوار کے ساتھ پڑے جھاڑو اٹھا کے بسم اللہ پڑھ کے جھاڑو دینا شروع کیا تو جانے کب ہمارے گناہ گار ہونٹ "میرے رنگ میں رنگنے والی، پری ہو یا ہو پریوں کی رانی، یا ہو میری پریم کہانی" گنگنانے لگے، شاقی کا جھاڑو ہماری تشریف پہ پڑا تو ہم تھمے..

"شرم کر حیا کر، دربار میں گاتا ہے ؟ آنکھ ٹھیک کرانے آیا ہے کہ سُر سیدھے کرانے"... شاقی اپنی ہی جگت پہ ہنسنے لگا اور ہم دونوں ہنستے ہوئے "میرے سوالوں کا.. جواب دو... دو ناں" گاتے جھاڑو دے کے نکل آئے...

عصر کی نماز تک واپس اپنے گاؤں پہنچے تو ہم بدستور 'ایک آنکھ سے دیکھ رہے تھے'... مسجد میں پرائمری اسکول کے ہیڈ ماسٹر 'ماسٹر حسین' نے ہمیں ایک آیت(وَإِذَا بَطَشْتُم بَطَشْتُمْ جَبَّارِينَ) سنا کے پوچھا "آتی ہے؟" ہم نے ایسے ہی "جی سر" کہہ دیا.. بولے، "یہ آیت پڑھتے پڑھتے شہادت کی انگلی ہتھیلی پہ رگڑتے جاؤ، جب انگلی گرم ہو جائے تو سوجی آنکھ پہ پھیرو، یہ عمل بار بار دہراتے جاؤ اور آیت پڑھتے جانا "... ہم نے پھر "جی سر" کہہ دیا....

نماز کے بعد ہم اور شاقی سر جوڑ کے بیٹھ رہے کہ وہ آیت کون سی تھی.. سوچا کچھ سپارے پھرولتے ہیں مگر تیس سپارے! اتنے میں مولوی فرید آ گیا اور ہم نے اپنی سمسیا اس کے آگے رکھ دی...مولوی فرید نے پوچھا "وہ شہادت کی انگلی گرم کی؟"... ہماری نفی میں ہلتی گردن پہ وہ ہنسنے لگا....
"یار، تو انگلی رگڑ ہتھیلی پہ اور انگلی گرم ہو جائے تو سوجی آنکھ پہ رکھ، دس بارہ بار ، کچھ دیر میں ٹھیک ہو جائے گی آنکھ"....
"تو وہ آیت کے بغیر"؟؟
مولوی فرید ہنستے ہوئے اٹھا اور "تیرا سوال ہی تیرا جواب ہے" کہہ کے وضو کرنے چل پڑا....

Monday, September 30, 2019

آخری شاہکار

کمرے میں سگریٹ کے دھوئیں کے بادل سے اڑ رہے تھے... سارے میں رنگوں اور سگریٹوں کی بو پھیلی تھی... داہنی دیوار پہ لگے ہیٹر کی مہربانی سے درجہ حرارت مناسب تھا.. کھڑکی پہ ہوا کے زور سے برف کے تھپیڑے پڑ رہے تھے.... گلی میں لگا لیمپ جیسے کمرے میں ہی جھانک رہا تھا... کمرہ کیا تھا، کسی گناہ گار کی اجڑی قبر لگ رہا تھا... ایک کونے میں کچھ کتابیں اپنی بوسیدگی پہ ماتم کناں تھیں... رنگوں سے بھرے پرانے برش جا بجا اپنا خون تھوک چکے تھے، لکڑی کا فرش جیسے زخموں سے بھرا پڑا ہو... کچھ پرانے پیلے کاغذوں پہ برہنہ تصویریں کسی شوقین کی قبر کا کتبہ معلوم پڑتی تھیں..

سفید بالوں میں کہیں کہیں کالے بال بھی جھلک رہے تھے، وہ داہنے ہاتھ سے سر کھجاتا، باہنے ہاتھ میں پکڑے گلاس سے دو گھونٹ پینے کے بعد کبھی کینوس اور پھر چھت کو گھورنے لگتا.... کھانسی اس کے گلے کی مقیم تھی، ہر چند سانسوں کے بعد کھڑکی کھولتی، محلے والوں کو صلواتیں سناتی اور زور سے کھڑکی بند کر دیتی...

کینوس پہ کچھ رنگ الجھے ہوئے تھے... وہ مصوری میں شاہکار تخلیق کرنے کی خواہش میں ساری زندگی گزار چکا تھا... اب کے گلے کی کھڑکی کھلی تو کھانسی نے آنتیں گلے تک کھینچ لیں... ہاتھ سے گلاس گرا اور بچے ہوئے دو گھونٹ بھی فرش کا نصیب ہوئے... وہ دیوار سے ٹیک لگا کے فرش پہ بیٹھ رہا... سانسیں بھاری ہو رہی تھیں... وہ آنکھوں تک آئے بال جھٹک کے بہتی آنکھوں کو میچ کے بیٹھ رہا... سب یادوں کے صندوق الٹ گئے...

ہوش سنبھالنے کی پہلی یاد کہ اس نے ماں کو ننگا دیکھا تھا جب وہ ابا کے کمرے سے نکل کے باتھ روم کے آئینے کے سامنے الجھے بالوں میں کنگھی کر رہی تھی... وہ یاد اس کے ہاتھوں سے نکلتے رنگوں کی بنیاد تھی...

اس کے بوڑھے ماتھے پہ پسینہ تیر رہا تھا، دل کہیں گہرے سمندر میں ڈوب رہا تھا...

نئی نئی جوانی کے تمام تجربات سامنے ناچنے لگے،جب جسموں میں ہوتی تبدیلیاں، سوچنے سمجھنے کی راہیں بدلنے لگی تھیں.. جب ہر خوبصورت شہر فتح کرنے کی ناآسودہ خواہشات آنکھوں سے نیندیں لے گئی تھیں اور بجھتے چراغ کے کالے دھواں جیسے حلقے آنکھوں کے گرد پھیلنے لگے تھے...

