Sunday, March 15, 2020

خالقِ حقیقی

سارے گاؤں کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا. پھٹی آنکھوں اور بند ہونٹوں سے سب ایک دوسرے کو دیکھتے اور مسجد کی طرف چلے جا رہے تھے. منہ ڈھانپے کچھ خواتین بھی ساتھ تھیں

ساٹھ ستر گھروں کا یہ گاؤں تھا جس کے بیچوں بیچ سفید سنگ مر مر کے آسمان کو گردن اٹھا کے تکتے دو میناروں والی مسجد تھی. مسجد کے امام سید انوار الحق شاہ یزدانی تھے جن کے آباؤ اجداد کی قبور پہ ہر سال عرس کی تقریب ہوا کرتی تھی. گاؤں کے لگ بھگ سبھی لوگ انھیں کے مرید تھے. گاؤں والوں کی ہر مشکل اور بیماری کا تعویز اور دعا انھیں سے ملتا تھا. مسجد کے پچھواڑے میں یزدانی شاہ کا حجرہ تھا جو مدرسے کے طور پہ بھی کام آتا تھا

سہ پہر کو نظام موچی کی تیرہ سالہ بیٹی شازیہ کی لاش جا بجا پھٹے اور ادھڑے ہوئے کپڑوں میں گھر پہنچی تھی جو تین چار گھنٹے پہلے یزدانی شاہ کے پاس قرآن پڑھنے گئی تھی. ماں اور بہنوں کی چیخوں سے محلہ لرز اٹھا تھا. سارا محلہ نظام موچی کے چھوٹے سے صحن میں تھا جب یہ بات وہاں پہنچی کہ شازیہ کو امام یزدانی شاہ نے قتل کیا ہے. اس قیامت کی خبر پہ سارے میں خاموشی یوں پھیل گئی جیسے پچھلی سردیوں میں دھند پھیلی تھی، اطلاع دینے والے نے یہ بھی کہا کہ سارے گاؤں کے مردوں اور نظام موچی کے سبھی گھر والوں کو شاہ جی نے مسجد بلایا ہے

سب چپ چاپ مسجد کی طرف چلے جا رہے تھے جیسے زندہ اور گونگی لاشیں قبروں سے نکل کے چل پڑی ہوں

مسجد کے صحن میں سر پہ کالی پگڑی اور کالی چادر لپیٹے سید انوار الحق شاہ یزدانی بیٹھے اور سارا گاؤں ان کے گرد بیٹھا ہوا تھا. نظام موچی اپنی بیوی اور بچیوں کے ساتھ شازیہ کی لاش سامنے دھرے سر جھکائے رو رہا تھا

کسی ایک انسان کا قتل، پوری انسانیت کا قتل ہے، یہ ہمارا دین کہتا ہے اور اس پہ ہمارا ایمان ہے

یزدانی شاہ کی کڑکتی آواز گونجی

نظام دین میرا بھائی ہے، میرا مرید ہے، اس کا سارا گھر میرا مرید ہے، پیر مرید کے ہر دکھ درد خوشی غمی کو جانتا ہے تبھی وہ پیر ہے. کیوں ماسٹر رحمت صاحب، آپ گاؤں کے سب سے پڑھے لکھے شخص ہیں، کیا میں کچھ غلط کہہ رہا ہوں؟

ماسٹر رحمت نے ہلتی گردن اور ہلا کے ہاں میں ہاں ملائی. سب خاموشی سے سر جھکائے سن رہے تھے

آپ سب کو حضرت حضر کا واقعہ یاد ہو گا، حضرت موسیٰ نے ایک خوبصورت معصوم بچے کی گردن دبا کے مارنے پہ بے صبری دکھائی تو حضر نے کہا کہ یہ بچہ پیدائشی کافر تھا مگر اس کے والدین مومنین تھے، مجھے خدشہ ہوا کہ یہ بڑا ہو کے انھیں بھی گمراہ و سرکش نہ کر دے اس لیے اسے قتل کر دیا.......نہیں نہیں نعوذ باللہ نہیں میں حضر کے پاؤں کی خاک بھی نہیں، میری نہ اوقات نہ مجال کہ اس عظیم ہستی کے سامنے کھڑا بھی ہو سکوں

صحن میں مکھیوں کی بھن بھن جیسی سبحان اللہ سبحان اللہ کی آوازیں آ رہی تھیں

نظام دین اور اس کے گھر والے پکے، سچے مومنین ہیں، اس کی گواہی سر پہ قرآن مجید رکھ کے دیتا ہوں میں، خدا کے پیارے اور بہت قریب ہیں یہ سب گھر والے، مگر نوح کے گھر بھی تو گمراہ پیدا ہوا تھا. نظام دین کے خوبصورت ایمان بھرے گھر میں یہ بیٹی گناہوں کے اندھیرے لے کے آئی تھی. اتنی چھوٹی سی عمر میں... توبہ استغفراللہ ربی... توبہ
میں آج اسے نہ مارتا تو کچھ سالوں بعد اس کے مومنین ماں باپ اس کو خود قتل کر دیتے یا وہ ایمان اور غیرت والے والدین خود کو ہی قتل کر دیتے. یہ لڑکی بڑے ہو کے صرف داغ بنتی، جن کے ماتھوں پہ سجدوں کے داغ ہیں ان پہ اپنی گندگی کی کالک مل دیتی

