Monday, November 26, 2018

بانجھ

"اولاد دینا خدا کے ہاتھ میں ہوتا ہے، انسان بس خواہش اور اپنے تئیں کوشش کرتا ہے اور اسے صبر سے یہ کوشش کرتے رہنا چاہیے"
شادی کے ڈیڑھ سال بعد میرے ہاں اولاد نہ ہو سکنے پہ گھر کے بڑوں کی یہ مشترکہ میٹنگ تھی... جوائنٹ فیملی سسٹم تھا.. ایک ہی چھت تلے دو تایا، ایک ہمارا، ایک چاچا اور بیوہ پھوپھو کا کنبہ آباد تھا.. گھر کیا تھا پورا محلہ تھا... بظاھر گھر کے فیصلے مل جل کے ہوتے تھے مگر درحقیقت مرضی بڑوں کی ہی چلتی تھی...
"خدا سے مانگو، وہ دیتا ہے، وہ دے گا..وہ مالک الملک ہے.. اس کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں"
میں سر جھکائے سوچ رہا تھا کہ وہ مالک ہے تو اس کے ہاں پھر دیر کیوں ہے؟
"پانچ وقت کی نماز پڑھو، اولاد کے لیے نفلی روزے رکھو، رو کے مانگو، اس کے سامنے گڑگڑاتے ہیں وہ خوش ہو کے دیتا ہے، جھولیاں بھر دیتا ہے "
کیا خدا واقعی انسانوں کے رونے، تڑپنے، گڑگڑانے سے خوش ہوتا ہے؟؟ یہ کیسا خدا ہے؟
میٹنگ برخاست ہوئی، رات کو کمرے میں صالحہ کے آنسو ہونٹوں سے پوچھتے اسے تسلی دی اور ساتھ کا یقین دلایا تو وہ ساری، بانہوں میں پگھل گئی...
.....
دادی کے وسیع کمرے میں گھر کے بڑوں کا اکٹھ تھا اور میری شادی کو پانچ سال سے اوپر ہو گئے تھے... بلاوا آیا ہمیں ہم چلے گئے... صالحہ کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں، دل میرا بھی حلق میں دوڑ رہا تھا...
"دیکھو ریحان" بڑی تائی رضیہ نے بولنا شروع کیا، تائی کے آگے تایا گونگے رہتے تھے، دراصل دادا کے گزر جانے کے بعد اصل حکومت تائی رضیہ کی تھی..
"چھے سال ہونے کو ہیں، گھر میں کلکاری ابھی تک نہیں گونجی.. چھے سال سے ہر طرح سے کر دیکھا، دعا، دوا، تعویذ دھاگا... کتنے مزاروں پہ منتیں باندھیں مگر حاصل کچھ نہیں ہوا"
میں سر جھکائے سوچ رہا تھا کہ اتنے بھرے پرے گھر میں ایک اور بندے کی اتنی طلب کیوں ہے سب کو؟؟
" ہمیں لگتا ہے، لگتا کیا ہے اب تو یقین ہے کہ صالحہ بانجھ ہے"
صالحہ نے تڑپ کے مجھے دیکھا اور اس کی آنکھوں میں سمندر تڑپنے لگا...
" تائی ماں، ہم دونوں نے ٹیسٹس کروائے ہیں، ایک نہیں تین مختلف ڈاکٹرز سے، نہ صالحہ بانجھ ہے نہ میں بانجھ ہوں" مجھے بولنا ہی پڑا...
" تیرا دماغ چل گیا ہے، مرد بھی بانجھ ہوتا ہے کبھی؟بانجھ بیوی کی محبت میں مردانگی بھول گیا ہے اپنی... یہ تربیت ہے اس کی؟" تائی غصے میں تھوک اگل رہی تھیں
" مجھے اس کی کسی بات پہ یقین نہیں ہے، صالحہ بانجھ ہے اور یہ اپنی بانجھ بیوی کے عشق میں مبتلا، رن مرید بن گیا ہے.. تجھے دوسری شادی کرنی ہو گی، چاہے بانجھ کو طلاق دے یا ساتھ رکھ، مگر دوسری بیوی تو لانی ہی ہوگی... "
صالحہ دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں پھنسائے کچل رہی تھی اور آنسو ہاتھوں پہ ٹپ ٹپ گر رہے تھے...

