Thursday, March 30, 2017

ڈھلتا سورج

بچپن سے ڈھلتا سورج دیکھنا اور پھر دیکھتے چلے جانا مجھے بیک وقت پاگل اور پر سکون کر دیتا ہے. ڈھلتا سورج جب پانیوں میں لیٹتے لیٹتے ایک بھرپور نظر زمیں پر ڈالتا ہے تو سارے میں جیسے لہو کے چھینٹے سے پھیل جاتے ہیں، گویا سورج مٹھی بھر کے رنگ پھینکے جیسے ہولی کھیل رہا ہو..

میرا بچپن بھی سورج کی طرح ہی تھا، کہیں نکلا، کہیں بکھرا اور کہیں جا ڈوبا.. ابا جی سخت گیر واقع ہوئے تھے سو گھر کا ماحول مکمل بلی اور چوہوں والا تھا.. جیسے ہی بلی گھر سے باھر قدم رکھتی چوہوں کی عید ہو جاتی.. سارے گھر میں قہقہے اڑتے.. کرکٹ کھیلی جاتی ، تاش اور لڈو کے ٹورنامنٹ ہوتے، انتاکشری برپا ہوتا.. مگر جیسے ہی بلی دروازے کے اندر پاؤں دھرتی، سب چوہے اپنی اپنی خود ساختہ بلوں میں جا گھستے،جہاں یا تو اسکول کی کتابوں میں ڈائجسٹ رکھ کے پڑھے جاتے یا پھر مصلے پہ جھوٹے سچے سجدے بچھائے جاتے..

ہماری دھوپ زیادہ اور چھاؤں کم جیسی زندگی میں اصل تفریح تب ہوتی تھی جب مغرب اور عشاء کی نماز کا وقت ہوتا تھا.. ابا جی فجر سے عصر کی نمازیں مسجد میں جبکہ مغرب اور عشاء گھر پڑھتے تھے اور ہم ان دونوں نمازوں کے بہانے گلیاں ماپتے، گرمیوں میں ٹھنڈی سڑک پہ لیٹتے اور تارے گنتے، سردیوں میں مائی فاطمہ کی دوکان سے ابلے انڈے اور پکوڑے کھاتے.. سو اللّہ کی مہربانی سے مغرب اور عشاء کی نمازیں ہمارے لئے نری انٹرٹینمنٹ تھیں..

اور کبھی کبھار ہزار گالیاں کھانے کے باوجود عصر کے بعد کرکٹ کھیلنے نکل جاتے تھے.. اور وہ دن بھی وہی تھا.. میں بیٹنگ کر رہا تھا جب شوکی دوڑتا آیا اور وہ خبر سنائی کہ سب کرکٹ چھوڑ چھاڑ اس کے گرد کھڑے ہو گئے.. خبر تھی صائمہ کے بارے میں.. اور صائمہ گاؤں کی وہ اکلوتی لڑکی تھی جس نے دسویں جماعت میں اپنے اسکول میں جینز شرٹ پہن کے ڈرامہ کیا تھا اور یہ خبر لڑکوں نے اپنی شلواریں تھام کے سنی تھی.. ھر گاؤں میں ایک آدھ صائمہ ضرور ہوتی ہے جسے لڑکی ہوتے ہوئے بھی دنیا کی پرواہ نہیں ہوتی اور وہ اپنی مرضی سے زندگی جیتی ہے. اور میرے لئے عورت کا اصل حسن، عورت کے اعتماد میں ہے.. اور یہ راز مجھ پہ صائمہ نے کھولا تھا.. اور شوکی اسی صائمہ کی خبر لایا تھا، خبر کیا تھی، دھماکہ تھا..

"صائمہ گھر میں اکیلی تھی اور اس نے ماسٹر اللّہ دتہ کے لڑکے راشی(راشد) کو گھر میں گھسا رکھا تھا.. صائمہ کا باپ جو کہ پولیس میں حوالدار تھا،اچانک غیر متوقع چھٹی پہ گھر آیا اور صائمہ اور راشی کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا ہے "
یہ خبر کیا تھی، سب لڑکوں کی آنکھوں کے آگے گویا فلم سی چل پڑی.. سبھی نے وہ وہ سین بنائے کہ خود ان کے کان لال ہو گئے.. میں وہاں تھا مگر وہاں نہیں تھا.. صائمہ کے ساتھ میں کھیل کے بڑا ہوا تھا، اور ھر لڈو کے کھیل میں وہ میری ساتھی ہوتی تھی.. ھم اکٹھے ھارے تھے ہم اکٹھے جیتے تھے.. کرکٹ کسے کھیلنی تھی، سب لڑکے صائمہ اور راشی کی فلم کی سٹوریاں بنا رہے تھے اور میں بھی ان کے ساتھ ہی بیٹھ رہا.. پھر کالو نے آ کے خبر دی کہ صائمہ کا باپ دونوں کو گولی مار دینا چاہتا تھا مگر ماسٹر اللّہ دتہ اپنی ٹوپی اتار کے حوالدار کے پاؤں پہ رکھ دی اور بیٹا بچا لیا.. سو صائمہ کی بھی جان بخشی ہو گئی.. یوں ہی بیٹھے اور صائمہ کو مزید ننگا کرتے لڑکوں کو چھوڑ کے میں گاؤں کی اور چل پڑا.. مغرب میں ابھی کچھ وقت تھا.. گلیاں ناپتے جب میں صائمہ کے گھر سامنے سے گزر رہا تھا تو میں نے اسے دیکھا. وہ اپنے دروازے کے باہر جھاڑو دے رہی تھی، میں جانے کیوں رک گیا.. اس نے اچانک مجھے دیکھا اور ہلکا سا مسکرائی.. وہی شناسائی کی مسکراہٹ، وہی صائمہ کی مسکراہٹ.. اس کی آنکھیں  اور گال لال ہوئے پڑے تھے.. جیسے ابھی ابھی ڈھلتا سورج پانیوں میں لیٹتے لیٹتے ایک بھرپور نظر زمیں پر ڈالتا ہے تو سارے میں جیسے لہو کے چھینٹے سے پھیل جاتے ہیں، گویا سورج مٹھی بھر کے رنگ پھینکے جیسے ہولی کھیل رہا ہو..

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...