ناآسودہ اور نامکمل خواہشات عمر کا آدھا حصہ ڈکار چکیں تو ایک شام ساحل سمندر پہ، ڈوبتے سورج کی خودکشی نے روٹھے ہوئے رنگوں سے، پھر سے متعارف کروا دیا.. بچپن کی پہلی یاد سے زندگی کے تمام کالے سرخ تجربے کینوس پہ رنگ برسانے لگے.... انھیں رنگوں میں بھیگتے بھیگتے کب بال اپنا رنگ بھول گئے، یاد نہیں...

کھانسی گلا چھیل رہی تھی، گلے میں خون کا ذائقہ گھل رہا تھا... زور زور سے چھاتی پیٹتے وہ دوہرا ہو گیا... اس نے پیروں میں پڑے رنگ پکڑے اور کینوس پہ دے مارے... رنگ کینوس پہ اچھلے اور کھانسی کے ساتھ اس کے گلے سے خون کا فوارہ سا نکلا... اس کا سر فرش پہ ڈھلک گیا، آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں سامنے باتھ روم کے کھلے دروازے سے آئینہ دکھائی دے رہا تھا....


"پانچ ملین ایک..... پانچ ملین دو...... پانچ ملین تین" ڈائس پہ کھڑا شخص مائیک پہ چیخ رہا تھا....

"تو صاحبان ،آج شام مصوری میں نئی جہت کے بانی، رنگوں کے خدا جناب الپ ارسلان کا آخری شاہکار، ملک کے مشہور بزنس ٹائیکون، رئیل اسٹیٹ کے بادشاہ امن اخلاق کے نام ہو گیا"...

ہال میں تالیاں گونجیں تو اگلی کرسیوں سے امن اخلاق ساتھ بیٹھے بیٹے کا ہاتھ تھام کے کھڑے ہوئے اور پلٹ کے فاتحانہ مسکراہٹ ہال میں اچھال دی.. بیٹے کا ہاتھ پکڑے اور ایک ہاتھ میں عصا پکڑے وہ سٹیج کی طرف بڑھے...آنکھوں پہ لگی کالی عینک کے پیچھے بھی کالا گھپ اندھیرا تھا....

Thursday, September 19, 2019

تخلیقی کیڑے

میرا پہلا اعتراض مجھے تخلیق کیے جانے پہ تھا اور دوسرا اہم اعتراض، مجھے جیسا تخلیق کیا گیا تھا، اس پہ تھا... رنگ و نور کی اس دنیا میں، میں اپنی کیچڑ جیسی رنگت کا کس سے جواب مانگتا... میرے اماں ابا، دونوں بڑے بھائی اور منجھلی بہن سب صاف رنگت کے تھے تو میں کیوں نہیں؟؟

جانے نائی نے میرا اولین منڈن کس اُسترے سے کیا تھا کہ میرے بال 'مانگ نکالے' جانے کو کفر خیال کرتے تھے.. بال بڑھتے تھے اور نیچے ماتھے کی طرف سو کبھی بال بڑے رکھنے کی خواہش پالنے کی ہمت بھی نہ ہو سکی...

ناک جو کہ معاشرے میں کٹنے اور کٹوانے کے کام آتی ہے، آدھے چہرے پہ پھیلی پڑی تھی گویا.. مجھے کامل یقین ہے کہ میری ناک ہڈی سے محروم ہے..ناک مونث ہے مگر 'میری ناک مذکر ' ...

سامنے کے دانت بڑے اور آگے نکلے ہوئے تھے اور اس کی وجہ سے اوپر والا ہونٹ اونٹ کے ہونٹوں کا فرسٹ کزن لگتا تھا...

قد چھے فٹ سے نکل رہا تھا اور اپنی شکل پہ لوگوں کی جگتیں سننے کے بعد سر جھکانے کی عادت بچپن سے پڑ گئی تھی سو جوانی میں ہی ہلکا سا 'کُب' نکل آیا تھا.. ٹانگیں پتلے بانس کی طرح لمبی تھیں سو چلتا تھا تو دیکھنے والوں کو لگتا دوڑ رہا ہوں...

یہ جو مندرجہ بالا کیڑے میں نے اپنی تخلیق میں نکالے ہیں، یہ میرے لیے، بچپن سے جوانی تک میرے اردگرد بکھرے خوبصورت لوگوں کے مونہوں سے نکلتے آئے تھے... میں اپنے آپ سے شرمندہ پھرتا تھا... کبھی اعتماد نام کی شے مجھ میں سر اٹھا ہی نہ سکی... سکول سے کالج اور پھر کالج سے روزگار کی دوڑ تک، میں ان کیڑوں کو بآسانی ہضم کرنے کا عادی ہو چکا تھا... اب دوسروں کے مونہوں سے نکلے یہ کیڑے اپنی اولاد جیسے لگتے تھے...

لڑکپن کی محبت اتنی خوبصورت تھی کہ اس سے محبت کا اظہار اس سے کوئلوں کی دلالی کرانے جیسا تھا... سو اپنی پہلی محبت اپنے ہاتھوں مار کے دل میں بنی اس کی قبر کا مجاور بن گیا....

اور پھر میرے کیچڑ جیسے جیون میں وہ دن آیا جس نے میرے دوسرے اہم اعتراض کے پرخچے اڑا دئیے... امن آباد جیسے بڑے اور خوبصورت شہر میں کام کرتے تین سال ہو چلے تھے کہ ایک دن ایک کولیگ وزیٹنگ کارڈ جیسا ایک کارڈ تھما گیا کہ جا اپنی بدرنگ زندگی میں کچھ رنگ گھول لے... اس نمبر پہ فون کیا تو خاتون آپریٹر نے کچھ پل خوبصورت بنانے کی ترکیب کی مکمل آگاہی دی اور وقت طے کرنے کی بابت پوچھا...کل رات ساڑھے نو بجے کا وقت ملا اور پتا بھی بتا دیا گیا....