" کیسے وکالت کر ریا ہے اس بانجھ عورت کی، جو چھے سال سے اک بچہ تک نہ دے سکی... بانجھ عورت اور بنجر زمین کسی کام کی نہیں ہوتی... ان سے جان چھڑا لینی چاہیے.. ہم نے مل جل کے فیصلہ کیا ہے کہ یہ بانجھ عورت اب اس گھر کو کچھ نہیں دے سکتی"

صالحہ کی تڑپ، اس کا رونا، بانجھ بانجھ بانجھ کی تکرار، میں پھٹ پڑا اور میں چیخ کے بولا،
" ہم دونوں، میں اور صالحہ بانجھ نہیں ہیں، سنا آپ لوگوں نے، صالحہ بانجھ نہیں ہے، یہ آپ لوگوں کا ہی ایمان تھا ناں کہ اولاد خدا دیتا ہے، وہ مالک ہے، سب وہی دیتا ہے، دیر ہے اندھیر نہیں، یہی کہتے ہیں ناں آپ لوگ... خدا اولاد دیتا ہے، ہمیں اسی نے نہیں دی، آپ لوگوں کا خدا بانجھ ہو گیا ہے، صالحہ بانجھ نہیں ہے".......

Sunday, November 11, 2018

خدا اب بوڑھا ہو گیا ہے

گو کہ خدا کی عمر کا تعین کرنا ممکن ہی نہیں.. مگر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ عمر کے کس موڑ پہ ہے..

ایک وقت تھا کہ کچھ بھی نہیں تھا... خدا تھا اور فرشتے تھے... فرشتے قطعی دوست میٹیریل نہیں ہوتے، انھیں صرف جی حضوری سے مطلب ہے، سر جھکائے تسبیح پہ تسبیح پھینکتے جاتے ہیں.. سو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خدا کے لیے ہاؤ بورنگ واز دیٹ..
اسی بورنگ میں بیٹھے بیٹھے خدا نے مٹی کے پُتلے بنانے شروع کر دئیے.. پھونک مارتا اور پتلے پھدک کے چلنا شروع کر دیتے... خدا کو یہ گیم انٹرسٹنگ لگی.. اور پھر لاتعداد پتلے بنا ڈالے... اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ وقت خدا کا بچپن تھا....

پھر خدا پہ آئی جوانی بھی زمین و آسمان نے دیکھی، وہ قہر کہ جائے پناہ نہ ملے، وہ مہر کہ ارض و سماں تمہارے...ذرا غصہ آیا تو زمین پلٹ کے رکھ دی، سمندر مٹھی میں بھرا اور خشکی پہ انڈیل دیا..آسمان سے قہر بھری نگاہ ڈالی اور سب جلا کے خاکستر کر دیا..
ذرا پیار جاگا تو اپنے ہی بنائے مٹی کے پتلے سے گپیں بھی لگائیں، ملاقاتیں بھی کر ڈالیں... جان لے لی اور کسی پیارے کے لیے دل چاہا تو جان واپس بھی کر دی... وہ ذہنی صلاحیتیں بھی بخش دیں کہ  زمین چھوٹی پڑنے لگی، اور مٹی کا پتلا آسمان کو اڑانیں بھرنے لگا....

اور اب یہ وقت ہے کہ مٹی کا پتلا وہی ہے، وہی زمین و آسماں.. وہی اس کی تخیل کی اڑانیں.. مگر خدا اب نہ کسی سے بات کرتا ہے، نہ ملاقات کے سَدّے دیتا ہے، نہ کسی پیارے کی خاطر لی ہوئی جان واپس کرتا ہے، نہ وہ قہر اس کی نگاہ میں، نہ وہ مہر اس کی چاہ میں..

اب بس لیٹ کے سب دیکھتا ہے اور پھر دایاں بازو آنکھوں پہ رکھ کے سستانے لگتا ہے...
خدا اب بوڑھا ہو گیا ہے.....

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...