سوئی گرتی تو سب چونک اٹھتے، ایسی قبرستانی چپ تھی مسجد کے صحن میں

میں نے آگے جو دیکھا اسی پہ آج یہ قدم اٹھایا. میں نے وہی کیا جو میرے خدا کے برگزیدہ اور پسندیدہ اور چنیندہ لوگوں کی سنت ہے... میں نے سب کہہ دیا اب آپ پولیس کے پاس جانا چاہتے ہیں تو سو بسم اللہ

نظام دین اٹھا اور سید انوار الحق شاہ یزدانی کے گھٹنوں کو چھو کے سر جھکا کے رونے لگا، یزدانی شاہ نے اسے اٹھایا اور اٹھ کے گلے لگا لیا. سب سبحان اللہ اور اللہ اکبر کی تکبیریں پڑھنے لگے

مسجد کے صاف چمکتے صحن میں شازیہ کی لاش داغ کی طرح پڑی تھی


اور کہیں دُور کوئی بوڑھا خدا اپنے رعشہ زدہ ہاتھوں سے اپنے سفید بال نوچتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ جس انسان کو تخلیق کرنے کا دعویٰ میرا تھا، وہی انسان میرا خالق نکلا 

Sunday, March 01, 2020

اُبال

محبت؟ اس خبیث کو محبت ہو گئی ہے.. او گدھے کے کھُر محبت کچھ نہیں ہوتی، جسم کے گرم چولہے پہ رکھی جوانی کو آیا اُبال ہے بس
ابا نے محبت کا پوسٹ مارٹم کر دیا تھا

اس کا دوسرا محبت نامہ پکڑا گیا تھا. اڑنے سے بیشتر ہی اس کا رنگ زرد پڑ گیا تھا شاید. اسے اپنا پہلا محبت نامہ زبانی یاد تھا. کیسے ساری رات جاگ کے اس نے محبت کے اظہار کو لفظوں کے موتی پروئے تھے جو تنزیلہ کے گلے کا ہار ہوئے. ساری رات کا جاگا صبح کالج پہنچا تو ایک دم تر و تازہ تھا. رات بھر کی تھکاوٹ، ویگن میں پہلا خط تنزیلہ کی گود میں رکھے بیگ میں رکھنے اور تنزیلہ کے گلابی پڑتے گالوں نے، دور کر دی تھی. سارا دن وہ کبھی کالج کے گراؤنڈ کبھی کینٹین میں اگلی صبح کے جوابی خواب دیکھتا رہا تھا

اگلی صبح ویگن میں بیٹھے ہوئے اس نے پچھلی سیٹ پہ بیٹھی تنزیلہ کو مڑ کے دیکھا تو گلابی گالوں پہ آئی لٹ کو پیچھے کرتے ہوئے اس نے اپنی ہتھیلی عرفان کو دکھائی جس پہ مارکر سے سرخ رنگ کا دل بنا ہوا تھا. عرفان کا دل تھا کہ یوں پھڑکا جیسے چھاتی کے اندر بھونچال آ گیا ہو. وہ سارا دن نئے خوابوں نے آنکھوں میں جگہ بنا لی تھی. ساری دنیا گھر سے ویگن اور پھر ویگن سے گھر تک کے درمیان تک تھی جہاں کوئی سرحد نہ تھی نہ شناخت، بس وہ تھا اور تنزیلہ تھی. جہاں رات تنزیلہ کے گھنے بالوں میں تھی، جہاں دن کی روشنی اس کے روشن ماتھے پہ اور شام کا سونا گلابی گالوں پہ..وہ خوابوں کی راہوں پہ ناچتا پھر رہا تھا اور یہ حقیقت یکسر مسترد کر چکا تھا کہ ہمارے درمیان کوئی آئے گا

درمیان آیا تو بھی تنزیلہ کا باپ، جو گاؤں کے پرائمری سکول میں ہیڈ ماسٹر بھی تھا اور کبھی کبھار مسجد میں امامت کے فرائض بھی انجام دیتا تھا. ماسٹر یعقوب کی پہچان ہمیشہ سفید شلوار قمیض، سردیوں میں کالی واسکٹ، چہرے پہ سفید داڑھی اور سر پہ سفید ٹوپی. ماسٹر صاحب کی دو ہی بیٹیاں تھیں تنزیلہ بڑی تھی. اس دن ماسٹر یعقوب، ایک ہاتھ میں خط اور دوسرے میں اپنی ہر وقت سر پہ رکھی سفید ٹوپی پکڑے، سر جھکائے چوہدری حنیف نمبردار کے سامنے بیٹھے تھے.