ساری رات اور اگلا دن عجیب سی کیفیت میں گزرا... طوائف کے کوٹھوں کے قصے سنتے پڑھتے، اب خود طوائف کے کوٹھے پہ جانے کی نیت باندھے بیٹھا تھا.. کبھی لگتا کہ گناہ کی اس گندگی سے بچنا چاہیے اور اگلے ہی پل یہ سوچ کے ہنسی نکل آتی کہ کیچڑ گند میں گرا بھی تو کیا فرق پڑتا ہے...
کام سے جلدی واپس آ کے نہا دھو کے کپڑے بدلے اور دئیے گئے پتے پہ وقت پہ پہنچ گیا ... فلیٹ کے باھر لکھے نمبر کو چار بار پڑھ کے تسلی کی تو گھنٹی بجا دی... دل کچھ اتھل پتھل ہو رہا تھا... کچھ دیر میں دروازہ کھُلا تو سبز اور سفید ساڑھی میں وہ توبہ توڑ جوانی، زندہ مسکراہٹ سجائے خوش آمدید کہہ رہی تھی....

میں اندر تو چلا گیا مگر میرے اندر کہیں ڈر اب بھی موجود تھا کہ میں اپنے تمام تر تخلیقی کیڑے لیے اس حسینہ کی بانہوں کا حق دار ہوں؟

وہ ساڑھی کا پلو گرا کے پلٹی اور گھنگھریالے بالوں کو چھاتی سے پیچھے جھٹک کے میری طرف بڑھی... بیڈ پہ میرے ساتھ بیٹھ کے اس نے ایک ٹانگ میری بانس جیسی ٹانگ پہ دھری اور بائیں ہاتھ کی انگلی میرے اونٹوں کے فرسٹ کزن جیسے ہونٹوں پہ پھیرتے ہوئے بولی 'یہ ہونٹ کتنے پیارے ہیں'... میرا دل اچھل رہا تھا، اس نے میرے دھڑکتے ہونٹوں پہ تسلی کے دو لب رکھ دئیے...

میں رنگوں کی نہر میں غوطہ زن تھا... لہروں کی اُٹخ پٹخ تھمی تو میری چھاتی پہ اپنا بازو دھرے وہ میرے سر کے بالوں میں کبھی انگلیوں کی کنگھی کرتی تو کبھی میرے کیچڑ جیسے چہرے پہ ڈاک خانے جیسی مہریں لگا دیتی... پھر میری مذکر ناک کو کھینچ کے بولی 'جائیے بھی، جائیں گے نہیں تو واپس کیسے آئیں گے'...

میں گونگا ہو چکا تھا... جلدی جلدی پینٹ شرٹ پہنی، جوتے کے تسمے باندھے، پینٹ کی پچھلی جیب سے بٹوا نکالا اور طے شدہ رقم نکال کے بیڈ پہ رکھی اور دروازے کو لپکا... بازو کے بٹن بند کرتے دروازے کے پاس رکا اور پلٹا... وہ کم ہوا بھرے غبارے بلاؤز میں چھپا رہی تھی.. اس نے اسی زندہ مسکراہٹ اور سوالیہ آنکھوں سے دیکھا... میں لپکا اور جا کے اس کے پاؤں پہ ماتھا ٹکا دیا... اس نے پاؤں کھینچنے کی کوشش کی مگر میں دونوں ہاتھوں سے اس کے پاؤں پکڑے انھیں چومے جا رہا تھا اور میرے آنسو جیسے اس کے وضو کا آخری جزو پورا کر رہے تھے....

Tuesday, September 10, 2019

سانجھے حُسین

سارے میں آہوں اور ہچکیوں کی آوازیں تھیں ،مسجد کھچا کھچ بھری تھی .. آسمان چیرتے مینار پہ لگے اسپیکر میں سید ظفر علی شاہ کی رندھی آواز گونجی " نانے دے مونڈھے تے چڑھن آلا شہزادہ ،نیزے تے چڑھیا کڈھا سوھنا لغدا ہونا (نانا کے کندھے پہ بیٹھنے والا شہزادہ، نیزے پہ کس شان سے سجا ہو گا) " یہ کہتے ہی شاہ صاحب دھاڑیں مار مار کے رونے لگے....

اڑھائی، پونے تین سو گھروں پہ مشتمل گاؤں میں ایک گھر بھی شیعہ نہیں تھا ،کوئی تیس چالیس گھر وہابی تھے باقی سب سنی العقیدہ... مگر محرم سب کا سانجھا تھا، حسین کا درد سب کے دل کا تھا.. کوئی رونا گناہ، کوئی ماتم بدعت نہیں تھا..

محرم کی پہلی تاریخ سے حسین کے دکھ کی مدھم لو جلنی شروع ہو جاتی تھی... دن گزرتے جاتے اور حسینی قافلہ نو محرم تک جا پہنچتا... نو اور دس محرم کو روزہ رکھا جاتا... یہ روزہ رمضان کے روزوں کی طرح کوئی فرض نہیں تھا، یہ روزہ کربلا والوں کی پیاس سے سانجھ کی علامت تھا ... لوگ ثواب کی نہیں، بہتر مظلوموں کی پیاس اور تکلیف میں ساتھ دینے کی نیت باندھتے تھے... کوئی بدعت کا فتویٰ نہیں آتا تھا.. کوئی روزے کی نیت پہ شک نہیں کرتا تھا....

مساجد میں مجالس برپا ہوتیں.. کوئی شیعہ ذاکر نہیں آتا تھا.. کوفے کے دھوکے سناتے... اہل بیت کے دکھ رلاتے... کچھ چپکے روتے، کوئی آہوں سے... کچھ غم سے نڈھال ہو جاتے اور کچھ سینے کے اندر جلتے درد کو ہاتھ مار مار کے بجھاتے...

تب حسین سانجھے تھے... حسین کے ساتھی اور دشمن سب کے سانجھے ساتھی اور دشمن تھے... تب ظالم کو ظالم کہنے میں کوئی اگر مگر نہیں تھا، تب مظلوم پہ ہوئے ظلم کی کوئی توجیہہ نہیں تھی... تب ظالم، ظالم تھا اور ظالم کے ظلم و استبداد کے سامنے کھڑا ہونا حسینیت تھی...
تب حسین سانجھے تھے!!

Saturday, August 31, 2019

دوست کا نوحہ (حسنی بلوچ کی سچی تحریر)

لوگ کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا ایک مصنوعی دنیا ہے مگر اسی مصنوعی دنیا سے انسان کا ایک تعلق بن جاتا ہے جو عام رشتوں سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے.. مجھے اچھے دوست ملے، آپ سب نے بہت عزت دی میں شاید اس قابل نہیں تھا.. آپ لوگ بہت اچھے ہیں آپ سب کا احترام محبت ہی میری زندگی کا سرمایہ ہے .. اس مضمون کے بعد شاید میں پھر کبھی سوشل میڈیا استعمال نہ کر سکوں، وجہ وہی کہ میں خود پر جبر کرکے اپنے دکھ کو خوشی کا مصنوعی لبادہ پہنا نہیں سکتا.. مجھے الفاظ سے کھیلنا نہیں آتا ہے اس لئے جو باتیں یاد آئیں لکھتا گیا.. اب اصل بات کی طرف آتے ہیں

"زندگی میں آپ کو اتنے ہی دکھ اور آزمائشیں ملتی ہیں جتنا تم میں برداشت کرنے کا حوصلہ ہو "
یہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے.. دکھ کاٹتے اور غم سہتے ہوئے لوگ پاگل ہوجاتے یا مر جاتے ہیں.. لوگوں نے صرف ظلم اور جبر کی باتیں سنی ہیں، جبر اور ظلم کیا ہوتا ہے یہ مجھے اس مہینے پتہ چلا ۔۔۔
میں صرف اس واقعہ پر بات کرنا چاہتا تھا مگر ایک بات لازمی کروں گا.. لوگوں کو کلمہ پڑھوا کر مسلمان کیا جاتا مگر ہمیں جب کلمہ پڑھنے کا کہا جاتا تو اس کے معنی آپ کی موت ہے اور یہی لوگ خود کو مسلمان کہتے ہیں.. اللہ اکبر کہہ کر ہمیں موت کا تحفہ دینے والوں کو مسلمانوں پر غیر مسلم کے ظلم پر واویلا کرتے دیکھا مگر ہمیں کلمہ پڑھنے کا کہہ کر مارا جاتا ہے.. یہ کلمہ شاید موت کا پیغام ہے ہمارے لئے یا شاید ہم کافر ہیں

"زندگی ہم سے کبھی نہیں جیت سکتی اگر ہم ہار نہ مانے" گہرام ہمیشہ اداسی اور دکھ کے لمحات میں ہم دوستوں کو تسلی دیتے ہوئے یہ الفاظ ادا کرتا تھا اور مسکرا کر ہمیں دیکھتا تھا

یہ کہانی ہم تین دوستوں کی ہے.. گہرام (بلوچی میں گواہرام کہتے ہیں) دل مراد اور حسنی کی ہے.. چھٹی کلاس سے میٹرک تک اس اسکول میں صرف میں ہم تین بلوچ طالب علم تھے.. اسکول سے یونیورسٹی تک ساتھ ہی رہے اور ہمیشہ مجھے بڑے بھائی کی طرح احترام دیتے تھے.. گہرام کے والد سے تعلیمی رہنمائی لیتے تھے اور دل مراد کے والد کے پاس بیٹھ زندگی کے مختلف پہلو پر بات کرتے تھے..
دل مراد بہت حساس لڑکا تھا، ایک وقت آیا جب اس نے تعلیم ادھوری چھوڑ دی اور لانچ پہ چلا گیا.. یہ لانچ تقریبا دو سے تین مہینے سمندر میں رہتی ہے.. جون جولائی میں اسکی چھٹیاں ہوتی تھیں تو ہم تینوں ایک ساتھ رہتے تھے.. دل مراد اکلوتا تھا تو اسکا گھر ہمارا ڈیرا ہوتا تھا.. ہم گھر کے کام میں ماں کی مدد کرتے تھے، کھانے بناتے تھے، گھر کی صفائی سے لیکر برتن دھونا ہماری ذمہ داری ہوتی تھی.. فلمیں دیکھنا کتابیں پڑھنا موسیقی سننا دھنیں بنانا اور اس پر شاعری کرنا، ہمارا یہی لگا رہتا تھا.. دل مراد کی ماں کو ہم سب بی بی کہتے تھے بی بی ہمیں ڈانٹتی بہت تھی کہ ہم اپنا خیال نہیں رکھتے.. اتنے کمزور ہوگئے ہیں اور ہم بی بی کی ڈانٹ سن کر ہنسا کرتے تھے.. مائیں سانجھی ہوتی ہے یہ سبق ہم نے بچپن میں ہی سیکھا...
گہرام اپنے گھر میں سب سے بڑا تھا ایک ادارے میں اچھی پوسٹ پر کام کرتا تھا ، میں خیر حالات کی مجبوری کی بنا ملک سے باہر چلایا..
اب آپ دل مراد کی کہانی سنئیے.. دل مراد اپنے ماں باپ کا اکلوتا اولاد تھا، تعلیم حاصل کرنے باوجود سمندر سے محبت اور خاندانی پیشہ ماہی گیری سے محبت نے اسے اپنے لانچ پر کام کرنے کی ترغیب دی.. ایک اچھا میکنک اور ڈرائیور ہونے کی وجہ سے اسے کام کرنے میں آسانی رہی.. والد کی بیماری کی وجہ سے گھر کی ذمہ داری دل مراد نے اٹھائی.. یونیورسٹی میں تعلیم ادھوری چھوڑ کر وہ گھر کی کفالت میں لگ گیا.. 10 سال تک محنت کی، گھر بنایا.. پچھلے سال جب دل مراد لانچ کے سفر سے جون جولائی کی چھٹیوں پر گھر آیا تو ماں نے کہا کہ گہرام کے گھر والوں کو بلا لو وہ یہاں بچوں کی چھٹیاں منا لیں.. اگلے دن وہ کراچی کےلئے روانہ ہوا مگر گہرام سے نہ مل سکا اور اسی دن سے دل مراد لاپتہ ہوگیا..