چوہدری صاحب، یہ خط آپ کے بیٹے عرفان نے میری بیٹی کو لکھا ہے
الفاظ اٹک اٹک کے نکل رہے تھے
آپ بڑے لوگ ہیں چوہدری صاحب، میں غریب ہیڈ ماسٹر ہوں جس کی کل کمائی دو بیٹیاں ہیں اور ایک عزت ہے جو اتنے سالوں کی جمع پونجی ہے. عرفان مرد ہے، میری عزت رُل جانی ہے
ماسٹر یعقوب کی آواز بھرائی ہوئی تھی

دیکھیں ماسٹر جی، یہ جوانی میں ہر مرد پہ چڑھتا خمار ہے،مگر اتر جاتا ہے،سب ٹھیک ہوجائے گا، میں نے بڑے بڑے مسئلے حل کر دئیے ہیں یہ کیا شے ہے.. میں اسے سمجھاؤں گا، وہ سمجھ جائے گا، آپ بھی اپنی بیٹی کو سمجھائیں، ٹینشن نہ لیں ماسٹر جی

انگلیوں میں پھنسے سگریٹ کے کش لیتے ہوئے چوہدری حنیف کے چہرے پہ کوئی تاثر تک نہ تھا

جی چوہدری صاحب، میں نے بہت سمجھایا ہے اسے، میں اس کا کالج ہی چھڑوا دوں گا

اوہو ماسٹر جی، کچھ نہیں ہوتا ،یہ لیں آپ چائے پئیں.... او شیدیا، ماسٹر جی کے لیے بسکٹ بھی لا

شام کو ابا نے محبت کا پوسٹ مارٹم کر دیا کہ جوانی کا نشہ ہے، کچھ دنوں میں اتر جائے گا، بندہ بن

اگلے دن ویگن میں تنزیلہ نہیں تھی، اسے دھوپ بھرا دن اندھیرا لگ رہا تھا، دوسرے دن بھی ویگن کی خالی سیٹ دیکھ کے اس کا دل تنزیلہ کو ملنے دیکھنے کو مچل رہا تھا. اس نے تنزیلہ کی سہیلی کی زبانی پیغام بھیجا کہ گاؤں کی پچھلی طرف، کچے راستے پہ گنے کے کھیتوں میں کل دوپہر کو ملنے آنا
ساری رات پھر آنکھوں میں کٹی، کبھی اس کے نہ آنے کا خوف سانپ بن کے ڈراتا تو کبھی اس کے آ جانے پہ خیالی ملاقات کے رنگوں کی پھلجھڑیاں چلتی رہیں

دوپہر تھی اور گاؤں خاموش تھا، کوئی ایک آدھ آوارہ کتا ہی کچے راستے کی راہ بھول کے آ جاتا ورنہ مکمل خاموشی تھی. اور پھر سفید دوپٹے کو چادر کی طرح اوڑھے وہ کچے راستے پہ تیزی سے کھیتوں کی طرف آتی دکھائی دی. اس نے ہاتھ ہلا کے اپنی طرف متوجہ کیا اور کھیتوں میں گھس گیا
تنزیلہ گنے کے قدآور کھیت میں گھسی اور عرفان کی کھلی بانہوں میں سمٹ گئی
اس نے عرفان کے کان میں سرگوشی کی

ابا مجھے شاید ماموں کے ہاں شیخوپورہ بھیج دیں، میں نہیں جانا چاہتی عرفان، میں تمہارے ساتھ رہنا چاہتی ہوں

عرفان نے اس کا سرخ تپتا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا اور آنکھوں میں اترے آنسو ہونٹوں سے چومتے ہوئے جیسے تسلی دینے لگا
عرفان کے ہونٹ اور ہاتھ تسلیاں دے رہے تھے اور وہ سمٹتے ہوئے بانہوں کے حصار میں کانپ رہی تھی. سفید دوپٹہ زمین پہ گر چکا تھا اور قمیض کے نیچے سے عرفان کا ہاتھ مسلسل نیچے کی طرف بڑھ رہا تھا. وہ مچلی مگر عرفان سرپٹ دوڑتے گھوڑے کی طرح بے لگام ہو گیا تھا. اس کے ہاتھوں اور منہ سے نہ نہ کرنے پہ مسلسل اسے "کچھ نہیں ہوتا، میں سب ٹھیک کر دوں گا" کی تسلیاں دیتے ہوئے عرفان کے جسم کے تپتے چولہے پہ رکھی جوانی نے آخری ابال لے لیا  

ڈیڑھ طرفہ محبت

سڑک کے جس کنارے ایک گھر کے سامنے ہم اترے تھے، اس کے دوسرے کنارے ایک سائیکل ورکشاپ تھی، جس کے ماتھے پر لکھا ہوا تھا کدھر جا رہے ہو، کہاں کا ...