بہت تلاش کیا مگر وہ نہ مل سکا سب اسی انتظار میں کہ اسکی کوئی اطلاع مل جائے.. مگر دل مراد کو آسمان نگل گیا یا زمین کھا گئی.. میں اس سے ملنے گیا تو ماں نے مجھے کہا بیٹا میرا ایک کام کرو اپنے دوست دل مراد کو ڈھونڈ کر لاؤ.. میں کیا جواب دیتا بس کہا ماں وہ جلدی آجائے گا..
اب گہرام کی کہانی سنیے.. میں گہرام سے جب ملا تو مجھے لگا وہ مجھ سے بہت کچھ کہنا چاہتا ہے مگر کہہ نہیں پارہا تھا اسکی آنکھوں میں کئی سوال تھے اور چہرے پر ایک عجیب سا دکھ.. میرے کریدنے پر بھی وہ خاموش رہا.. دل مراد کو لاپتہ ہوئے اس سال جون میں ایک سال بیت گیا، اسی سال جولائی میں مجھے گہرام نے فون کیا اور رونے لگا.. میں نے پوچھا کیا ہوا ہے تو پہلے خاموش رہا پھر کہنے لگا
"میرے دل پر ایک بوجھ ہے ایک سال سے میں نہ سو سکتا ہوں نہ مجھے سکون ہے،میں اس زندگی سے ہار گیا ہوں میں بزدل ہوں میں اپنے دوست کو بچا نہ سکا اس کی چیخیں مجھے آج بھی سنائی دیتی ہیں میں بہت تکلیف ہوں بھائی بلکہ میں اپنے دوست کے بارے میں کسی کو اطلاع بھی نہ دے سکا"..
میں نے پوچھا کس کے بارے میں بات کررہے ہو اس نے روتے ہوئے کہا دل مراد کے بارے میں.. اس نے کہا کہ اس دن دل مراد اس سے ملنے کے لئے آنے والا تھا کہ اچانک میرے موبائل پر دل مراد کی کال آئی .. دوسری طرف ایک شخص نے کہا کہ آپ کے دوست ہسپتال میں زخمی حالت میں پڑا ہوا ہے.. تم جلدی سے ہسپتال پہنچ جاؤ .. ہسپتال میں مجھے ایک شخص ملا اور اس نے کہا کہ تم گہرام ہو میں کہا جی ہاں اس نے مجھے ایک گاڑی میں بٹھایا اور اس گاڑی میں دو اور بندے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے پھر اچانک کسی میرے منہ پر رومال رکھ دیا اور میں بیہوش ہوگیا...
جب آنکھ کھلی تو ایک کمرے میں موجود تھا دو نقاب پوش میرے سامنے کھڑے تھے اور انہوں نے دل مراد کے بارے میں پوچھنا شروع کیا میں نے کہا کہ وہ ایک شریف بندہ ہے لانچ پہ کام کرتا ہے انہوں نے مجھے گالی دی تو میں نے جوابی گالی دی پھر انہوں نے مجھ پراتنا تشدد کیا کہ میں بیہوش ہوگیا...
جب ہوش آیا تو پورے جسم سے ٹیسیں اٹھ رہی تھیں.. میری آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی، وقت کا اندازہ نہیں تھا.. کچھ لوگ اندر آئے مجھے اس کمرے سے نکال کر دوسرے کمرے میں لے گئے اور آنکھوں سے پٹی اتار دی..

ایک کھڑکی کے سامنے مجھے کھڑا کردیا، اندر بلب کی روشنی میں ایک شخص کے ہاتھ اوپر دیوار سے بندھے ہوئے تھے جسکا پوارا جسم لہو لہان تھا.. مجھ سے پوچھا کہ یہی ہے تمھارا شریف بندہ ؟ میں نے غور سے دیکھا تو وہ دل مراد تھا.. میں کہا کیوں اس اتنا ظلم کررہے ہو ؟ جواب میں انہوں نے قہقہہ لگایا پھر ایک شخص نے دل مراد پر پانی پھینکا تو وہ کراہ کر رہ گیا اور اسی شخص نے ایک ڈنڈے سے اس کو مارنا شروع کیا وہ چیخنے لگا اور پھر بیہوش ہوگیا پھر اس پر پانی ڈالا گیا اور کہا کہ کلمہ پڑھ لو

مجھے دوبارہ اسی کمرے میں لایا گیا اور کہا کہ تم بھی کلمہ پڑھ لو ۔۔۔۔کلمہ پڑھ لوں؟ اور ایک زوردار تھپڑ میرے منہ پر لگا پھر مجھے ایک انجیکشن دیا گیا اور میں ایک گہری نیند میں چلایا..
جب نیند سے جاگا تو مجھے کمرے سے باہر لے جایا گیا اور ایک لاش کے پاس کھڑا کیا کہا کہ اپنے شریف بندے کا آخری دیدار کرلو تم بھی جلدی ہی اس سے ملنے جارہے ہو... وہ لاش دل مراد کی تھی تشدد زدہ جیسے کسی درندے نے چھیڑ پھاڑ کر رکھ دیا ہو... میں نے پوچھا
"کیا اس نے کلمہ پڑھا تھا ؟ کیا کلمہ پڑھنے سے اس کی موت آ گئی تھی ؟ اگر میں کلمہ پڑھ لوں، پڑھنے کا یہ نتیجہ ہے تو میں کبھی بھی کلمہ نہیں پڑھوں گا"
اس کے بعد میرے ہاتھ پیچھے باندھ دیے گئے اور مجھے دھکیلتے ہوئے ایک جگہ لے گئے تو ایک آواز آئی اسے میرے کمرے میں لے کر آجاؤ... مجھے لے جایا گیا آنکھوں پہ پٹی بندھی ہوئی تھی.. مجھے بٹھایا گیا اور پانی کا ایک گلاس دیا، پھر کہا کہ تمھیں چھوڑ رہے ہیں یہاں جو کچھ بھی دیکھا کسی سے ذکر مت کرنا ورنہ انجام تم جانتے ہو.. تمھارے پورے خاندان کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کیا جائے گا..
مجھے گاڑی میں بٹھایا گیا اور ایک جگہ پر پھینک کر چلے گئے .. میرے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور آنکھوں پر پٹی تھی کافی وقت گزرا تو کچھ لوگ وہاں آئے اور میرے ہاتھ کھول دئے آنکھوں سے پٹی اتاری اور مجھے ہسپتال پہنچایا.. جہاں میں نے پولیس سے کہا مجھے کچھ لوگوں نے اغواء کیا تھا مگر میں نہیں جانتا کہ وہ کون لوگ ہیں..

اغواء سے رہائی کا دورانیہ 36 گھنٹے کا تھا.. جسم کے زخم بھر گئے مگر روح پر لگے گھاؤ مجھے جینے نہیں دیں گے.. مجھے شاید اس دنیا میں آنا ہی نہیں چاہئے تھا میں ہمیشہ عدم تشدد کا حامی تھا بھائی.. مگر میرے ہی بیگناہ دوست کو تشدد کرکے مارا گیا کلمہ پڑھوا کر مارا گیا اور میں کچھ نہ کرسکا.. اب میں پہلی اور آخری مرتبہ ہتھیار اٹھاؤں گا.. ہوسکے تو مجھے معاف کردینا پھر وہ دھاڑیں مار کر رونے لگا اور فون بند ہوگیا.. میں نے اسکے گھر پر فون کیا تو اور اسکے والد سے کہا کہ گہرام کو ڈھونڈ لیں پتہ کریں کہ وہ کہاں ہیں ایک گھنٹے کے بعد پتہ چلا کہ اس نے خودکشی کرلی ہے....

دوست کا نوحہ۔۔

گہرام تم بھی چھوڑ کر چلے گئے.. اتنا ظلم.. میں نے کہا تھا ناں کہ میں آرہا ہوں.. میرا انتظار کیا ہوتا یار، ایسی بھی کیا جلدی تھی.. کیا مجھے آخری بار گلے لگ کر رونے کا حق بھی نہیں تھا.. گہرام میں تمھاری بہادری کی مثال دیا کرتا تھا اور تم نے بزدلی کا مظاہرہ کیا.. آج تمھاری ماں کو کیا کہوں ؟ کیا تسلی دوں ابا کو ؟ بھابی اور بچوں سے کیا کہوں جو مجھ سے کہہ رہے ہیں چاچو ابا کو واپس بلالو.. وہ تمھاری بات نہیں ٹالتا، بہنوں کی نظریں ، مجھ میں اپنے گہرام کو ڈھونڈ رہی ہیں.. کہاں سے لاؤں، کیا کہوں ان بھٹکتی ہوئی نگاہوں سے، گہرام یار تم چلے گئے مگر دکھ و درد کی جس صلیب سے تم نے چھٹکارا پانے کی کوشش کی اب وہ میرے کندھوں پر آگئی ہے.. مجھے اب صلیب اٹھانے کی ضرورت نہیں بلکہ مجھے صلیب پر گاڑھ دیا گیا ہے.. میرے ذہن میں دو دوستوں کے بچھڑنے کا شکنجہ کس دیا گیا ہے.. میرے دونوں ہاتھوں میں درد و غم کی کیلیں ٹھونک دی گئیں.. میں کوئی پیغمبر نہیں ہوں پھر مجھے یہ سزا کیوں دی گئی..
یار تم تو جانتے تھے کہ مجھے تعزیت کرنا نہیں آتا، اپنے دوست کا پرسہ کیسے دے سکوں گا.. میں تیری قبر پر آکر بہت رویا، یار تم نے اپنے ساتھ مجھے بھی دفن کردیا میرے دوست، اب ماں کو کیا کہوں کیوں تم نے ایسا کیا.. پتہ ہے مجھے دیکھ کر ماں نے کیا کہا " تمھارا دوست جھولے میں لیٹ کر سونے چلا گیا ہے اسے مت جگانا ناراض ہوجائیگا " وہ 2 دن سے نہیں روئی مجھے دیکھ کے دھاڑیں مار مار کے رونے لگی..

"بہادری ، صرف اس لمحہ پر قابو پانے کا نام ہے، جب آپ کو ڈر لگے یا خوف آئے، اگر خود اور ڈر پر قابو پالیا تو آپ بہادر ورنہ بزدل اور ڈرپوک صرف ایک لمحہ یہ فیصلہ کرتا ہے " گہرام کو جب بھی میں پوچھتا یار تم اتنے بہادر کیسے ہو وہ ہنس یہ جملہ کہا کرتا تھا

گہرام ہمیشہ عدم تشدد کا حامی رہا اور مشکل حالات میں بھی گہرام کو کبھی گھبراتے نہیں دیکھا اور اب بس اسکی یادیں ہیں باتیں ہیں اور ایک کہانی ۔ زندگی کبھی بھی سازگار نہیں رہی مگر گہرام اسی کو زندگی کا حاصل سمجھتا تھا
" اگر مشکلات نہ ہوی تو جینے کا مزہ کیا ہے حسنی"
گہرام تم ہی تو میرا آسرا تھے، جب بھی کسی مسئلے پر بات کی، کسی مشکل کا ذکر کیا تم نے ہی مجھے حوصلہ دیا.. اب کہاں سے لاؤں وہ ہمت وہ حوصلہ، کس سے بانٹوں اپنے غم اپنی خوشیاں، مجھے جگا کر خود سوگئے.. زندگی میں پہلی بار خود کو تنہا محسوس کررہا ہوں.. میرے دونوں بازوں کٹ گئے ہیں اب زندگی بھی موت کی پرہول خاموشی میں تبدیل ہوکر رہ گئی ہے.. اب صرف تلخ یادیں ہیں جو زندگی میں کڑواہٹ گھول کر رگ رگ میں سرایت کر چکی ہیں

زندگی کی آندھی میں ذہن کا شجر تنہا
تم سے کچھ سہارا تھا آج ہوں مگر تنہا

جھٹپٹے کا عالم ہے، جانے کون آدم ہے
اک لحد پہ روتا ہے منہ کو ڈھانپ کر تنہا

Friday, August 23, 2019

جہنم کی دوپہر

اس کبوتر کے بارے آپ نے ہزار بار سنا اور سو بار پڑھا ہو گا جو بلی کو دیکھ کے آنکھیں بند کر لیتا ہے... مگر یہاں بلی کی آنکھیں بند تھیں اور کبوتر بلی کے چہرے پہ پسینے کے قطرے تک گن سکتا تھا...

جون کی دوپہر تھی کہ جہنم کی دوپہر.. لوگ کمروں میں گھسے پنکھے لگائے سو رہے تھے.. کچھ جانوروں کو لے کے گاؤں کے باھر درختوں کی چھاؤں میں لیٹے تھے مگر میری نیندیں اڑ گئی تھیں، صحن میں درخت کے نیچے بیٹھے کبوتروں میں سے میرا ایک کبوتر (شاہ رخ خان، جس کا میں نے نام رکھا تھا) اڑ گیا تھا... میں دوڑ کے چھت پہ چڑھا... بنیان اور شلوار میں دو چھتیں پھلانگیں تو حوالدار منظور کی چھت پہ شاہ رخ خان دکھائی دیا... مخصوص آواز میں اسے بلایا مگر وہ کم بخت منڈیر سے اڑ کے نیچے صحن میں اتر گیا... لوگوں کی چھتوں پہ بنا آواز چلتا ہوا  میں حوالدار صاحب کی چھت پہ جا پہنچا...

نیچے جھانکا تو حوالدار صاحب کی اکلوتی بیٹی صاعقہ، جسے نیلی آنکھوں کی وجہ سے بلی کہتے تھے، صحن میں لگے لیموں کے پودوں کو پانی دے رہی تھی اور میرا شاہ رخ خان ان کے پائپ سے گرتے پانی کے آگے پیچھے گھوم رہا تھا... میں سیڑھیاں اتر کے نیچے آیا تو مجھے دیکھ کے صاعقہ نے گھبرا کے پائپ نیچے پھینکا اور پتلی سی سفید قمیض سے جھانکتے دو سفید ٹیلے، بازوؤں سے چھپانے لگی.. میں تھوڑا آگے بڑھا اور وہ نظریں جھکائے، گالوں پہ اترتی سرخیاں لیے دو قدم پیچھے ہٹ گئی...
"گھر میں کوئی نہیں ہے"
اس کی آواز دھوپ کی شدت میں پانی کے چھینٹوں جیسی تھی...
"میں شاہ رخ لینے آیا ہوں جی"
یہ کہتے ہی میں کبوتر کی طرف لپکا مگر وہ اڑ کے دو قدم دوسری طرف چل پڑا...
اس کی ہنسی چوڑیوں کی چھنکار جیسی تھی...
"یہ شاہ رخ خان ہے... ہی ہی ہی... تو آپ کیا ہو"
اس کی موٹی موٹی آنکھیں شرارت سے اور پھیل گئیں ...
"میں شوکی ہوں جی"
اور صحن میں اس کی ہنسی کے جلترنگ گونجنے لگے.... شاہ رخ اس کے پاؤں کے پاس جا کھڑا ہوا.....
"واہ بھئی، بڑا جی دار کبوتر ہے آپ کا ، بلی کے ساتھ یوں لگ کے کھڑا ہے"
چارپائی سے دوپٹا اب گلے کے بیچ لٹک رہا تھا
"آخر شاہ رخ خان ہے جی"
میں نے مخصوص آواز دی تو وہ ٹس سے مس نہ ہوا... وہ صحن میں گرے پانی کے قطرے پینے میں مصروف تھا.
"جی، آپ ہی پکڑ دیں اسے، آج تو مجھ سے بھی اجنبی ہو گیا ہے "
"ہائے.. میں کیوں پکڑوں، اب یہ میرا ہو گیا ہے"
"یہ بھی ٹھیک ہو گیا جی،آپ کا ہی سہی مگر آپ کہاں اسے سنبھالتی پھریں گی، مجھے دے دیں، سنبھال کے رکھوں گا جی"
"بہت چالاک ہیں آپ"
ماتھے پہ پسینے کو دوپٹے سے صاف کرتے ہوئے اس نے جھک کے کبوتر اٹھا لیا... شاید زور سے پکڑنے پہ کبوتر پھڑپھڑانے لگا... میں جلدی سے پاس گیا اور کبوتر کو اس کے ہاتھ سے لینا چاہا... اس کے ہاتھوں میں کبوتر تھا اور میرے ہاتھوں میں اس کے ہاتھ ... دل کا پمپ زوروں سے چلنے لگا تھا... اس کی آنکھیں گلاب رنگ ہونے لگی تھیں.. میں نے کبوتر پکڑنا چاہا مگر وہ اس کے ہاتھوں سے اڑ گیا... اس کے ہاتھ مسلسل میرے ہاتھوں میں تھے اور وہ پسینے میں بھیگتی سمٹتی جا رہی تھی... میں نے اس کے ہاتھ چھوڑے اور بازوں اس کی کمر کے گرد ڈال کے اپنی طرف کھینچا تو دو نالی بندوق جیسے میرے سینے پہ آن لگی... اس کے ہونٹوں کی تپش سے میرے ہونٹ جل اٹھے مگر کسی جہنمی کی طرح میرے ہونٹ اس آگ کو چھوڑ نہیں رہے تھے ... بلی کی آنکھیں بند تھیں اور کبوتر بلی کے چہرے پہ پسینے کے قطرے گن رہا تھا...

Thursday, August 15, 2019

طاری کی گرفتاری

میری تو مجبوری تھی مگر یہ شبیرا پچھلے دو دن سے پانچ وقت کی باجماعت نمازیں کن چکروں میں پڑھ رہا تھا.. میری مجبوری ابا جی کے بزورِ ایمان و بازو و جوتے پر قائم تھی مگر شبیرے کی کوئی ایسی مجبوری تھی ہی نہیں.. (شبیر وہ صرف شناختی کارڈ پہ تھا ورنہ پیدا ہونے سے آج تک کبھی اسے شبیر نہیں کہا گیا تھا، وہ شبیرا ہی تھا)

پہلے تو اس کی باجماعت نمازیں ہی ہضم نہیں ہو رہی تھیں اوپر سے ہر نماز کے بعد کبھی سیپارا لے کے بیٹھ رہنا کبھی اضافی نوافل پڑھنے لگنا تو میرے حلق میں اٹک گیا تھا..

اس دن بارش زوروں پہ تھی سو جماعت میں مولوی صاحب سمیت سات افراد ہی تھے جن میں ایک میں مجبور اور ایک شبیرا بھی تھا... سب چلے گئے تو میں نے اسے جا لیا.. میرے پوچھنے کی دیر تھی کہ وہ رو دینے کو تھا.. اور اتنے خشوع و خضوع کی وجہ تھی طارق عرف طاری کی گرفتاری.. طاری اس کا دوست تھا اور چور تھا...

ہوا یوں کہ طاری اپنی گینگ کے ساتھ چوری کرنے ایک ایسے گھر پہنچا جہاں صرف ایک بوڑھی خاتون رہتی تھیں، جن کے دونوں بیٹے امریکہ میں رہتے تھے اور اپنے علاقے کے امیر ترین لوگ تھے.. بوڑھی دادی کو ملنے ان دنوں امریکہ سے پوتی بھی آئی ہوئی تھی ...

طاری گروپ دیوار پھلانگ کے اندر گھسا اور الماریوں کی خاموش تلاشی شروع کر دی... کچھ ہاتھ لگتا گیا مگر کھٹکے سے یا جانے کیسے دادی کی آنکھ کھل گئی اور پھر دادی کے چِلانے پہ پوتی کی بھی.. سو عین اصول کے مطابق یہ بھاگنے کا وقت تھا مگر دادی کی مسلسل چیخ پکار کو بند کرنا بھی ضروری تھا... سو طاری نے دادی کے منہ پہ ہاتھ رکھا اور پستول پوتی کی طرف کر کے منہ بند رکھنے کو کہا... دادی پہلے کسمسائی پھر ہاتھ کے پیچھے سے اس کی گھوں گھاں رکی تو طاری نے ہاتھ ہٹایا... جب وہ دادی کو چپ کرا کے مڑا اور دو چار قدم ہی چلا تو دادی کی آواز نے اس کے پاؤں جیسے برف میں لگا دئیے

"تُو طاری ہے ناں، تُو طاری ہی ہے"

گھبراہٹ میں کچھ نہ سُوجھا، پلٹا اور گولی دادی کے سینے میں داغ کے دیوار پھلانگ گیا....

دونوں بیٹے امریکہ سے آئے اور پوتی کی گواہی میں دادی کے قتل کی ایف آئی آر طاہر عرف طاری کے خلاف کاٹ دی گئی.. گھر سے طاری کو گرفتار کیا گیا اور پھر پولیس کے ریمانڈ میں دے دیا گیا...

سو شبیرے کی ساری نمازیں، مناجاتیں اپنے دوست طاری کی جان بخشی کے لیے تھیں... اپنی دلچسپی کے لیے میں بھی اس واقعے سے جڑ گیا اور پھر ساری بات یوں ہوئی...

گجرات کے نامور سیاسی خاندان سے تعلق تھا امریکہ پلٹوں کا سو طاری کی خاطر مدارت جیل میں خوب ہونے لگی.. تب تک مارا پیٹا جاتا جب تک وہ بے ہوش نہ ہو جاتا... چودہ دن کے ریمانڈ میں طاری تمام تر تشدد کے باوجود اپنی بیگناہی پہ اَڑا رہا تو مزید ریمانڈ لے لیا گیا اور پھر اس کی خوب خاطر مدارت ہونے لگی..

طاری جی دار تھا... تشدد برداشت کرتا رہا مگر یہ ماننے سے مسلسل انکاری تھا کہ اس نے چوری کی اور قتل کیا... جن کی ماں مری تھی وہ پولیس پہ غصہ نکال رہے تھے کہ ایک سنگل پسلی چور سے اقرارِ جرم تک نہیں کروا سکتے.. پولیس پہ سیاسی خاندان کا زور بھی بڑھ رہا تھا سو سرگودھا سے ایک حوالدار کو منگوایا گیا جو "تفتیش" کرنے اور اقرارِ جرم کروانے میں پورے پنجاب میں مشہور تھا... آج تک اس نے چونسٹھ کامیاب "تفتیشیں" کی تھیں... طاری اس کی پینسٹھویں تفتیش تھا...

حوالدار پہنچا، ساری کہانی سنی اور تفتیشی کمرے میں گھس گیا... پہلے راؤنڈ میں اپنے داؤ پیچ لگائے.. پھر کچھ وقفے کے بعد دوبارہ چٹخنی لگا کے شروع ہو گیا... چیخوں کی آوازیں تھمیں تو بند کمرے سے حوالدار بنیان میں سے باھر لٹکتے پیٹ کو کھجاتا باھر آیا اور پانی کا آدھا جگ پینے کے بعد بولا

"دیکھیں جی، دو سخت راونڈز میں وہ مانا نہیں.. میرے پاس اب آخری داؤ ہے، اس میں تکلیف سے یا تو بندہ اقرار کرتا ہے جو کہ آج تک ہوتا آیا ہے یا پھر مر جاتا ہے، انکار کی گنجائش نہیں رہتی ... اب باقی آپ دیکھ لیں"

... دو تین گھنٹے آپس میں صلاح مشورے کے بعد حوالدار کو "گو آن" کا سگنل دے دیا گیا... تب تک امریکہ سے آئے دونوں بھائی، پولیس افسران تھانے پہنچ چکے تھے.. حوالدار اندر گھسا اور اپنے آخری داؤ آزمانے لگا... طاری کی چیخیں سارے تھانے میں گونجنے لگی...

آدھے گھنٹے بعد حوالدار پسینے میں شرابور کمرے سے نکلا اور اپنے افسروں کے سامنے تن کے کھڑا ہو گیا... کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد بولا..
"سَر جی، یہ بندہ قاتل نہیں ہے، یہ قاتل ہو ہی نہیں سکتا"

بے ہوش، ٹوٹے پھوٹے طاری کو ہاسپٹل داخل کروا دیا گیا... کیس میں ثبوت کوئی تھا نہیں اور اقرارِ جرم ہوا نہیں...

کچھ دن بعد سرگودھا سے حوالدار خاص طور پر طاری سے ملنے ہاسپٹل آیا.. اس نے شاپر میں ڈالے کچھ پھل طاری کے سرہانے رکھ دئیے..
"دیکھیں جی،پہلی بار مجھے خوشی ہوئی ہے کہ میں ہارا ہوں، میرے آگے بڑے بڑے جی دار نہیں ٹھہرے مگر تُو سچا تھا، یہ سچائی کی طاقت تھی"...

طاری نے مشکل سے تھوک نگلا اور مری ہوئی آواز میں بولا، "بہن چود، میں نے ہی مارا تھا اس بڑھیا کو یہ چھاتی کے بیچ، کر لے جو کرنا ہے"..

حوالدار کھسیانی ہنسی ہنستا اٹھا اور پیٹ کھجاتا واپس مڑ گیا....

....( یہ ایک سچا واقعہ ہے )

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...